
بزرگ رہنماشیخ عقیل الرحمان ایڈووکیٹ اس وقت جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر و گلگت بلتستان کے قائم مقام امیر ہیں۔بچپن سے ہی تحریک اسلامی کے مشن کے ساتھ جڑے رہے،ہمہ وقت کارکن کا کردار پوری دل جمعی سے نبھایا اور نبھارہے ہیں۔ جماعت اسلامی مظفر آبادشہر کے امیراور مرکزی نائب امیر جماعت اسلامی کے مناصب پر بھی فائز رہے۔اسلام کی سربلندی اور تحریک آزادی کشمیر کیلئے پوری زندگی وقف رکھی اور الحمد للہ اس پیرانہ سالی میں بھی بخوبی اپنا قائدانہ کردار ادا کررہے ہیں۔آزاد کشمیر کو حقیقی معنوں میں آزادی کا بیس کیمپ بنانے کے کوشاں ہیں اور اس سلسلے میں ہر ممکنہ کو ششوں میں مصروف ہیں۔پاکستان کی کشمیر پالیسی سے مطمئن نہیں اور اس کا ہر موقع پر برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔پچھلے دنوں ہمارے دفتر تشریف لائے۔موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے ان سے کشمیر کی موجودہ صورتحال،پاکستان اور عالمی اداروں کے کردار پر گفتگو کی جو انٹرویو کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ (شیخ محمد امین،اویس بلال)
س:جماعت اسلامی سے کب متاثر ہوئے اور رکن کب بنے؟
ج:1978ء میں جماعت اسلامی میں شامل ہوا اس سے قبل اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم تھا کالج یونین کا نائب صدر اور قائمقام صدر رہا ہوں۔اسی دوران میں جماعت اسلامی آزادجموں وکشمیر کے بانی امیر مولانا عبدالباری مرحوم نے مجھے جماعت اسلامی میں شامل کر لیا۔مولانا عبدالباری مرحوم مجھے مظفرآباد سے الیکشن لڑانا چاہتے تھے اس لیے زمانہ طالب علمی میں ہی جماعت اسلامی میں شامل کر لیا۔
س:جماعت اسلامی میں شامل ہونے پر آپ کے خاندان کا ردعمل کیا تھا؟
ج:میرے خاندان کے سربراہ پروفیسر شیخ خالد مرحوم پہلے سے ہی جماعت اسلامی سے وابستہ تھے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور صاحب فکر ہونے کے ساتھ ساتھ سیدمودودی ؒ کے لٹریچر کا مطالعہ کر چکے تھے اس لیے مجھے اپنے خاندان میں مزاحمت کی بجائے تعاون ملا۔
س:سید مودودی ؒ سے بالمشافہ ملاقات ہوئی؟
ج:جی یہ میرے لیے بڑی سعادت کی بات ہے کہ میری سید مودودی ؒ سے تین بار ملاقات ہوئی جب میں جامعہ پنجاب میں طالب علم تھاتو سید مودودی ؒ کی عصری محفل اچھرہ میں دوسری مرتبہ دفتر جماعت اسلامی میں اور تیسری مرتبہ منصورہ میں ملاقات ہوئی اسی طرح 1965ء کی جنگ میں سید مودودی ؒ مظفرآباد تشریف لائے تو ان کو قریب سے دیکھنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔

س:کیا موجودہ جماعت اسلامی اسی جماعت کا تسلسل ہے جس کی بنیادی سید مودودی ؒ نے ڈالی یا اس میں وقت کے ساتھ ساتھ کچھ بنیادی تبدیلیاں بھی آئی ہیں؟
ج:نظریاتی طور پر وہی جماعت اسلامی ہے جو سید مودودی ؒ نے فریضہ اقامت دین کے لیے قائم کی تھی البتہ فعالیت،یکسوئی،دعوتی اور تربیتی نظام متاثر ہوا ہے لیکن آج بھی وہ کردار پائے جارہے ہیں جو سید مودودی ؒ کے زمانے میں تھے۔
س:پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک اہم فریق ہونے کے ناطے جو اس کا کردار بنتا ہے کیا وہ کردار ادا کررہا ہے؟پاکستان کی کشمیر پالیسی سے متفق ہیں؟
ج:کشمیر کو بانی پاکستان نے پاکستان کی شہ رگ قراردیا پاکستانی حکمرانوں کو اپنی شہ رگ محفوظ بنانے اور اس کی آزادی کے لیے جو کردار ادا کرنا تھا وہ نہیں کیا۔ان کو کشمیرکی آزادی کے لیے ٹھوس پالیسی اور جامع حکمت عملی اختیار کرنی تھی جس کے نتیجے میں کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو منزل سے ہمکنار ہونا تھا وہ نہ بن سکی،کشمیریوں نے لازوال اور بے مثال قربانیاں پیش کی ہیں اور قربانیوں کا سلسلہ جاری ہے ان قربانیوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے حکومت پاکستان نے فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہے۔ محض زبانی جمع خرچ اور قراردادوں سے کشمیرکی آزادی ممکن نہیں ہے۔نریندرمودی نے جارحانہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے کشمیر کو اپنی یونین میں ضم کر لیا ہے۔مسلم تشخص کو ختم کیا جارہا ہے، مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے 45لاکھ سے زائد غیر ریاستی انتہا پسند ہندوؤں کو ڈومسائل جاری کیے جاچکے ہیں۔ ان اقدامات کے تدارک کے لیے جو قومی اور سفارتی سطح پر حکمت عملی حکومت پاکستان کی طرف سے سامنے آنی چاہیے تھی اس کا فقدان رہا اور سفارتی سطح پر بھی کمزوری دکھائی گئی۔ ہندوستان دنیا میں اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی سازش کررہا ہے جبکہ پاکستان کے حکمرانوں نے اپنی سچائی دنیا پر واضح کرنے میں تسائل سے کام لیا ہے۔ کشمیرکی آزادی کے لیے ٹھوس پالیسی اور جامع حکمت عملی مرتب کرنا ہو گی قائد اعظم کی کشمیرپالیسی کا احیا ء کرنا ہو گا۔کشمیری تکمیل پاکستان کی جنگ لڑرہے ہیں۔ہندوستان نے بنگلہ دیش میں پاکستان کے خلاف نفرت پیدا کر کے فوجی مداخلت کی اور پاکستان کو دولخت کردیا، پاکستانی حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ کشمیرکو آزاد کرا کر بنگلہ دیش کا بدلہ لیں۔ امام سید علی گیلانی ؒیہی کہتے کہتے دنیا سے رخصت ہو گئے کہ کشمیر قراردادوں سے نہیں جہاد سے آزاد ہو گا۔ہمارا مطالبہ ہے کہ پاکستان اپنے اصولی موقف کا احیاء کرے،مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے حل کیا جائے۔ پاکستان کے حکمرانوں کی موجودہ کشمیر پالیسی ابہام کا شکار ہے جس سے مقبوضہ کشمیر میں مایوسی کا پیغام جارہا ہے۔

س:مسئلہ کشمیر ایک چنگاری ہے جو کسی بھی ایک بڑے سانحے کی صورت اختیار کرسکتی ہے آپ اور آپ کی جماعت اس سانحے سے بچنے کے لیے کیا اقدامات کررہے ہیں؟
ج:مسئلہ کشمیر ایک سلگتی ہوئی چنگاری ہے جو کسی بھی وقت آتش فشاں بن کرپوری دنیا کے امن کو تباہ کرسکتی ہے۔ مسئلہ کشمیر چار ایٹمی طاقتوں کے درمیان مسئلہ ہے اگر اقوام عالم نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقدامات نہ کیے تو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایٹمی جنگ ہو گی جس سے کروڑوں انسان لقمہ اجل بن جائیں گے۔ عالمی برادری اپنے عہد کے مطابق کشمیریوں کو ان کا پیدائشی اور بنیادی حق،حق خودارادیت فراہم کرے ہندوستان کی قیادت نے بھی اقوام متحدہ میں جاکر یہ عہد کیا تھا کہ وہ کشمیریوں کو ان کا حق فراہم کرے گا یہی حق مانگنے پر کشمیریوں کا قتل عام کیاجارہا ہے۔5لاکھ کشمیری شہید کیے جاچکے ہیں اور شہادتوں کا یہ سلسلہ جاری ہے۔جماعت اسلامی عالمی امن کے ٹھیکیدروں سے یہ کہتی ہے کہ وہ نریندرمودی کو مظالم سے روکے اور کشمیریوں کو ان کا تسلیم شدہ حق دلائیں۔
س:نریندرمودی کے اقدامات کاتوڑ کس طرح کیا جاسکتا ہے؟
ج:نریندر مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اعلان کیا تھا کہ وہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرے گا وہ اپنے ایجنڈے کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے۔ مودی کے اقدامات کے جواب میں بیس کیمپ کی حکومت اور اسلام آباد کی حکومت کاؤنٹر روڈ میپ دینا تھا جس کا فقدان نظر آرہا ہے۔ نریندرمودی کے اقدامات کا تدارک نہ کیا گیا تو خطہ ایک بڑی جنگ کی لپیٹ میں آجائے گا۔اسلام آباد میں بیٹھے حکمران اس نزاکت کا ادارک کرتے ہوئے مودی کے اقدامات کے جواب میں کاؤنٹر روڈمیپ دیں۔

س:کشمیری عوام کی طویل جدوجہد بے مثال قربانیوں کے باوجود بظاہر کوئی کامیابی نظر نہیں آرہی اس کی وجہ کیا ہے؟
ج:کشمیریوں نے اللہ کے بھروسے پر اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کی اور بے مثال قربانیاں پیش کردی ہیں۔اب آزادی کب ملے گی یہ صرف اللہ جانتا ہے جن اقوام نے بھی آزادی کی منزل حاصل کی ہے انہوں نے طویل جدوجہد اور بے مثال قربانیاں پیش کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ قربانیوں کو رائیگان نہیں کرتے، شہداء کے مقدس لہو کے صدقے کشمیر ان شاء اللہ ضرور آزاد ہو گا، وقت کا تعین ہم نہیں کرسکتے یہ صرف اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ ہمارے ذمہ جدوجہد ہے ہم مایوس نہیں ہیں، کشمیری ضرور آزادی کا سانس لیں گے۔کشمیریوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہے۔ آزادکشمیر اور پاکستان کی عوام پشت پر ہیں، کشمیریوں کاخون رنگ لائے گا۔
طول شب فراق سے گھبرانہ اے جگر
ایسی بھی کوئی شب ہے جس کی سحر نہ ہو
س:زندگی کا کوئی خاص واقعہ جسے آپ بھول نہیں سکتے؟
ج:8اکتوبر2005ء کے زلزلے میں ہزاروں لوگ شہید ہو گئے۔ مظفرآباد شہر میں ہرطرف شہداء کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ میرا اکلوتا بیٹا جو ریڈ فاؤنڈیشن سکول میں زیر تعلیم تھا جب میں بیٹے کی خبر گیری کے لیے ریڈ فاؤنڈیشن سکول پہنچا تو دیکھا کہ سامنے میرے بیٹے کی لاش پڑی تھی۔ یہ میرے لیے ناقابل فراموش سانحہ ہے جس کو کبھی بھلا نہیں سکتا۔
س:بیس کیمپ کے حکمرانوں کے لیے آپ کا پیغام؟کیاکشمیر آزادہو گا آپ کو یقین ہے؟
ج:بیس کیمپ کے حکمرانوں کے لیے ہمارایہی پیغام ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ آزاد خطے کو تحریک آزادی کشمیر کا حقیقی بیس کیمپ بنائیں۔بجٹ کا 1.4فیصد آزادی کے لیے مختص کریں،اگر بیس کیمپ کے حکمرانوں حقیقی بیس کیمپ بنالیں تو ہم آزادی کاسفر 50فیصد طے کر لیں گے۔ بیس کیمپ کا نظریہ قائد اعظم کا تھا اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ یہاں سے ہو کر بقیہ کشمیرکی آزادی کے لیے جدوجہد کی جائے گی۔زبانی جمع خرچ سے کشمیرآزاد نہیں ہو گا بلکہ بیس کیمپ کے حکمرانوں کو حقیقی کردار اداکرنا ہو گا۔کشمیرکی آزادی کا مجھے اسی طرح یقین ہے جس طرح صبح سورج کے طلوع ہونے کا یقین ہے۔کشمیرکی آزادی کے لیے 5لاکھ مقدس شہداء کا خون رنگ لائے گا،کشمیر آزاد ہو گا۔
٭٭٭