عادل وانی
زندگی بغیر عشق کے عذاب ہے اور اگر آپ کو معشوق ہی میسر نہ ہو تو یہ عذاب آپ کے لئے دردِ سر اور وبالِ جان بن جاتا ہے۔اگر ہم اپنے”نظرئیے اور نصب العین” کو اپنا مقصد مانتے ہیں تو اس ”مقصد” کو اپنا”معشوق” بنائیں۔جب ہم اپنے ”مقصد” سے عشق کرنے لگیں گے تو پھر اگلی منزل ہمارا مقدر ہوگی جسے ”جنون اور دیوانگی” کہتے ہیں۔اگر ہم تعلقِ باللہ کی بدولت اس مقامِ خاص کو پالیتے ہیں تو پھر میری اور آپ کی زندگی کے سارے پیمانے اور زاوئیے بدل کر رہ جائیں گے۔قلت و کثرت کی بحث اپنی موت آپ مرجائے گی۔وسائل کی کمی کی منطق بھی بے معنی ہوکر رہ جائے گی۔ طوالتِ وقت کا شکوہ بھی کہیں نہیں سُنائی دے گا،الزام تراشیوں اور فضول تبصروں سے زبانیں پاک ہونگی اور سب سے بڑی بات یہ کہ اللہ کی مدد اور نصرت کا وعدہ پورا ہوگا۔
ہمارا اصل مسئلہ یہی ہے کہ ہمیں اپنے”مقصد” کی غیر معمولی عظمت و اہمیت اور حقانیت پر شرحِ صدر حاصل نہیں ہے جس کی وجہ سے ہم بے شمار بیماریوں اور خرابیوں میں مبتلا ہوئے ہیں۔آج اس دجالی فتنوں کے دور میں بھی ہم میں سے جن لوگوں کو اپنے”مقصد” کا شعور اور عشق حاصل ہے وہ ہر قربانی پیش کرنے کے لئے بے تاب وبے چین ہیں اور جو لوگ ”مقصد” کے بجائے”مادے” کو اپنا قبلہ مانتے اور سمجھتے ہیں وہ چاہے درویشوں،پیروں اور صوفیوں کا حلیہ ہی اختیار کیوں نہ کریں لوگ انہیں اُن کے اعمال و کردار سے خوب جانتے ہیں۔پیٹ پر پتھر بندھے ہوں اور بستر کھجور کی شاخوں کا ہو تو تقریروں کی ضرورت کم پڑتی ہے۔ہمارے زوال کا اصل سبب گفتار و کردار کا نمایاں فرق ہے اور ہمارا ”میرٹ” جی حضوری اور اقربا پروری ہے۔جنابِ والا اگر ہم آج اور اب بھی ان خصائلِ رذیلہ سے تائب ہوتے ہیں تو قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں ”کامیابی و کامرانی” کو ہم سے کوئی دُور نہیں کر سکتا۔ غیر شعوری طور پر ہی سہی مگر حقیقت یہی ہے کہ منزلِ مقصود تک نہ پہنچ پانے میں ہم خود سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔قدرت کا اصول یہی ہے کہ آپ کامیابی کی شرائط کو پورا کریں تو اللہ اپنی مدد و نصرت کا وعدہ پورہ فرمائیں گے۔