
اقوام متحدہ کی قراردادیں مسئلہ کشمیر کی روح ہیں
جس گھرانے میں آنکھ کھولی، وہ خالصتاً مذہبی گھرانہ تھا
دادا جان محاذ رائے شماری کے رہنما کی حیثیت سے گرفتار ہوئے۔ وہ ابتدائی دور سے ہی تحریکِ آزادی کے ساتھ سرگرم رہے اور جیلیں بھی کاٹیں
تحریکِ آزادی کشمیر کے عظیم رہنما اور بطلِ حریت سید علی گیلانیؒ جب بھی وہ تشریف لاتے، والد صاحب ان کی میزبانی کی سعادت حاصل کرتے
میری خوش قسمتی سمجھیں کہ کچھ ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد برطانیہ میں کالج نے مجھے مکمل شکالرشپ آفر کیا
دنیا تنازعہ کشمیر اور فلسطین کو مذہبی نقطہ نظر سے دیکھتی ہے، اسی لیے وہ ان کے حل میں مداخلت سے گریز کرتی ہے
گوکہ ہمارا نظریہ واضح ہے ،البتہ منزل ایک نہیں ہے ۔ہم تین نظریات میں تقسیم یا بٹے ہیں
اقوام متحدہ کی قراردادیں مسئلہ کشمیر کی روح ہیں۔طاقت ،سیاست اور سفارت کاری میں نئی شدت اور جدت لانے کی ضرورت ہے
مقبوضہ جموں و کشمیر کی آزادی کے لیے ایک مضبوط اور مربوط عسکری قوت کا استعمال بھی ضروری ہے، اور اس کی اجازت اقوام متحدہ کے چارٹر میں موجود ہے
میں سرزمین کشمیر سے تعلق رکھنے والا پہلا فرد ہوں،جس نے آج سے 21برس قبل AIکے میدان میں تعلیم حاصل کی ۔2021 میں اس فیلڈ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی
ظفر احمد قریشی کا تعلق شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ سے ہے۔ وہ معروف کشمیری سیاسی و سماجی رہنما جناب نذیر احمد قریشی کے فرزند ہیں، جنہوں نے تحریکِ آزادی کشمیر کے مختلف ادوار میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ظفر احمد قریشی نہ صرف اپنے والد کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں بلکہ جلاوطنی کے باوجود انہوں نے تحریکِ آزادی کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے ایک موثر سفارتی محاذ قائم کیا ہے۔ برطانیہ میں مقیم کشمیریوں کی نمائندہ تنظیم ’’کشمیر کیمپین گلوبل‘‘ کے چیئرمین کی حیثیت سے وہ کئی برسوں سے بین الاقوامی سطح پر کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی آواز بلند کر رہے ہیں۔حالیہ دنوں میں پاکستان آمد کے موقع پر انہوں نے مختلف کشمیری و پاکستانی حلقوں سے ملاقاتیں کیں اور اسی سلسلے میں ’’ماہنامہ کشمیر الیوم‘‘ کے دفتر تشریف لائے۔ یہاں ان سے تحریکِ آزادی، جلاوطنی کے تقاضے، نوجوان نسل کی ذمہ داریاں، اور مسئلہ کشمیر کی موجودہ عالمی صورتِ حال پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ اس انٹرویو کا اقتباس قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(شیخ محمد امین، قیصر فاروق، شہباز بڈگامی، محمد لطیف ڈار)

سوال: کچھ اپنے بچپن کے بارے کہنا پسند فرمائیں گے
جواب : اپنے آبائی گاؤں میں قائم سرکاری سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ آبادی کے لحاظ سے یہ ایک بڑا علاقہ تھا، لیکن سکول صرف ایک ہی تھا۔ چونکہ جس گھرانے میں میری آنکھ کھولی، وہ خالصتاً مذہبی گھرانہ تھا، سرکاری سکول میں بنیادی دینی تعلیم کا فقدان تھا۔ ہمارا گھرانہ اس علاقے کا پہلا گھر تھا جو جماعت تحریک اسلامی کے ساتھ وابستہ تھا اور بعد میں ایک مضبوط حلقہ مانا جاتا تھا، جس کی بنیاد والد صاحب نے رکھی۔ یہاں ایک کمرے میں درسگاہ قائم کی گئی، جس کے مدرس عبدالغنی ڈار صاحب تھے، جو بعد میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔ اس درسگاہ کو بعد میں ہائی سکول کا درجہ ملا، جو فلاح عام ٹرسٹ کے زیرِ اہتمام چلتا رہا۔ اس سکول میں مروجہ تعلیم کے ساتھ دینی تربیت کا بھی خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ جماعت کے ایک رفیق نے درسگاہ کے لیے 10 مرلہ زمین وقف کی، اور والد صاحب اور حلقہ جماعت اس کے اخراجات پورے کرتے رہے۔1987 تک اسی دینی مدرسے میں زیرِ تعلیم رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ تیسری جماعت اسی مدرسے سے پاس کی۔ 80 کی دہائی میں والد صاحب سعودی عرب جا چکے تھے، لہٰذا فیملی کے ساتھ ان کے پاس سرزمینِ مقدس پر جانے کا موقع ملا۔ 1985 میں والد محترم آخری مرتبہ اپنی سرزمین اور آبائی علاقے آئے تھے۔ تب سے لے کر آج تک وہ دوبارہ مقبوضہ کشمیر نہیں جا سکے۔ ان کا کوئی خطا نہیں سوائے اس کے کہ وہ بچپن سے تحریکِ اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر اور تحریکِ آزادی کے ساتھ وابستہ تھے اور بھارت کے قبضے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بھارتی حکومتوں کی آنکھوں میں کانٹوں کی طرح کھٹکتے ہیں۔ سعودی عرب میں قیام کے دوران میرا تعلیمی سلسلہ جاری رہا۔

سوال: اپنے اور اپنے خاندان کے تحریکی پس منظرپر روشنی ڈالیں
جواب : اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ 1947 سے 1949 کے درمیان، جب مہاراجہ ہری سنگھ اور بھارت کے خلاف کشمیری عوام کی تحریکِ آزادی زوروں پر تھی، میرے دادا جان محاذ رائے شماری کے رہنما کی حیثیت سے گرفتار ہوئے۔ وہ ابتدائی دور سے ہی تحریکِ آزادی کے ساتھ سرگرم رہے اور جیلیں بھی کاٹیں۔ میرے پھوپھا، جن کا نام غلام نبی تھا، موجودہ تحریکِ آزادی کے ابتدائی برسوں میں بھارتی فوجیوں کی گولیوں کا شکار بنے۔ ہماری والدہ مقبوضہ کشمیر نہیں گئیں، البتہ 1994 کے بعد والدہ محترمہ نے مقبوضہ کشمیر کا چکر لگایا۔ میں خود تین سے چار بار مقبوضہ کشمیر جا چکا ہوں۔
سوال۔کیا آج بھی آپ کا مقبوضہ کشمیر آنا جانا ہے؟
جواب۔نہیں جناب، 2017 کے بعد مجھے مقبوضہ کشمیر جانے کا موقع نصیب نہیں ہوا۔ البتہ تحریکِ آزادی کشمیر کے عظیم رہنما اور بطلِ حریت سید علی گیلانیؒ کے ساتھ میرا مستقل رابطہ رہا۔ جب بھی وہ تشریف لاتے، والد صاحب ان کی میزبانی کی سعادت حاصل کرتے۔ میں ویڈیو کال بھی کرتا تھا۔ 2014 میں جب مقبوضہ کشمیر سیلاب کی بدترین صورتِ حال سے دوچار ہوا، تو میں نے خیراتی کاموں میں بھرپور حصہ لیا اور تمام تر صورتِ حال کی خود نگرانی کی۔ دہلی میں ہمارے تین کنٹینر روکے گئے، جن میں سیلاب متاثرین کے لیے سامان تھا، لیکن صرف ایک کنٹینر دیا گیا۔ اس سامان میں زیادہ تر قیمتی کمبل تھے، جو ایک صاحبِ ثروت نے عطیہ کیے تھے۔ ممبئی پورٹ پر بھی مال بدلا گیا۔ 2014 میرا کشمیر کا آخری دورہ تھا، جس میں تحریکِ آزادی کے قائدین سید علی گیلانیؒ، میر واعظ عمر فاروق، اور دیگر رہنماؤں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ دہلی میں امیگریشن کے نام پر مجھے روکا گیا اور ایک گھنٹے تک سوال و جواب کے مراحل سے گزرنا پڑا۔ چار گھنٹوں بعد دہلی سے سرینگر کی فلائٹ تھی۔ وہاں میرا پیچھا کیا گیا، لیکن میں ایئرپورٹ سے باہر نکل کر بذریعہ سڑک سرینگر پہنچا۔ سرینگر پہنچ کر دوسرے دن مرحوم الطاف شاہ صاحب سے ملاقات کی۔ اس کے بعد سید علی گیلانیؒ اور ان کے جانشین و دست و بازو محمد اشرف صحرائیؒ سے الگ الگ ملاقاتیں ہوئیں، جن میں زیادہ تر گفتگو تحریکِ آزادی کشمیر کے خدوخال پر ہوئی۔ کچھ دن قیام کے بعد واپسی ہوئی۔ 2014 میرا مقبوضہ کشمیر کا آخری دورہ تھا۔ اس کے بعد رشتہ داروں یا دیگر عزیز و اقارب سے کوئی رابطہ نہیں رہا۔ 2014 سے قبل 2005 میں، جب مقبوضہ کشمیر کے سرحدی علاقوں میں زلزلہ آیا، تو میں اوڑی گیا اور وہاں ریلیف کے کاموں میں حصہ لیا۔
سوال۔تعلیم کا سلسلہ سعودی عرب میں کہاں تک جاری رہا؟
جواب۔1997 میں سعودی عرب میں ہی میٹرک تیسری پوزیشن کے ساتھ پاس کیا، جس کے عوض مجھے بطور تعلیمی ٹرپ برطانیہ کا ٹکٹ ملا۔ برطانیہ میں دوستوں نے اصرار کیا کہ سعودی عرب کے بجائے برطانیہ میں تعلیم جاری رکھوں۔ سالانہ فیس دو ہزار پاؤنڈ تھی۔ میری خوش قسمتی کہ چند ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد برطانیہ کے ایک کالج نے مجھے مکمل اسکالرشپ کی پیشکش کی۔ اس کے بعد میں نے چار مضامین میں A-Level کیا، جو 2001 میں مکمل ہوا۔ ان مضامین میں انفارمیشن ٹیکنالوجی (IT) بھی شامل تھا۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI) میں ڈگری 2004 میں مکمل کی۔ مجھے فخر ہے کہ میں سرزمینِ کشمیر سے تعلق رکھنے والا پہلا فرد ہوں جس نے 21 برس قبل AI میں ڈگری حاصل کی۔ 2021 میں ڈیٹا اینالیٹکس میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی اور اللہ کا شکر ہے کہ آکسفورڈ سے AI میں پوسٹ گریجویٹ ایگزیکٹو پروگرام مکمل کیا

سوال۔برطانیہ میں آپ کے کیا مشاغل ہیں؟
جواب ۔2005-06 میں پڑھائی کے دوران ہی عملی زندگی کا سفر شروع کیا اور ووڈافون کمپنی میں ملازمت اختیار کی۔ اس کے بعد یورپیئن کونسل اور برمنگھم سٹی کونسل میں بھی ملازمت کی۔ چونکہ میری تحریکِ آزادی کشمیر کے ساتھ عملی وابستگی شروع سے تھی، اس لیے 1999 میں مرسی کے صدر دفتر کے ساتھ منسلک ہو گیا، جس کے سربراہ مرحوم ڈاکٹر ایوب ٹھاکر تھے۔ تحریکِ کشمیر برطانیہ کے بانی علامہ مشہدی صاحب تھے۔ میں ان کی سنجیدگی، لگن اور محنت سے کافی متاثر ہوں۔ بارش ہو یا دھوپ، وہ کام سے تھکنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ وہ نمود و نمائش کے قائل نہیں تھے اور ان کا آخرت پر کامل ایمان تھا
سوال۔ڈاکٹر محمد ایوب ٹھاکرصاحب کے ساتھ آپ کا پہلا رابطہ کب ہوا؟
جواب۔جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں، 1999 میں میرا ڈاکٹر صاحب سے رابطہ ہوا جب میں مرسی دفتر کے ساتھ منسلک ہوا۔ بلاشبہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی پوری زندگی تحریکِ آزادی کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ ان کا ایک باضابطہ ایجنڈا تھا اور ایک ذہین ٹیم تھی۔ امریکہ میں ڈاکٹر غلام نبی فائی، مڈل ایسٹ میں ڈاکٹر غلام نبی میر، اور سعودی عرب میں میرے والد محترم نذیر احمد قریشی اس ٹیم کا حصہ تھے۔ میری یادداشت کے مطابق، کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرا جب ڈاکٹر صاحب نے مسئلہ کشمیر کا ذکر نہ کیا ہو۔

سوال۔نو گیارہ سے کیا اثرات پڑے بالخصوص مسئلہ کشمیر اور فلسطین پر۔آپ کی تنظیم کشمیر کمپین گلوبل کا کیا کردار رہا ؟
جواب ۔ نائن الیون (9/11) کے بعد حالات نے سو فیصد پلٹا کھایا۔ صورتِ حال بدل گئی اور وہ پہلی جیسی حمایت ختم ہو گئی۔ میں اس وقت ووڈافون کے دفتر میں تھا۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے حالات یکسر بدل گئے، بالخصوص مسئلہ کشمیر اور فلسطین کو بہت نقصان ہوا، اور یہ دونوں تنازعات پسِ پشت چلے گئے۔ 1947 سے یہ دونوں علاقے غیر ملکی قبضے میں ہیں اور عوام غلامی میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دنیا ان تنازعات کو تسلیم تو کرتی ہے، لیکن حقِ خودارادیت کے معاملے میں حد درجہ غفلت برت رہی ہے۔ مسئلہ کشمیر کو پاک-بھارت تنازعہ سمجھا جاتا ہے۔ چونکہ دونوں مقامات پر مسلمان پس رہے ہیں، دنیا اسے مذہبی نقطہ نظر سے دیکھتی ہے اور اسی لیے حل میں مداخلت سے گریز کرتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں اپنی مرضی سے جینے کا حق نہیں؟ جس دن مقبوضہ جموں و کشمیر میں رائے شماری ہوئی، کشمیری عوام پاکستان کے حق میں ووٹ دیں گے، اور دنیا اس موقف سے بخوبی آگاہ ہے۔ اسی لیے وہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔جنیوا میں لاپتہ افراد کے بارے میں ایک کانفرنس ہوئی، جس میں دنیا کی چار بڑی این جی اوز شریک تھیں، جن میں کشمیر کیمپین گلوبل بھی شامل تھی۔ میں نے خود اس کی نمائندگی کی۔ 70 ممالک کے نمائندے موجود تھے۔ حیران کن طور پر بلوچستان کی سات این جی اوز بھی تھیں۔ میں نے خرم پرویز اور ہزاروں لاپتہ کشمیریوں کے حق میں بھرپور مہم چلائی۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اس کانفرنس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس بھی موجود تھے۔ میں نے ان کے ساتھ تبادلہ خیال کیا اور ان کی توجہ ان کی شائع کردہ رپورٹ پر دلائی، جس میں مقبوضہ کشمیر کا ذکر ہی نہیں تھا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ واقعی کشمیر کا ذکر ہونا چاہیے۔ میں نے کشمیر سینٹر یورپ میں بھی کام کیا ہے
سوال:آزاد کشمیر کے لاکھوں لوگ باہر کی دنیا میں ہیں،بحیثیت کشمیری ہم کہاں کھڑے ہیں اور کیا وہ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں ؟فلسظینیوں اور ہم میں کوئی فرق محسوس کررہے ہیں؟
جواب: معذرت کے ساتھ، ہم میں نااتفاقی زیادہ ہے۔ برطانیہ میں آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے 15 لاکھ لوگ مقیم ہیں، لیکن مسئلہ کشمیر پر جب بھی کوئی پروگرام ہوتا ہے، شرکت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ گو کہ ہمارا نظریہ واضح ہے کہ ’’آزادی کشمیر‘‘، لیکن سوچ اور راہیں الگ الگ ہیں۔ ہم تین نظریات میں بٹے ہوئے ہیں، جبکہ فلسطینی عوام صرف ایک نظریہ رکھتے ہیں: صہیونی اسرائیل سے آزادی۔ باہر کی دنیا میں آزاد کشمیر کا نوجوان طبقہ تحریکِ آزادی سے نظریاتی طور پر بہت کم وابستہ ہے۔ بھارت نے فکری بنیادوں پر بہت کام کیا ہے اور نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ ڈالا جا رہا ہے کہ پاکستان آپ کی زمینوں پر قبضہ کر رہا ہے، جو سراسر بے بنیاد ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ تحریکِ آزادی کے لیے کام کرنے والوں کی تعداد کم ہے۔ ہمیں یکسو ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔6 ستمبر کو ہم نے لندن میں ایک بڑا پروگرام کیا، جس میں سابق وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان واشنگٹن سے شریک ہوئے۔ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور چوہدری محمد یاسین بھی شریک تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لندن پولیس سے چار ہزار افراد کے لیے جگہ مانگی گئی تھی، لیکن ریلی میں ہزارہا افراد شریک ہوئے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم نے خود ہی تحریک کو عالمی سطح پر تنہا چھوڑ دیا اور دوسروں کے حوالے کر دیا۔ ہمیں ایک آواز بننا ہے۔

سوال:کن کشمیری رہنماوں سے آپ دیار غیر میں قریب رہے یا ان کی جدوجہد کو قریب سے دیکھا؟
جواب :ڈاکٹر ایوب ٹھاکرؒ کے ساتھ ساتھ مرحوم پروفیسر نذیر احمد شال سے خاص تعلق رہا۔ ان کی اہلیہ محترمہ شمیم شال بھی تحریک کی نمائندگی کرتی ہیں۔ امریکہ میں ڈاکٹر غلام نبی فائی، ڈاکٹر غلام نبی میر، اور امتیاز خان سفارتی محاذ پر سرگرم ہیں۔ میرا بیرسٹر عبدالمجید ترمبو، محمد غالب، ڈاکٹر نذیر گیلانی، ڈاکٹر عنایت اللہ اندرابی، پروفیسر ظہور خان، لارڈ قربان حسین، اور لارڈ نذیر احمد کے ساتھ بھی رابطہ ہے۔
سوال: تحریک آزادی کی نوعیت کے بارے میں کچھ روشنی ڈالنا پسند کریں گے؟
جواب : پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ کام کرنا ہے کہ کامیابی ہمارا مقدر ہے۔ دنیا میں اب ایک نیا بیانیہ وجود میں آیا ہے کہ طاقت ہی سرچشمہ ہے۔ اس کا عملی مشاہدہ 6 سے 10 مئی تک پاک-بھارت کشیدگی میں دنیا نے دیکھا۔ 5 اگست 2019 کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد امریکہ، چین، اور روس بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ حقِ خودارادیت ایک عمل ہے، جس میں پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ مستقبل وابستہ کرنے کی بات ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں مسئلہ کشمیر کی روح ہیں۔ طاقت، سیاست، اور سفارت کاری میں نئی شدت اور جدت لانے کی ضرورت ہے۔

سوال: تحریک آزادی کا مستقبل کیا دیکھ رہے ہیں؟
جواب : ہمیں اپنی کوششیں نہ صرف جاری رکھنی ہیں بلکہ ان میں شدت اور جدت لانی ہے۔ تحریک کو باہر سے جتنا مضبوط کرنا ہے، اس سے زیادہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے اندر سے اسے فعال، منظم، اور مربوط کرنا ناگزیر ہے۔ تحریک کی پوری قیادت بھارتی جیلوں میں مقید ہے۔ قائدِ حریت سید علی گیلانیؒ کی جدائی سے قیادت میں ایک بڑا خلا پیدا ہوا، جسے پُر تو نہیں کیا جا سکتا، لیکن ان کے نقشِ قدم پر چل کر کام کرنا ہوگا۔ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مواصلاتی نظام پر پابندی لگائی، ذرائع ابلاغ کا گلا گھونٹا، اور آزادیِ رائے معدوم ہے۔ لوگوں کی گرفتاریوں اور معصوم کشمیریوں کے قتلِ عام کا سلسلہ جاری ہے، جو نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے۔ بیرونِ ریاست لوگوں کو بڑی تعداد میں ڈومیسائل دیے جا رہے ہیں تاکہ مستقبل میں رائے شماری پر اثر انداز ہوا جائے۔ ہمیں اقوام متحدہ، امریکہ، برطانیہ، اور دیگر پارلیمنٹوں میں بھارت کے اس خوفناک منصوبے کو بے نقاب کرنا ہے۔ ہمارا بنیادی مقصد مقبوضہ جموں و کشمیر کی آزادی ہے، جس کے لیے مضبوط اور مربوط عسکری تحریک لازم ہے۔ بھارت غرور کے نشے میں دھُت ہے، اور دنیا نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے نائب جے ڈی وینس نے کہا تھا کہ پاک-بھارت کشیدگی ان کا آپسی معاملہ ہے، لیکن 10 مئی کی کارروائی نے کایا پلٹ دی۔ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ ہل کر رہ گئی۔ ان شاء اللہ ہماری جدوجہد رنگ لائے گی، اور ہم آزادی کا سورج ضرور دیکھیں گے۔
کشمیر الیوم کے قارئین کے نام آپ کا پیغام
دس لاکھ بھارتی فوجی مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعینات ہیں۔ ہمیں اس جارح افواج کے خلاف خود کو تیار کرنا ہے اور آگے بڑھنا ہے۔ شہدا کے لواحقین کو یقین دلانا ہے کہ پوری قوم ان کی پشت پر پوری قوت سے کھڑی ہے۔ شہداء اور زخمیوں کا خیال رکھنا، ماؤں اور بہنوں کی عزت و عصمت کا تحفظ ہر حال میں کرنا ہے۔ اپنا بیانیہ مضبوط سے مضبوط تر بنانا ہے۔ بھارت کے خلاف پاکستان کی حالیہ کامیابی نے صورتِ حال کو ہمارے حق میں ہموار کیا ہے۔ سوشل میڈیا سمیت تمام محاذوں پر سرگرم اور متحرک ہونا ہے۔