محمد شہباز بڈگامی
تحریک آزادی کشمیر کےمعروف رہنما، مربی،استاد ،مصنف اور دانشور جناب غلام محمد میر جو مسلح تحریک میں شمس الحق کے نام سے جانے گئے۔16دسمبر1993میں اپنے ہی آبائی ضلع بڈگام کے کھاگ علاقے میں مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔یوں یہ ان کا 32واں یوم شہادت ہے۔شہید شمس الحق گفتار اور کردار کے غازی تھے۔جو سبق دوسروں کو پڑھایا،وقت آنے پر نہ صرف خود بھی بحیثیت مجموعی اس پر مکمل اور پورا پورا عمل کیا،بلکہ اپنے خون سے اپنے کردار کی گواہی بھی دی ۔اسی کردار نے انہیں ممتاز اور منفرد مقام عطا کیا جس کے حصول کیلئے لوگ ترستے ہیں۔ وہ کوئی عام انسان نہیں تھے ،بلکہ وہ معاشرے کے ذی حس اور باشعور انسان تب بھی سمجھے جاتے تھے۔

جب ظلمت کے اندھیروں نے کشمیری معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔اسلام پسندوں کو بھارتی انتقام اور قید و بند کا سامنا تو تھا ہی،لیکن اپنوں کے طعنوں ،حد درجہ دشمنی ، اسلام پسندوں کی گھریلو اور خاص کر خانہ و ازدواجی زندگیوں کو چوک چوراہوں میں زیر بحث لانا ایک دل پسند مشغلہ سمجھا جاتا تھا۔جناب شمس الحق بطور خاص اس بے حد شرمناک اور افسوسناک طرز عمل کا نشانہ بنائے گئے۔مگر نہ جانے شمس الحق کے سینے میں اللہ رب العالمین نے کون سا دل رکھا تھا،کہ وہ نہ صرف معاف اور صرف نظر کرنے کے خود قائل تھے،بلکہ دوسروں باالخصوص اسلام پسندوں کو اسی بات کی ترغیب دیتے تھے ،انہیں معاشرے کی ناہمواریوں کا بے پناہ سامنا رہا ہے۔بھارت نواز نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی جڑیں چونکہ کافی گہرائی تک معاشرے میں سرایت کرچکی تھیں۔ان جڑوں کو کاٹنے اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے شمس الحق اور جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر نے اپنا تن من دھن قربان کیا۔جیل کی سلاخیں جماعت اسلامی اور اسلام پسندوں کیلئے ایک معمول بن چکی تھیں۔طویل جدو جہد اور انتھک محنت و مشقت کے بعد1989 میں مسلح تحریک نے پورے کشمیری معاشرے میں اثر پذیری کے ساتھ دستک دی۔اس مسلح تحریک کی بنیاد 1987 میں کرائے جانے والے وہ نام نہاد انتخابات بنے،جن میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی تمام دینی اورآزادی پسند جماعتوں کی جانب سے قائم کیے گئے اسلامی متحدہ محاذ کے امیدواران کی جیتی ہوئی بازی کو شکست میں تبدیل کیا جانا تھا۔نوجوانوں نے اب یا کبھی نہیں کے اصولوں کو بنیاد بنا کر ہر صورت مسلح جدو جہد کرنے کا فیصلہ کیااور جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر کو رہنمائی اور قیادت کیلئے منتخب کیا گیا۔چونکہ جماعت کے افراد نے معاشرے باالخصوص نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے ذریعے ذہن سازی کا پہلے ہی اہتمام کررکھا تھا۔ محمد مقبول الہی، محمد اشرف ڈار، شیخ عبدالوحید، ناصرالاسلام ، محمد احسن ڈار، اعجاز ڈار، اشفاق مجید وانی، شیخ عبد الحمید، محمد یاسین ملک مسلح تحریک کے اولین قافلے کے سالار ٹھہرے۔جبکہ جناب اعجاز احمد ڈار مسلح تحریک کے پہلے شہید کہلائے،جب سرینگر میں بدنام زمانہ بھارتی پولیس آفیسر علی وٹالی پر حملہ کیا گیا، جناب محمد مقبول الٰہی جو اس آپریشن کی قیادت کررہے تھے، بازو میں گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے۔
شہید شمس الحق ایک نرم مزاج اور سادہ طبیعت کے مالک تھے۔وہ میدان جہاد میں امیر حزب المجاہدین کے فرائض انجام دے رہے تھے کہ 1992 میں انہیں بیس کیمپ آنا پڑا،ان کیساتھ جناب میراحمد حسن بھی تھے،جو جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے رکن اور بیس کیمپ میں کچھ عرصہ حزب المجاہدین کے معاملات دیکھتے رہے۔شہید شمس الحق فطرتاََ مسلح مجاہد کم، دین کے داعی،مبلغ اور دانشورانہ حس زیادہ رکھتے تھے۔انہیں سینکڑوں احادیث عربی متن کیساتھ ازبر تھیں۔انہوں نے بیس کیمپ میں فرصت کے لمحات میں ایک زخیم کتاب بھی تصنیف کی۔جس سے بعدازان پمفلٹوں کی شکل میں جماعت اسلامی آزاد کشمیر خاص کر جناب صغیر قمر نے شائع کرایا۔جناب شمس الحق کی اپنی ایک ذاتی لائبیرری تھی۔