پروفیسر میاں عبدالمجید
گذشتہ سے پیوستہ
یوں فلسطین میں یہودیوں کو فوجی حوالے سے منظم اور مسلح کیا گیا اور ان کی دہشت گردانہ کارروائیوں سے نہتے عرب منتشر ہونے پر مجبور ہو گئے ۔ان کے خلاف شدید ظالمانہ کارروائیاں کی گئیں خود بیگن نے اپنی تصنیف The Revolt میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔ لکھتا ہے کہ بیگانہ تنظیم کے تعاون سے دیر یاسین گائوں پر قبضے کے بعد جو کچھ ہوا بہت ہی خوفناک تھا ۔254 مرد و خواتین اور بچے ذبح کر دئیے گئے ان کارروائیوں اور یہودیوں کی فلسطین میں آباد کاری کے نتیجہ میں تین لاکھ سے زائد عرب فلسطین چھوڑ گئے اور بے گھر ہو گئے جبکہ یہودیوں کی فلسطین میں آباد کاری کے نتیجے میں آبادی اب پانچ لاکھ ہو چکی تھی اور ان میں سے 70 ہزارمسلح تربیت یافتہ افراد تھے۔ یہودیوں کی اس جابرانہ قوت اور فلسطینی عربوں کی مظلومیت کا سب سے زیادہ ذمہ دار برطانیہ ہی تھا جس کے زیر سایہ صورتحال پروان چڑھی تھی جبکہ دیگر اتحادی قوتیں اور مجلس اقوام اس کی پشت پر تھی۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی( عصر حاضر میں امت مسلمہ کے مسائل اور ان کا حل صفحہ 157میںلکھتے ہیں کہ یہ یہود کی اتنی بڑی بے ایمانی تھی کہ ’’جب تک انگریز قوم اس دنیامیں موجود ہے وہ اپنی تاریخ پر سے اس کلنک کے ٹیکے کو مٹا نہ سکے گی ‘‘
دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں نے اتحادیوں کی بھر پور مالی مدد کی۔ ان کی افواج میں فوجی خدمات بھی سر انجام دیں ایک انگریز مورخ Desmand Crowley اپنی کتاب Background to current affairs The میں اعتراف کرتا ہے کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کی خدمت کے صلے میں یہودی قومی وطن بنایا گیا ۔ اب برطانیہ کے علاوہ امریکہ بھی ان کا سرپرست بن گیا، برطانیہ بغیر تقسیم فلسطین کے عربوں اور یہودیوں میں معاہدہ کرانے میں کوشاں تھا کہ امریکی صدر ٹرومین نے یہودیوں کے آباد کاری کے کوٹے میں اضافے کا مطالبہ کردیا جس پر یہودی رہنماوں کا رویہ سخت ہو گیا ۔مفاہمت کا عمل ٹوٹنے پر برطانیہ نے اعلان کیا کہ وہ 5 مئی 1948میں فلسطین سے بہرحال دستبردار ہو جائے گا۔اس اثناء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے نومبر 1947ء میںفلسطین کو عرب اور یہودی علاقوں میں تقسیم کرنے کی قراردداد منظور کی جس میں% 55علاقہ 33%یہودی آبادی کو اور 45%علاقہ 67%عرب آبادی کو دیا گیا۔جنگ عظیم اوّل کے وقت یہودی اور عرب آبادی کا تناسب 90.10 کا تھا ۔دوسری جنگ عظیم کے بعد یہودیوں کی آباد کاری اور عربوں کی قتل و غارت اور ملک بدری سے یہ تناسب 67.33کا ہو گیا تھا۔
تقسیم کی اس قرارداد کو مرحوم امین الحسینی مفتی اعظم فلسطین کی قیادت میں اعلیٰ کمیٹی نے مستردکر دیا ۔پوری مسلم دنیا میں اس پر شدید ردعمل ہو ا ۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیلی ریاست کے قیام کو عرب دنیا کے قلب میں خنجرپیوست کرنے سے تعبیر کیا ہے اور اپنے ایک بیان میں فرمایا ’’سنگین ترین تباہی اور ایسا کُشت و خون جس کی تاریخ میں نظیر نہیں اس اقدام کالازمی نتیجہ ہو گا ۔پاکستان کیلئے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ عربوں کو مکمل ترین مدد دے اور اس کو روکنے کیلئے ہر ممکن طریقہ بروئے کار لائے جو میری دانست میں انتہائی ظلم ہے‘‘۔ یہودیوں نے بھی اس تقسیم کو بھی قبول نہیں کیا البتہ وہ نہ صرف اپنے متعلقہ علاقے پر قابض ہوئے بلکہ مزید علاقوں پر بھی جارحیت کی اور چودہ مئی1948ء میں تل ابیب میں یہودیوں کی ’’عارضی کونسل‘‘National Provissional Council نے اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا اور اگلے ہی دن جنرل اسمبلی کو اقوم متحدہ کی رکنیت کے حصول کی درخواست بھی بھیج دی جو کہ اسرائیل کے نقشے کے بغیر تھی جسے کچھ توقف کے بعد اسی حالت میں منظور کر لیا گیا حالانکہ اسرائیل اقوام متحدہ کی قرارداد کو مسترد کر چکا تھا اور اس کانقشہ بھی لف نہ تھا۔


14/15 مئی1948ء کی درمیانی شب قائم ہونے والی اس ناجائز ریاست کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والوں میں امریکہ، برطانیہ اور روس شامل تھے۔ اسرائیل کے قیام کے اگلے ہی روز اس کی اپنے عرب ہمسایوں شام، لبنان، اردن اور مصر سے جنگ چھڑ گئی جس میں اسرائیل کامیاب رہا کیونکہ یہ برطانیہ کی زیر سر پرستی رہ کر مکمل طور مسلح اور منظم ا فواج کا حامل تھا جبکہ برطانیہ اورفرانس کے زیر قبضہ عرب ممالک کو ایسی صلاحیت نہ بخشی گئی تھی۔
برطانیہ کی رخصتی کے وقت فلسطینی عرب نہتے اور غیر منظم تھے اور ان کے ہاں مفتی امین الحسینی کی عرب ہائر کمیٹی ضرور موجود تھی جو محض عرضداشتیں مرتب کرنے اور عرب و عالمی رائے عامہ کو ان ناانصافیوں سے آگاہ کرنے کی حد متحرک تھی ۔ فلسطین کی آزادی کیلئے کام کرنے والی تنظیمیں کافی عرصے کے بعد تشکیل پائیں The Palistine National Libration Movement جسے عرف عام میں الفتح کا نام دیا جاتا ہے، 1957ء میں قائم ہوئی اور اسے فلسطین کی گوریلا تنظیموں میں اولیت کا شرف حاصل ہے۔ تنظیم آزادی فلسطین 1964ء میں قائم ہوئی لہٰذا اسرائیل کیلئے فلسطین میں اس کے قیام کے وقت کوئی چلینج موجود نہیں تھا۔
ا سرائیل کے قیام تک یہ سارے حقائق بتا رہے ہیں کہ اتحادی طاقتوں نے صلیبی جنگوں کے انتقام میں اپنے علاقائی مفادات اور عرب علاقوں کے وسائل پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے خود تخریب کاری اور دہشت گردی کی۔ عربوں کو خلافت عثمانیہ کے پارہ پارہ کرنے کیلئے استعمال کر کے اپنا محکوم بنایا اور دوستی کا حق اس طرح ادا کیا کہ مذہب کی بنیاد پر پوری دنیا سے لا کر یہودیوں کو ان کے وسط یعنی فلسطین میں آباد کر کے ان کی مضبوط قومی حکومت بنوائی۔اور فلسطینی عربوں کو جو کہ وہاں کے حقیقی باشندے تھے بے دست و پا کر دہشت گردی و غارت گری کا نشانہ بنوایا اور لاکھوں کی تعداد میں ملک بدری پر مجبور کیااور ایک ظالم جارح درندہ صفت قوم کو جو انبیاء تک قتل کرنے سے باز نہ رہی ان پر مسلط کر دیا۔ پھر بھی دعویٰ ہے کہ ہم امن ، انصاف ، سکیولر ازم ، جمہوریت اور رواداری کے چمپئین ہیں ۔اسرائیل کے قیام کے بعد عرب اسرائیل جنگوں میں یہودیوں کے ان آقائوں نے سیاسی اور فوجی حوالے سے اس کی کھل کر مدد کی۔ 1956ء کی جنگ تو اسرائیل نے فرانس اور برطانیہ کی ایما پر شروع کی کیونکہ یہ قوتیں ’’ نہر سویز‘‘کو قومیانے کے مصری اقدام کے خلاف تھیں۔ اس وقت کے برطانیہ کے وزیر خارجہ سلون لائینڈ نے اپنی کتاب ’’سویز 1956ء‘‘ میںکئی جگہ اعتراف کیا ہے کہ ان تینوں ممالک کے مشترکہ منصوبہ بندی کے تحت اسرائیل نے مصر کے خلاف جارحیت کی تھی ،بعد میں 31 اکتوبر ء کو تو فرانس اور برطانیہ نے باقاعدہ مصری مورچوں پر فضائی حملے شروع کر دیئے تھے اور جنگ میں براہ راست شامل ہو گئے تھے ۔1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے ارد گرد کے عرب ممالک کے بہت سے علاقوں کو ہڑپ کر لیا ،4 جولائی1967ء میںجنرل اسمبلی نے اپنے ہنگامی اجلاس میں اسرائیل پر زور دیا کہ وہ ایسا اقدام کرنے سے باز رہے جس سے بیت المقدس شہر کی حیثیت بدلنے کا امکان ہو اس کے باوجود اسرائیل نے نہ صرف بیت المقدس پر قبضہ کیا بلکہ اسے اپنا دارلحکومت بنانے کا اعلان بھی کیا۔
1973ء کی جنگ میں جب شام اور مصر نے اسرائیل سے اپنے مقبوضہ علاقے آزاد کرانے کیلئے ضر ب کاری لگائی تو اسرائیلی حکومت نے امریکہ کے نام پیغام میں لکھا کہ اگر مصر کی پیش قدمی اسی طرح جاری رہی تو اسرائیل کا وجودختم ہوجائے گا۔ موشے دایان کی حالت کا دی ٹائمز لندن مورخہ11 اکتوبر 1973 ء نے یوں تذکرہ کیا کہ وہ غیر ملکی نامہ نگاروں کے سامنے روتے روتے دھڑام سے زمین پر گر پڑا اور اس نے کہا کہ ’’اسرائیل میں اتنی بھی جان نہیںرہی کہ وہ مصریوں کو ایک انچ پیچھے ہٹا سکے اور اب تل ابیب کی سڑک کھلی پڑی ہے‘‘ایسے میں امریکی آقا نے جد ید ٹیکنالوجی سے اس کی بھر پور مدد کی۔ اپنے سیارچوں سے اسرائیل کو اہم اطلاعات دیں اور وہ جوابی حملہ کرنے میں کامیاب ہوگیا اور مصری فوجوں کی پیش قدمی رک گئی چنانچہ صدر سادات نے اپنی سوانح عمری In search of identity میں لکھا ہے کہ میں نے ایک زخمی دل سے جنگ بندی کا مطالبہ منظور کرلیاہے۔ میں اسرائیل سے قیامت کے دن تک لڑنے کو تیار ہوں خواہ کچھ بھی ہوجائے لیکن میں امریکہ سے نہیں لڑسکتا اس لڑائی میں ابتدائی کامیابی کا ایک سبب عرب اتحاد بھی تھا اور یہی وہ موقع تھا جب شاہ فیصل کی قیادت میں عربوں نے تیل کا ہتھیار استعمال کیا تھا۔1982 ء میں بیروت پر اسرائیلی حملہ اس وقت ہوا تھا جب عراق ایران جنگ جاری تھی۔ اسرائیل نے اس جنگ میں شام پر کاری ضرب لگائی جس کے بعد شامی ا فواج لڑائی سے باز رہی ۔دیگرعرب ممالک بھی خاموش رہے۔ اسرائیل نے اس جنگ میں60 ہزار فوجی اور500 ٹینک استعمال کیے۔اسرائیل کا کہنا تھا بیروت سے اسرائیلی علاقوں پر حملے ہوتے ہیں،اس لیے انہیں ہم پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں اس جنگ میں کم وبیش85 ہزار لبنانی اور فلسطینی کام آئے ، جن میں 99فیصد شہری،مرد ،خواتین اور بچے تھے۔ اس حملے میں بھی اسرائیل کو امریکہ کے وزیر خارجہ الیگزینڈر ہیگ کی آشیرباد حاصل تھی۔ سابق صدر جمی کارٹر نے کہا تھا غالباََ وزیر خارجہ ہیگ نے لبنان پر اسرائیل کے حملے کو سبز بتی دکھائی تھی ۔اسرائیلی وزیر خارجہ شمیر نے بعد میں اعتراف کیا کہ ہیگ کو ناصرف حملے کے منصوبے کا پہلے سے علم تھا بلکہ اس نے اس کی حمایت بھی کی تھی۔ ’’دی ٹائمز لندن 2 جولائی 1982 ء ‘‘
اس حملے کا فلسطینی رضاکاروں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا اور نہتے لوگوں نے ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔بیروت اور لبنان کے جنوبی علاقوں سے فلسطینی رضاکاروں کا انخلاء امریکی ایلچی فلپ حبیب کی کوششوں کا نتیجہ تھا ۔امریکہ نے اس انخلاء میں رضاکاروں کی بحفاظت روانگی اور فلسطینی مہاجر کیمپوں کے تحفظ کا ذمہ لیا تھا ۔مگر انخلاء کے چند دن بعد ہی دو مہاجر کیمپوں صابرہ اور شتیلا میں جو قیامت ڈھائی گئی وہ دنیا نے دیکھی ،جس میں ہزاروں مردوں ،بچوں اورعورتوں کا قتل عام ہوا۔
یہ ہے امن کے ٹھیکیداروں اور انسانیت کے علمبرداروں کا کردار اور فلسطین میں یہ تاریخ بار بار دہرائی جارہی ہے مگر اسرائیلی آقا اور امریکی مسلم دشمنی اور اپنے مفادات کی خاطر اسے لگام دینے کے بجائے برابر قوی کرتے چلے جارہے ہیں۔ایسے میں عرب لیگ اور او آئی سی جیسی مسلم تنظیمیں محض ہلکی پھلکی مذمتی قراردادیں پاس کرتی ہیں وہ بھی بڑی مشکل سے۔ ان کا اجلاس کیلئے اکٹھا ہونا ہی مشکل ہوتا ہے۔ عرب ممالک اور مسلم امہ خلفشار کا شکار ہے اور مغرب اور امریکہ کی سازشوں کے آگے بے بس ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویربنی ہوئی ہے۔عرب ممالک اسرائیل سے معاہدے کرکے اپنے آپ کو محفوظ سمجھ بیٹھے ہیں جیسے کیمپ ڈیوڈ سمجھوتہ ۔کچھ عرب ممالک نے اسرائیل سے خفیہ معاہدے بھی کر رکھے ہیں ۔اس سے بڑھ کے ایک اور المناک بات یہ ہے کہ عرب سربراہ احساس زیاں سے بھی محروم ہیں۔1982 ء کے مذکورہ بالا خونچکاں واقعہ کے چند ہی دن بعد فیض میں عرب سربراہوں کے اجلاس میں فہد منصوبے کی منظوری دی گئی جس میں اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کی بات تھی اور اس کانفرنس کی کامیابی کی خوشی میں عالم عرب کی بیس ہزار ناچنے گانے والیوںنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
ان حالات میں عرب ممالک میں یہودی اور عیسائی اقلیتیں پوری طرح مامون ہیں اور معمول کی بہترین زندگی گزار رہی ہیں ۔ کسی مسلمان یا عرب ملک کے غیر مسلم اس طرح سے مقید نہیں جس طرح غزہ میں فلسطینی اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں کشمیری اور کہیں ان کا ایسا قتل عام نہیں ہورہا جیسا فلسطینیوں اور کشمیریوں کا ہوا ۔کسی مسلمان ملک کی یہ مجال نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی دھجیاں بکھیرے اور اسرائیل کی طرح دندناتا پھرے اور بھارت کی عزت پائے۔انتہائی المناک صورت یہ رہی ہے کہ بعض عرب ممالک خود فلسطینیوں کے درپے آزار ہیں ۔ان کے اندر آزادی کے جذبوں سے یہ خود خائف ہیں۔1982ء میں اخبار العالم اسلامی نے لکھا کہ عرب ممالک کے بعض سربراہان کی یہ خواہش ہے کہ اسرائیلی فوجوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کا خاتمہ ہو۔

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوالیتے ہیں

یہی حالت اس وقت مصر کے صدر السیسی کی بھی ہے کہ غزہ میں حماس کچلی جائے اور اس مقصد کیلئے السیسی کی خدمات میں بعض عرب ممالک ڈالر پیش کررہے ہیںتاکہ اخوان اور اس سے جڑی حماس جیسی قوتوں کا خاتمہ کیاجائے۔اسرائیل کے ہاتھوں حماس اور فلسطینیوں کی تباہی میں بعض عرب ممالک اپنی حکومتوں کی بقاء سمجھ رہے ہیںجبکہ اسرائیل پڑوسی عرب ممالک کے بہت سے علاقے ہڑپ کرکے وہاں یہودی بستیاں قائم کرچکا ہے اور ان علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرچکا ہے اور صیہونی دستاویز ات کے مطابق مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سمیت سعودی عرب کا بڑاعلاقہ ،عراق،شام،اردن غرض یہ کہ فرات سے لیکر نیل تک کے سارے علاقے یہودی دولت مشترکہ کا حصہ ہیں۔ایسے میں نہ صرف عرب ممالک بلکہ تمام مسلم ممالک کے حکمرانوں کو اپنے لو گوں کو کچلنے کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنے علاقوں میں امن کی فضا قائم کرنی چاہیے۔ علاقائی ،نسلی ،لسانی گروہوں یا فرقہ وارانہ انہیں بڑے دل اور وسیع ا لنظری سے قربتوں کی فضا پیدا کرنی چاہیے اور ان مختلف النوع متحرک جہادی گروہوں کو بھی تحمل اور بردباری اختیار کرکے مسلم حکومتوں سے بات چیت کا راستہ اختیار کرناچاہیے تاکہ جنگ وجدل کی فضا ختم ہو اور دشمن کی سازشیں ناکام ہوں اور ہم سیسہ پلائی دیوار بن کرنہ صرف اپنا دفاع کرسکیں بلکہ اپنے مظلوم اور محکوم بھائیوں کی بھی مدد کرسکیں۔
اگر کسی گروہ یا طبقے کو مسلمانوں کا دشمن بھی نشانہ بنا رہاہے اورہماری حکومتیں بھی اسے ہی نشانہ بنا رہی ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ ہم دھوکے میں ہیں اور اپنے ہی پائوں پر کلہاڑی ماررہے ہیں۔ اس نشاندہی کے باوجود اگر کوئی گروہ یا حکمران باز نہیں آتا تو اس کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے۔
٭٭٭