شیخ محمد امین
نائن الیون کو بہانہ بنا کر اسلام دشمن طاقتوں نے مسلمانوں کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ کا آغاز کیا
5اگست 2019کے بعد ریاست کوٹکڑوں میں تقسیم کرکے ٹارچر سیلوں میں تبدیل کیا گیا
الحمد للہ تحریک آزادی کشمیر درست سمت کی جانب گامزن ہے
اپنی طاقت کو مجتمع کرکے دشمن کے خلاف عسکری کارروائیوں کوبڑھانا اور جاری رکھنا وقت کا تقاضا ہے
اقوام متحدہ سفاک اور مسلم دشمن ممالک کی لونڈی ثابت ہواہے
ان شا ء اللہ قابض قوتوں کو مقبوضہ جموں کشمیر کی سرزمین سے نکلنے پر مجبور کردیں گے
شیخ جمیل الرحمان دامت برکاتہم کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ سے ہے ۔ڈگری کالج پلوامہ سے گریجویشن کی ہے۔ مزید تعلیم کیلئے کشمیر یونیور سٹی میں داخلہ لیا تھا لیکن جب قوم نے پکارا تو لبیک کہہ کے قابض قوتوں کے خلاف مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔میدان کارزار میں لوہا منوایا جس کے اعتراف میں انہیں تنظیم تحریک المجاہدین جموں و کشمیر کا سالار بنایا گیا۔آزادی کی جدوجہد میں ہر آزمائش کا بھر پور سامنا کیا۔۔ آج کل تحریک المجاہدین جموں و کشمیر کے سربراہ اور متحدہ جہاد کونسل کے سیکرٹری جنرل ہیں ۔متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین احمد کے معتمد ترین ساتھیوں میں شمار کئے جاتے ہیں ۔ ہماری دعوت پر ماہنامہ کشمیر الیوم کے دفتر تشریف لائے ۔ان سے تحریک آزادی کشمیر کے حال اور مستقبل کے حوالے سے گفتگو ہوئی ۔من و عن پیش خد مت ہے۔۔۔۔۔۔۔
(شیخ محمد امین،فاروق احمد ،شہباز بڈ گامی ،شبیر احمد )
سوال :آپ کب مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے خلاف شروع ہونے والی جدوجہد کا حصہ بنے اور پہلے پہل کس تنظیم کیساتھ وابستگی اختیار کرلی
جواب: مجھ سمیت میرے کئی ساتھی اور دوست بھارتی غاصبانہ اور جابرانہ قبضے کے خلاف 1987 سے ہی کالج میںطلبہ کی ذہن سازی کررہے تھے ۔1989 میں جبکہ عسکری جدوجہد کا آغاز ہوا تو ان تمام دوستوں کے ساتھ ہی میں بھی الحمد للہ اس میں شامل ہوا ۔1990 مارچ میں حزب المجاہدین کے گروپ کے ساتھ خونی لکیر عبور کرکے آزاد کشمیر کی سرزمین پر پائوں رکھاتب سے آج تک کئی مراحل سے گذرکر الحمداللہ ثابت قدم ہوں۔
سوال :آپ موجودہ تحریک آزادی کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں۔کیا تحریک آزادی کشمیر درست سمت کی جانب گامزن ہے یا اسے مزید کسی نئی ڈائریکشن کی ضرورت ہے؟
جواب:ہر تحریک میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں ۔حالات کے ساتھ ساتھ حکمت عملی میں بھی تبدیلیاں لائی جاتی ہیں ،لیکن موقف اور منزل میں کوئی کمپرومائز نہیں ہونا چائیے ۔الحمد للہ تحریک آزادی کشمیر درست سمت کی جانب گامزن ہے ۔کسی نئی ڈائریکشن کی ضرورت نہیں۔الحمداللہ MJC کی تمام اکائیاں اپنی عسکری صلاحیتوں سمیت مستعدی کیساتھ کھڑی ہیں ۔ہاں عسکری محاذ کو مزید مضبوط بنانے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔

سوال :آپ 05 اگست 2019 میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں کیا کشمیری عوام نے اس بھارتی اقدام کو تسلیم کیا ہے؟
جواب: 5 اگست 2019 میں دس لاکھ سے زائد قابض بھارتی ا فواج نے مقبوضہ جموں و کشمیر میںجو جبریت اور سفاکی کا المناک ماحول پیدا کیا چشم فلک نے آج تک نہیںدیکھا ہوگا۔کشمیری عوام تب سے آج تک سکتے میں ہیں۔ ریاست کوٹکڑوں میں تقسیم کرکے ٹارچر سیلوں میں تبدیل کیا گیا ہے۔حال یہ ہے کہ اتنی بڑی فوجی جارحیت کے خلاف جس نے بھی زبان کھولی اس کی زبان بالجبر بند کردی گئی،جس نے قلم سے ظلم لکھنے کی کوشش کی اس کے ہاتھ سے قلم چھیناگیا ،جس نے باہر آکر روڑ پر احتجاج کرنے کی کوشش کی ہے اس کو راتوں رات جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا اور پہنچایا جارہا ہے۔دشمن کی ریشہ دوانیاں اور اپنوں کی کمزور پالیسیاں اگر چہ اعصاب شکن ہیں مگر ہمیں گھبرانے اور دلبرداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔اللہ کی مدد اور نصرت ان شااللہ ہمارے ساتھ ہے ۔ اس وقت رجوع الی اللہ کی اشد ضرورت ہے ۔
سوال :عالمی سطح پر یہ رائے دن بدن بڑی شدت کیساتھ سامنے آرہی ہے کہ عسکری تحریک نے اپنا کردار نبھایا ہے۔کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟
جواب:جو یہ سمجھتے ہیں عسکریت کا اب کوئی کردار ممکن نہیں وہ ضرور کسی غلط فہمی کے شکار ہیں۔عالمی سطح پر جن طاقتوں کا سکہ رائج ہے وہ اپنے مقاصد کیلئے ہر ایک طریقہ استعمال کرتے ہیں لیکن دیگر اقوام با لخصوص مسلمانوں کیلئے ان کے پیمانے مختلف ہیں ۔ وہ طاقتیں اسلام دشمن اور مسلم کش ہیں۔فلسطین کے نہتے مسلمانوں پر ،خواتین اور معصوم بچوں پر اسرائیل نے جو قہر ڈھایا ہے ،کس طرح بچوں کے چیتھڑے ہو امیں تحلیل کئے جارہے ہیںشایدچشم فلک نے ایسا ظلم انسانی تاریخ میں اب تک نہیں دیکھا ہے ۔ غیر مسلموں کے دل بھی غزہ کے مسلمانوں کی آہ وبکا سے پارہ پارہ ہو رہے ہیں۔لیکن یہ طاقتیں کھلم کھلا ظالم کے ساتھ کھڑی ہیں۔5 اگست 2019 ۔۔ پورے ایک سال تک مقبوضہ کشمیر کی گلی کوچوں میںبھارتی درندہ صفت ا فواج کے ساتھ ساتھ آوارہ کتوں کا بھی راج تھا۔کسی بھی کشمیری کو باہر نکلنے کی اجازت تک نہیںتھی۔لیکن کسی بھی طاقتور نے زبان تک نہیں کھولی ۔مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریتی تناسب کو اقلیت میں بدلنا اور شعائر اسلام کو ختم کرکے ہندوراج قائم کرنا ہندوتوا حکومت کا ایجنڈا ہے ۔سرکاری سطح پر انتظامی امور چلانے والے تمام تحریک پسند مسلمان یاغیر مسلم آفیسرز کو مختلف بہانوں سے فارغ کرکے غیر ریاستی بی جے پی کے حامیوں اور بی جے پی سے وابستہ ہندو انتہا پسندوں کو مسلط کرکے انتظامی امورسونپ دیئے گئے ہیں۔ کشمیری عوام تو کیا ان کے زرخرید ایجنٹ بھی جنہوں نے شہداء کے خون سے غداری کرکے عیاشی کی زندگی گزاری ہے آج وہ بھی مودی حکومت کے جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر ماتم کناںہیں۔اس سب کا علاج مزاحمت ہے ۔
سوال :کہا جاتا ہے کہ 9/11 کے واقعے نے پوری دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے جس کے بعد پرامن جدوجہد کرنے والوں کے گرد شکنجہ کسا جاچکا ہے ۔۔عسکری جدوجہد کرنے والوں کی تو اس صورتحال میں کوئی جگہ یا سپیس نہیں بنتی۔آپ اس ساری صورتحال کو کس نظر اور تناظر میں دیکھتے ہیں۔
جواب:ماضی میں افغان طالبان کی عسکری صلاحیتوں سے امریکہ اور اس کے اتحادی پہلے سے خوف زدہ تھے اسی لیے طالبان کو سیاسی اور سفارتی سطح پر بات چیت کی دعوت دی گئی ۔طالبان امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے ان طاقتوں کی چالوں کو بھانپ گئے تھے۔ ان کے جال میں پھنسنے کے بجائے انہوں نے اپنی عسکری طاقت کو مزید بڑھایا اور الحمداللہ۔۔۔ اللہ نے فتح مبین سے نوازا۔ہمارے لئے بھی یہ سبق ہے مایوسی اور بزدلی کے بجائے اپنی طاقت کو مجتمع کرکے دشمن کے خلاف عسکری کارروائیوں کوبڑھانا اور جاری رکھنا وقت کا تقاضا ہے۔ نائن الیون کو بہانہ بنا کر اسلام دشمن طاقتوں نے مسلمانوں کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ کا آغاز کیا ۔مسلمان یا مسلم ممالک کو صفحہ ہستی سے مٹانے یا غلام بنانے کی بھر پور مہم چلائی گئی جو اس وقت بھی جاری ہے ۔مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے عیسائیوں کو ابھارا اور چند مہینوں کے شور شرابے کے بعد الگ کیا گیا۔اس لئے ان طاقتوں سے کوئی بھی مسلمان یا مسلم ممالک امیدیں وابستہ نہ رکھیں ۔ بلکہ ان کی چودھراہٹ توڑنے کے لئے دوسرے اتحادی اور مسلم ممالک کے ساتھ الگ بلاک بناکر مظلوموں کی امید بنیں ۔

سوال :جناب حالیہ ایام میں مقبوضہ جموں وکشمیر کے طول عرض یعنی جموں سے لیکر کپواڑہ اور اسلام آباد تک بھارتی افواج پر نپے تلے حملے کرکے اس سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان سے دوچار کیا گیا۔کیا عسکری تحریک میں ایک نئی روح پھونکنے یا دوسرے الفاظ میں کیا یہ پالیسی شفٹ ہے؟
جواب:حالیہ ایام میں جموں اور وادی کے مختلف اضلاع میں مجاہدین کے حملوں سے دشمن حواس باختہ ہے اور اسکی نیندیں اُڑ گئی ہیں۔مجاہدین کے یہ حملے بھارتی حکومت کے ان دعوئوں کا جواب ہے کہ عسکریت اب ختم ہوچکی ہے ۔اگرچہ یہ کوئی بڑا بدلائو نہیں ہے لیکن دشمن کو یہ بات بتلادی گئی کہ مجاہدین کسی بھی وقت کسی بھی جگہ حملہ کرسکتے ہیں۔یہ MJC کی عسکری پالیسی ہے ۔مجاہدین تاک میں بیٹھے ہیں موقع ملتے ہی دشمن پر وار کرتے ہیں۔

سوال :مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق مختلف آراء سامنے آرہی ہیں حالانکہ اقوام متحدہ کی قراردادیں اس پر موجود ہیں ۔آپ اس ساری بحث میں سے مسئلہ کشمیر کیلئے کون سا حل تجویز کرتے ہیں؟
جواب: اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے اگر انصاف اور عدل پر مبنی فیصلے ہوتے تو مظلوموں کو اس ادارے سے امیدیں وابستہ رہتیں لیکن وہ سفاک اور مسلم دشمن ممالک کی ایک لونڈی ثابت ہوئی ہے ۔ان حالات میں اس فورم سے امیدیں نہیں رکھی جاسکتی ہیں کہ وہ کوئی کردار ادا کرسکتا ہے ۔جموں وکشمیر کے عوام کو چاہیے کہ وہ ان بتوں سے اپنی امیدیں توڑ دیں اور اللہ کے ساتھ امیدیں وابستہ رکھیں اور آپس میں مل جل کر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف ہر سطح پر خصوصاََ عسکری سطح پر جد وجہد جاری رکھتے ہوئے آگے بڑھیں۔ان شا ء اللہ ہم قابض قوتوں کو نکلنے پر مجبور کردیں گے ۔

سوال :بھارت نے 05 اگست 2019 کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر میں نت نئے قوانین متعارف کرائے ہیں جن کا مقصد ریاست کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنا ہے۔ آپ ان بھارتی اقدامات کے سدباب کیلئے کیا جوابی اقدامات کررہے ہیں۔
جواب:بھارت اپنے تمام اوچھے ہتھکنڈے آزما چکا ہے ۔مذید اور بھی آزمائے کشمیری عوام کے صبر واستقلال میں کوئی کمی نہیں آسکتی ہے۔اور نہ ہی کسی غیر ریاستی باشندے کو کشمیر کی آزاد فضائوں میں بسنے کی اجازت دیں گے۔
سوال :پاکستان مسئلہ کشمیر کا نہ صرف فریق بلکہ اہل کشمیر کا وکیل بھی ہے۔کیا آپ مملکت خداداد کی موجودہ کشمیر پالیسی سے مطمئن ہیں یا اس سلسلے میں مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے؟
جواب: کشمیر پاکستان کے وجود کا حصہ ہے اس کے بغیر پاکستان نامکمل ہے ۔جغرافیائی لحاظ سے ،معاشی لحاظ سے اور مذہبی لحاظ سے کشمیر پاکستان کے دل کے ساتھ جڑا ہوا ہے اس کو اگر پاکستان سے الگ کیا جائے تو پاکستان کا مستقبل انتہائی بھیانک ہوگا۔اگرچہ پاکستان میں ایجنٹوں کے ذریعے کشمیری عوام کو مایوس کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں ۔ لیکن محب وطن صاحب اقتدار کو اس حساس نوعیت کے مسئلے کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔بلاشبہ پاکستان معاشی مشکلات کا شکار ہے لیکن اس طرح کے حالات ہمیشہ نہیں رہتے ہیں ۔حالات بدلنے میں وقت نہیں لگتا ۔کامیابی ہمیشہ ایمان والوں کی ہے ۔جنرل حمید گل ؒ کی بات ابھی بھی خلاوں میں گونجتی ہے “یادرکھو!!! پاکستان اور بھارت۔۔۔ ان دونوں ممالک میں سے صرف ایک نے ہی رہنا ہے۔۔کیونکہ دشمنی ازلی ہے کسی بھی قیمت پر ختم نہیں ہوسکتی ۔ دونوں میںسے جو اپنے آپ کو ہر لحاظ سے مضبوط بناتا ہے وہی رہے گا۔اور جنوبی ایشیا میں وہی سلطان ہوگا”۔پاکستان کی سیاسی یا عسکری قیادت کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی وقت جنگ چھڑ سکتی ہے۔اس صورت میں ہزاروں مجاہدین پاک افواج کے شانہ بشانہ لڑیںگے اس لئے پاکستانی قیادت کو دوراندیشی کا مظاہرہ کرکے اپنی اساس کی رکھوالی کرنی چاہیے اور کشمیر میں تحریک آزادی کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے عسکری محاذ کو مضبوط سے مضبوط تر بنانا چائیے۔
سوال :ماہنامہ مجلہ کشمیر الیوم کے قارئین اور اہل کشمیر کے نام کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں
جواب :کشمیرالیوم جو شیخ محمد امین حفظ اللہ تعالیٰ اور رفقاء کار کی انتھک محنتوں اور کاوشوں سے مسئلہ کشمیر کی ایک توانا آواز ہے۔ رکاوٹوں اور دشواریوں کے باوجود الحمداللہ پورے شدومد کے ساتھ جاری ہے ۔ یہ مجلہ اس وقت کشمیری عوام کی امنگوں اور امیدوں کا ترجمان ہے ۔اللہ پاک شیخ امین صاحب اور ان کے رفقاء کو اجر عظیم عطا فرمائے۔وطن عزیز کے غیور بھائیوں اور بہنوں سے گزارش کرتا ہوں کہ دشمن کے بچھائے ہوئے جالوں سے خبردار رہیں ۔ظلم و ستم کے اندھیروں سے دلبراشتہ اور خوف زدہ نہ ہوں ۔اندھیری رات کتنی بھی گہری کیوں نہ ہو صبح صادق کی نوید سنا دیتی ہے ۔ان شااللہ آپ کی استقامت بہادری اور ثابت قدمی دشمن کو وطن عزیز چھوڑنے پر مجبور کردے گی ۔ان شااللہ وہ وقت دور نہیں جب کشمیر کی فضائوں میں آزادی کے ترانے سنائی دیں گے۔
٭٭٭