شہید مقبول بٹؒ

سید عارف بہار

شیخ محمد عبداللہ نے نیا کشمیر کا محض نعرہ بلند کیا لیکن محمد مقبول بٹ شہید نے نئے کشمیر کی تشکیل کی۔نئے کشمیر کی کتاب کا دیباچہ نقد جان کو آب زربناکر رقم کیا ۔کشمیر کا سب سے بڑا انقلابی کون ہے ؟وقت اس سوال کا جواب دیتا چلا جارہا ہے اور وقت کا جواب ہے مقبول بٹ ۔ظاہر ہے انقلابی وہی ہوتا ہے جو وقت اور زمانے کی لہروں کے الٹے رخ چلنا شروع کرتا ہے ۔زمانہ اس کی زبان اور لہجے کو نامانوس سمجھ کر اسے ہر قسم کے دشنام سے نوازتا ہے ۔پھر جب وہ تبدیلی اور انقلاب کی جدوجہد میں جان سے گذر جاتا ہے تب اس کی فکر وفلسفے سے پیچھے رہ جانے والے اس کے ذہن اور فکر رسا کا ساتھ نہ دینے والے بھی اس کے احترام میں سر جھکا دیتے ہیں ۔ایسے انقلابی کی مثال یوں ہوتی ہے کہ:

محمد مقبول بٹ نے بہت پہلے یہ جان لیا تھا کہ بھارت کشمیریوں کو آسانی کے ساتھ سیاسی طور طریقوں، ہڑتالوں، مظاہروں، یاداشتوں کے ذریعے حق خود ارادیت نہیں دے گا بلکہ اس مقصد کے لئے کشمیریوں کو خاک وخون کا ایک سمندر عبور کرنا پڑے گا۔ یہ وہ وقت تھا جب کشمیرعمومی طور پر سکتے کی کیفیت میں مبتلا تھا ۔تیر شیخ محمد عبداللہ کی کمان سے نکل چکا تھا اور ہر گزرنے والا دن کشمیر پر بھارتی غلامی کی گرفت مضبوط بنا رہا تھا ہر طرف سکوت مرگ،جمود اور جماؤ کی کیفیت غالب تھی۔ کشمیر کا ایک بہت بڑا طبقہ غلامی کو مقدر کا فیصلہ سمجھ کر مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب گیا تھا ۔ایک طبقہ مذبوح پرندے کی طرح پرامن طور پر حالات کی قید سے آزاد ہونے کیلئے پھڑ پھڑا رہا تھا لیکن کراچی کے حکمرانوں کی تضادات سے بھر پور کشمیر پالیسی میں اس طبقے کیلئے کوئی راہ عمل نہیں تھی اس مایوس کن صورت حال میں ایک نوجوان محمد مقبول بٹ نے آزادی کے خواب دیکھنے کا آغاز کیا وہ خوابوں میں زندہ رہنے والا شخص بھی نہیں تھا کہ ایک فکر پیش کرکے پس چلمن چلا جائے اور اپنے اہل وطن کو لڑنے مرنے کیلئے تنہا چھوڑ دے۔ایک رومان پرور شخص کے طور پر اس نے ایک خواب دیکھا تو ایک عملیت پسند انسان کے طورپر اس خواب کوزمانے کا اسلوب اور چلن بنانے کیلئے عملی جدوجہد کا آغاز بھی کیا اور اسی عملی جدوجہد میں جان سے گزر گیا۔

اس عہد میں جب وعدہ خلافی اور عہد شکنی کو ایک بھول سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے محمد مقبول بٹؒ نے کشمیر کی ورکنگ باؤنڈری پر سچیت گڑھ کے مقام پر خاک وطن ہاتھ میں لے کر ایک عہد کیا،آزادیٔ وطن کیلئے زمانے سے ٹکرا جانے، حالاتِ زمانہ سے لڑنے کا عزم، جان سے گزر جانے کا عہدِوفا اور پھر ۱۱؍ فروری 1984ء کو دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی کا پھندا چوم کر مقبول بٹ نے1965ء کو سوچیت گڑھ میں کیا جانے والا عہد نبھاکر دم لیا۔20برس سے اس سفر میں محمد مقبول بٹ نے دوبار کنٹرول لائن عبور کی اور کشمیر میں نوجوانوں کو ایک بھر پور مسلح جدوجہد کے لئے تیار کرنے کی کوشش کی۔ ایک ایسے سماج میں جوصدیوں سے امن اورعدم تشدد کی روایات میں گندھا ہوا ہے۔ گل و بلبل، ساز و سنتور، شب دیگ، وازہ وان، صوفیاء اور خانقاہوں کی صورت، اقدار، روایات اور تہذیب و ثقافت کی جڑیں جس میں گہری ہوں ایسے سماج میں لوگوں کو ایک پوری تاریخی، سیاسی، سماجی پس منظر سے کاٹ کر انقلابی جدوجہد کے لئے اُبھارنا انہیں قابض سسٹم سے بغاوت پر آمادہ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا کیونکہ جس معاشرے میں تہذیبی ثقافت اور سماجی روایات جتنی گہری ہوں وہاں جان سے خواہ اپنی ہو یا کسی اور کی محبت پیدا ہونا فطری امر ہوتا ہے لیکن حریت فکر اور حریت عمل کی بات ہوگی تو پھر جان دینا اور جان لینا حالات کا فطری تقاضا ہوتا ہے او رکسی فرد کو اورسماج کو اس بڑی تبدیلی سے آشنا کرنے کے لئے، لوگوں کو اس بڑی تبدیلی کے لئے ذہنی اور عملی طور پر آمادہ کرنے کے لئے قیادت کو قدم قدم پر بکھر کر سمٹنا، سمٹ کر بکھرنا، ٹوٹ کر جڑنا اور جڑ کر ٹوٹنا، لمحہ بہ لمحہ جینا اور مرنا پڑتا ہے۔ ہر انقلابی کی طرح کشمیر میں ذہن سازی کے عمل میں مقبول بٹ کو ان ہی حالات سے گزرنا پڑا۔ مقبول بٹ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز جماعت اسلامی کے تحت چلنے والے ایک تعلیمی ادارے میں درس و تدریس سے کیا۔ مقبول بٹ سیماب صفت شخصیت تھے اور کم وقت میں بہت کچھ کر گزرنے کا سودا ان کے سر میں سمائے ہوئے تھا جس کی بنا پر انہوں نے اپنی جدوجہد کے لئے نئے ڈھب تلاش کرنا شروع کیے۔ مقبول بٹ نے جس عہد میں آزادیٔ کشمیر کا خواب دیکھا وہ یاسر عرفات کا عہد تھا۔ عمر مختار اور بن بااللہ کا زمانہ تھا۔ فلسطین لیبیا اور الجزائر کے ان ہیروز نے مقبول بٹ کے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑے۔ سو مقبول بٹ نے مسلم دنیا کی ان تاریخ ساز شخصیات کو اپنے رول ماڈل کے طور پر پسند کیا۔ انہوں نے الجزائر کے نیشنل لبریشن فرنٹ اور پی ایل او کی طرز پر مسلح جدوجہد کے لئے نیشنل لبریشن فرنٹ کے نام سے تنظیم قائم کی۔ اسی بینر تلے انہوں نے کنٹرول لائن عبور کی اور ایک کاروائی میں بھارتی فوجی انسپکٹر امر چند کو یرغمال بنالیا اور انسپکٹر امر چند نے اس دوران بھاگنے کی کوشش کی تو مقبول بٹ کے ایک ساتھی اورنگزیب نے بھاگتے ہوئے امرچند کو گولیوں سے بھون ڈالا یہاں بھارتی پولیس نے مقبول بٹ اور ان کے ساتھیوں کے خلاف امر چند کے قتل کا مقدمہ درج کیا اسی دوران بھارتی پولیس نے اس گھر کا محاصرہ کیا جہاں مقبول بٹ اور ان کے ساتھی پناہ گزین تھے۔ یہاں بھارتی فوج اورمقبول بٹ کے ساتھیوں کے درمیان مسلح تصادم ہوا اور اورنگ زیب اور ان کے دو ساتھی شہید ہوئے جب کہ مقبول بٹ کو گرفتار کرکے سرینگر جیل بھیج دیا گیا ۔اس دوران بھارت نے مقبول بٹ کو انسپکٹر امر چند کے قتل کے جرم میں سزائے موت سنادی۔ دسمبر1966ء میں زندان کی فصیلیں مقبول بٹ کے جذبوں، ولولوں اور جرأتوں کے آگے ہار گئیں اور مقبول بٹ جیل توڑ کر فرار ہونے میں کامیاب ہوئے وہ پندرہ دن کا جانگسل سفر طے کرنے کے بعد بیس کیمپ پہنچے تو جہاں ہیرو کا پھولوں کے ہار لئے استقبال کرنا تھا وہاں ہتھکڑیاں منتظر تھیں اور سرینگر کے قیدی کا مقدر مظفرآباد میں بھی قیدی ہی ٹھہرا۔ مارچ 1969ء میں قید سے آزادی نصیب ہوئی تو مقبول بٹ نے دوبارہ ہاتھوںکو علم بنا دیا ایک روز وہ اپنوں کے ہاتھوں لگائے گئے زخموں، چرکوں اور تیروں کو فراموش کرکے ایک بار پھر کنٹرول لائن عبور کرگئے،ایک ایسی سرزمین جہاں انہیں سزائے موت دی جا چکی تھی اور موت ان کا تعاقب کررہی تھی محمد مقبول بٹ نے اسی سرزمین میں پہنچ کر موت کا تعاقب شروع کردیا۔بالآخر ایک معرکہ آرائی کے بعد وہ دوبارہ گرفتار کئے گئے۔بھارتی سپریم کورٹ نے ان کے سزائے موت کا حکم بحال کردیا ۔1984ء میں برطانیہ میں ایک بھارتی سفارت کار مہاترے قتل ہوگیا تو بھارتی صدر ذیل سنگھ اور وزیر اعظم اندراگاندھی نے طیش میں آکر ان کے سزائے موت پر عمل درآمد کا اعلان کیا اس وقت حکومت پاکستا ن بھارتی حکومت کے ساتھ محمد مقبول بٹ کی رہائی کیلئے بات چیت کررہی تھی اور مقبول بٹ کی رہائی کے بدلے جاسوسی کے الزام میں گرفتار بھارتی فوج کے میجر کی رہائی کی پیش کش کر چکی تھی لیکن مہاترے کے اغوا اور قتل نے ڈپلومیسی کی ساری بساط الٹ دی ۔11فروری 1984ء کو کشمیر کا ایک روشن چراغ تہاڑ جیل کی سلاخوں کے پیچھے اس سوچ کے ساتھ بجھا دیا گیا کہ اب کشمیر کی آزادی کی بات کرنے والا کوئی نہیں رہے گالیکن اس کے کچھ عرصہ بعد جوش جذبات اور انتقام کی آگ میں جل کر مقبول بٹ کو سزائے موت دینے والی اندراگاندھی بدترین موت کا شکار ہوگئی اور اس کے محافظ ہی قاتل بن گئے۔

مقبول بٹ کی شہادت کے خلاف آزاد کشمیر پاکستان اور دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں نے زبردست احتجاج کیا ۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں اکا دکا مظاہرے ہوئے۔جناب عبدالغنی لون کی طرف سے ہڑتال کی کال دی گئی جو ناکام ہوئی ،مقبوضہ کشمیر کے صحافی دانش کشمیری نے ہفتہ روزہ ’’چٹان‘‘سرینگر میں لکھا کہ لوگ نجی محفلوں میں بھی اس واقعے کے بارے میں بات کرتے ہوئے گھبراتے تھے۔

وقت نے ثابت کیا کہ یہ طوفان سے پہلے جیسی خاموشی تھی ۔مقبول بٹ کی شہادت کے بعد کشمیریوں کی سیاسی بے چینی بڑھتی چلی گئی اور علامتی طورپر ہی سہی مقبول بٹ کے یوم شہادت پر ہڑتال اور احتجاج کاسلسلہ چل پڑا ۔مقبول بٹ کی شہادت کے ٹھیک چار برس بعد کشمیر اس انقلاب آفرین جدوجہد سے آشنا ہوا جس خواب کی تکمیل کیلئے محمد مقبول بٹ نے پرصعوبت راہ کا انتخاب کیا تھا۔31جولائی 1988ء کو سرینگر سینٹرل ٹیلی گراف آفس پر ہونے والے بم دھماکے سے کشمیر کی سیاسی رُت اور کشمیریوں کے تیورو مزاج بدلنے کا جو عمل شروع ہواتھا ایک مقبولِ عام تحریک آزادی پر منتج ہوا ۔بھارتی قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد کا نعرہ پوری قوم کا اسلوب اور طرز زندگی بن گیا ۔کشمیری اس ادا سے اُٹھ کھڑے ہوئے کہ ایک زمانہ حیران وششدررہ گیا ۔خاک نشینوں کے اُٹھ بیٹھنے ،تخت گرانے اور تاج اچھالنے کی سب محاوراتی اور تصوراتی باتیں کشمیرمیں جیتی جاگتی حقیقتوں کا روپ اختیار کرگئیں ۔اس تحریک کو معمولی سی بیرونی فوجی کمک ملتی توکشمیر ۱۹۹۰ء کی سول نافرمانی میں ہی بھارتی قبضے سے آزادہوجاتا اور یہ بات کشمیر کے جلاد صفت گورنر جگ موہن نے اپنی کتاب My Frozen Turbulence In Kashmirمیں تسلیم کی کہ1990ء میں کشمیریوں کی بغاوت اور سول نافرمانی تحریک میں اتنی جان اور شدت تھی کہ ـ’’دہلی کی معمولی سی غلطی کشمیر کو بھارت کیلئے مشرقی پاکستان بناسکتی تھی۔میں سخت گیر اقدامات کرکے کشمیر کو بھارت کیلئے بچا کر واپس لایا ۔‘‘جگ موہن نے یہ بھی لکھا تھا کہ’’ اس وقت عملاً کشمیر پر پاکستانی پرچم لہرایا دیا گیا تھا۔‘‘

یہ کشمیریوں کا کسی عسکری تحریک سے بے مثال ’’رومانس ‘‘تھا جس پر عالمی حالات اورعلاقے میں درآنے والی جغرافیائی تبدیلیوں مشرقی یورپ ،وسطی ایشیا ،انقلاب ایران اورافغان جہاد جیسی تحریکوں کا اثر بھی تھا جس زاویے اور رخ سے انقلاب کی تعریف کی جائے کشمیریوں کی بیداری کی اس لہر کو انقلاب کے سوا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا ۔محمد مقبول بٹ بلاشبہ اس انقلاب کا مرکزی کردار تھے۔فرق صرف اتنا ہے کہ ان کی قربانی شخصیت اور فلسفہ نے ان کی شہادت کے بعد مقبولیت حاصل کی اور تاریخ ساز جدوجہد میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے شہادت پیش کی۔ہزاروں افراد نے مختلف طریقوں سے اس شہادت گاہ میں اپناحصہ ڈالا اور مسلسل ایک قوم اسی متعین کردہ راہ پر اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔مقبول بٹ کے بعد ایک اور شخص نے تہاڑ جیل کی کال کوٹھڑی میں تختہ ٔ دار کو چوم کر جدوجہد کوآگے بڑھایا ۔یہ شخص انہی سے متاثر بھی تھا اور اسی ادا سے مقتل کو چل دیا ۔یہ محمد افضل گورو تھے جو مقبول بٹ کی طرح انتقام گیری کو عدالتی فیصلے کا نام دے کر تختہ دار پر چڑھا دئیے اور عدالت نے برملا تسلیم کیا کہ یہ فیصلہ عوام کے ضمیر کو مطمئن کرنے کی خاطر کیا گیا ۔کئی سال بعد ایک جوان رعنا کے ہاتھ فضائوں میں بلند ہوئے اور پوری کشمیری قوم اس کی جانب دیوانہ وار لپک پڑی ۔اس نوخیز جوانی کا نام برہان وانی تھا جس کے نام کی گونج کشمیر کی وادیوں سے اقوام متحدہ کے ایوانوں تک سنائی دی۔یوں کشمیریوں کی کتابِ جہد کا ایک ورق برہان وانی کے نام سے اُلٹ کر رہ گیا ۔کچھ ہی وقت گزرا تو امتیاز عالم کو شہید کرکے دشمن نے اپنی آتش انتقام سرد کرنے کی کوشش کی ۔امتیاز عالم کے میدان عمل میں لگائے گئے گھائو بھرنے کے لئے اپنے عہد کے اس ناموراور دلیر کمانڈر کو نشانہ وار قتل کیا گیا مگر یہ خون بھی کسی نہ کسی انداز میں برطانیہ سے کینیٖڈا تک بول رہا ہے کیونکہ بھارت نے امتیاز عالم کو راہ سے ہٹانے کا طریقہ ان ملکوں میں استعمال کرنے کی کوشش کی اوراب عالمی سطح پر سبکی اور تنقید کا سامنا کررہا ہے ۔وقت کی ہوا اب اس کتاب کو ورق در ورق اُلٹتی ہی چلی جائے گی کسی ورق پر مقبول بٹ تو کسی پر برہان وانی،امتیاز عالم سمیت کوئی بھی عنوان ہو۔

ہاتھ کٹتے رہے مشعلیں تابندہ رہیں
رسم جو تم سے چلی باعث تقلید بنی
شب کے سفاک خداؤں کو خبر ہوکہ نہ ہو
جو کرن قتل ہوئی شعلہ خورشید بنی

سید عارف بہار

جناب سید عارف بہار آزاد کشمیر کے معروف صحافی دانشور اور مصنف ہیں۔کئی پاکستانی اخبارات اور عالمی شہرت یافتہ جرائدمیں لکھتے ہیں۔تحریک آزادی کشمیر کی ترجمانی کا الحمد للہ پورا حق ادا کر رہے ہیں ۔کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں