شہید عبدالرشید اصلاحی

اویس بلال

ضلع ڈوڈہ کے علاقہ شیواہ سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی مقبوضہ جموںو کشمیرکے مشہور و معروف کمانڈر عبدالرشید اصلاحی عرف شہید سیف اللہ خالد تعارف کے محتاج نہیں۔ صوبہ جموں خاص کر ضلع ڈوڈہ میں ان کی علمی خدمات قابلِ قدر اور قدر تحسین ہیں۔ سیاست اور مذہب پر گہری نظر رکھتے تھے ، جب کوئی شخص اْن سے کسی مسئلہ پر گفتگو کرتا تو وہ بڑے انہماک سے اس کی بات سنتے کوئی مسئلہ ہوتا تو دلجوئی کرتے۔ وہ تحریکِ اسلامی کا چمکتا دمکتا ستارہ تھے، مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن بھی رہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر تحریکِ آزادی کا آغاز ہوا تو بغیر کسی چوں وچرا اس میں شامل ہوئے ، مسلح جدوجہد سے قبل وہ کئی بار بھارتی جیلوں میں پابندِ سلاسل رہے۔ عبدالرشید اصلاحی شہیدؒ کی تیسویں برسی کے موقع پر ڈوڈہ کے صف شکن مجاہدین اور حریت رہنماؤں نے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہید عبدالرشید اصلاحی عرف سیف اللہ خالد بے شمار خوبیوں کے مالک تھے، پُرجوش خطیب اور درویش صفت مجاہد سپہ سالار تھے ، اسٹیج سے مخاطب ہوتے تو سامعین کے دل ان کی مٹھی میں ہوتے ، وہ بولتے تو محسوس ہوتا کہ لفظ کے آئینے میں کردار کا جوہر چمک رہا ہے انہوں نے مسلسل محنت مشقت اور آزمائشوں کی زندگی گزاری۔ شہید کمانڈر نے اپنے لئے حریت اور دلیری کا جو میدان منتخب کیا تھا اس کی بھاری قیمت ادا کی۔ قیدوبندکے مراحل بھی طے کئے۔ شہید موصوف کہا کرتے تھے جو بھی اِس پُرخار میدان میں قدم رکھے سب سے پہلے اپنی نیت خالص کرلے ، تب ہی اللہ تعالیٰ کی نصرت و مدد شاملِ حال ہوگی۔ اِن شاء اللہ
شہید کمانڈر عبدالرشید اصلاحی کی شخصیت کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے ڈوڈہ کے علاقہ گھٹ سے تعلق رکھنے والے مسلم جانباز فورس کے کمانڈر شبیر احمد وانی کہتے ہیں۔
تحریکِ آزادی جموں و کشمیر شہداء کی قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ بہادروں کی سرزمین خط جموں کی سر سبز و شاداب وادیوں کے مسکن ضلع ڈوڈہ میں غاصب بھارتی افواج کے خلاف جب مسلح جدوجہد شروع ہوئی تو ظالم بھارتی حکمرانوں نے اِس جدوجہد کو دبانے کیلئے عوام پر ظلم وبربریت کے وہ ستم ڈھائے جن کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ غاصب افواج کی بربریت کے باوجود یہ تحریک صوبہ جموں کے طول وعرض میں اِس تیزی سے پھیلتی گئی کہ غاصب بھارتی افواج کیلئے اِس خطے کی ہر پہاڑی ، ہر دریا ، ہر گاؤں اور ہر شہر ممنوع علا قہ بنتا گیا، اِس تحریک کی کامیابی اور تیزی سے پھیلنے کی وجہ علاقے میں موجود مجاھدین اور یہاں کے باشعور ، بہادر اور نڈر قائدین کا مثالی کردار تھا۔ اِن میں سرفہرست شہید عبدالرشید اصلاحی کا نام آتا ہے۔ عبدالرشید اصلاحی دریائے چناب کے کنارے ایک چھوٹے سے گائوں شیواہ کے رہنے والے تھے بچپن ہی سے جماعت اسلامی سے وابستہ رہے۔ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے عبدالرشید اصلاحی جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے اشاعت اسلام کے کاموں میں پیش پیش رہے۔

1990ء میں جب مقبوضہ جموں و کشمیر میں قابض بھارتی افواج کے خلاف عسکری جدوجہد شروع ہوئی ، تو عبدالرشید اصلاحی شوق شہادت کا جذبہ اپنے سینے میں لئے سب سے بڑی عسکری تنظیم حزب المجاھدین میں ڈویژنل کمانڈر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ان کی کمانڈ میں خطہ جموں کی سرزمین غاصب افواج کیلئے شمشان گھاٹ ثابت ہوئی۔ مجاھدین کے اِس نڈر اور بہادر کمانڈر نے اپنی مدبرانہ سوچ ، موثر حکمت عملی اور قائدانہ صلاحیتوں سے یہ خطہ ظالم افواج کیلئے عملا جہنم بنا دیا۔ قابض افواج کیلئے عبدالرشید اصلاحی کا نام کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھا۔ راقم کو بھی میدان عمل میں ان کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل رہا، ان کی قیادت میں تمام تنطیموں کیساتھ وابستہ مجاھدین متحد و منظم رہے۔ عمر کے جس حصے میں انہوں نے مجاھدین کی کمانڈ سنبھالی اور پھر جس ولولے اور جذبے کے ساتھ وہ ہر محاذ پر سب سے آگے ہوتے، ان کے جذبے نے نوجوانوں کے دلوں میں وہ ذوقِ جہاد اور شوق شہادت پیدا کیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس صوبے کے ہر علاقے سے نوجوان تحریک آزادی میں شامل ہوتے گئے اور یوں ان کی مخلصانہ قیادت میں ایک وقت وہ بھی آیا جب غاصب افواج اپنے قائم کردہ مضبوط کیمپوں میں بھی محفوظ نہیں رہی۔ اصلاحی صاحب ان کیلئے خوف کی علامت بن چکے تھے۔ کْل النفس ذائقہ الموت، اِس سفر کے دوران وہ گھڑی بھی آگئی جو ہر انسان کیلئے اللہ ربّ العالمین کی جانب سے مقرر ہے۔ مارچ 1994ء میںاسلام کا یہ بہادر کمانڈر بھی غاصب بھارتی افواج کے خلاف بہادری سے لڑتے ہوئے شہادت کے منصب پر فائز ہوئے۔

’’مدرسۃ الاصلاح‘‘ اعظم گڑھ اتر پردیش سے فارغ التحصیل ہونے کے باعث عبدالرشہید اصلاحی کہلائے۔ حْریت کانفرنس و جماعت اسلامی کے معروف رہنماء غلام محمد صفی کہتے ہیں کہ 1986ء میں عیدگاہ ڈوڈہ میں جماعت اسلامی کا صوبائی اجتماع منعقد ہو رہا تھا، میری تقریر کے بعد شہیدؒ عبدالرشید اصلاحی نے مسئلہ کشمیر پر ایک قرارداد پیش کی جس میں ریاست جموں و کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دینے اور اِس تنازعے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرانے کا مطالبہ کیا گیا، مجمع سے مخاطب ہو کر عبدالرشید اصلاحی نے کہا کہ جب تک ریاستی عوام کو رائے شماری کا حق نہیں دیا جاتا ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ہزاروں لوگوں نے قرارداد کے حق میں ہاتھ کھڑے کئے اور ریاستی عوام سے کیا گیا حقِ خود ارادیت کا مطالبہ دہرایا گیا، صوبہ جموں میں حق کی یہ آواز بھارتی اقتدار کیلئے خطرے کی گھنٹی محسوس گئی ، چنانچہ اجتماع کے اختتام کیساتھ ہی امیر جماعت اسلامی جموں و کشمیر غلام محمد بٹ ، جنرل سیکٹری غلام محمد صفی اور قیم جماعت اسلامی صوبہ جموں عبدالرشید اصلاحی گرفتار کرلیے گئے۔ وہ کئی ماہ امیر جماعت اسلامی کے ساتھ سْنّت یوسفی ادا کرتے رہے۔ اِس کے بعد جماعت اسلامی کے زعماء جب بھی ڈوڈہ جموں جاتے پولیس اْن کے پیچھے پڑجاتی ، لیکن عبدالرشید اصلاحی اپنی ذہانت اور تدبر سے اْنہیں پولیس کے چگل سے بچا تے۔ اْن کے کندھوں پر ہمیشہ اسلام اور آزادی کے پیغام پر مبنی کتابوں کا ایک بنڈل موجود ہوتا ، وہ ایک ایک فرد تک پہنچنے کی کوشش کرتے اور سب کو اسلام کے نور سے منور کرانا چاہتے تھے۔ اسلام اور حْریت کا جذبہ عبدالرشید اصلاحی کی رگوں میں لہو بن کر دوڑتا تھا۔ کفر کیلئے وہ دو دھاری تلوار تھے۔ باطل پرست قوتوں کے ساتھ نرمی کے روادار نہ تھے ، وہ کافروں کیلئے سخت اور دوستوں کیلئے ریشم سے بھی نرم تھے۔ کشتواڑ کی جامع مسجد میں جماعت اسلامی کا صوبائی اجتماع ہو رہا تھا۔مولانا غلام احمد احرار صاحب ؒ، حکیم غلام نبیؒ فاضل دیوبند ، قاری سیف الدینؒ ، غلام حسین متوؒ ، عبدالرشید شیخ ، ماسٹر مشتاق احمد گلکار عرف حیدرعلیؒ ، ماسٹر غلام نبی گندنہؒ ، ڈاکٹر سیّد سجاد ، سیدمظفر پیرؒ ، سعداللہ تانترےؒ ، انجینئر ارشاد احمد اور دوسرے زعمائے جماعت اجتماع میں شرکت کیلئے پہنچ چکے تھے۔ اچانک شدید بارش شروع ہوگئی جس کی وجہ سے اجتماع کا نظام درہم برہم ہوگیا ، بیٹھنے کیلئے جگہ بچی نہ سر چھپانے کیلئے کوئی اوٹ میسّرآئی ، حالات اِس حد تک ابتر ہوگئے کہ مولانا حکیم غلام نبیؒ نے اِس موقع پر نفلی روزہ رکھنے کا مشورہ دیا۔ اِن صبر آزما حالات میں عبدالرشید اصلاحی چٹان کی طرح کھڑے رہے۔ اجتماع کو دوبارہ منظّم کرنے میں ہر ممکن تگ و دو کی اور بالآخر اجتماع کو کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر کروایا۔ اِس اجتماع میں ویری ناگ اسلام آباد کے شہید نثار احمد ملک ؒبھی شریک تھے جنھیں 1991ء میں قابض بھارتی افواج نے اپنے گھر سے گرفتار کیا اور دوران حراست جسم کے ٹکڑے بوری میں بند کرکے دریائے جہلم میں پھینک دیئے۔ آزادی اور جہاد کے موضوع پر تقریر کرنے کی پاداش میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کو اکثر گرفتار کر لیا جاتا تھا۔ مقبوضہ وادی کشمیر میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کو گرفتار کرنے کے بعد جموں ، کٹھوعہ ، ہیرا نگر اور اْدھم پور کی جیلوں میں ڈال دیاجاتا تاکہ رشتہ داروں کو ملنے میں دشواری ہو ، یوں اْنہیں جسمانی و ذہنی عذاب میں مبتلا رکھا جاتا۔ عبدالرشید اصلاحی ساتھیوں سے ملنے ہر جگہ پہنچ جاتے ، حالانکہ خود اْن کو بھی پولیس تلاش کرتی رہتی تھی ، اِس کی پرواہ کئے بغیر وہ نظر بندوں سے ملتے ، حق رفاقت ادا کرتے۔ نظر بندوں کی حالت زار پوچھتے ، اْن کی رہائی کیلئے چارہ جوئی کرتے ، اپنے آرام و آسائش کو دوسروں کیلئے تج دیتے تھے۔ 1975ء میں بدنام زمانہ اندرا عبداللہ معاہدہ ہوا۔ یہ معاہدہ 1846ء کے معاہدہ امرتسر کا ہی تسلسل تھا ، جس میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے کھیت و کھلیان فروخت کردیئے گئے اور انسان بیچ ڈالے گئے تھے۔ اندرا عبداللہ معاہدے میں ایک بار پھر ریاست جموں و کشمیر کی تقدیر کا سودا کیاگیا۔ جماعت اسلامی نے اِس کے خلاف منظم تحریک چلائی۔ اِس گٹھ جوڑ کے خلاف احتجاجی مظاہروں پر ہی اکتفا نہ کیا گیا بلکہ مرحوم شیخ عبداللہ اور اْن کے دست راست افضل بیگ نے جب ضمنی انتخابات کا ڈھونگ رچایا تو جماعت اسلامی نے انتخابات میں ان کے مقابلے میں اپنے امیدوار کھڑے کئے۔ مرحوم شیخ عبداللہ کے مقابلے میں محمد اشرف صحرائی اور مرحوم افضل بیگ کے مقابلے میں مولانا حکیم غلام نبی کھڑا کیے گئے۔ 1975ء میں مرحوم شیخ عبدللہ کو چیلنج کرنا آتشِ نمرود میں کودنے سے کم نہ تھا ، کیونکہ ہر طرف شیخ عبداللہ کا طوطی بولتا تھا۔ اِن انتخابات میں جماعت اسلامی نے اِس گٹھ جوڑ کے مضمرات سے کشمیری عوام کو آگاہ کیا اورانہیں بتایا کہ شیخ عبداللہ اور ان کے ساتھیوں نے اپنے اقتدار کیلئے انہیں کس طرح بھیڑ بکریوں کی مانند فروخت کیا۔ یہ پہلا موقعہ تھا جب شیخ عبداللہ کی لیڈر شپ کو عوامی سطح پر چیلنج کیا گیا۔ اِس الیکشن میں صوبہ جموں سے عبدالرشید اصلاحی اور سابق امیر صوبہ جموں سعداللہ تانترے نے بھی انتخابی مہم میں حصہ لیا۔ جماعت اسلامی کے دوسرے کارکنوں کی طرح عبدالرشید اصلاحی اور سعداللہ تانترے کو بھی نیشنل کانفرنس کے غنڈوں نے بری طرح زدوکوب کیا۔ الیکشن کے بعد انہیں زندان کی زینت بنایا گیا۔ عبدالرشید اصلاحی اورجملہ قائدین جماعت اسلامی کی قربانیوں کا صلہ ہے کہ آج سرزمین جموں وکشمیر شیخ عبداللہ اور بھارت کے دوسرے وظیفہ خوروں کیلئے تنگ ہوچکی ہے، عبدالرشید اصلاحی اور ان کے ساتھیوں کیلئے دیدہ و دل فرش راہ کئے جاتے ہیں۔ بلکہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے کوہ و دامن میں آج انہی کا حکم چلتا ہے۔ عبدالرشید اصلاحی واقعی زہد و تقویٰ کا چلتا پھرتا مجسمہ نمونہ تھے۔ اپنی شرافت ، خدا پرستی انسان دوستی اور آخرت پسندی کی وجہ سے صوبہ جموں میں مشہور ہوئے۔ ایک مردحْر کے طور پر شہرت پائی۔ اپنی گفتار سے مرد مسلمان کا جو نقشہ کھینچتے تھے وہ اپنے کردار سے اس میں رنگ بھرتے تھے۔

حزب المجاھدین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے فولادی عزم رکھنے والے شیر دل مجاہدین موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہر معرکے کو جاوداں اور بے مثال بنا دیتے ہیں۔ خطہ کشمیر کا کون سا گوشہ ہے جہاں اِن باشعور اور پیکر شجاعت مجاہدین نے حق کی تصدیق اپنے خون سے ثابت نہ کی ہو۔ یہ سرفروش شہادت کی موت کو گلے لگا کر اپنے عمل سے اعلان کرتے ہیں کہ وہ کسی اور ہی دنیا کے باسی ہیں۔ اِس عہد کی تجدید کیلئے حزب المجاھدین کے ڈویژنل کمانڈر جموں سیف اللہ خالد نے اپنا سر بہت پہلے پیش کیا تھا یہ 16 مارچ 1993ء کا ذکر ہے قابض بھارتی ا فواج نے ڈوڈہ کے گاؤں گنگاٹھہ کا محاصرہ کیا اور سیف اللہ خالد اپنے چھبیس جانثاروں کے ساتھ گھیرے میں آگئے حزب کے جوانوں نے بھارتی ا فواج کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا۔ اپنے کمانڈر کو محاصرے سے نکالنے کیلئے وہ سب پروانہ وارنثار ہونے کو تیار تھے، لیکن اپنے اسلاف کی تقلید کرتے ہوئے بزرگ کمانڈر سیف اللہ خالد مجاہدین کو محاصرے سے نکل جانے کا حکم دے رہے تھے اللہ کے اِس مجاہد نے انوکھا فیصلہ کیا تھا وہ اپنے ساتھیوں کو بچانے کیلئے ہزاروں درندہ صفت بھارتی فوجیوں کے سامنے دیوار بن کر ڈٹ گئے۔ مجاہدین بوجھل دل کے ساتھ اور کمال ڈسپلن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمانڈر کا حکم بجالائے۔ وہ سب محاصرے سے نکلتے چلے گئے ، حزب المجاھدین سے وابستہ مجاہدین کا خاصہ ہے کہ رزم ہو یا بزم وہ بلا چوں چرا اپنے کمانڈر کا حکم بجا لاتے ہیں خواہ اس میں ان کے جذبات و احساسات کا خون ہی کیوں نہ ہو ، یہی معاملہ یہاں بھی پیش آیا۔

وہ لاکھ قصص سنا بھی گیا
وہ ایک دمکتا انگارہ
جو روشنیوں کا مسکن تھا
وہ علم کا منور گہوارا
جلا بھی گیا، بجھا بھی گیا
ہر شخص اْس کا پرستار بنا
وہ ایک مایہ ناز شاہکار بنا
وہ اپنے قلم کی طاقت سے
ایک انمول سبق پڑھا بھی گیا
ہر ایک کا درد سمجھتا تھا
ایک ٹھوس اٹل دیوار بنا
فی سبیل اللہ چلتے چلتے
اپنا سکہ منوا بھی گیا
آج پھر آنکھ اشکبار ہوئی
دل پر پھر ایک بوجھ لگا
وہ ماضی کی چلمن سے خود کو
دکھلا بھی گیا ، یاد آ بھی گیا
وہ ٹوٹتا تارا بہت جلد
بہت دور چلا بھی گیا۔۔۔۔۔۔چلا بھی گیا۔۔۔
٭٭٭