ظالم لوگ کبھی فلاح نہیں پائیں گے

آخرکار انہوں نے اس کو تھوڑی سی قیمت پر چند درہموں کے عوض بیچ ڈالا اور وہ اس کی قیمت کے معاملہ میں کچھ زیادہ کے امیدوار نہ تھے۔مصر کے جس شخص نے اسے خریدا اس نے اپنی بیوی سے’’ کہا اس کو اچھی طرح رکھنا، بعید نہیں کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنا لیں‘‘۔ اس طرح ہم نے یوسف کے لیے اس سرزمین میں قدم جمانے کی صورت نکالی اور اسے معاملہ فہمی کی تعلیم دینے کا انتظام کیا۔ اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔اور جب وہ اپنی پوری جوانی کو پہنچا تو ہم نے اسے قوت فیصلہ اور علم عطا کیا، اس طرح ہم نیک لوگوں کو جزا دیتے ہیں۔جس عورت کے گھر میں وہ تھا وہ اس پر ڈورے ڈالنے لگی اور ایک روز دروازے بند کر کے بولی ’’ آجا‘‘۔ یوسف نے کہا خدا کی پناہ ، میرے رب نے تو مجھے اچھی منزلت بخشی اور میں یہ کام کروں! ) ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پایا کرتے ‘‘۔ وہ اس کی طرف بڑھی اور یوسف بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا۔ ایسا ہوا ، تاکہ ہم اس سے بدی اور بے حیائی کو دور کر دیں، درحقیقت وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔ آخر کار یوسف ؑ اور وہ آگے پیچھے دروازے کی طرف بھاگے اور اس نے پیچھے سے یوسف ؑ کا قمیض ( کھینچ کر ) پھاڑدیا ۔ دروازے پر دونوں نے اس کے شوہر کو موجود پایا۔ اسے دیکھتے ہی عورت کہنے لگی ’’ کیا سزا ہے اس شخص کی جو تیری گھر والی پر نیت خراب کرے؟ اس کے سوااور کیا سزا ہو سکتی ہے کہ وہ قید کیا جائے یا اسے سخت عذاب دیا جائے ‘‘یوسف علیہ السلام نے کہا’’ یہی مجھے پھانسنے کی کوشش کر رہی تھی‘‘۔ اس عورت کے اپنے کنبہ والوں میں سے ایک شخص نے (قر ینے کی )شہادت پیش کی’’ کہ اگر یوسف علیہ السلام کا قمیص آگے سے پھٹا ہو تو عورت سچی ہے اور یہ جھوٹا،اور اگر اس کا قمیص پیچھے سے پھٹا ہو تو عورت جھوٹی ہے اور یہ سچا‘‘۔جب شوہر نے دیکھا کہ یوسف ؑکا قمیص پیچھے سے پھٹا ہے تو اس نے کہا’’ یہ تم عورتوں کی چالاکیاں ہیں، واقعی بڑے غضب کی ہوتی ہیں تمہاری چالیں۔یوسف ؑ، اس معاملے سے درگزر کر، اور اے عورت ، تو اپنے قصور کی معافی مانگ، تو ہی اصل میں خطا کار تھی۔

سورہ یوسف آ یت نمبر 20 تا 29 تفہیم القرآن سید ابوالاعلیٰ مودودی

آداب و اخلاق کا بیان

سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں ذمہ دار ہوں ایک محل کا ‘ جنت کی ایک جانب میں ‘ اس شخص کے لیے جو جھگڑا چھوڑ دے ‘ اگرچہ حق پر ہو۔ اور ایک محل کا ‘ جنت کے درمیان میں ‘ اس شخص کے لیے جو جھوٹ چھوڑ دے ‘ اگرچہ مزاح ہی میں ہو ‘ اور جنت کی اعلیٰ منازل میں ایک محل کا ‘ اس شخص کے لیے جو اپنے اخلاق کو عمدہ بنا لے۔‘‘

(سنن ابو دائود)

ایک چھوٹی سی نیکی کا اجر

رسول اللہ ﷺنے فرمایا ایک شخص کہیں جا رہا تھا۔ راستے میں اس نے کانٹوں کی بھری ہوئی ایک ٹہنی دیکھی ، پس اسے راستے سے دور کر دیا۔ اللہ تعالیٰ ( صرف اسی بات پر ) راضی ہو گیا اور اس کی بخشش کر دی۔ (صحیح بخاری)

حضرت محمد ﷺپر درود پڑھنے کی تاکید

حضرت موسیٰ بن طلحہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا ، انھوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تھا تو آپؐ نے فرمایا تھا :’’ مجھ پر درود پڑھو اور خوب کوشش سے دعا کرو اور کہو : ’’ اے اللہ ! محمد ( ﷺ ) اور آل محمد پر خصوصی رحمتیں نازل فرما۔‘‘

(سنن نسائی)