عبدالباسط (شہید)
آٹھ نو گھنٹے کے مسلسل سفر کے بعد ایک قریبی ساتھی کے گھر پہنچا۔ نماز عشاء اور کھانے کے بعد میرے اس ساتھی نے یہ دلدوز خبر سنا دی کہ علی محمد ڈار المعروف برہان الدین حجازی شہید ہوگئے ہیں۔۔۔۔!! میرے اندر ایک تلاطم پید اہوگیا… سکتے کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ میرے ساتھی نے میرے جذبات کو بھانپ لیا اور تسلی دیتے ہوئے کہا‘ یہ راستہ ہی ایسا ہے‘ اس میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘ پھر بھی دل و دماغ اس دل ہلا دینے والی خبر کو ماننے سے انکار کر رہے تھے۔ میں اپنی پیاری تنظیم حزب المجاہدین کو یتیم محسوس کرنے لگا۔ مجھے یقین ہے کہ آر پار میرے پیارے مجاہدین ساتھیوں میں اکثر و بیشتر کا یہی حال ہوگا۔
برہان الدین حجازی شہید کا اصل نام علی محمد ڈار تھا‘ وہ تنظیم کے لئے حیاتِ نو کا پیام بن گئے۔ اُن کی شخصیت اپنی بے پناہ صلاحیتوں کی بدولت جنگ بندی لائن کے اُس پار پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہی تھی۔ یہی وہ وقت تھا کہ ربّ ذوالجلال نے اپنے بندے کی خدمات کا صلہ دینے کے لئے اُن کے سینے پر شہادت کا تمغہ سجایا۔ اللہ کا پاک بندہ کامران ہوگیا۔
ڈار صاحب بظاہر ایک شخص تھے مگر اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، ایک قائد تھے۔ سادہ طبیعت تھے اور زیادہ تر خاموش رہتے تھے، مگر جب بولتے تو دوسرے خاموش ہو جاتے تھے۔ بے مثل خطیب تھے۔ گویا اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ دل چاہتا ہے کہ ان کے تمام اوصاف بیان کروں مگر کم علمی اور الفاظ کی کمی آڑے آرہی ہے۔ بس یہی کہہ سکتا ہوں ؎
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

یہ1991ء کے ابتدائی ایّام کی بات ہے، مجھے بیس کیمپ آئے ہوئے چند ہی دن گزرے تھے کہ جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے مرکزی دفتر مظفر آباد میں محترم ڈار صاحب سے کھڑے کھڑے پہلی ملاقات ہوئی۔ اس سے پہلے مقبوضہ وادی میں ہی غائبانہ تعارف تھا۔ میں نے اس پہلی ہی ملاقات میں اُن سے شکایت کر دی کہ مجھے کوئی ملتا ہی نہیں…. ڈار صاحب نے انتہائی شفقت سے مسکراتے ہوئے میری تمام شکایات و سوالات کا تسلی بخش جواب دیا۔ پہلی ملاقات نے مجھے ڈار صاحب کا گرویدہ بنا دیا۔۔ اس سے میرا قریبی تعلق شہید سے قائم ہوگیا۔ اگرچہ مسلسل میری کوشش رہتی کہ میں آپ کے سامنے طالب علمانہ سنجیدگی قائم رکھوں اور اُن کا احترام کروں مگر انہوں نے اپنے آپ کو بڑا ظاہر نہیں کیا۔ میں دفتر میں نیا نیا تھا تو محترم پیر صاحب بھی میری دلجوئی اور حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ انہی دنوں پیر صاحب بیس کیمپ سے محاذ پر چلے گئے۔ آپ کے جانے کے بعد محترم ڈار صاحب میرے پاس آتے اور مجھے اپنی محبت اور شفقت سے نوازتے تھے۔ یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ تعلقات بڑھنے سے تلخیاں بڑھتی ہیں۔ محبت اور احترام میں کمی واقع ہوتی ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے آپس کے تعلقات مزید بہتر ہوتے رہے۔ بے تکلفی، چاشنی اور مٹھاس میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔
اگر غلطی بھی سرزد ہوجاتی تو انتہائی شفقت اور پیار بھرے انداز میں غلطی دور کرنے کی نصیحت فرماتے۔۔۔ قرآن و حدیث، جہاد و قتال، دینی تعلیم و تربیت، درویشی اور تصوف، تحریکِ اسلامی، حزب المجاہدین، منصوبہ بندی، نظم و ضبط، امر و اطاعت، عالم اسلام اور علماء و صلحائے اُمت وغیرہ کے موضوعات پر عالمانہ گفتگو فرماتے۔
ڈار صاحب محترم کی خاص عادت تھی کہ جن ساتھیوں کے ساتھ بے تکلف ہوتے تو مصافحہ کرتے وقت اُن کا ہاتھ ازراہِ مذاق دباتے تھے۔ میرا ناتواں ہاتھ ان کے مضبوط ہاتھوں میں آتا تو سانس رُک جاتا مگر ڈار صاحب کے احترام اور محبت میں‘ میں یہ ”ساری سختی“ برداشت کرتا تھا۔ میری طرح دوسرے بے تکلف مگر ”کمزور ساتھیوں“ کا بھی یہی حال تھا‘ وہ ڈار صاحب کی ”پکڑ“ سے بچنے کی آرزو کرتے تھے۔
وہ زیادہ تر عام مجاہدین کے درمیان رہنا پسند کرتے تھے۔ 1995ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے ملک گیر تاریخی اجتماع عام میں محترم ڈار صاحب بھی شریک تھے۔ ڈار صاحب کو مقبوضہ علاقے سے آئے ہوئے چند ہی مہینے ہوئے تھے۔ اس اجتماع میں کشمیری مجاہدین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مجھے یاد ہے کہ مانسہرہ کے ایک رفیق جماعت نے مجاہدین کے بیٹھنے اور سونے کے لئے چٹائیوں کا بندو بست کیا تھا۔ ڈار صاحب انتہائی سادہ لباس میں تھے اور ہمارے ساتھ تینوں دن اُن ہی چٹائیوں پر بیٹھتے اور لیٹتے رہے۔ جب میں لوگوں کو بتاتا کہ یہ ہمارے نائب سپریم کمانڈر محترم برہان الدین حجازی ہیں‘ تو اکثر لوگ اس بات کا یقین نہیں کرتے تھے۔
1996ء میں ہم نے بیس کیمپ میں حزب المجاہدین کے اہتمام سے ”اخوت کی بستی“ کے نام سے اپنی نوعیت کا ایک منفرد اجتماع منعقد کیا جس کا ناظم اجتماع مجھے مقرر کیا گیا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اجتماع میں وقفہ ہوتا یا پروگرام یاسونے کا اعلان ہوتا تو محترم ڈار صاحب مسلسل اسی جگہ پر بیٹھے رہتے۔ حالانکہ ساتھی بضد تھے کہ وہ کسی ٹینٹ میں آرام فرمائیں مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا، وہیں قیام فرما کر اپنی سخت جانی کا امتحان دیا۔