جس میں دنیائے تاریخ کے عظیم مفکرسید ابو الااعلیٰ مودودیؒ کی تمام تصانیف، دوسری دنیاوی اور اسلامی کتب آج بھی موجود ہیں۔ ان کے بچوں نے اپنے والد کے اس قیمتی اثاثے کی آج تک حفاظت بھی کی ہے۔جناب شمس الحق کا بڑا فرزند، بھائی ،ماموں اور بھانجا بھی مسلح تحریک کا حصہ رہے۔جن میں بھائی علی محمد میر اور ماموں شہید جبکہ فرزند اور بھانجا کافی عرصہ بھارتی عقوبت خانوں کی زینت بنے رہے۔یاد رہے کہ شمس الحق کے ایک ہی بھائی علی محمد میر تھے،اور دونوں تحریک آزادی میں اپنا خون نچھاور کرچکے ہیں ۔جناب شمس الحق کی سرفروشانہ شہادت اپنی جگہ لیکن اہل کشمیر ایک داعی،مبلغ اور دانشور سے محروم ہوگئے۔انہیں جماعت اسلامی پاکستان نے باالعموم اور عقابی نگاہ کے مالک جناب قاضی حسین احمد کے علاوہ جنرل حمید گل نے بہت روکنا چاہا،مگر جس راستے کا درس وہ دوسروں کو دیتے رہے۔ خود اس راستے سے ترک تعلق انہیں کسی صورت قبول نہیں تھا۔بالآخر 16 دسمبر 1993 میں بھارتی افواج کیساتھ ایک خونین معرکے میں اپنی کل متاع عزیزتحریک آزادی کشمیر پر قربان کی۔
جناب شمس الحق پاکستان کیساتھ بے حد محبت اور عقیدت رکھتے تھے اور سقوط مشرق پاکستان انہیں بے حد تکلیف پہنچانے کا باعث تھا ۔ 16 دسمبر جب 1971 میں مشرقی پاکستان مملکت خداداد سے عالمی استعمار کی سازشوں اور بھارت کی عملا فوجی مداخلت سے الگ ہوا ،جس کا اعتراف فسطائی مودی نے چند برس قبل ڈھاکہ میں ایک تقریب سے اپنی تقریر میں کھلے لفظوں میں کیا ۔اس وقت حسینہ واجد بنگلہ دیش کی راج سنگھاسن پر براجمان تھیں،جو 05اگست2024 کو بنگلہ دیش میں ایک بڑے عوامی انقلاب کی نذر ہوگئی اور اس وقت بھارت میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی بسر کررہی ہیں۔جس سے 17نومبر کو بنگلہ دیشی انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل نے انسانیت کے خلاف جرائم کامرتکب قرار دیتے ہوئے پھانسی کی سزاسنادی ہے۔بنگلہ دیشی عوام نے نہ صرف شیخ مجیب کے دیو ہیکل مجسمے مسمار کیے بلکہ بھارت کیساتھ تعلقات کو کم ترین سطح پر لاکر پاکستان کیساتھ تعلقات میں نہ صرف گرمجوشی پیدا کی بلکہ اب پاکستان اور بنگلہ دیش دفاعی تعلقات میں بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔دونوں ممالک نے سفارتی اور عوامی سطح پر ویزوں میں بھی بہت حد تک نرمی پیدا کی ہے ،بلکہ
On Arrival ویزا سہولیات بھی میسر ہیں۔دو برس قبل ایک تو یوم آزادی پاکستان اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی برسی کے موقع پر پریس کلب ڈھاکہ میں بڑے بڑے پروگرامات کا انعقاد عمل میں لاکر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ بھارتی پٹھو اور ایجنٹ شیخ حسینہ واجد کی ایما پر پاک بنگلہ دیشی عوام کے دلوں سے ایک دوسرے کی محبت ختم نہیں کی جاسکتی،جو دونوں کلمہ گو ہیں اور یہی کلمہ انہی مضبوط مذہبی،ثقافتی اور سماجی رشتوں میں جوڑتا ہے۔
یقینا بنگلہ دیش کی موجودہ صورتحال آج شہید شمس الحق کی روح کو سکون و اطمینان پہنچانے کا باعث ہوگی۔بنگلہ دیش کی تبدیلی کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھی لیکن اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں،لہٰذاکوئی بعید نہیں کہ مقبو ضہ جموں وکشمیر کی صورتحال بھی ڈرامائی انگڑائی لے گی۔اس پر ہمارا ایمان اور یقین ہونا چاہیے۔اسی کیلئے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دی جاچکی ہیں اور آج بھی قربانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔شہید شمس الحق کی قربانی رائیگان نہیں جائے گی۔جو سراپا محبت و اخلاص،شرافت،دیانت و امانت اور اعلیٰ کردار کے مالک تھے۔جس میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے تحریک آزادی کشمیر کے سمبل امیر حزب المجاہدین سید صلاح الدین احمد نے شہید شمس الحق کو ان الفاظ میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے،ہم ایک دانشور ،استاد اور نظریہ ساز سے محروم ہوگئے۔
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبز نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے






