علم و عمل اور عظمت وعزیمت کا حسین امتزاج

عبدالہادی احمد

مولانا عبدالمنان پاکستان کے خطہ شمال اور کشمیر کی تحریک آزادی کے بزرگ ترین مجاہدراہنما تھے۔مجاہدین صف شکن کے مخلص ترین دوست ،مشیراوربنفس نفیس مجاہد رہے ہیں۔1947 ء میں کشمیر کی پہلی جنگ میں جہادی کمانڈروں کے دینی مشیر اور جہادی داعی جہاد کے طور پر ان کی بے مثال جد وجہد اب تاریخ کا ان مٹ باب ہے۔شمالی علاقہ جات کے علاقے کے حوالے سے وہ ایک عہد ساز شخص ہیں وہ ستر برس پہلے( 1947 ء اور1948 ء میں) شمالی علاقوں کی آزادی کی جنگ کی منصوبہ بندی میں شریک ہوئے ۔وہ جہاد کرتے ہوئے خود جہاد میں شامل رہے اور ان کی دعوت سے ان گنت لوگ جہاد میں شریک ہوئے ۔وہ جہادکرتے ہوئے جس جس خطے سے گزرے کامیابی نے ان کے قدم چومے۔جہاد کا سفر رک گیا مگر مولانا عبدالمنان صاحب کے قدم نہیں رکے۔
ایک مجاہد راہنما کے طورپر انہوں نے شمالی علاقے کے لوگوں کے اندر جذبہ آزادی ابھارا اور شوق شہادت کاشت کیا۔اس حیثیت سے وہ جہاد کشمیر کے ان منفرد بانیوں میں سے ہیںجو مجاہد بھی رہے اور داعی جہاد بھی۔وہ اسکیموفورس کے بے سروسامان لشکر کے سپاہی کے طور استور سے لے کر زوجیلا تک مصروف جہاد رہے۔ان کی سپاہ میں ایسے سرفروش بھی شریک ہوئے اور مردانہ وارلڑے جن کے پیروں میں جوتے تک نہیںتھے ،مگر وہ کارگل اور اس کی وادیوں کوروندتے ہوئے زوجیلا تک جاپہنچے۔زوجیلا میں ایک شرم ناک سازش کے تحت جہاد روک دیا گیا۔اس کے لئے جہاد کی صفوں میں ناپاک لوگ بھی داخل ہوگئے تھے۔مولانا نے اپنی ان غم ناک یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ جن مورچوں میں نماز باجمات کا اہتمام کیا کرتے تھے اور جہاںتہجد کی نمازیں پڑھی جاتی تھیں،بدقسمتی سے ان ہی مورچوں میں شراب کے رسیا لبرل فوجی افسر آبیٹھے۔ خالص جذبہ جہاد اور شوق شہادت سے جو فتوحات حاصل کی گئی تھیں ،شیطان اور اس کے لشکریوں کی شرکت سے وہاں بگاڑ پیدا ہوا اور نتیجہ یہ نکلا کہ زوجیلا کی فتح کے بعد جہاد کا سفر رک گیا یا روک دیا گیا۔

اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ پہلے انگریز ،ہندو ملی بھگت سے ہندوستان کو کشمیر پر قبضے کے لئے راستہ دیا گیا پھر قادیانیوں نے سازش میں شریک ہوکر کشمیر کو بھارت میں شامل کرنے پر سارازور لگا دیا۔ اس میں پاکستان کے قادیانی وزیر خارجہ ظفراللہ نے جہاد کشمیر کواس وقت رکوادیا جب بھارتی وزیر اعظم پنڈت نہرو جنگ بندی کی فریاد لے کر سلامتی کونسل میں پہنچ گئے تھے۔پنڈت نہرو نے جنگ بندی کے بدلے وعدہ کیا تھا کہ امن قائم ہوتے ہی کشمیر میں استصواب رائے کرادیا جائے گا اور کشمیریوں کو پوراپورا حق خودارادیت دیا جائے گا کہ وہ اپنی آزادنہ رائے سے فیصلہ کریں کہ پاکستان یا ہندوستان میں کس کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں۔ ظفراللہ خان نے نہر و کی خاطر پورا زور صرف کیا اور جنگ بندی کراکے دم لیا۔اس طرح جہاد روک دیا گیا اور کشمیر کو آزاد کرانے کا امکان ختم ہوگیا۔جنگ بندی نہ ہوتی تو مجاہدین بھارتی فوج کے کشمیر میں داخلے کے واحد راستے کو بند کرنے والے تھے۔ ایسا ہوجاتا تو بھارتی فوج مقبوضہ خطے میں محصور ہوکر رہ جاتی۔ یوں قادیانی سازش سے مجاہدین کے قدم جن محاذوں پر پہنچے تھے اس سے آگے نہ بڑھ سکے ،یا ان کو پسپا ہوکر پیچھے ہٹنا پڑا،یہاں تک کہ وہ سری نگر کے دروازے پر پہنچ کر واپس ہونے پر مجبور ہوگئے۔ ان سب محاذوں پر بعد میں قادیانیوں کی سازشوں کا سراغ لگتا رہا۔ یہ سازش دراصل جہاد دشمنی پر مبنی تھی جو ان کے مذہب کا تقاضا تھا۔ کیونکہ ان کے جھوٹے نبی مرزا غلام قادیانی نے جہاد کو حرام ٹھہرایا تھا۔

اب چھوڑدو جہاد کا اے دوستو خیال
دین کے لیے حرام ہے اب جنگ و قتال

کشمیر میں اس جھوٹے نبی کی امت کو جہاں کہیں موقع ملا ،جہا د کو روکنے اور مجاہدین کوناکام بنانے میںبھرپور کارکردگی دکھائی ۔قادیانیوں کے بارے میں علامہ اقبال کا یہ تاریخی جملہ مبنی بر صداقت ثابت ہو تا رہا کہ ’’قادیانیت یہودیت کا چربہ ہے‘‘۔ انگریزی نبی کی امت نے پاکستان کے قیام سے پہلے انگریز اور ہندوسے مل کر پاکستان کے قیام کا ناممکن بنانے کی ہرممکن سعی کی تھی۔ یہ ممکن نہ ہوا تو کشمیر کوقادیانی ریاست بنانے کے لئے سازشیں کیں،لیکن یہ بھی ممکن نہ ہوا ،توپاکستان کے قیام کے فوراََ بعد قادیانیت کامرکز ربوہ منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔انگریزوں کی قادیانیوں سے شفقت کا اندازہ پنجاب کے انگریز گورنر سرفرانس موڈی کے سلوک سے لگایا جاسکتا ہے کہ موڈی نے اپنے ان چہیتوں کو ربوہ میں3301 ایکڑسات کنال آٹھ مرلے اراضی دس روپے فی ایکڑ (ایک آنہ فی مرلہ)کے حساب سے دے دی۔ یعنی 26400 کنال اراضی کی کل قیمت بارہ ہزار روپے مقرر کی گئی،مگر یہ رقم بھی حکومت پاکستان کو نقد نہیںملی،بلکہ یہ زمین مستعاردی گئی۔قادیانی وزیر خارجہ سرظفراللہ نے بھی حکومت کی نوازشات کا رخ ربوہ کی طرف موڑ دیا ۔فوراََ ہی ریلوے اسٹیشن قائم ہوگیا ،سکول کالجوں کی تعمیر شروع ہوئی ،تار گھر ،ہسپتال اور بازار تعمیر ہوگئے۔پاکستان میں اتنی سہولتیں حاصل کرنے کے باوجود ان کا مذہبی عقیدہ ہے کہ ایک نہ ایک دن پاکستان ٹوٹ کر رہے گا اور ہم اپنے قبلہ و کعبہ قادیان ضرور جائیں گے۔
مولانا عبدالمنان بھی زوجیلا کے محاذ جہاد سے واپس آگئے ،مگر ان کے قدم عمر بھر رکے نہیں ،وہ زندگی بھر ایک سچے مومن کی طرح اسلام اور مسلمانوں کی خاطر جدوجہد کرتے رہے۔ کارگہ حیات میں انہوں نے جو بھی فریضہ ادا کیا ،اس کی کامیابی کے لئے ایک مخلص ترین انسان کے طورپر اپنی بہترین کوششیں شامل کیں۔ اپنے اس پاکیزہ کردار کے ذریعے وہ پورے خطے پر مثبت طور پر اثر انداز ہوئے ۔قدرت نے ان کو متنوع کردار سونپے۔قیام پاکستان کے فوراََ بعد انہوں نے اپنے خطے کے لوگوں کی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی کی خاطر طویل سفر کیے،خوصوصاََ جہاد سے واپسی پر انہوں نے اپنی قوم کی تعمیر و ترقی میںبے لاگ حصہ لیا۔اسی سلسلے میں دوسری اہم شخصیات کے علاوہ انہوںنے وزیر اعظم پاکستان جناب لیاقت علی خان سے بھی تفصیلی ملاقات کی۔وزیر امور کشمیر اور دیگر اعلیٰ افسروں سے بھی ملے اور ہر محاذ پر اپنے علاقے کے لوگوں کے حقوق کی جنگ لڑتے رہے ۔ہر میدان میںان کی جہادی اسپرٹ بروئے کار آتی رہی اور وہ ہر جگہ سے فتح یاب لوٹے۔
مولانا عبدالمنان کی شخصیت اور حیثیت ان گنت شعبوں میں جھلکتی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے بے شمار خوبیاں ان کی ذات میں ودیعت کررکھی ہیں ،بلاشبہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔ایک طرف وہ ہمیں جماعت اسلامی کے رہنما اوراس کی فکر کے علامتی نقیب نظر آتے ہیں ،جماعت اسلامی کے شمالی علاقوں کے امیر رہے ،جماعت کی دعوت اور اس کے نظریاتی کام کے پھیلائو میں عملی حصہ لیا ،انہوں نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے لٹریچر سے براہ راست کسب فیض کیا تھا۔اسی وجہ سے طبقہ علماء کی عمومی روش کے برعکس آپ کے مزاج ومذاق میں اعتدال و توازن اوربصیرت و تحمل کے عناصر نمایاں ہیں۔دوسری طرف وہ اپنے مرشد جناب چلاسی بابا کے نظریات اور افکارر کا پرچم اٹھائے ہوئے دکھائی دیتے ہیں،بابا صاحب کی فکر ونظر اور علم و عمل بھی ان کی ذات میںجھلکتا ہے ۔ان کی ذات میں اخلاص و للٰہیت ،فکر آخرت اور حمیت حق کا غلبہ ان ہی دوہستیوں کی وجہ سے ہے ۔

مولانا عبدالمنان کا 23 برس کی عمر میں جہاد کرنا اورمجاہدین کی قیادت میںمرکزیت کا مقام حاصل کرنابھی اپنی جگہ بہت اہم ہے لیکن جب ہماری سیاسی اور عسکری غلطیوں کی وجہ سے ہمارے آزاد کردہ علاقے بھارت نے لے لیے اورجہاد کی بساط لپیٹ دی گئی ،تو مولانا مایوس نہیں ہوئے اور ہاتھ جوڑ کربیٹھ نہیں گئے ، بلکہ نئی ہمت اور حوصلے سے اٹھ کھڑے ہوئے اورجہادی جذبے کو کام میںلاتے ہوئے اپنے خطے کے عوام کی خاطر کمر ہمت باندھ لی اور ایسی ایسی خدمات انجام دیں،جوان کے تجربے اور عمر کو دیکھتے ہوئے حیرت انگیز معلوم ہوتی ہے ۔انہوں نے اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پاک وہند میں نمائندگی کی،کنٹرول لائن پر واقع قحط سے دوچار بستیوں کے لئے گھرگھر پھر کر غلہ جمع کیا ۔پھر اپنے پورے خطے کے مسائل لے کر پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان اور امور کشمیر کے وزیر مشتاق احمد گورمانی سے ملاقات کی اور ان کے مسائل حل کرائے۔
مولانا عبدالمنان کے دل کی واحد پھانس کشمیر کی غلامی ہے ،وہ اس خطے کو کشمیر کی شہ رگ سمجھتے ہیں،جس کے لئے انہوں نے جوانی میں اللہ کے راستے میں جہا دکیا اور زوجیلا تک ایک بڑے علاقے کو آزاد کرایا،لیکن ان کی محنت اس وقت اکارت گئی جب ان کے بعد آنے والوں نے اس علاقے کو دشمن کے قبضے میںجانے دیا، اس کے بعد سے ستربرس سے مشرکین ہند کشمیر پر مسلط ہیں، حالانکہ کشمیری قوم نے ایک دن کے لئے بھی بھارت کے غاصبانہ قبضے کوتسلیم نہیںکیا ،بھارت کی سفاک فوجیں آزادی مانگنے والی کشمیری قوم کے خون سے ہولی کھیلتی آئی ہیں۔1990 ء میں جہاد شروع ہوا تو نہتے کشمیری نوجوانوں نے بھارتی افواج کوناکوں چنے چبوادئیے۔اگر چہ ایک لاکھ سے زائد کشمیری نوجوان شہید ہوئے ،کچھ جیلوں میں ڈالے گئے اور باقی ہجرت کرکے پاکستان چلے آئے ،مولانا کو یقین ہے کہ اگر کشمیر میں جہاد جاری رہا تو بھارت کا وہی انجام ہوگا جو روس کا ہوچکا ہے۔اس وقت کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ وقت کب آئے گا جب کشمیر کی آزادی کے لئے بھر پور جہاد شروع ہوگا ،لیکن مولانا کو یقین ہے کہ جہاد ضرور ہوگا اور اس کے نتیجے میں بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیگا،بالکل اسی طرح جس طرح جہاد کی برکات سے بے سروسامانی میں شروع کیا گیا افغان جہاد افرادی قوت اور اسلحے کے بغیر ہی ایک سپر پائورکے پرخچے اڑانے کا باعث بن گیا۔
اس کے بعد جب روس کا انجام دیکھ کربھی امریکہ کی آنکھیں نہ کھلیں اوراپنے اسلحے اور فوجی طاقت پر اس کا غرور باقی رہا اور وہ بھی جہاد کی قوت سے سرٹکرانے سے باز نہ آیا۔حالانکہ اس کے پاس لاکھوں کی تعداد میںنیٹو افواج اور بھاری اسلحے کے ذخائر موجود تھے،لیکن اس کوبھی آٹے دال کا بھائو معلوم ہوگیا۔اب امریکی بھی تسلیم کرچکے ہیں کہ افغانوں کے جہاد کا سامنا کرنا ان کے بس میں نہیں۔مجاہدین کے عزم اور جہاد کی قوت نے ان کے ہوش اڑاکے رکھ دیے ہیں۔ان شاء اللہ جلد ہی وقت آئے گا کہ جب دنیا امریکی شکت اور اس کی سلطنت کو بکھرتا دیکھے گی۔اسی طرح کشمیر کے بے وسیلہ مجاہدین کے ہاتھوں بھارت بھی تباہ وبرباد ہوکررہے گا۔مولانا اسے اللہ کی مشیت کا اظہار خیال کرتے ہیں۔ نوے کی دہائی میںکشمیریوں کا اٹھ کھڑا ہونا (انتفاضہ) افغان جہاد کا اثر تھا۔جہاد ہی نے کشمیری قوم کو یہ ہمت دی کہ وہ آزادی کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد کا آغاز کرے۔افغان جہاد کے بعد ان کے اندر طاقت اور امید بھی پیدا ہوئی ۔آٹھ لاکھ بھارتی فوج مجاہدین کے حوصلے پست نہیں کرسکی ،جب مجاہدین کی تیر بہدف کارروائیاں جاری ہیں وہ کہتے ہیںکہ ہماراجہاد جاری رہے گا۔ تیس برس تک لینڈ لاکڈ خطے میںجنگ کا تسلسل باقی رکھنا ہی مجاہدین کشمیر کی جیت ہے۔اگر امریکہ جہادی قوت کے خلاف چالیس ملکوں کی فوج کے باوجود کامیاب نہیں ہوا توہندو اپنے حقیر ایجنٹوں کے ذریعے کیسے کامیاب ہوں گے۔

1947 ء میں مولانا عبدالمنان بائیس تیئس برس کے نوجوان عالم دین تھے اور اپنی دینی تعلیم کی تکمیل ہی کی تھی کہ برصغیر کی تقسیم عمل میں آگئی۔پاکستان بن گیا اور شمالی علاقے میں آزادی کی تحریک شروع ہوگئی۔ان کا دل شروع دن سے ہی اسلام اور مسلمانوں کے دور عروج کا شیدائی تھا۔ مسلمان جرنیلوں کے قصے ان کے اندر جذبہ جہاد کی انگیخت کا باعث بنتے تھے،لیکن وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ جہاد ان کے اپنے خطے میں شروع ہوجائیگا اور وہ اس جہاد کے داعی اور مجاہد کے طور پر شرکت کریں گے۔وہ خود کہتے ہیں کہ دوران تعلیم وہ دیوبند کے اثرات کی وجہ سے پاکستان اور اس کی تحریک سے لاتعلق تھے ،ان کے اپنے خاندان میں اسماعیل خان جیسے لوگ موجود تھے جو مجاہدین آزادی اور پاکستان کی تحریک سے مستحکم وابستگی اور رابطے رکھتے تھے ،الغرض راہ جہاد میں پہلا قدم رکھتے ہی پاکستان کے خوابوں کی سرزمین بن گیا۔وہ نہ صرف شمالی خطے کو پاکستان بنانے کے لیے مستعد ہوگئے،بلکہ ان کے اندر پورے کشمیر کی آزادی کی آرزو پید ا ہوگئی۔
یہ محض اتفاق تھا کہ مولانا عبدالمنان کے دور شباب میں جہاد کا آغاز ہوا ،گویا ان کے من کی مراد بر آئی۔جہاد کا آغاز ہوتے ہی مولانا کا تحریک جہاد سے سرگرم رابطہ شروع ہوگیا۔ انہیں جہا د میں عملی شرکت کا شوق تھا، قدرت نے ان کے شوق کی تکمیل کا سامان فرمادیا۔عالم دین ہونے کا ان کو دہرا فائدہ ہوا ،یعنی قدرت نے ان کو نہ صرف جہاد میں عملی شرکت کا موقع دیا ،بلکہ اپنی علمی صلاحیت کو استعمال کرکے عوام الناس میں جہادکی برکات اور فضائل بیان کرنے کا موقع بھی ملا۔ان کے جذبہ جہاد کو قرآن و سنت نے مہمیز دی تھی،اس لئے ان کے اندر جو شوق اور جذبہ تھا اس کی شدت دوسروں سے بڑھ کر تھی۔ وہ جنگ اور جہاد میںفرق جانتے تھے ،اس لئے انہوں نے اپنے کمانڈروں کو بھی سمجھایا کہ وہ جہاد کو اسلامی اصولوں کے مطابق شروع کریں اورجاری رکھیں۔ انہوں نے بار بار اپنی تقریروں میں مجاہدین اور ان کی قیادت کو یہ بتایا تھا کہ جہاد اس جنگ کو کہا جاتا ہے جو قرآن و سنت کی رہنمائی میں کی جائے ۔ان کی اسی صلاحیت کی بنا پر جہادی قیادت نے ان کی یہ ڈیوٹی لگائی کہ نوجوانوں کو جہاد کے لیے آمادہ کریں اور مجاہدین کو جہاد کی تعلیم بھی دیں۔مولانا عبدالمنان کا اخلاص اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور فلک بوس چوٹیوں پر اور برف زاروں میں مجاہدین کا ہم سفر رہنے کی توفیق بخشی ۔یہ اللہ کی مدد تھی کہ مٹھی بھرکم وسیلہ مجاہدین کے ساتھ دشمن کی منظم اور جدید ہتھیاروں سے لیس فوج پر غالب آئے ،لیکن زوجیلا کی فتح کے بعد جب پیش قدمی رک گئی بلکہ جہاد کا پورا سلسلہ روک دیا گیا تو مولانا عبدالمنان بے زار ہوکر واپس آگئے ۔کاش جہاد جاری رکھا گیا ہوتا تو آج اس خطے اور خودپاکستان کا نقشہ مختلف ہوتا ، مگر جب نئے آنے والے فوجی افسروں نے بزدلی دکھائی اور عیش و طرب میں پڑگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے فتح کیا ہوا علاقہ بھی چھین لیا۔

کشمیر کے سب محاذوں پر مجاہدین نے وسائل اور ان کی تعداد کی کمی کے باوجود ہندو ڈوگرہ راج اور بھارتی افواج پر زبردست یلغار کی ،اگر چہ انگریزی اور قادیانی ملی بھگت بھی ہندوئوں کی معاون تھی ،مگر کشمیری اور قبائلی مجاہدین نے ان سب سازشوں کا تاروپور بکھیر دیا۔بد قسمتی سے آزادی کے بعد وہ انگریز جرنیل جنرل میسروی اور جنرل گریسی پاک فوج کے کمانڈر انچیف رہے ،یہ لوگ کشمیر کے بارے میں پاکستان کے قومی اور ملی نظریات سے قطعی طور لاتعلق تھے ۔ان کی وجہ سے کشمیر میں جہاد کا میاب نہ ہوا۔عین اس وقت جب مجاہدین اور پاک فوج کے دستے سری نگر پر پاکستان کاسبز ہلالی پرچم لہرانے ہی والے تھے کہ جنگ روک دی گئی اور بھارت کو ’’اسٹے آرڈر ‘‘مل گیا۔حالانکہ 30 اکتوبر کو مجاہدین سری نگر سے تین میل دور شالہ ٹینگ پہنچ گئے تھے۔صرف ایک ہفتے کی یلغار نے ڈوگرہ آرمی کو مفلوج کردیا تھا اور اس کے چیف آف سٹاف بریگیڈئیر راجندر سنگھ لڑائی میں مارے گئے تھے۔ بھارتی حکومت کے دعوے کے مطابق ڈوگرہ راجے ہری سنگھ نے26 اکتوبر کو ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے ،حالانکہ اس روز26 اکتوبر1947 ء کو مہارجہ ہری سنگھ سری نگر اور جموں کے درمیان سفر کررہے تھے اور ان سے دستخط کرانے والے وی پی مینن (بھارت کے سیکرٹری امور داخلہ ) دہلی میں موجود تھے۔بھارت کے ساتھ الحاق کی یہ جعلی دستاویز بعد میں تیار کرائی گئی جب کہ 27 اکتوبر کی صبح چھ بجے بھارتی فوج کی ایک بٹالین سری نگر ائیر پورٹ پر اتر گئی تھی۔
1951 ء میں کشمیر کے مسئلے پر ہندوستان کی درپردہ حمایت کرنے والے انگریز فوجی افسر پاک فوج سے چلے گئے تھے ،مگر اب کشمیر کے بارے میں ہماری حکومتوں کی ترجیحات قومی موقف سے یکسر مختلف تھیں۔ایک طرف روس تھا جو بھارت کا فوجی حلیف بن گیا ،وہ کشمیر کے بارے میں ہماری قراردادیں مسترد کرتا رہا ،جب کہ امریکہ کی خاطر ہم سینٹو اور سیٹوجیسے معاہدوں میںبندھ گئے۔ اس کے باوجود امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے کشمیر کے مسئلے پر ہماری ٹھوس حمایت کبھی نہ کی۔ امریکہ دوستی کے دعوے ہم سے توکرتا رہا لیکن بالواسطہ اور بلاواسطہ مدد ہمیشہ بھارت کی کرتارہا۔ تاہم اگر جہاد نہ روکا جاتا اور پاکستان کی ایمان ویقین سے سرشار فوج کشمیر کو بھارت کے قبضے سے نجات دلانے کا پختہ ارادہ کرلیتی تو دشمن کو یقینا شکت سے دوچارکرسکتی تھی۔ جہاد سے سب کچھ ممکن تھا ، برطانیہ کی شرم ناک شکت کی مثال ہمارے سامنے تھی، جب 1841 ء میں حریت پسند افغانوں نے سولہ سترہ ہزار برطانوی فوج کو وادی کابل میں اس طرح تباہ کیا تھا کہ صرف ایک انگریز ڈاکٹر برائیڈن زخمی حالت میں بچ کر جلال آباد پہنچ سکا تھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے افغانوں کے جہاد کو برکت دی اور اپریل1988 ء میں روسی حکومت نے مجاہدین سے شکت مان لی اور جہاد کے نتیجے میں سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔
مولانا عبدالمنان سے اس بات کا ہمیشہ تقاضا کیا جاتا رہا کہ اپنی زندگی کے وقائع وسوانح مرتب کریں۔ اس لئے کہ ان کے مشاہدات تاریخ کے ایک دور کے بارے میں سچائی سامنے لانے کا باعث ہوں گے، جب کہ اس عرصے میں جہاد کشمیر کی تاریخ کے بارے میں بہت کچھ رطب دیا بس لکھا جاتا رہا ہے ،سچ تو یہ ہے کہ طے شدہ پلان کے تحت جہاد کی تاریخ مسخ بھی کی جاتی رہی ہے۔ بہت اصرار کے بعد ان کو اس بات پر آمادہ کرلیاگیا کہ وہ ریکارڑ درست کرنے اور آنے والی نسل کو اس تاریخی دور سے آگاہ کرنے کے لئے اپنے زندگی کے اہم واقعات قلم بند کریںگے۔ آنے والی نسلوں کے لئے کشمیر کی جہادی تاریخ اور شمالی علاقے کی غیر متعصبانہ تحریک آزادی کومحفوظ کرنے کے لیے مولانا عبدالمنان سے موزوں کوئی اور نہیں ہوسکتا۔اس لئے کہ وہ تاریخ کے اس باب کے واحد مستند گواہ ہیں۔ ان کی دعوت سے ان گنت لوگ جہاد میں شریک ہوئے۔ جہاد کرتے ہوئے وہ جس خطے سے گزرے، کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ پھر جہاد کا سفر رک گیا، مگر مولانا عبدالمنان مرحوم کے قدم نہیں رکے۔ ایک مجاہد کے طور پر انہوں نے شمالی علاقوں کے لوگوں کے اندر جذبہ آزادی ابھارا اور شوق شہادت کاشت کیا۔ جہاد کے بعد اسلامی تحریک کے لیے ان کی خدمات شروع ہوئیں۔وہ جماعت اسلامی شمالی علاقہ جات کے پہلے امیر بنے
مولانا عبدالمنان کا کارنامہ حیات تقریباََ پون صدی پر پھیلا ہوا ہے ۔سچ تویہ ہے کہ وہ اپنی ذات میں ایک متحرک صدی ہیں۔ایک ہمہ گیر شخصیت جس کے اندر بیک وقت مختلف اور متنوع خصوصیات موجود ہیں ۔مولانا نے گلگت کے مسلمانوں کو پہلے تعلیمی اداروں کے ذریعے ایک طرف تو علم دین سے بہرور کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف ان کے لیے عصری علوم کا سامان بھی کیا۔جہادی تقریروں کے ذریعے مسلمانوں میں جہادی جذبہ اور شوق شہادت ابھارا ۔ انہوں نے تعلیمی ادارے قائم کرکے اپنے خطے کے مسلمان بچوں کو بیک وقت علم دین اور عصری علوم سے بہرور کرنے کا سامان کیا۔اپنی شخصیت کو جو تجزیہ انہوں نے اپنی کتاب میں کیا ہے وہ ان کی ذات کا بہترین تعارف ہے۔
’’میں پاکستان کے نظریے یعنی لاالہ اللہ محمدرسول اللہ کی سربلندی کے لیے جہاد میںشریک ہوا۔الحمدللہ میری زندگی بھرکی مساعی بھی اسی کلمہ پاک کے محور پر گھومتی رہیں۔یہ میری خوش بختی اور اللہ تعالیٰ کی مشیت تھی کہ میرانظریاتی تعلق جماعت اسلامی سے قائم ہوا چنانچہ آج میںاپنی ذات کا تجزیہ کرتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے پاکستان ،کلمہ طیبہ اور جماعت اسلامی میرے اجزائے ترکیبی ہیں‘‘

بلاشبہ مولانا عبدالمنان ؒکی شخصیت علم وعمل کا حسین امتزاج ہے مگر ان کی شخصیت ہر قسم کے علمی عجب اور پیوسیت سے پاک ہے ، مجھے مولانا کی خدمت میں بیٹھنے اور ان کی پُر حکمت باتیں سننے کا اتفاق ہوتارہا ہے ، ان کی مجلس میں بیٹھ کر ان کے اعلیٰ ذوق کا اندازہ ہوتا ہے ،مگر علمی قابلیت اور صدرنگ درویشی نے انہیں زاہد خشک ہر گز نہیں بنایا۔بے خوف اور نڈر انسان ہیں،اس لیے کہ ان کی جبیں اس سجدے سے آشنا ہے جو ہزار سجدوں سے نجات دلادیتا ہے۔ وہ جتنی کثرت سے آیات قرآنی اور احادیث مبارکہ اپنی گفتگو میں شامل کرتے ہیں ،اسی طرح اردو ،فارسی اور عربی کے اشعار برجستہ سناتے جاتے ہیں۔ان کی شخصیت کی جامعیت اور ان کی جہادی ،تحریکی اور ملک و قوم کے لیے ہمہ جہت خدمات دیکھ کر ابو نواس کا یہ شعر یاد آتاہے :
لیس علی اللہ بمستکر
ان یجمع العالم فی واحد

مولانا عبد المنانؒ ایک سو برس کی زندگی گزار کر سوموار 23 ستمبر2024 کو اپنے رب کے حضور پیش ھو گئے۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت اور ان کی خدمات کو قبول فرمائیں اور ان کو جنت میں اعلیٰ مرتبہ عطا فرمائیں۔آمین۔
٭٭٭