غازی شہاب الدین شہیدؒ

خواجہ محمد شہباز وانی

وطن عزیز جموں و کشمیر کو بھارتی غاصبانہ اور جابرانہ قبضے سے چھڑانے کیلئے اہلیانِ کشمیر نے ہر قسم کے پُرامن اور جمہوری طریقے استعمال کیے لیکن بھارتی سورماؤں کی ہٹ دھرمی، انتہا پسندی اور غیر حقیقت پسندانہ رویہ ہمیشہ ان سنجیدہ کوششوں میں رُکاوٹ رہا۔ 1987ء میں کشمیریوں کی متحدہ جمہوری جدوجہد کو جب بھارتی سرکار نے فوجی اور نیم فوجی دستے استعمال کرکے ناکام بنا دیا اور کٹھ پتلی سرکار قائم کی تو فرزندانِ کشمیر نے فوجی قوت کا جواب صندوق کے بجائے بندوق سے دینے کا عہد کیا اور بھارت کے خلاف اعلانِ جہاد کیا۔ جہادِ کشمیر کا نعرہ بلند ہوتے ہی پوری ریاست میں انقلاب اور ہلچل پیدا ہوئی۔ مرد و زن، خورد وکلاں تحریک آزادی کے کارواں میں اپنی اپنی حیثیت سے شامل ہوئے اور آج تک یہ تحریک جاری و ساری ہے۔

اس حقیقت سے کوئی صاحب علم و دانش انکار نہیں کرسکتا کہ عسکری جدوجہد سے پہلے مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو منوانے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس کے حل کے لئے صرف جماعت اسلامی جموں و کشمیر ہی آواز بلند کرتی رہی‘ خاص کر قائد حریت امام سید علی گیلانی ؒ ہمیشہ صدائے حریت بلند کرتے رہے اور زندگی کی آخری سانس تک وہ صبر و استقامت کے ساتھ اسی راہ پر ڈٹے رہے۔ امام گیلانیؒزیر حراست ہی شہادت کا جام پی کر امر ہوگئے.اللہ تعلی ان کے درجات بلند فرمائے ۔ تحریکِ آزادیئ کشمیر میں قریباً تمام کشمیریوں کا خون شامل ہے۔ اس میں ہر طرح کی مالی، جانی اور عزت و عصمت کی قربانیاں شامل ہیں اور سب سے زیادہ نمایاں اور مسلسل کردار حزب المجاہدین کا ہے جو شروع سے اب تک اپنے اصولی مؤقف پر استقامت سے آگے بڑھ رہی ہے۔ہمارے سامنے واضح اہداف ہیں جن پر کسی بھی قیمت پر کوئی سودابازی نہیں کی جاسکتی۔ عظمت اسلام اورآزادیئ کشمیر۔ ان اہداف کو حاصل کرنے کے لئے حزب المجاہدین کے بزرگوں، جوانوں، نونہالوں اور خواتین نے جو بے شمار بیش بہا قربانیاں پیش کی ہیں اور آج بھی دے رہے ہیں، وہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ جہادِ ہند اور آزادیئ کشمیر کے اس کارواں میں حزب المجاہدین کے عام کارکنوں سے لیکر مرکزی ذمہ داروں تک ہزاروں جانثاروں نے اپنی جانیں راہِ خدا میں قربان کر دیں اور اسلام اور آزادی کے شجر سایہ دار کو اپنے گرم گرم لہو سے سیراب کیا۔ ان ہی مرکزی ذمہ داروں میں ایک نمایاں نام عبدالرشید شہردار عرف غازی شہاب الدین شہیدؒ کا ہے جس کی ساری زندگی دین اور جہاد سے عبارت ہے۔

کھنموہ تحصیل سرینگر کا ایک خوبصورت علاقہ ہے جو دین ودنیا دونوں حوالوں سے زرخیز اور آباد ہے۔ اسی خوبصورت علاقے میں ایک نہایت ہی دیندار اور تحریکی گھرانہ محمد یوسف شہردار صاحب کا ہے جو اسلامیہ ہائی اسکول کھنموہ کے ہیڈ ماسٹر رہے ہیں۔ اُن کے گھر 1974 ء میں ایک خوبصورت بچہ پیدا ہوا جس کی ذہنی تربیت گھر کے دینی ماحول اور پھر اپنے والدین نے بڑی محنت سے کی۔ بچے کا نام عبدالرشید رکھا گیا۔ پانچ سال کی عمر میں والد صاحب نے اپنے اسلامیہ ہائی سکول میں داخل کرلیا۔ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول کھنموہ میں ٹی ڈی سی سیکنڈ ایئر پاس کیا۔ تعلیم کے دوران کھیل کود اور تقریری مقابلوں میں حصہ لیتے رہے اور علاقے کی مساجد میں جمعۃ المبارک کے مواقع پر خطاب بھی کرتے رہے۔ اس طرح عبدالرشید شہردار ایک طالب علم ہونے کے ساتھ تحریکِ اسلامی کے مبلغ بھی بن گئے۔ اسی دوران عبدالرشید کو جوائنری مِل (Joinery Mill) پانپور میں ملازمت ملی۔ انہوں نے ملازمت کے دوران بھی تبلیغی محاذ گرم رکھا یہاں تک کہ کشمیر میں تحریکِ آزادی نے کروٹ لی اور جہاد کشمیر کا اعلان ہوا۔ عبدالرشید شہردار نے اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو جہاد کے لئے وقف کر دیا۔ اُن کی صلاحیتوں کو دیکھ کر حزب المجاہدین کی اعلیٰ قیادت نے انہیں علاقے کی عسکری ذمہ داری سونپی جبکہ انہوں نے مقامی سطح پر ہی عسکری تربیت حاصل کی تھی۔ عبدالرشید شہردار کو جب حزب المجاہدین کا سیکشن کمانڈر مقرر کیا گیا تو اُن کا جہادی نام اقبال رکھا گیا۔ یہ نام اُن کی اپنی پسند کا تھا کیونکہ اُن کو علامہ اقبالؒ کے کلام اور پیام کے ساتھ زبردست عقیدت تھی۔ اب کمانڈر اقبال وہ پہلے مجاہد بنے جس نے کشمیر کی مشہور اور مقبولِ عام درگاہ حضرت بل سرینگر جو کشمیریوں کی مرکزی دینی اور روحانی درگاہ ہے میں خود وہاں کھڑے ہوکر ہزاروں لوگوں کو دعوتِ جہاد دی اور اُس کے بعد یہ درگاہ کافی مدت تک ایک جہادی مرکز بنی۔

کمانڈر اقبال شہردار کا گھر ہی نہیں بلکہ پورا خاندان جماعت اسلامی اور تحریکِ آزادی کے ساتھ وابستہ ہے۔ اُن کے بہنوئی جناب ہارون الرشید شہید حزب المجاہدین کے اوّلین ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریٹر برائے سرینگر تھے۔ اُن کی شہادت کے بعد اس خاندان نے کئی اور جوانوں کو راہِ جہاد میں پیش کیا۔ کمانڈر اقبال نے ہر محاذ پر اپنا لوہا منوایا اور ترقی کی منازل طے کرتے گئے‘ یہاں تک کہ بٹالین کمانڈر تعینات ہوئے۔ بھارتی فوج پر اُن کا اتنا دباؤ تھا کہ وہ آئے روز ہزاروں کی تعداد میں نکل کر پورے علاقے کا کریک ڈاؤن کرتے اور صرف اقبال شہردار کا پوچھتے تھے کیونکہ کمانڈر اقبال نے علاقے کے سینکڑوں نوجوانوں کو عسکری تربیت کے لیے بیس کیمپ روانہ کیا تھا اور یہ کام وہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ 1998ء میں وہ بیس کیمپ آئے اور حزب المجاہدین کے بالائی نظم نے اُن کو کئی اہم ذمہ داریوں پر فائز کیا جو انہوں نے بحسن و خوبی انجام دیں۔ کمانڈر اقبال شہردار ناظم دفتر رہے اور پھر شعبہئ ٹرانسپورٹ کے ناظم بھی رہے۔ ہر جگہ انہوں نے اپنی دیانتداری، امانتداری اور اعلیٰ صلاحیتوں کا ثبوت پیش کیا۔ اس دوران میں وہ مجاہدین کے کیمپوں میں جاکر اپنی منفرد آواز اور منفرد طرز گفتار سے مجاہدین کے اندر جذبہئ جہاد اور شوقِ شہادت پروان چڑھاتے رہے۔ میں نے محترم شہردار صاحب کو کبھی غصہ کرتے نہیں دیکھا بلکہ ہمیشہ مسکراتے پایا۔ نہایت سنجیدہ، نہایت بردبار اور حلیم و شفیق پایا۔ وہ بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ بچوں کو گود میں اُٹھا کر چومتے تھے اور آنکھیں نم ہو جاتی تھیں،شاید اُن کو اپنے بچے یاد آتے تھے کیونکہ وہ خود پانچ معصوم بچوں کے باپ تھے۔

2001ء میں حزب المجاہدین کی کمانڈ کونسل نے میدانِ کارزار میں ایک تازہ دم اور باصلاحیت ٹیم روانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس ٹیم میں جہاں غلام حسن خان عرف سیف الاسلام شہید اور محترم عمر جاوید عرف غازی نصیر الدین کا نام آیا‘ وہاں کمانڈر اقبال شہردار کا نام بھی شامل ہوا۔ میدانِ کارزار میں حالات کی نزاکت اور ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور موصوف کی قابلیت اور صلاحیت کو دیکھتے ہوئے انہیں ڈویژنل کمانڈر برائے وسطی ڈویژن مقرر کیا گیا۔ 2003ء میں چیف آپریشنل کمانڈر سیف الاسلام کی شہادت اور جنوری 2004ء میں محترم غلام رسول ڈار عرف غازی نصیر الدین کی شہادت کے بعد کمانڈر اقبال شہردارکو چیف آپریشنل کمانڈر مقرر کیا گیا اور وہ اب غازی شہاب الدین کے نام سے مشہور ہوگئے۔ حزب المجاہدین نے اس جواں سال اور باصلاحیت کمانڈر سے کافی امیدیں وابستہ کی تھیں اور وہ نظم کی امیدوں پر پورے اتر رہے تھے۔ انہوں نے قابض بھارتی افواج کے خلاف عسکری کاروائیوں کی ایسی منظم منصوبہ بندی کی کہ دشمن انگشت بدنداں رہ گیا۔ بہر حال آخر وہ گھڑی آہی گئی جب غازی شہاب الدین نے اپنے رب کے ساتھ کیا ہوا وعدہ پایہ تکمیل کو پہنچا دیا۔6 مئی بروز جمعرات2004ء کو سرینگر کے علاقہ زینہ کدل، گرگری محلہ میں نذیر احمد نجار ولد غلام محمد نجار کے گھر کو بھارتی ملٹری، پیرا ملٹری اور پولیس نے گھیرے میں لے لیا اور ساتھ ہی پورے علاقے کا محاصرہ کر لیا۔ یہاں غازی شہاب الدین اپنے ایک مجاہد ساتھی کے ہمراہ چند گھنٹے پہلے قیام پذیر ہوئے تھے۔ فوج اور پولیس کے اچانک حملے کو دیکھ کر شہاب الدین نے اپنے ساتھی کو نکل جانے کا حکم دیا اور کہا میں آخری لڑائی اکیلے ہی لڑوں گا اور پھر خود بھارتی افواج کے خلاف نبرد آزما ہوئے۔ دن کے بارہ بجے تک وہ پینترے بدل بدل کر لڑتے رہے اور آخرکار ایمونیشن ختم ہونے پر دشمن کی کئی گولیاں اپنے سینے پر کھا کر اللہ کی جنتوں کی طرف چلے گئے۔ انا للہ و انا للہ راجعون!

ان کی شہادت کی خبر سن کر لوگوں کا سمندر اُمڈ آیا۔ شہید کو بڑے احترام سے اپنے آبائی علاقے کھنموہ میں ہزاروں لوگوں نے اشک بار آنکھوں سے آخری دیدار کرکے آخری آرام گاہ کے حوالے کیا۔ عجیب روح پرور منظر تھا، خوشبوئیں ہر سو بکھر رہی تھیں۔ معصوم بچے آٹھ سال کے بعد اپنے عظیم باپ کو جنت کا دولہا بن کر سوئے جنت روانہ ہوتے دیکھ رہے تھے۔ اللہ اکبر! یہ صبر، یہ عظمت، یہ قربانی، یہ جدائی….. اس کا اجر دنیا میں آزادی اور آخرت میں جنت کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا….. اللہ ہمارے اس عظیم ساتھی کی قربانی قبول فرمائے۔

مقصد کے لئے جو بہہ جائے، وہ پاک لہو سستا تو نہیں
ہر روز اُفق پر سجتا ہے، شہداء کا لہو چھپتا تو نہیں

٭٭٭