
شہزاد منیر احمد
شہیدمقبول بٹؒ نے نصف صدی کی عمر پائی
بچپن آزادی کشمیر کے خواب دیکھتے گذارا اور جوانی آزادی کشمیر کی عملی جدو جہد میں گزار دی
11 فروری 1984 کو تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی
سفاکی اور درندگی کا مزید مظاہرہ ہندوستانی حکومت نے یہ کیا کہ ان کی میت بھی ورثاء کو آخری رسوم کی ادائیگی کے لیے نہ دی گئی
افضل گورو بڑے حساس ذہن کا مالک نوجوان تھا۔ شعور کی آنکھ کھلی تو وادی کشمیر کو غلامی کے پرآشوب ماحول میں پایا
محمد افضل گوروبارہ مولہ کے قصبے سوپور کے قریبی گاؤں دوآب گاہ میں جون 1969 میں پیدا ہوئے
شہدائے کشمیر کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کر چکی ہے۔ ہر شہید نے، کیا عورت کیا مرد کیا بچے کیا جوان اور بوڑھے انہوں نے اپنی ریاست کی تحریم و آزادی کی خاطر ایک غیور شہری کی طرح شہادت کو گلے لگایا ہے۔انا للہ و ان الیہ راجعون
غیرت بڑی چیز ہے جہان تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاج سر دارا
جنگ آزادی لڑنے والے کشمیریوں اور ظالمانہ جبر و ستم کا شکار شہید کی قربانی بے بدل عطیہ رہی ہے۔ وہ مجاہدین جنہوں نے اپنے وطن کی آزادی(کشمیر)کے جذبے کو اپنے فکروعمل سے نکھارا ۔تن من دھن آزادی کے لیے وقف کر دیا اور جدو جہد کو بھی برقرار رکھا اور اپنے جہادی سفر ہی میں زندگی قربان کر گئے ۔ان کا ذکر کرنا انہیں خراجِ تحسین پیش کرنا میں خود پہ لازمی سمجھتا ہوں۔ اللہ الرحمٰن ان شہداء کی قربانیوں کو قبول و منظور فرمائے آمین۔
مقبول بٹؒ نے نصف صدی کی عمر پائی (18 فروری 1934 سے 11 فروری1984)۔ اپنا بچپن آزادی کشمیر کے خواب دیکھتے گذارا اور جوانی آزادی کشمیر کی عملی جدو جہد میں گزار دی۔منزل کی تلاش کے سفر ہی میں ایک دن، اپنی طلب اور خواب لے کر اللہ کے حضور پہنچ کر ہمیں پیغام دے گئے،:-
” صلہ شہید کیا ہے، تب و تاب جاودانہ ”
مقبول بٹؒ ریاست کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے ایک گاؤں ترہگام میں 18 فروری 1934کو پیدا ہوئے۔ان کے والد عبدلقادر بٹ ایک زمیندار خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ مقبول ابھی گیارہ سال ہی کے تھے کہ ان کی والدہ فوت ہو گئیں۔ شفقت مادری سے محرومی کے اثرات سے مقبول بٹؒ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ان کے والد صاحب نے پھر ان کی خالہ جس نے پھران کے حوالے سے حقیقی اماں جیسا کردار ادا کیا کے ساتھ شادی کی۔مقبول بٹ نے ابتدائی تعلیم مقامی سکول میں مکمل کی اور پھر بارہ مولہ میں سینٹ جوزف اسکول اور کالج سے بی اے کیا۔ کالج میں کشمیری طلبا کی سرگرمیوں میں شامل رہتے۔ انہیں کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ اور مرزا افضل بیگ کی رفاقتیں بھی میسر رہیں۔
