اویس بلال
اس دور غفلت و گمراہی میں بھی اللہ کے برگزیرہ بندے دین کی آبیاری کے لئے صحابہ کرامــ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش میں گھر بار ،مال جائیداد اور اپنے آبائی وطن تک کو چھوڑتے ہیں ،صحابہ کرام کے لئے بھی دنیا ومتاع دنیا سے ناطہ توڑنا مشکل تھا۔لیکن انہوں نے دین اسلام کو ظلم اور شرک سے اور منکرین کے فتنے سے بچانے کی خاطر ایک علاقے سے دوسرے علاقے کی طرف ہجرت کی اور برس ہا برس تک انہیں اپنے گھروں کو واپس لوٹنے کا موقع نہ ملا۔صحابہ کرام اسلام کا علم بلند کرنے کی غرض سے ایک ملک سے دوسرے ملک پھرتے رہے ۔یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہا ۔آپ کی حالت ایسی تھی کہ انہیں ہروقت آخرت ہی کی فکر ہوتی تھی انہوں نے دنیا کے مقابلے میں آخرت کو محورومرکز بنانے میں کامیابی حاصل کر لی۔
مسلح جدوجہد میں ہتھیار اٹھانے والے پہلے تین کشمیری نوجوانوں میں شامل، اولین معرکے میں داد شجاعت دینے والے جری ،سر زمین کشمیر میں بھارتی غاصب فوجی اہلکاروں پر پہلا راکٹ داغنے والے سپاہی حزب المجاہدین کے مشہور و معروف کمانڈر محمد عبداللہ بنگرو تھے۔

جس کے رگ وپے اسلام کی محبت سما گئی تھی ۔جس کا جسدخاکی دیکھنے بھارتی قابض فوج کا کمانڈر انچیف دہلی سے سری نگر آیا۔18اگست 1988ء کو شہید محمد عبداللہ بانگر و ،کمانڈر مقبول علا ئی شہید اور شہید اعجاز احمد ڈار نے کٹھ پتلی ریاستی پولیس کے سر براہ وٹالی کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا۔یہ مسلح تحریک کا نکتہ آغاز تھا،لیکن وٹالی کو پہلے ہی خبر ہو چکی تھی ،جوں ہی مسلح نوجوان وٹا لی کے صحن میں داخل ہوئے ،مسلح محافظوں نے فائرنگ شروع کر دی ،اعجاز احمد ڈار شہید ہو گئے اور مقبول علائی کو چار گولیاں لگیں ۔اسطرح اعجاز ڈار کو 1988ء میں شروع ہونے والی اس مسلح تحریک کے پہلے شہید ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔یہ آپریشن ناکام رہا جس پر خالد الاسلام عرف محمد عبداللہ بانگرو تلملا کر رہ گیا۔مگر وہ مایوس ہو کر بیٹھنے والوں میں سے نہیں تھا ،دوسری ہی رات وہ شہید عبدالحمید شیخ کے ساتھ رانی مندر کے بھارتی فوجی ہیڈکواٹر پر جھپٹا ۔اس ضرب کاری سے بھارت لرز اٹھا،ائیر فورس کے چار سپاہیوں کو ہلاک کر کے اس نے شہید اعجاز احمد ڈار کا قرضہ چکایا۔اس کے بعد وہ بھارت کے خلاف نفرت کا نشان بنتا چلا گیا۔خوف اسے چھو کر بھی نہیں گیا تھا ۔جو لوگ اس کے ساتھ مختلف معرکوں میں لڑے ،انہوں نے کہا کہ ایسادلیر اور بہادر اور انتھک مجاہد شاید چشم فلک نے کبھی دیکھا ہو۔افغانستان کے جنگ کے ایک معرکے میں وہ شدید زخمی ہوئے لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری ۔جلال آباد کے محاصرے سے فارغ ہوا تو مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کے محاز پر جاپہنچا یہاں پر اپنا کردار انجام دے چکا ۔ تو جنت کی راہ لی۔
جہا ں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ،ادھر ڈوبے ادھر نکلے
دس برس کی عمر سے ہی شہید عبداللہ بانگرو نماز،روزہ کی پابند تھے ۔علم دین کی محبت ،جہاد کا شوق اور پورے شعور و بصیرت کے ساتھ آزادی کی تڑپ ………یہ شہید کمانڈر عبداللہ کے امتیازی اوصاف تھے۔
23برس کی عمر میں اسے حزب المجاہدین کا ڈپٹی کمانڈر انچیف بنایا گیا،چوبیس سال کا تھا تو مرتبہ شہادت پر فائز ہوا۔ماں باپ نے محمد عبداللہ بانگرو نام رکھاتھا ۔خالد الاسلام جہادی نام تھا ،مجاہد اسلام ، اور بانی حزب المجاہدین کے خطابات شہادت کے بعد ملے ۔خالداسلام نے عظیم کارنامے بہت مختصر عرصے میں نمٹائے اور پھر پورے کشمیر کو سوگوار چھوڑکر 18جون 1990ء کو جام شہادت نوش کر گئے –
خالد الاسلام شہید کے بارے میں ،کمانڈر عبدالوحید شیخ کہتے ہیں کہ خالد اسلام عبداللہ بانگرو کے والد محمد اسماعیل بانگرو سری نگر ہائیکورٹ میں اعلیٰ پایہ کے عرض نویس تھے ان کا پورا گھرانہ جذبہ ایمان سے سر شار ہے ۔خالد اسلام عبداللہ بانگرو کی دین کی محبت میں سب سے آگے تھے ،ہائیرسیکنڈر ی سکول سے دسویں اچھے نمبروں سے پاس کرنے کے بعد وہ مزید تعلیم اس لئے حاصل نہ کر پا ئے کہ اسکول کی مقررہ وردی پینٹ اور شرٹ سے الرجک تھے ۔قمیض شلوار کے ساتھ کالج جانے کی اجازت نہ ملی تو انہوں نے کالج کو خیرآباد کہا اور دینی تعلیم پر توجہ مرکوز کر دی ۔تعلیم کے بعد ایک سکول میں ملازمت شروع کی لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہ چل سکا ،ایک سچا مسلمان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنا کب گوارا کر سکتا ہے ۔ جبکہ سرزمین جموں و کشمیر مسلمانوں کے لئے تنگ کی جا رہی ہو ،شہید عبداللہ اپنے آپکو کسی عظیم کا م کے لئے تیاری کر رہا تھا ۔چنانچہ 1987ء نام نہاد انتخابات میں انہوں نے کمانڈر مقبول الائی شہید ،اعجاز ڈار شہید اشفاق مجید وانی ، اور دوسرے دیگر مجاہدوں کے ہمرہ مسلم متحدہ محاز کے حق میں انتخابات میں شرکت کی۔الیکشن سے دس روز پہلے خالد الاسلام اور دوسرے نوجوانوںکو گرفتار کر لیا گیا ۔ان پر دہشت گردی کا الزام عائد کیا گیا تھا ۔ ریاستی کٹھ پتلی حکومت نے ڈی آئی جی وٹالی اور ڈی سی کے ذریعے سے مسلم متحدہ محاذ کے ہارنے کا اعلان کیا ،خالد الاسلام اور ان کے ساتھی جیلوں میں پڑے تھے وہ اس ناانصافی پر تڑپ اٹھے ،چنانچہ جیلوں میں ہی طے ہوا کہ آ زادی کافیصلہ بندوق ہی کرے گی ۔مسلح جدوجہد کا فیصلہ کرنے کے بعد جب دو ماہ بعد ۔۔۔سیفٹی ایکٹ کے تاریک سائے چھٹے ۔تو خالدالاسلام اور دوسرے نوجوان ساتھی عسکری تربیت کے لئے بیس کیمپ گئے ۔افغانستان میں حکمت یار امیر حزب اسلامی کی تنظیم نے انہیں خوش آمدید کہا ۔خوست کے محاذ پر بہادری سے لڑتے ہوئے ان کشمیری نوجوانوں نے روسی ٹینک پکڑے اور روسی فوج کے خلاف بہادری کے جوہر دکھائے ۔دوماہ تک جہاد افغانستان میں داد شجاعت دینے کے بعد واپس وطن کو آزاد کرنے کے عزم سے لوٹے ۔عبداللہ بانگرو کو جہاد کشمیر میں جو کر دار قدرت کی طرف سے سونپا گیا تھا ۔اسکی مدت بہت مختصر تھی وہ ہمیشہ شہادت کے آرزو مند تھے اور ان کی یہ آرزو جلد پوری ہوئی ۔18جون1990کو جب وہ ایک کمین گاہ میں میٹھے تھے تو بھارتی فوج کا ایک بہت بڑا لشکر وہاں پہنچ گیا ۔کمین گاہ گھیرے میں آ چکی تھی ، عبداللہ بنگروؒ کو ہتھیار ڈالنے کے لئے کہا گیا ۔مگر انھوں نے دشمن کے سامنے سرنگوں ہونے کے بجائے آخری لمحے تک مقابلے کا فیصلہ کیا ان کے پا س صرف ایک پستول تھا۔زندگی کے آخری لمحات میں جب وہ بمشکل سانس لے سکتے تھے ،انہوں نے ایک بھارتی فوجی جاسوس کو فوجیوں کے درمیان کھڑا دیکھ لیا ۔جس کی نشاندہی پر بھارتی فوج وہاں پہنچی تھی ،خالدلاسلام نے اپنی ساری قوت کومجتمع کرتے ہوئے اس بھارتی جاسوس پر آخری گولی چلائی ۔اس کے بعد شہید عبداللہ عرف خالد الاسلام نے آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر لیں……



شہید محمد عبد اللہ بنگرو ؒ ۔۔۔شہید اعجاز احمد ڈار ؒ شہید اشفاق مجید وانی ؒ اورشہید شیخ عبد الحمید کے قریبی دوستوں میں شمار کئے جاتے تھے ۔چاروں دوست تحریک آزادی کے اولین رہنماوں میں اپنا نام شامل کرنے میں کا میاب ہوئے ۔سخت ترین مراحل سے گذر کر بالآخر اس حال میں اللہ کے حضور پیش ہوئے کہ رب ان سے راضی ہوا اور وہ رب سے راضی ہوئے ۔
حزب المجاہدین کے صف اول کے شہید کمانڈر عبداللہ کی شہادت کی خبر سنکر پوری ریاستی عوام رو پڑی۔جنازے کے جلوس کو دیکھ کر چشم فلک بھی حیراں تھی ۔حزب المجاہدین نے اپنے شہید راہنما کو بانی حزب المجاہدین قرار دیا ۔جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے خالد الاسلام عبداللہ کو عظیم جرنیل کہا ۔مسلم جان باز فورس نے شہید اسلام قرار دیا ۔ جموں کشمیر سٹوڈنٹس لبریشن فرنٹ نے مجاہد اسلام کے لقب سے یا د کیا ۔اور حزب اللہ کے قائد مشتا ق الاسلام نے عبداللہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ…… اگر کشمیریوں کو پتہ چل جائے کہ شہید ہونے والا کتنا عظیم مجاہد اور دین اسلام کا کتنا بڑا شیدائی تھا تو عمر بھر ان کے آنسوں خشک نہیں ہوں گے۔اللہ ہمیں بھی شہید عبداللہ کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ہمت عطا فرمائے آمین
نائب امیر حزب المجاہدین سیف اللہ خالد اور چیف ایڈیٹر کشمیر الیوم شیخ محمد امین عبداللہ بانگرو کو خرا ج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں”تحریک آزادی کشمیر کے ان آزادی کے پر وانوں کا لہو ضائع نہیں ہوگا ،انہوں نے ایک عظیم مقصد کے لئے اپنی جوانیاں لٹا دی اور اللہ کے ہاں سر خرو ہوگئے ۔یہ فر زندان وطن اپنے مشن سے لگائو رکھتے تھے انہیں اپنی جان سے وہ منزل عزیز تھی جن کے لئے لاکھوں شہداء نے اپنی جوانیاں لٹا دی “۔آج ملت جموں کشمیر کا ہر فر د ان شہداء کا وارث ہے اور چاہتے ہیں کہ وہ بھارت سامراج سے اپنے ایک ایک شہید کا بدلہ لیں گے۔ارض وطن جنت بے نظیر کشمیر کا ایک ایک شہری آزادی کا متلاشی ہے وہ ہر لمحے آزادی سے محبت اور غلامی سے نفرت کرتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ملت کشمیر کا بچہ بچہ اپنی آزادی کے لئے کٹ مرنے کو تیار ہے۔اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں بھی غازی کی زندگی اور شہادت کی موت سے ہمکنار کر دے اور شہدائے کشمیر کے اس لہو کو امت مسلمہ کی بیداری اور اتحاد کا سبب بنائے جس کے نتیجے میں اسلام کو پھر سے باطل قوتوں پر غالب کر دے آمین……
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا