غازی اویس
اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں،اور جو کوئی اپنے گھر سے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نکل کھڑا ہوا۔پھر اسے موت نے آپکڑا تو بھی یقینا اس کا اجر اللہ تعالی کے ذمہ ثابت ہو گیا اور اللہ تعالی بڑا بخشنے والا،مہربان ہے۔ سورہ الحج کی آیت نمبر 58,59 میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے۔،اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی پھر وہ شہید کردیے گئے۔یا اپنی موت مرگئے۔اللہ تعالی انہیں بہترین رزق عطا فرمائے گا اور بے شک اللہ تعالی سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔انہیں اللہ تعالی ایسی جگہ پہنچائے گا کہ وہ اس سے راضی ہو جائیں گے۔بے شک اللہ علم اور بردباری والا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔،،تم اپنے اندر کن لوگوں کو شہید شمار کرتے ہو؟ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے عرض کیا جو اللہ کی راہ میں قتل کر دئیے جا ئیں،وہ شہید ہیں۔آپ نے فرمایا تب تو میری امت میں شہدا کم ہوں گے۔انہوں نے پوچھا پھر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون شہید ہیں؟ آپ نے فرمایا۔۔،جو اللہ کے راستے میں قتل کر دیا جائے وہ شہید ہے،جو اللہ تعالی کے راستے میں طبعی موت مر جائے وہ شہید ہے۔ جو طاعون کی بیماری میں فوت ہو جائے وہ شہید ہے،جو پیٹ کی بیماری سے مرجاے وہ شہید ہے اور جو ڈوب کر مر جائے وہ شہید ہے”۔
علامہ اقبال نے غازیوں اور شہداء کی کیا خوب ترجمانی کی ہے ۔
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

اسی جزبے کو سامنے رکھتے ہوئے مجاہدین اپنا گرم لہو بہاتے ہیں اپنا سب کچھ دا پر لگاتے ہیں۔ اسی جذبہ جہاد شوق شہادت کو لیکرحبیب اللہ راتھر عرف کمانڈر مسعود میدان جہاد پہنچتا ہے ۔ جذبہ جہاد و شوق شہادت کو لے کرعرصہ دراز تک مصروف عمل رہنے کے بعد بیس کیمپ تشریف لائے۔یہاں تنظیم کے مختلف کاموں میں شامل رہے۔ اللہ تعلی نے ان پر آزمائش ڈالی اور وہ اچانک کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوگئے،تین چار سال اس سخت تکلیف کے باوجود بھی آپ جہاد اور جہادی فکر ہی سے وابستہ رہے بالآخر اس موذی مرض کے ساتھ ہی آپ اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔آپ نے اپنے پیچھے دو بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی۔کمانڈر مسعود کپواڑہ کے علاقے ککروسہ سے تعلق رکھتے تھے۔ میدان کارزارِ میں آپ کمانڈر مسعود کے لقب سے مشہور ہوئے،آپ اپنے مجاہد ساتھیوں کے ہمراہ ہر جگہ غاصب بھارتی فوج پر قہر بن کر ٹوٹتے رہے، شہدائے کشمیر کے ان عظیم سپوتوں کا خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کے مشن کو ہر حال میں زندہ رکھیں انہوں نے حق کی سربلندی اور اپنے وطن عزیز جموں و کشمیر کی ظالم و غاصب بھارتی استعمار سے خلاصی کے لئے اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کئے،بلاشبہ کشمیری عوام شہدا کی ان قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔اور وہ ان کا عظیم پورا کرنے کے لیے اپنا تن من دھن نچھاور کرتے رہیں گے اور بھارتی استعمار انشا اللہ انجام بد سے دو چار ہونگے ۔۔ ۔۔۔ چہرے پر رعب اور رونق کی آمیزش۔۔۔ دراز قامت۔ وہ پہلی ہی نظر میں ہی مجھے کسی اور دنیا کا باسی نظر آیا۔چند برس قبل لاہور جماعت اسلامی کے اجتماع عام میں میں نے کمانڈر مسعود کوتحریکی شعور اور تحریک آزادی کی پر پیچ راہوں کا شناور پایا۔طنز ومزاح سے آراستہ شخصیت کے مالک تھے ۔۔۔یاسین چارلی اور شیخ محمد امین کہتے ہیں کہ مسعود صاحب کمال شخصیت کے مالک تھے کپواڑہ ککروسہ سے تعلق تھا مگر جو کشمیری نوجوان جس علاقے سے تعلق رکھتا تھا انہیں اپنا غمگسار اور ہم خیال سمجھتا تھا،تحریک آزادی کی کٹھن راہوں میں اپنی اور اپنے عزیزواقارب کی قربانی دے کر اپنے رب کے حضور پہنچ گئے: مرحوم کمانڈر مسعود کے بارے میں ان کے لخت جگر کہتے ہیں۔،کہ مرحوم والد نے تحریک آزادی میں ان گنت مصائب وآلام جھیلے۔ان کے بڑے بھائی غلام نبی راتھر نے خاندان کے آٹھ افراد سمیت جام شہادت نوش کیا ایسے حالات میں بھی والد مرحوم کے حوصلے پست نہ ہوے ۔بلکہ وہ عزم و ہمت کا پیکر بنے رہے اور پہلے سے زیادہ استقامت کا مظاہرہ کرتے رہے اور جزبہ جہاد سے سرشار رہے، 2اگست 2018ایک موذی مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے کوچ کرگئے،اللہ تعالی مرحوم سمیت تمام شہدا کی مغفرت فرمائے آمین۔ دعا ہے کہ شہید کمانڈر مسعود کے وارثین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین
انتقال پرُ ملال
(۱)شبنم بھائی اسلام آباد کے (والد صاحب) مقبوضہ کشمیر میں وفات پا چکے (۲)شاہدبھائی شوپیان چکورا کے (والد صاحب) مقبوضہ کشمیر میں وفات پا چکے
قارئین سے گزارش ہے کہ مرحومین کے لئے خصوصی دعا فرمائے