1958 میں مقبول بٹؒ کو بوجوہ پاکستان ہجرت کرنا پڑی۔ وہ پشاور آگئے اور یونیورسٹی میں اردو لٹریچر میں ماسٹرز کرنے کے لیے داخلہ لے لیا ۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہ اخبار” انجام” میں بھی کام کرتے رہے۔ انہوں نے کشمیری مہاجرین کی پاکستان میں سیٹ پر انتخاب بھی لڑا۔ مقبول بٹ ؒنے نہ تو اپنی معصوم عمر کی معصومیت Enjoy کی اور نہ شباب کے رنگ روپ دیکھے۔ ان کے دل میں آزادی کی دھن تھی جو انہیں کبھی مقبوضہ کشمیر کے پہاڑوں کی چٹانوں پر اور کبھی میدانوں میں دشمن افواج کے کیمپوں میں ان کی گردنوں تک لے جاتی تو کبھی ان کے اسلحہ اور بارود خانوں پر شب خون مارنے کے لیے فضا میں اڑائے لیئے پھرتی ۔
مقبول بٹ نے آ زادی کشمیر کی تنظیم NLF نیشنل لیبریشن فرنٹ کی بنیاد رکھی اور انتہائی جانفشانی اور دل جمعی سے کام کیا۔ نئے نئے لوگوں کو NLF کا رکن بنایا ان کی گوریلا ٹریننگ کا بندوست کیا، فنڈز اکٹھے کئے۔ اور انہیں تربیت دے کر ان کے ساتھ شامل ہو کر وادی کشمیر میں کئے کامیاب آپریشن کر کے وہاں پر قابض فوجوں اور قوتوں کا ناک میں دم کر کے رکھا۔
مقبول بٹ ایک شب خون آپریشن کے دوران پکڑے گئے، انہیں گرفتار کر کے ان پر مقدمہ درج کیا اور انہیں جیل میں بند کر دیا گیا، ان کی عدم موجودگی میں جنگ آزادی کی کوششوں اور میدانی کارکردگی میں کمی آ جانا فطری تھا۔ ۔ جیل کی صعوبتیں جھیلیں مگر انہوں نے ہمت نہ ہاری اور 1968 میں پھر جیل سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو کر آزاد جموں و کشمیر (پاکستان)آگئے ۔واپس ا ٓکر اپنی جدو جہد کی کڑیاں جوڑنا شروع ہو گئے۔
1969 میں دو کشمیری نوجوان، اشرف قریشی اور ہاشم قریشی نے پشاور میں آکر مقبول بٹ سے ملاقات کی۔ جنہیں ہندوستانی جہاز اغوا کرنے کی تربیت یافتہ ہوابازوں سے ٹریننگ دلوائی گئی، پھر سب کچھ پڑھا سکھلا کر مقبوضہ کشمیر بھیجوا یا گیا، جنہوں نے 1971 کے آغاز میں کامیاب آپریشن کرکے ہندوستان کا ایک چھوٹا طیارہ ” گنگا” اغوا کر لیا لاہور لا اتارا۔ ۔ اغوا کنندگان کے مطالبات پورے نہ ہونے پر وہ جہاز جلا دیا گیا۔ ہاشم قریشی اور اشرف قریشی کے ساتھ مقبول بٹ اور بہت سارے لوگ گرفتار کیے گئے۔ انہیں سزائیں ہوئیں کچھ کو معافی بھی مل گئی۔
1976 میں مقبول بٹؒ دوبارہ کشمیر میں گئے۔ لنگیٹ ہندوارہ میں گرفتار ہوئے۔1984 میں NLF کے کارکنوں نے بکنگھم میں ہندوستانی سفارت کار راوندرا مہاترے کو اغوا کر لیا، جس کے بدلے مقبول بٹ کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا جو نہ مانا گیا۔ اغوا کے دو دن بعد اس سفارت کار کو قتل کر دیا گیاتھا۔
مقبول بٹ کی پہلی سزائے موت بھی ابھی تک بحال تھی اور وہ جیل ہی میں تھے ۔ اندرا حکومت نے انہیں جلدی سے دکھاوے کی عدالتی کاروائی کی اور انہیں11 فروری 1984 کو تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ سفاکی اور درندگی کا مزید مظاہرہ ہندوستانی حکومت نے یہ کیا کہ ان کی میت بھی ورثاء کو آخری رسوم کی ادائیگی کے لیے نہ دی گئی، اور تہاڑ جیل ہی میں دفن کر دیا گیا۔ دنیا بھر میں مقبول بٹ کی سزا کو عدالتی قتل کہا گیا۔ کشمیر، ہندوستان۔ اور پاکستان میں احتجاجی مظاہرے ہفتوں ہوتے رہے مگر مظلوم کشمیریوں کی کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ اللہ تعلی ان کی شہادت کے طفیل کشمیری قوم کو ظالم کے چنگل سے آزادی عطا فرمائے اور شہید کے درجات بلند فرمائے۔آمین یا رب العالمین

ہندوستان کی چیرہ دستیوں، ظالمانہ سلوک اور سفاکانہ کارروائیوں کا شکار ہونے والے کشمیری شہداء میں ایک اور نمایاں فرزند ارجمند محمد افضل گوروو شہید ہیں جو بھرپور جوانی میں رتبہ شہادت پر فائز ہو ئے۔
حریت پسند محمد افضل گوروبارہ مولہ کے قصبے سوپور کے قریبی گاؤںدو آب گاہ میں جون 1969 میں پیدا ہوئے، ان کے والد حبیب اللہ لکڑی کی تجارت اور ٹرانسپورٹ کرنے کا کام کرتے تھے۔ محمد افضل گورو چھوٹی عمر ہی میں اپنے والد حبیب اللہ کے سایہ پدری اور دیگر شفقتوں سے محروم ہو گئے تھے۔ انہوں نے ابتدائی اور سیکنڈری تعلیم بارہ مولہ ہی میں 1986 میں مکمل کی۔ پھر میڈکل کی تعلیم کے لیے جہلم ویلی میڈیکل کالج میں داخلہ لیا۔ انہوں نے MBBS کا سال اول مکمل کیا اور خود کو مقابلے کے امتحانات کے لیے تیار کرنے لگے۔ افضل گورو بڑے حساس ذہن کا مالک نوجوان تھا۔ شعور کی آنکھ کھلی تو وادی کشمیر کو غلامی کے پر آشوب ماحول میں پایا۔آزادی کی جنگ لڑنے والے مجاہدین کی آئے دن گرفتاریوں اور شہادت کی خبریں سنتا ، وہ بھلا وادی کشمیر میں ڈوگرہ راج کے دنوں سے جاری سیاسی جبر اور کشمیریوں پر روا رکھے جانے والے ظلم و ناانصافی سے لاتعلق کیسے رہ سکتا تھا۔ سیاسی آزادی کا چھن جانا طبعی موت سے بھی بد تر شمار ہوتا ہے۔طبعی موت میں تو روح بدن سے نکل جاتی ہے جو کسی اورجہاں میں جا بستی ہے۔ سیاسی موت میں روح بدن سے نہیں نکلتی، آدمی زندہ تو ہوتا ھے مگر زندہ ہوتے ہوئے اس کی روح مر جاتی ہے۔ یہ حیثیت اصل اور طبعی موت سے بھی بری اور سخت ہوتی ہے۔ علامہ اقبال لکھتے ہیں:-
موت ہے اک سخت تر، جس کا غلامی ہے نام
مکر و فن خواجگی، کاش سمجھتا غلام۔
افضل گورو ظالم آقاؤں کی طرف سے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور ان کے مکر و فن و فریب سے آگاہ ہو چکا تھا ۔ اپنی تعلیم کے ساتھ فروٹ کمیشن شاپ بھی چلاتے تھے۔ پھر ان کی ملاقات انت ناگ کے ایک دوست طارق سے ہوئی جن کی وساطت سے وہ حریت پسندوں کی جماعت میں شامل ہوگئے۔نوجوان محمد افضل گرو، ہجرت کر کے مظفرآباد (پاکستان) آ گئے اور باقاعدہ گوریلا کاروائیاں شروع کرنے کی تربیت حاصل کرنے لگے۔ ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد انہیں واپس وادی کشمیر میں جاکر تقریباً 300 سے زائد مجاہدین کی جنگ آزادی میں راہنمائی کے لیے منتخب کیا گیا۔ ۔ اسی اثناء میں افضل گورو نے ساتھ ساتھ دہلی یونیورسٹی سے گریجویشن کر لی۔ میڈیکل کے نمائندے کے طور پر اور پھر سپروائزر کے عہدے پر بھی کام کیا۔ اس دوران وہ سرینگر اور دہلی کے دوران بھی چکر لگاتے رہتے تھے۔ اس دوران انہوں نے اپنی گھریلو حالت اور خاندان کے اسرار پر عسکری مزاحمت سے کنارہ کشی حاصل کی ۔لیکن قابض فورسز کو ان کی یہ ادا بھی کچھ زیادہ ہی خوفناک محسوس ہوئی ۔
2001 میں حریت پسندوں کے گروپ(جیش محمد) نے کار میں بیٹھ کر جعلی نمبر پلیٹ لگا کر ہندوستان کی پارلیمنٹ کی عمارت میں ہونے والے اجلاس، جس میں وزیراعظم بھی شامل تھے پر آتشیں اسلحہ سے حملہ کر دیا۔ حملے سے ھدف شخصیات تو بچ گئیں مگر 13 کے قریب لوگ ہلاک ہوئے اور 16 کے قریب زخمی ہوئے۔ ہندوستانی واویلے پر امریکی صدر جارج بش نے پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کو فون کر کے اور ہندوستان کے وزیراعظم واجپائی کو کال کر کے حالات کی سنگینی کے پیش نظر دونوں ممالک (ہندوستان اور پاکستان) کو حالات کو معمول پر لانے کی ھدایت کی۔
13 دسمبر 2001 کو مقدمات درج ہوئے۔ مرنے والے حملہ آوروں سے ملنے والے موبائل فون کی کال لسٹ اور دیگر رابطوں کی بنیاد پر 15 دسمبر 2001 کو افضل گورو، ان کے کزن شوکت،ان کی بیگم افشاں اور ایس اے آر گیلانی، چاروں کو گرفتار کر لیا گیا۔۔ ملک دشمنی، بغاوت، قتل عمد دہشتگردی اور بھاری بھرکم دفعات جن کی سزا لازماً موت ہے کی شقیں ملزمان پر لگا دی گئیں۔ ملزمان اور ان کے خاندان کو مسلسل ذہنی دباؤ اور پریشانی میں رکھنے کے لیے یہ کیس بارہ سال تک چلایا گیا۔ طرح طرح سے ملزمان کو تفتیشی مراحل میں سے گذارا گیا۔ ذہنی دباؤ اور اذیتوں سے گذارا گیا۔
قارئین اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ملزمان کے خاندانوں کو بارہ مولہ سے دہلی تہاڑ جیل ملاقات کے لیے آنے جانے میں کن کن مشکلات کے سمندروں سے گذرنا ہوتا ہوگا۔پولیس اور سیکیورٹی اداروں کی طرف سے ملزمان کے جعلی اعترافی بیانات پیش کئے گئے۔ جنہیں عدالتوں نے مسترد کیا۔ ہر عدالت سے کیس ہوتا ہوا اعلیٰ ترین عدالت تک پہنچا۔ جنہوں نے ان کی سزائے موت دینے کی سفارش کی۔ صدر مملکت نے سارے ملزمان کی فائلیں وزیر داخلہ کو پورے کیس پر نظر ثانی کے لیے بھیجوائی ۔ انہوں نے 16 نومبر 2012 کو یہ کہتے ہوئے فائل صدرملکت کو واپس بھیجوا دی کہ مجرمان کو سنائی گئی سزائے موت قانونی اور صحیح ہے۔


صدر نے محمد افضل گورو کو 3 فروری 2013 کو پھانسی دینے کی منظوری دے دی۔اگرچہ ہندومعاشرے سے رحم، خیر اور اخلاقی مروت کی امید تو نہیں کہ جا سکتی تھی مگر اتمام حجت کے طور پر صدر سے رحم کی اپیل کی گئی جو کہ بھی نا منظور کر دی گئی۔جیل حکام نے پھانسی کی سزا کے بارے افضل گرو کی فیملی کو بذریعہ خط اطلاع بھیجی ۔ وہ ان کی مجبوری تھی کیونکہ افضل گرو کو اپنی آخری وصیت لکھنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے وصیت لکھی تھی۔ جس کا کسی کو معلوم نہیں کہ انہوں نے کیا لکھا تھا۔ جیل حکام کا وہ خط جس میں افضل کو 9 فروری 2013 کو پھانسی دینے کی اطلاع درج تھی وہ ان کی سزا پا لینے کے بعد ملی۔
اس سزا کے بارے صرف ان چند لوگوں کو بتایا گیا تھا جنہیں سزا کا اہتمام کرنا اور کفن دفن کی ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔ محمد افضل گورو شہید کی میت کو بڑی رازداری اور خاموشی سے تہاڑ جیل ہی میں دفنا دیا گیا، جس کے بارے کسی کو کچھ پتہ نہ چلا رب اغفر و ارحم و انت خیر الراحمین۔
”شہید کی جو موت ہے، قوم کی حیات ہے”
اللہ الرحمٰن سے دعا ہے کہ ہمارے شہدائے کشمیر کی شہادتیں قبول فرمائے۔ آمین
٭٭٭
٭٭٭شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)راولپنڈی / اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر،مصنف اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں