عاشق رسول مولانا سید ابوالاعلی مودوی ؒ

عبدالرشیدمرزا

شاہی قلعہ لاہور کے عقوبت خانے کے چند قیدی نماز کے بعد ذکر و اذکار میں مصروف تھے کہ اچانک فوجی بوٹوں کی دھمک سنائی دی جو آہستہ آہستہ قریب آتی گئی۔آپ میں سے مولانا مودودی کون ہیں؟آنے والے چند فوجی افسران میں سے ایک فوجی افسر نے قیدیوں سے دریافت کیا۔

میں ہوں مودودی….ایک با وقار اور پرسکون آواز سنائی دی۔

آپ کو ’قادیانی مسئلہ‘ نامی پمفلٹ لکھنے کی پاداش میں (جس میں آپ نے قادیانیوں کو کافر قرار دیا ہے) مارشل لاء کی فوجی عدالت نے موت کی سزا سنائی ہے۔ آپ اس فیصلے کے خلاف عدالت سے کوئی اپیل نہیں کر سکتے۔ صرف گورنر جنرل صاحب سے سات دن کے اندر رحم کی اپیل کر سکتے ہیں۔

موت کی سزا کا فیصلہ سن کر مولانا کا چہرہ تمتما اٹھا، جیسے بہت ہی زیادہ خوشی کی خبر ملنے پر انسان کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے۔مولانا نے سزا سن کر فرمایا۔”مجھے کسی سے کوئی درخواست اور رحم کی اپیل نہیں کرنی، موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر میرے پروردگار نے مجھے اپنے پاس بلانا منظور کر لیا ہے تو بندہ خوشی سے اپنے رب سے جاملے گا اور اگر اس کا حکم ابھی نہیں آیا تو پھر چاہے یہ الٹے لٹک جائیں مجھ کو ہر گز نہیں لٹکا سکتے “

سزائے موت کا اعلان ریڈیو پر ہوا تو پاکستان سمیت پورے عالم اسلام میں کہرام مچ گیا۔ متعدد اسلامی ممالک نے درخواست کی کہ اگر پاکستان کو مولانا مودودی جیسے عظیم المرتبت مفکر اور عالم کی ضرورت نہیں ہے تو انہیں ہمارے پاس بھیج دیا جائے اور پھر حکومت اس عوامی ردِ عمل، بیرونی دباؤ اور مولانا مودودیؒ کی حق گوئی اور جوانمردی کے آگے نہ ٹھہر سکی اور بالآخر اسے سزائے موت کا فیصلہ واپس لینا پڑا۔

آپ کا نام سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ تھا۔ مولانا مودودیؒ25 ستمبر 1903 کو ریاست حیدر آباد دکن کے مشہور شہر اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد نے آپ کی بہت بہترین تربیت کی۔ 1915 میں آپ ابھی بارہ سال کے تھے کہ سیرت نبوی ﷺ لکھنی شروع کر دی۔ پندرہ سال کی عمر میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ اخبار نویسی کے میدان میں قدم رکھا اور سترہ سال کی عمر میں ہی روزنامہ اخبار”تاج“ کے مدیر بن گئے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب آپ کے والد محترم کا سایہ آپ کے سر سے اٹھ گیا۔1921 میں اٹھارہ سال کی عمر میں جمعیت علمائے ہند کے ہفت روزہ اخبار’مسلم‘کے ایڈیٹر مقرر ہوئے تو پھر سے تعلیم کی طرف متوجہ ہو گئے، اسی دوران انگریزی زبان پر عبور حاصل کیا اور اخبار نویسی کے ساتھ ساتھ مختلف علماء کرام سے عربی، ادب، تفسیر، حدیث، منطق اور فلسفہ کی کتابیں پڑھتے رہے اس طرح ہر فن پر دسترس حاصل کرنے کا موقع ملا۔

اسی دوران 1924 میں جمعیت علمائے ہند کو اپنے سہ روزہ اخبار‘’الجمعیۃ’‘ کے لئے ایڈیٹر کی تلاش تھی بالآخر ان کی نظر ایک مرتبہ پھر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ پر پڑی اور انہوں نے اکیس سالہ نوجوان کو اپنے اخبار کا مدیر منتخب کیا۔

1926 کے اواخر میں ہندو انتہا پسند تنظیم آریہ سماج کے لیڈر سوامی شردھا نند کو نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کی جسارت کرنے پر عبدالرشید نامی مسلمان نے جوش میں آ کر قتل کر ڈالا اور اس کے بعد ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا اور قتل و غارت گری کا طوفان برپا ہو گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندوؤں نے ہر طور پر یہ ثابت کرنا چاہا کہ اسلام دلیل کے بجائے تلوار کا مذہب ہے اور مسلمان جہاد کا نام استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کو فروغ دیتے ہیں۔

اس پروپیگنڈے کے طوفان میں مسلمانوں کے قائد مولانا محمد علی جوہرؒ نے دہلی کی جامع مسجد میں تقریر کرتے ہوئے رُندھی ہوئی آواز میں فرمایا‘’کاش کوئی اللہ کا بندہ اٹھتا اور ہندوؤں کے ان الزامات کے جواب میں اسلام کی صحیح تصویر پیش کرتا۔

ہزاروں مسلمانوں کے اس اجتماع میں نوجوان مودودیؒ نے مولانا جوہرؒ کی بات گرہ میں باندھ لی اور ان کی پکار پر لبیک کہنے کا پکا ارادہ کر لیا اور صرف چوبیس سال کی عمر میں ”الجہاد فی الاسلام“ کے نام سے کتاب لکھ کر اسلام پر اعتراض کرنے والوں کا منہ بند کر دیا۔

جب علامہ اقبال نے یہ کتاب پڑھی تو فرمایا”اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے اور میں ہر ذی علم آدمی کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے۔“

زندگی کے آخری سالوں میں علامہ اقبال ؒ جب مولانا مودودیؒ کی تحریروں کو پڑھتے تو فرماتے ”یہ مولوی رسول اللہ ﷺ کے قلم سے ان کے دین کو پیش کر رہا ہے۔“

1933 میں مولانا مودودیؒ نے اپنا رسالہ ماہنامہ ”ترجمان القرآن“ شائع کرنا شروع کیا جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔

مولانا مودودیؒ نے اپنی تحریروں اور تقریروں سے باطل نظریات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اسلام کی صحیح تصویر پیش کی۔

آپ نے محسوس کیا کہ وہ اس بے دینی اور روایتی مذہب پرستی کا تنہا مقابلہ نہیں کر سکتے لہٰذا 1941 میں انہوں نے 74 افراد پر مشتمل ایک تحریک اسلامی کا آغاز کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے آپ کا پیغام ملک کے طول و عرض میں پھیلتا چلا گیا۔

پاکستان بننے کے بعد آپ لاہور آ گئے اور ایک مرتبہ پھر اپنے جاں نثار ساتھیوں کے ساتھ دین کے کاموں میں لگ گئے۔ ان کی بے شمار تصنیفات پوری دنیا میں پڑھی جاتی ہیں اور لوگ انہیں امام مودودیؒ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ صرف ان کی ایک کتاب ”دینیات“ ہی دنیا کی تقریباً پچھتر زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے۔ دنیا میں اب تک لاکھوں،کروڑوں افراد آپ کی تحریروں سے متاثر ہوئے۔ جبکہ لاتعداد لوگوں نے آپ کی کتابیں پڑھ کر اسلام قبول کیا۔ آپ ؒ کا سب سے بڑا علمی کارنامہ قرآن مجید کی تفسیر‘’تفہیم القرآن’‘ تحریر کرنا ہے جس میں آپ نے انتہائی سادہ اور دل نشیں انداز میں قرآن کی ترجمانی کی ہے تاکہ ہر خاص و عام قرآن کے اصل پیغام کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہو سکے۔آپ کی علمی خدمات کے اعتراف میں سعودی عرب کی طرف سے پہلا شاہ فیصل ایوارڈ مولانا مودودی ؒ کو دیا گیا۔

آج دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی تفسیر ”تفہیم القرآن“ ہے جو مختلف زبانوں میں ترجمے کے ساتھ دنیا بھر میں نہایت ذوق و شوق کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں۔آپ نے تقریباََ 150کتابیں لکھی ہیں۔ہر کتاب شاندار ہے۔آپ نے ہر محاذ پر جنگ لڑی اور کامیاب ہوئے سوشلزم،کیمونزم مغربی تہذیب، سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جہاد کیااور فتح یاب ہوئے۔سید ابوالاعلی مودودی نے اسلام کے پیغام کو اس طرح پہنچایا ہے جس طر ح حضور علیہ سلام کے قلب مبارک پر نازل کیا گیا اسلامی چہرے جو صدیوں سے گر د آلود تھے اسے صاف شفاف بنایا امت کی رہنمائی کی اور امت مسلم کی قیادت کرنے کے لئے جماعت اسلامی تشکیل کی۔اللہ تعالیٰ مولانا مودودیؒ کی قبر کو نور سے بھر دے۔(آمین)

٭٭٭

انتقال پرملال ماہ جنوری، فروری، مارچ ۲۲۰۲ ء
1محترم منظور احمد بابا سوپور بارہمولہ کی (والدہ محترمہ (مقبوضہ کشمیر میں وفات پاچکی ہے، 2 محترم وسیم حجازی بارہمولہ کی (والدہ محترمہ) مقبوضہ کشمیر میں فوت ہوئی ہے، 3 محترم محمد شہباز بڈگام کی ) والدہ محترمہ (مقبوضہ کشمیر میں رحمت حق ہوئی،4محترم نورالباری مرکزی نائب امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر کی )اہلیہ محترمہ (وفات پاگئی،5چیف ایڈیٹر روزنامہ سیاست مظفرآباد برادر نثار احمد راتھر کی) حقیقی ہمشیرہ (اسلام آباد میں وفات پا گئی ہیں، 6محترم اویس بلال ڈوڈہ کے) والد محترم (مقبوضہ کشمیر میں اس دارفانی سے کوچ کر گئے،7 محترم طارق احمد پونچھ کی (دو بہنیں ) مقبوضہ کشمیر میں اس دارفانی سے کوچ کر گئی ہیں،8 محترم کلیم اللہ رفیع آباد بارہمولہ اورمحترم شہنواز پٹن کی) ساس (اسلام آبادمیں وفات پاگئیں،9 محترم غلام نبی نوشہری سابق نائب امیر جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کی(اہلیہ محترمہ) اسلام آباد میں وفات پا چکی ہیں،10 محترم محمد شہباز کرناہ کپواڑہ کے والد محترم مظفرآباد میں وفات پاگئے ہیں،11 حزب المجاہدین کے نائب امیر کے معاون خصوصی کمانڈرنذاکت حسین کی والدہ محترمہ راولاکوٹ میں وفات پاگئیں ہیں۔
اللہ پاک مرحومین کی مغفرت،جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام اور لواحقین کو صبر و جمیل عطا کرے آمین (ادارہ)