ابن جبار
15 ستمبر 2019 میں تحریک حریت کے صوبائی صدر ،جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر کے معروف رہنما اورمرکزی شوری کے رکن ماسٹر غلام نبی گندنہؒ پنجاب کے شہر لدھیانہ ہسپتال میں دورانِ حراست اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔اس خبر کو سن کر دلی صدمہ پہنچا اور یہ فکر لاحق ہوئی کہ تحریک آزادی کشمیر سے وابستہ بڑی بڑی اور اہم شخصیات پے در پے اپنے اللہ کے حضور پیش ہورہی ہیں اور تحریک آہستہ آہستہ بنیادی قیادت سے محروم ہورہی ہے۔بہرحال اللہ کی ذات ہی ہے جوضرور اس خلا کو پر کرنے پر قادر ہے۔مقبوضہ وادی کشمیر میں جموں کے جن بزرگوں کے ناموں سے بچپن سے واقف ہوں،ان میں شہید غلامنبی گندنہؒ اور مرحوم سعد اللہ تانٹرے کا نام سر فہرست ہے۔اگر چہ شہید گندنہ صاحب سے بالشافہ ملاقات کبھی نہ ہوئی تاہم اکثر جماعت اسلامی کے زعما کی زبان سے ان کا ذکر خیر ہمیشہ سنتا رہتا تھا اور یہ خواہش ہمیشہ سے دل میں مچلتی تھی کہ بالمشافہ ملاقات ہوجائے۔اگر چہ بالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل نہ ہوسکا لیکن ان کی وفات سے صرف دو ہفتے قبل ان کے فرزند ارجمند جناب عامر عمار کی وساطت سے ایک ویڈیو کال کے ذریعے ان سے گفتگو ہوئی۔جونہی ان کی مجھ پر نظر پڑی تو بے ساختہ کہا کہ اپنا تعارف نہ کرائیں،میں نے پہچانا ہے۔مجھے اندازہ ہوا کہ انہیں میرے بڑے بھائی عبد اللہ صاحب کی صورت سامنے نظر آئی اور انہیں اندازہ ہوا کہ یہ بڑے شیخ صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں۔مختصر گفتگو ہوئی۔دعائیں دیں اور حوصلہ دیا کہ حق ہی غالب ہوکر رہے گا۔باتوں باتوں میں یہ بھی بتادیا کہ وہ پولیس حراست میں ہیں۔گھر کو سب جیل قرار دیا گیا ہے۔


شہید غلام نبی گندنہؒ نے دین حق کی دعوت کو عام کرنے کیلئے جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے پلیٹ فارم کا انتخاب کیا اورجماعت اسلامی کے اصول و ضوابط پر عمل کرتے ہوئے اس انقلابی جماعت کا حصہ بنے۔غلام نبی گندنہ ضلع کشتواڑ کے گاوں چوگان کی مردم خیز بستی میں اپریل 1944 میں پیدا ہوئے۔آپ نے علاقے کے ڈگری کالج سے B.A کی ڈگری حاصل کی،اس کے بعد آپ نے اپنے تعلیمی کیریئر کو جاری رکھتے ہوئے B.Ed کیا، چونکہ آپ کو عالم اسلام کی تاریخ پڑھنے کا بے حد شوق تھا لہذا ماسٹرز کر نے کے دوران اپنا مضمون تاریخ (History) منتخب کیا اوراس مضمون میں آپ نے اعلی پوزیشن حاصل کرنے کیساتھ ماسٹرز مکمل کیا۔یہ 1965 کی بات ہے مقبوضہ جموں و کشمیر میں محاذ رائے شماری کی تحریک زوروں پر تھی۔آپ نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا جس کے نتیجے میں آپ گرفتار ہوگئے۔آپ نے کچھ عرصہ جیل میں گزارا۔1990 میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف مزاحمت شروع ہوئی تو انہیں شروع دن سے عذاب و عتاب کا نشانہ بننا پڑا۔وہ گرفتار ہوئے۔انہیں سخت ترین تشدد کا سامنا کرنا پڑا،اس دوران ان کے دانت تک توڑ دئیے گئے ان کے جسم پر رولرز پھرائے گئے، طر ح طرح کی اذیتیں دی گئیں،لیکن انہوں نے یہ سب کچھ خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔1991 میں ان کی والدہ محترمہ اس دنیا سے رحلت فرماگئیں،آپ جیل میں تھے لیکن سفاک بھارتی انتظامیہ نے آپ کو والدہ کی نماز جنازہ میں شرکت سے محروم رکھا۔آپ نے مختلف اوقات میں تقریبا13برس بھارتی قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ آپ امیر ضلع کشتواڑ کے منصب پر بھی فائز رہے۔آپ نے قریہ قریہ بستی بستی جاکر لوگوں کو دین اسلام کی دعوت دی،بعد ازاں آپ کو صوبہ جموں کا قائم مقام امیر بھی مقرر کیا گیا۔آپ شعبہ تعلیم میں بطور لیکچرار فرائض انجام دے رہے تھے۔ لیکن بھارتی حکومت آپ کے دعوت دین کی تبلغ سے خفا تھی اس لئے بھارتی حکومت نے آپ کو لیکچرار کی نوکری سے بر خاست کیا،آپ کے بنک اکاونٹس تک منجمد کردیے گئے اور اس کیساتھ ساتھ بہت ساری وہ سرکاری سہولیات جوبطور لیکچرار آپ کو میسر تھیں انہیں ختم کردیا گیا۔آپ ایک فعال تحریکی کارکن کی حیثیت سے دن رات دینی خدمات انجام دے رہے تھے اس لئے1994 میں آپ کو دوبارہ امیر ضلع منتخب کیا گیا،بے شمار خوبیوں اور صلاحیتوں کی بنا پر جماعت اسلامی نے آپ کاضلع کشتواڑ کیلئے تین مرتبہ بطور امیر ضلع انتخاب عمل میں لایا اور بطور امیر ضلع پورے علاقے میں اللہ کے بندوں تک اللہ کے احکامات پہنچانے میں آپ نے کسی بھی مشکل کو خاطر میں نہیں لایا بلکہ دلجوئی کیساتھ اللہ کے سپاہی کی طرح رات دن ایک کیے۔1994 سے 2015 تک آپ نے تحریک حریت کیساتھ بطور صوبائی صدر منسلک رہ کر ایک اہم کردار نبھایاجسے تاریخ ہمیشہ یادرکھے گی۔

انہیں یقین کامل تھا کہ وہ حق پر ہیں اور حق کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ناکام وہی لوگ ہیں جو حق کا راستہ اختیار نہیں کرتے۔وہ کہا کرتے تھے کہ ”ہم نے اپنی زندگی کا مقصد طے کرلیا ہے کہ اسلام کی بالادستی اور آزادی کشمیر کیلئے جدوجہد آخری سانس تک کریں گے۔یا اپنی آنکھوں سے اس جدوجہد کو کا میاب ہوتے ہوئے دیکھیں گے یا پھر اپنی جان بھی اسی جدوجہد کو جاری رکھتے ہوئے دیں گے۔ تیسرا درمیان میں کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہم مایوس لوگ نہیں ہیں۔مایوسی کفر ہے۔مایوس وہ لوگ ہوں گے جنہیں اللہ پر یقین نہیں ہوگا۔ہمارا اللہ پر یقین کامل ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ہمیں جدوجہد کا فریضہ انجام دینا ہے نتائج اللہ کے اختیار میں ہیں۔ احادیث میں ذکر ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں آخرت کے روز ایسا نبی بھی سامنے آئے گا جس کیساتھ ایک بھی امتی نہیں ہوگا،کسی کیساتھ ایک امتی ہوگا۔ کسی کیساتھ دو امتی ہوں گے۔ ایسا نبی بھی آئے گاجس کیساتھ چھ، سات، آٹھ امتیوں کی جماعت ہوگی۔کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ نعوذ باللہ وہ پیغمبر ناکام ہوگئے تھے۔نہیں انہوں نے اپنا حق ادا کیا۔ نتائج اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ہدایت دینا اور جدوجہد کے ثمر سے فیضیاب کرانا رب کائنات کے اختیار میں ہے۔ہمیں مزدور کی طرح اپنے مالک کے حکم کی پیروی کرنی ہے۔عمارت تعمیر ہوجائے یا نامکمل رہ جائے یہ مالک کا معاملہ ہے ”۔ بہر حال ستمبر 2019 میں اسلام کے یہ عظیم سپوت نظربند ی کے دوران ہی اللہ کے حضور پیش ہوئے،آپ کی میت جب علاقے میں پہنچی تو پورے علاقے میں صف ماتم بچھ گئی اور تمام علاقوں کے لوگ اپنے اس عظیم رہنما کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کا آخری دیدار کرنے کیلے امڈ آئے تھے اور پھر اسلام کے اس عاشق زار کو سسکتی آہوں کیساتھ رخصت کیا۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
اللہ تعالی مرحوم کے درجات بلند اور ملت اسلامیہ کو ان کا نعم وبدل عطا فرمائیں۔آمین
٭٭٭