ایک دفعہ مجھ پر شدید بخار کا حملہ ہوا۔ کشمیر سرجیکل ہسپتال میں داخل ہوگیا‘ بخار کی شدت میں جل رہا تھا کہ محترم ڈار صاحب دوسرے ساتھیوں سمیت میری مزاج پرسی کے لئے وارڈ میں داخل ہوئے۔ سلام و کلام کے بعد ارد گرد ساتھیوں کو میری طرف اشارہ کرکے بتایا کہ اس کا سر اور ہاتھ پاؤں دباؤ، میر اتجربہ ہے کہ اس سے بخار کم ہو جاتا ہے۔ انہوں نے خود میرے پاؤں دبانے شروع کیے۔ میں نے عرض کیا‘ ڈار صاحب مجھے گنہگار نہ کریں۔ لیکن آپ نے انتہائی شفقت بھرے لہجے میں ڈانٹ پلا کر خاموش کر دیا۔ تقریباً دس منٹ تک خود اپنے ہاتھوں سے دباتے رہے اور ایک قرآنی آیت کا ورد کرنے کو کہا۔ اس سے واقعی میرے بخار میں کمی آگئی۔
اساتذہ کرام کسی بھول چوک پر تھوڑی بہت سزا دیتے تو ڈار صاحب فوراً کھڑے ہو جاتے اور پوری مستعدی سے گروپ کے ساتھ ”سزا“ بھگتنے میں بھی شامل ہو جاتے تھے۔
تربیت کے دوران ہی ایک دن میں نے ”درسِ قرآن“ کی فرمائش کی‘ تو درس دینے پر آمادہ ہوگئے۔ اس موقعے پر فرمایا کہ درس قرآن دینے کی صلاحیت نہیں، صرف تعمیل حکم میں کھڑا ہوگیا ہوں۔ میں اپنی جگہ پریشان تھا کیونکہ میں آپ کی موجودگی میں اپنے آپ کو ”امیر“ نہیں سمجھتا تھا۔ درس سورۃ الحجرات کی پہلی آیت پر تھا۔ آپ نے فرمایا جہاد و قتال کاسائن بورڈ امرو اطاعت اور نظم و ضبط۔ جس طرح خود نظم کی پابندی کرنا آپ کا شیوہ تھا، ساتھیوں کو بھی اسی پر زور دیا۔
ایک دفعہ مجھ سے پوچھا ”کوئی ایسی تفسیر ہے جس میں آیات کے بارے میں مکمل شانِ نزول درج ہو….. یعنی یہ آیت کب نازل ہوئی؟ دن کا کون سا وقت تھا؟ اور موسم کیسا؟ میں نے کہا نہیں میری نظروں سے ایسی کوئی تفسیر نہیں گزری جس میں اتنی باریک بینی سے شان نزول کا تذکرہ ہوا ہو۔ پھر کسی فلسفی سے منسوب یہ قول سنایا جس نے قرآن کو سمجھنا ہو اور رسول محترمؐ کی زندگی کو سمجھنا ہو، وہ عرب کے اس وقت کے صحابہؓ کو سمجھے…. اور جس نے اُن پاکباز نفوس کو سمجھنا ہو تو عرب کے ریگستانوں اور سنگلاخ پہاڑوں کو سمجھے۔فرض نمازوں، تہجد، نوافل اور اذکار ِ مسنونہ سے اُن کا گہرا تعلق تھا۔ میدانِ کارزار سے بیس کیمپ پہنچے تو مجاہدین کے ایک کیمپ میں مجھ سے پوچھا۔۔۔ کیا یہاں لائبریری میں ”حصن حصین“ کتاب (جو روز مرہ کے جملہ امور اور دعاؤں کا ایک بہت بڑا اور مستند مجموعہ ہے) موجود ہے، جب اثبات میں جواب دیا تو بہت خوش ہوئے۔ فرمایا‘ مجاہدین کو یہ دعائیں آپ ضرور یاد کرائیں۔ میدان میں ان دعاؤں کے اثرات دل و دماغ پر مرتب ہوتے ہیں اور ایک مجاہد اطمینانِ قلب سے سرشار ہوتا ہے اور تعلق باللہ میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔
نظم جماعت کی کسی کوتاہی پر بات کرتے تو اکثر فرماتے… ”یہ مجھ جیسے گنہگار اور بے صلاحیت لوگوں کی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔ ایک سرد آہ بھر کر فرماتے‘ اللہ اس بارے میں ہم سے ضرور پوچھے گا‘ ہم کیا جواب دیں گے۔۔۔۔!
آپ کی کاوشوں سے سید مودودیؒ کے نام نامی سے ایک کیمپ تشکیل پاگیا۔ اس کا یہاں ذکر نہ کروں تو یہ مضمون پھیکا ہی رہے گا۔ کیمپ کی جگہ اور کیمپ کے لئے مجاہدین کا انتخاب انہوں نے خود کیا۔ سارے کیمپوں میں خود جاکر دو دو تین تین دن رہ کر مجاہدین کی ایک ٹیم منتخب فرمائی۔ وہ حزب کے سارے مجاہدین کو سادہ، دنیا سے بے نیاز اور محنتی اور جفاکش دیکھنا چاہتے تھے۔ ایک دفعہ مجھے اپنا ایک خواب سنایا۔ ”میں مقبوضہ وادی کے ایک جنگل میں پہاڑ کے اوپر بیٹھا ہوں اور بیداری میں ہی سوچوں میں گم ہوگیا۔ سوچ یہ رہا تھا کہ اس تحریک و تنظیم کو کس طرح کے مجاہدین درکار ہیں اور یہی سوچتے سوچتے گہری نیند میں چلا گیا۔ خواب میں دیکھا کہ میرے سامنے ایک بہت ہی اونچا پہاڑ ہے جس پر چڑھنا انسان کے بس سے باہر ہے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک مجاہد اس پہاڑ پر اپنی ساری طاقت و قوت جمع کرکے مسلسل چڑھتا جا رہا ہے۔ مجاہد کے چہرے سے تھکاوٹ کے آثار نمایاں طور پر نظر آرہے ہیں۔ اس کے سارے جسم سے پسینہ پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ بال بکھرے ہوئے ہیں، چہرہ گرد و غبار سے اٹا ہوا ہے، ناخن بہت لمبے لمبے ہیں اور کپڑے بھی میلے ہیں، مگر مجاہد تھکنے کا نام نہیں لیتا اور ساری دنیا سے بے نیاز اپنے کام میں مصروف ہے۔ نیند سے بیدار ہوا تو دل و دماغ پر یہ بات نقش ہوئی کہ اسی طرح کے مجاہدین اس تحریک و تنظیم کو ضرورت ہیں۔ سید مودودیؒ کیمپ اسی خواب کا عکس ہے۔“
یہاں ڈار صاحب نے مجاہدین کو بالکل اسی انداز میں تربیت دینا شروع کیا۔ واقعی المودودیؒ کیمپ کے ساتھی بہت ہی محنتی اور جفاکش ثابت ہوئے جنہوں نے سال میں دو دو تین تین اور چار چار مرتبہ جنگ بندی لائن عبور کی۔ تحریک و تنظیم کو ان سے خاصا فائدہ پہنچا۔ آپ ساری تحریک و تنظیم کو اسی ڈگر پر لانا چاہتے تھے۔
اگرچہ مجھے المودودیؒ کیمپ میں جانے کا کبھی اتفاق نہ ہوا مگر اس کیمپ کے نام، کام اور رنگ ڈھنگ سے مجھے بہت محبت تھی۔ اس موقعے پر میں اپنے قائدین کے سامنے یہ تجویز بھی رکھتا ہوں کہ کیمپ کو اسی مسلسل نہج پر رکھنے کی کوشش کی جاتی رہے جس طرح اسے شروع کیا گیا اور ڈار صاحب نے چلایا تھا۔
آج جب میں یہ حقیقت تسلیم کرچکا ہوں کہ شہید ہم سے رخصت ہوچکے ہیں اور اپنے رب سے مل چکے ہیں لیکن مجھے یقین ہے آپ کی زندگی ہمارے لئے ہمیشہ مشعلِ راہ رہے گی۔ میں نے شہید محترم کی زندگی کے محض چند گمنام گوشوں سے صرف اس وجہ سے پردہ اُٹھایا تاکہ آپ کی زندگی میں مشن اور مقصد سے لگن، جہاد و قتال سے وارفتگی، دنیا سے بے نیازی اور ان کی ذات میں جو تقویٰ و پرہیزگاری تھی‘ ہم بھی ایسا ہی بننے کی کوشش کریں۔ میری اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شہید کے مشن اور پروگرام کو آگے لے جانے کی توفیق عطا فرمائے۔ شہید کی مساعی جمیلہ کو شرفِ قبولیت سے نوازے۔ شہید کے حق میں قرآن و حدیث میں جتنے بھی انعامات کے تذکرے آتے ہیں، وہ سب آپ کو نصیب ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی سعادت و شہادت کی زندگی نصیب کرے۔ آمین! شہید کی روح ہمیں یہ پیغامِ اقبالؒ دے رہی ہے ؎
تیرے دریا میں طوفان کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
عبث ہے شکوہ تقدیر یزداں
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے؟
یہ خراج عقیدت ادا کرنے والے جناب عبد الباسط شہید کے مشن پر چل کر، پھر دسمبر1998خود بھی شہادت سے سرفراز ہوئے