اویس بلال
اللہ تعالیٰ سورہ مائدہ کی آ یت 51 میں ارشاد فرماتے ہیں ”اے ایمان والو یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناو یہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کو رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی انہی میں ہے یقیناً اللہ ظالموں کو اپنی راہنمائی سے محروم کر دیتا ہے”.۔۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی جنہوں نے اس آیت مبارکہ کی خوبصورت انداز میں تشریح کی تفہیم القرآن جلد اول میں لکھتے ہیں کہ اسوقت تک عرب میں کفر اور اسلام کی کشمکش کا فیصلہ نہیں ہوا تھا اگر چہ اسلام اپنے پیرووں کی سر فروشیوں کے سبب سے ایک طاقت بن چکا تھا لیکن مقابل کی طاقتیں بھی زبردست تھیں اسلام کی فتح کا جیسا امکان تھا ویسا ہی کفر کی فتح کا بھی تھا۔ اس لیے مسلمانوں میں جو لوگ منافق تھے وہ اسلامی جماعت میں رہتے ہوئے یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ بھی ربط ضبط رکھنا چاہتے تھے تاکہ یہ کشمکش اگر اسلام کی شکست پر ختم ہو تو ان کے لیے کوئی نہ کوئی جائے پناہ محفوظ رہے. علاوہ بریں اسوقت عرب میں عیسائیوں اور یہودیوں کی معاشی قوت سب سے زیادہ تھی۔ ساہوکارا ایکسچینج بیشتر انہی کے ہاتھ میں تھا عرب کے بہترین سرسبز و شاداب خطے ان کے قبضے میں تھے انکی سودخواری کاجال ہر طرف پھیلا ہوا تھا لہٰذا معاشی اسباب کی بناء پر بھی یہ منافق لوگ ان کے ساتھ اپنے سابق تعلقات بر قرار رکھنے کے خواہشمند تھے انکا گمان تھا کہ اگر اسلام و کفر کی اس کشمکش میں ہمہ تن منہمک ہو کر ہم نے ان سب قوموں سے اپنے تعلقات منقطع کر لئے جن کے ساتھ اسلام اسوقت بر سر پیکار ہے تو یہ فعل سیاسی اور معاشی دونوں حیثیتوں سے ہمارے لئے خطرناک ہوگا”.۔
چار سال قبل کا ایک آ رٹیکل جو مقبوضہ کشمیر بار ہمولہ کے غازی سہیل نے لکھا تھا موجودہ صورتحال پر فٹ آ تا ہے اسکا ایک چھوٹا سا قطعہ اس تحریر میں شامل کرتا ہوں۔
“. ہم ایسی سر زمین پر رہتے ہیں جہاں المیے اگتے ہیں المیے برستے ہیں۔ مظالم کی بارش ہوتی ہے مفاسد کی تجارت ہوتی ہے۔ ظلم وستم کی ان بھیانک آندھیوں کا توڑ کرنا ہو تو ہمیں چاہیے کہ پہلے اپنا اپنا محاسبہ کریں ہم ٹولیوں میں نہ بٹیں ظالم کی ہر سازش کا زیرو بم تاڑیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر مسلکی اختلافات اور بھانت بھانت کی بولیاں ترک کر کے ایک حساس ذہین قوم بن جائیں۔ تب جا کر ظالم کو بیک زباں کہہ سکیں گے تم ظلم پیشہ ہو۔ تم ہمارے المیوں کے ذمہ دار ہو۔ تم ہمیں خرید نہیں سکتے۔تم ہمیں اپنی چکا چوندی سے مرعوب نہیں کر سکتے۔ افسوس کہ ہم اس کے برعکس ظالم و جابر کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں اسکی ہر چال کا مہرہ خوشی خوشی بنتے پھرتے ہیں اسکے ظالمانہ کردار پر اسے برسر عام ٹوکنے کے بجائے ہمارے اپنے چند ٹکوں کے عوض ماضی و حال فراموش کر کے ظالم کی درباری قصیدہ گوئی تک میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے۔ہمیں یہ دوغلی پالیسی ترک کرنا ہوگی۔ تب جا کر سلف صالحین شہدائے عظام تحریک اسلامی کے بزرگوں کی روحوں کو قرار آئے گااور انکی بے چین روحوں کو قرار آسکتا ہے۔ ہم کسی بھی مذہبی مسلکی پارٹی سے تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں کہ ہم ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دے کر دنیا کے مظلوم مسلمانوں پر ڈھائے جارہے مظالم کے خلاف ایک آواز بنیں اور یہ واحد پیغام دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچا دیں کہ ہم پرامن ہیں۔ہمارا مذہب اسلام ہے اسلام سلامتی کا مذہب ہے ہم بے انتہا مظالم کا سامنا کرنے کے باوجود بھی بھانت بھانت کی بولیاں کیوں بول رہے ہیں ہم کسی بھی ملک یاکسی بھی مذہب کے خلاف نہیں بلکہ ظلم وتشدد کے مخالف ہیں۔ آخر پر اپنی بات. موجودہ سنگین صورتحال کے پیش نظر جو کچھ اس وقت دنیا میں نظر آر ہا ہے کہ یہود و نصاریٰ وغیرہ کلمہ گو مسلمانوں کے ساتھ جو کھیل کھیل رہے ہیں سلوک کر رہے ہیں یہ باعث تشویش ہے مسلم امہ کو چاہیے کہ وہ دنیا کو باور کرائیں روے زمین اللہ کی ہے اس پر اللہ تعالیٰ کا ہی قانون چلے گا اور کسی کا نہیں۔ جب ہمارا یہ نعرہ ہو”الارض للہ والحکم للہ“ تب جاکر ہم مسلمان کہلاے جائیں گے کامیاب ہوں گے۔اگر ہمارے اندر اتحاد واتفاق نہیں ہوگا تو اغیار ہم پر مسلط ہوں گے چڑھ دوڑیں گے اور ہمیں نوچ نوچ کے کھا لیں گے۔نہ سمجھو گے تو مٹ جاو گے اے مسلمانو۔ تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے آمین

ہماری نا اتفاقی کی وجہ سے فلسطینی شام عراق افغانستان لیبیا مصر بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیر میانمار برما بھارت ہر جگہ پر غیر مسلم طاقتیں مسلمانوں پر چڑھ دوڑی ہیں اسلامی ممالک کی خاموشی پر افسوس صد افسوس یہ غیر ذمہ دار مسلم ممالک اس حدیث کا مفہوم بھول گئے ہیں کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں کسی ایک بھی مسلمان کو تکلیف ہو تو تمام مسلم امہ کو اسکا درد محسوس ہوتا ہے۔یہ بد قسمتی ہے کہ مسلم حکمرانوں نے اس سبق کوبھلا دیاہے یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں مسلمانوں کی زندگیاں عذاب بن گئی ہیں مسلمانوں کو جاگنا ہوگا۔