خواجہ محمد شہباز عارف
کارروان جہاد میں ہمیشہ آگے‘ حزب المجاہدین کے روح رواں ‘ عزم وہمت کی پہچان سیف الاسلام حیات جاوداں پا گئے۔حزب المجاہدیدین کے چیف آپریشنز کمانڈر جناب غلام حسن خان عرف انعام اﷲ خان عرف سیف الاسلام اپنے رب کی رضا اور ملت مظلومہ کشمیر کے لیے عزیز جان قربان کر کے اپنے رب کی جنتوں کے مکین ہو گئے۔
نقش ہیں سب ناتمام‘ خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام‘ خون جگر کے بغیر!
غلام حسن خان شہید۱۹۴۶ء میں ضلع پلوامہ کی بستی تاچھلوشوپیاں میں محترم محمد عبداﷲ خان کے گھر پیدا ہوئے ۔ گریجویشن کے بعد سرکاری ملازمت اختیارکی ۔ پورے علاقے میںنیک دل افسر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دیانت دار تاجر کی حیثیت سے بھی مشہور ہوئے۔ دوران ملازمت جماعت اسلامی سے تعلق پیدا ہوا۔ آپ کی صالحیت ‘صلاحیت ‘قابلیت اور محنت کی وجہ سے آپ کو مختصر عرصے میں جماعت اسلامی کا رُکن بننے کا اعزاز حاصل ہوگیا ۔۱۹۸۸ء میں کشمیر میں جہادی سرگرمیاں شروع ہوئیں تو محترم غلام حسن خان صاحب نے جہادی صفوں میں شامل ہو کر انعام اﷲ خان کے جہادی نام سے کام شروع کیا اور ہزاروں نوجوانوں کو بھارتی جبروتسلط اور ظلم و جبر کے خاتمے اورحصول آزادی کے لیے جہاد بالسیف کا راستہ دکھایا۔ ابتدائے جہاد سے لے کر ۱۹۹۷ء تک حزب المجاہدین کے پرچم تلے کئی اہم ذمہ داریوں پر بحسن و خوبی اپنے فرائض انجام دیے۔ اس عرصے میں آپ نے مجاہدین کی مضبوط صف بندی کر کے دشمن کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ آپ نے بھارتی فوج کی صفوں کو تلپٹ کر نے کے ساتھ ساتھ گورنر سکسینہ کی ترتیب دی ہوئی کائونٹر انسرجسنی کوبھی ملیا میٹ کر دیا۔
۱۹۹۷ء میں مرکزی نظم کے حکم پر بیس کیمپ تشریف لائے۔ آپ کے اہل و عیال بھی جن کو بھارتی فوج نے انتہائی ظلم و ستم کا نشانہ بنا کر اپنا آبائی گھر اور بستی چھوڑنے پر مجبور کر رکھا تھا‘ کسی طرح بیس کیمپ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔آپ کے اعزہ و اقارب کے ساتھ ظلم و ستم کی انتہا یہ تھی کہ آپ کے چچیرے بھائی محمد ایوب خان کو انٹروگیشن کے دوران شدید ٹارچر کر کے نہ صرف شہید کیاگیا بلکہ اس کی آنکھیں بھی نکال لی گئیں۔

بیس کیمپ میں محترم انعام اﷲ خان نے کئی اہم ذمہ داریاںبڑی دیانتداری، امانتداری اور خوش اسلوبی سے انجام دیں۔ ان کی عسکری صلاحیتوں کے پیش نظر حزب المجاہدین کی مرکزی کمانڈ کونسل نے ۲۰۰۱ء میں انہیں سالار اعلیٰ (چیف آپریشنل کمانڈر) مقرر کر کے دوبارہ میدان کارزار کی طرف روانہ کیا۔ پچپن سال کی عمر اور شوگر کا موذی مرض ہونے کے باوجود انہوں نے نظم کی بلاچون و چرا اطاعت کا مظاہرہ کیا ‘ برف سے ڈھکی بار ہ تیرہ ہزار فٹ بلند چوٹیوں کوعبور کرتے ہوئے چند ساتھیوں کے ہمراہ وادیٔ لہو رنگ میں قدم رکھا۔ یہاں پہنچ کر آپ نے سیف الاسلام کے جہادی نام سے مجاہدین کی از سر نو صف بندی کی اور نئی آن بان کے ساتھ جہادی سفر شروع کیا ‘ دشمن فوج پر قریباً ہر روز تابڑ توڑ حملے اور بارودی کارروائیاں ہونے لگیں۔ اس طرح جہاد کشمیر کو اپنی صحیح نہج پر لاکر آپ نے اس میں نئی روح پھونک دی۔
۲ اپریل ۲۰۰۳ء میں چھانہ پورہ سری نگر میں ایک اہم مشن پر جاتے ہوئے کمانڈر سیف الاسلام بھارتی درندوں کے نرغے میں آ کر اچانک گرفتار ہو گئے۔گرفتاری کے چند ہی گھنٹوں بعد بھارتی جلادوں نے کمانڈر موصوف کے جسم پر خنجر مار مارکر ان سے راز اگلوانے کی کوشش کی ۔لہو کے فوارے پھوٹتے رہے ‘ لیکن دشمن ان کے سینے سے کوئی راز نکالنے میں کامیاب نہ ہوا۔اپنی شکست کا اعلان کرتے ہوئے انسانیت سے عاری بزدل بھارتی فوجیوں نے صبر و ہمت کے اس کوہ گراںکی گردن پر چھری چلادی۔ اس طرح ملت مظلومہ کشمیر کے اس بطل حریت نے پیرانہ سالی میں اﷲ کی رضا کے لیے اور اپنے مظلوم و محکوم وطن عزیز جموں و کشمیرکی آزادی کے لیے جان عزیز قربان کر دی اور ہمیں یہ سبق یاد دلاتے ہوئے رخصت ہو گئے ؎
چڑھ جائے کٹ کے سر تیرا نیزے کی نوک پر
لیکن تو فاسقوں کی اطاعت نہ کر قبول
کمانڈر سیف الاسلام کی شہادت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح آناً فاناً ہر سو پھیل گئی ۔۳اپریل کی شام کو ان کا جسد خاکی ان کے آبائی گائوں تاچھلو شوپیاں پہنچایا گیا۔ ۴ اپریل جمعہ کے موقعے پر تیس ہزار سے زائد حریت پسند کشمیری عوام نے اپنے محبوب اور غیرت مند کمانڈر کا آخری دیدار کیا اور ان کو اشک بار آنکھوں سے اﷲ کی کبریائی اور آزادی کے فلک شگاف نعروں کی گونج میں مزار شہداء میںدفن کیا۔اس روز پوری ریاست جموں وکشمیر میں مکمل ہڑتال رہی ۔جگہ جگہ جلسے اور جلوس نکالے اور آزادی کے حق میں نعرے بلند کیے گئے۔ بیس کیمپ میں بھی ہزاروں لوگوں نے یونیورسٹی گرائونڈ مظفر آباد میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کی ۔ امیر حزب المجاہدین سید صلاح الدین احمد ‘ جماعت اسلامی صوبہ پنجاب کے امیر حافظ ادریس ‘بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے سیکرٹری ‘ آزاد کشمیر جماعت اسلامی کے امیر جناب اعجاز افضل اور دیگر مقررین نے کمانڈر سیف الاسلام شہید کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔
شہید سیف الاسلام کے بڑے صاحبزادے شاہد افتخار خان جن کے متعلق بھارتی میڈیا نے یہ جھوٹا پروپیگنڈا کیا کہ وہ امریکہ میں ایم بی بی ایس کر رہے ہیں ‘ بیس کیمپ میں مہاجرت اور مسافرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں ‘ اپنے عظیم باپ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں :۔
’’اﷲ تبارک و تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے جس نے مجھے ایک شہید کا بیٹا ہونے کا شرف بخشا۔ بحیثیت مسلمان ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ شہید زندہ ہوتا ہے اور اﷲ کے ہاں سے اسے رزق ملتا ہے۔میں ان تمام شہدا کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جنہوںنے اﷲ کی رضا کے لیے اور اپنے وطن عزیز کی آزادی کے لئے جانیں قربان کیں۔ میں ان مائوں‘ بہنوں اور بھائیوں کو بھی خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں جو بھارتی درندہ صفت فوجیوں کے تمام تر مظالم سہنے کے باجودد آج بھی لاکھوں کی تعداد میں اپنے شہداء کے مشن کو آگے لے جانے میں مصروف عمل ہیں۔ اس کی واضح مثال میرے والد محترم سیف الاسلام شہید کی شہادت کے وقت سامنے آئی۔ سیف الاسلام شہید نے دن رات محنت کر کے شجرِ اسلام اور جہاد کی آبیاری کی اور اﷲ کے فضل سے اس کا صلہ بھی مل گیا ۔ میرے والد صاحب نے ہمیشہ گھر کے مفادات کے بجائے تحریکی مفادات کی فکر کی ‘ اپنے بچوں کی فکر کے بجائے ملت مظلومہ کشمیر کی فکر کی ۔ اسی فکر نے انہیں بڑھاپے میں اپنے اہل و عیال کو چھوڑنے پر تیار کیا ‘اسی فکر نے انہیں دنیا سے بے نیاز کر دیا۔‘‘
حزب المجاہدین کے امیر سید صلاح الدین صاحب اپنے بے باک اور جری کمانڈ ر سیف الاسلام شہید کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔
’’ محترم کمانڈر سیف الاسلام کی شہادت سے حزب المجاہدین اور تحریک آزادیٔ کشمیر واقعی ایک عظیم اور باصلاحیت کمانڈر سے محروم ہو گئی ۔اﷲمرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی ٰ مقام عطا فرمائے۔ مرحوم نے ابتدائے تحریک سے ہی نہ صرف ہزاروں نوجوانوں کو جہاد کیلئے متحرک‘ منظم اور مسلح کرنے کی کوششیں کی ہیں بلکہ میدان کارزار میں خود مجاہدین کو ایک ولولہ انگیز اورجرات مند قیادت فراہم کی ہے ۔ سیف الاسلام کی شہادت سے ان شاء اللہ کاروانِ جہاد کی پیش رفت میںکوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔شہادتوں اور عزیمتوں کا یہ کارواں گزشتہ پندرہ بر سوں سے محو سفر ہے ۔کمانڈر سیف الاسلام کی شہادت سے پہلے حزب المجاہدین کے بے باک جری ڈویژنل کمانڈر جعفر نعمانی چناب ڈویژن اور کمانڈرابراہیم شمالی زون اﷲ رب العالمین کی راہ میں اپنا گرم گرم لہو نچھاور کرچکے ہیں ۔ مرحومین نے گزشتہ پندرہ برسوں سے میدان کارزار میں بیسیوں کارروائیوں میں حصہ لے کر سینکڑوں بھارتی فوجیوںاور افسروں کو جہنم رسید کیا ہے ۔ اپنی شجاعت اور بہادری اور جذبۂ جہاد کا لوہا منوایا ہے ‘اسی طریقے سے ان سے پہلے بھی اور ان کے بعد بھی حزب المجاہدین اوردیگر برادر جہادی تنظیموں سے وابستہ جیالے نوجوان ‘ راہ حق کے صف شکن مجاہد اوراور کمانڈر یکے بعد دیگرے سرزمین وطن پر اپنا لہو نچھاور کر کے گلستان آزادی کی آبیاری کرنے میں مصروف ہیں ۔اﷲ رب العالمین ان سب شہداء کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ‘کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ وہ واقعی اپنی زندگی کا مشن پورا کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ انہوںنے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے اور دین حق کی سربلندی اور وطن عزیز کی آزادی کے لیے جو کچھ ان کے پاس تھا ‘ وہ سب کچھ نچھاور کر چکے ہیں ۔ان کی شہادت اور ان کا مقدس لہو اور لہو کا ایک ایک قطرہ ملت مظلومہ کشمیر اور مجاہدین صف شکن پر ایک قرض ہے‘ اس لہو اور اس قربانی کی لاج رکھنا ‘ ہر قیمت پر لاج رکھنا ‘ ہم سب کافرض ہے ‘ شہید سیف الاسلام ‘ شہید جعفر اور شہید ابراہیم اور دیگر ہزاروں شہداء کا یہی پیغام ہے کہ جب تک وطن عزیز کا چپہ چپہ اور ذرہ ذرہ بھارت کے پنجۂ استبداد سے آزاد نہ ہو جائے تب تک قافلۂ سخت جان ‘ مجاہدین کا قافلہ راہ جہاد پر گامزن رہے گا اور ان شاء اللہ آزادی کے حصول اور نظام حق کے قیام تک یہ جاری رہے گا اور بھارتی قابض فورسز کے خلاف کشمیرکی سر سبز وادیوں ‘ برف سے ڈھکے کوہساروں ‘گھنے جنگلوںمیں پانیوں میں اور خشکیوں میں تیر بہدف کارروائیاںجاری رہیں گی ان شاء اللہ۔ میں آپ کو یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر آپ کے دلوں میںجذبۂ جہاد اور شوق شہادت موجود ہو‘اگر اﷲ رب العالمین کی ذات پر جو تمام کامیابیوں اور کامرانیوں کا سرچشمہ ہے اس پر کامل بھروسہ ہو ‘ اور آپ کی اپنی صفوںمیں کامل اتحاد ہو اور آپ کے اندر رجو الی اﷲ اور اﷲ کی طرف رغبت موجود ہو تو ان شاء اللہ المستعان ‘ اﷲ کی نصرت‘ اﷲ کے فرشتے اس عظیم جہاد میں آپ کے شانہ بشانہ ہوں گے۔ان شاء اللہ العزیز شہید سیف الاسلام کا سفر کمانڈر غازی نصیر الدین کی قیادت میںجاری رہے گا۔اور وطن عزیز کی آزادی تک یہ سفر جاری رہے گا۔ وطن عزیز کے چپے چپے پر مجاہدین کی تیر بہدف کارروائیاں بھارتی فوجیوں کے خلاف جاری رہیں گی تاوقتیکہ کشمیرکی سر زمین پر آزادی کا سورج طلوع ہو گا۔ اﷲ رب العالمین ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔اﷲ ہم سب کو قدم قدم پر ‘ زندگی کے ہر موڑ پر اور میدان کارزار کے ہر مرحلے پر ‘ ہر مورچے پر ہمیں اپنی رہنمائی‘ دستگیری اور فتح و نصرت عطا فرمائے۔ اﷲ رب العزت کا وعدہ ‘ کامیابی و کامرانی اور فتح و نصرت کا وعدہ ہمارے ساتھ ضرور پورا ہو گا۔ اﷲ ہم سب کو اپنے شہداء کے چھوڑے ہوئے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی توفیق ‘ ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے۔ آمین۔‘‘
حزب المجاہدین کے چیف آپریشنز کمانڈر سیف الاسلام شہید کا لہو ہمیںیہی آواز دے رہا ہے کہ جس عظیم مقصد کے لیے شہیدں نے اپنا گرم گرم پاک لہو نچھاور کیا‘ ہم اس لہو کی لاج رکھیں اور اس کاروانِ حریت کو منزل مقصود سے ہمکنار کرنا ہمارا مقدس فرض ہے۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم شاہراہ جہاد پر آخری سانس تک ڈٹے رہیںگے یا آزادی حاصل کر کے رہیں گے یا شہادت پائیںگے۔
اے ملت مظلومہ کشمیر کے عزم وہمت کے نشان ‘ کمانڈر سیف الاسلام آپ کی عظیم قربانی کو سلام ‘ آپ کے ہمالیائی عزم اور حوصلے کو سلام ‘ آپ کے قابل رشک صبرو ثبات کو سلام ‘ اس مٹی کو سلام جس پر آپ کا لہو گرا ‘ ان ہوائوں اور فضائوں کو سلام جن میں آپ کی آخری سانسیں تحلیل ہوئیں ‘ اس مٹی کو سلام جس میں آپ کا جسد خاکی مدفون ہے ۔ ؎
آسمان ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
شب گریزاں ہو گی آخر جلوئہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے