28فروری2002ء جب گجرات میں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے اور بی جے پی،شیو سینا،بجرنگ دل کے کارکنوں نے ہزاروں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی، عفت مآب خواتین کی عصمت دری کی اورایک لاکھ لوگوں کو بے گھر کردیا تو نریندر مودی اس وقت اس سر زمین بے آئین کے وزیر اعلیٰ تھے۔ چشم دید گواہاں اور غیر جانبدارانہ ذرایع کے مطابق یہ سب کچھ اسی کی ہدایات اور ریاستی پولیس کی چھتر چھایا میں ہوا۔ اس ریاستی دھشت گردی کو سمجھنے کیلئے معروف دانشور اور مصنفہ ارن دھتی رائے کے قلم سے لکھا گیا صرف ایک واقعہ ہی کافی ہے۔ لکھتی ہیں کہ “احسان جعفری نامی ایک سابق ممبر اسمبلی تھا۔جس نے مودی کے خلاف الیکشن میں کھڑے ہونے کی گستاخی کی تھی۔اس کے گھر کا بیس ہزار لوگوں نے محاصرہ کیا۔اس نے مدد کیلئے دو سو کے قریب فون کالیں کی۔پولیس کی گا ڑیاں وہاں آئیں،لیکن کچھ کئے بغیر واپس چلی گئیں۔احسان جعفری کو مجبوراََ با ہر آناپڑا۔ اس کے گھر میں اس وقت بہت سارے لوگ پنا ہ لئے ہوئے تھے۔اس نے بلوائیوں کو کہا کہ جو کچھ کہنا ہے مجھے کہو،عورتوں اور پنا ہ گزینوں کو کچھ نہ کہو۔بلوائیوں نے اسے پکڑ لیا،اس کے ہاتھ کا ٹے،ٹانگیں کا ٹ دیں اوراسی حالت میں باقی جسم کو سارے علا قے میں گھسیٹے رہے اور آخر پر جلا کر راکھ میں تبدیل کردیا۔ کئی بلوائی گھر کے اندر داخل ہوئے،بچوں،جوانوں اور بزرگوں کو جو وہاں پناہ لئے ہوئے تھے قتل کیا گیا۔گھر میں موجود خواتین کو بے حرمتی کے بعد قتل کیا گیا۔مودی سے جب ان خونین واقعات کے بارے میں پوچھا گیا تو اس کا جواب تھا کہ ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے”۔نریندر مودی کا جواب اپنے نظریاتی رہنما اور سابق سربراہ ایم ایس گول والکر سے کچھ مختلف نہیں۔جس نے مسلمانوں کے وجود کو ہی منحوسیت سے جوڑ کر ان کے خلاف ہر محاذ پر جنگ جاری رکھنے کا نہ صرف مشورہ دیا ہے بلکہ اس پر فخر محسوس کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ” اس منحوس دن سے جب سے مسلمانوں نے ہندوستان میں قدم رکھا آج تک ہندو قوم ان کے خلاف بہادری سے جنگ کررہی ہے۔قومیت کا احساس جاگ رہا ہے۔ہندوستان میں ہندو رہتے ہیں اور ہندو رہنے چا ئیں۔ با قی سب غدار ہیں اور قومی مشن کے دشمن ہیں۔اور سادہ لفظوں میں احمق ہیں۔ہندوستان میں دوسری قومیں ہندو قوم کے ماتحت رہنی چا ئیں۔انہیں بغیر کوئی حق ما نگے،بغیر کوئی مراعات ما نگے،بغیر کوئی ترجیحی برتاو مانگے اگر رہنا ہے توکسی حد تک قبول ہے۔جرمنی نے یہودیوں سے ملک کو پاک کرکے دنیا کو حیران کردیا۔قومیت کا فخر وہاں پیدا کردیا گیاہے۔ہندوستان میں ہمارے لئے یہ بڑا اچھا سبق ہے”
8فروری 2022کو اگر مسکان نامی طالبہ پر کالج میں بی جے پی سے وابسطہ کارکنوں نے حملہ کیا،اسے دھمکانے اور حجاب اتارنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔مودی سرکار جس نظرئیے کی حامی ہے اس میں برہمن کے سوا ہر کوئی اچھوت ہے۔برہمن کی ملکیت ہے۔جہاں تک اس واقعے کا تعلق ہے تو صاف ظاہرہے کہ صرف حجاب نہیں بلکہ مسلمان نشانہ ہے۔پورے بھارت میں اسی اصول پر بہت پہلے سے عملدرآمد ہورہا تھا تاہم نریندر مودی جی کی قیادت میں اس میں تیزی آئی ہے۔۔ 2014سے اب تک گائے کی حفاظت کے نام پر 80کے قریب پر تشدد واقعات میں 50افراد ہلاک کئے جا چکے ہیں۔ پچھلے چار سالوں میں دہلی میں اورنگ زیب روڑ کا نام تبدیل ہوگیا ہے۔ گورکھپور کا اردو بازار، ہندو بازار، ہمایوں نگراب ہنومان نگر، اتر پردیش اور بہار کی سرحد پر تاریخی مغل سرائے شہر دین دیال اپدھائے نگر، مغل شہنشاہ اکبر کا بسایا ہوا الہ آباد اب پریاگ راج، فیض آباد ایودھیا، ہریانہ کا مصطفٰے آباد اب سرسوتی نگر ہوگیا ہے۔ احمد آباد کو اب کرناوتی نگر اور فیروز آباد کو چندرا نگر بنانے کی تیاریاں چل رہی ہیں۔متنازع ریاست جموں و کشمیر کو ضم کرکے،اس کے اکثریتی کردار کو ختم کرنے کے اقدامات پر تیزی سے کام جاری ہے۔مسلمانوں نے تقریباََ ایک ہزار سال تک اس ملک پر حکومت کی۔کہیں بھی یہ ثابت نہیں کہ غیر مسلموں کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا یا ان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔اگر ایسا کیا گیا ہوتا تو شاید ہی کوئی برہمن اس وقت اس خطہ ارض میں موجود ہوتا۔صرف 75سال اور کم ظرفی کی یہ انتہا۔۔۔بہرحال مشرک اپنی چالیں چلا رہے ہیں دھرتی کا رب اپنی چال چلا رہا ہے۔یہ لوگ اپنی تدبیروں میں لگے رہے ہیں۔اور وہ اپنی تدبیر کر رہا ہے۔۔یقیناََ رب کے فیصلوں کے مقابلے میں ان کے فیصلے،ان کے گلے کا پھندے بنیں گے۔تاریخ تو بے شمار مواقع پر یہ ثابت کرچکی ہے اور ان شا ء اللہ پھر ثابت کرے گی۔
٭٭٭