مسرور احمد
یوں تو سبھی دنیا میں مرنے کے لئے آتے ہیں مگر موت تو اسی کی ہے جس پر زمانہ افسوس کرے۔ ایسی موت تو خوش نصیب لوگ ہی مرا کرتے ہیں۔ تقدیر تو اپنی جگہ برحق ہے مگر زندگی بنانے میں عزم کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے اور جن کا عزم اس طرح ہو ؎
جئیں تو غازی مر جائیں تو شہید سحرؔ
ہم کو نہیں قبول کوئی درمیان کی بات
بھلا ایسے دیوانوں کو کون خرید سکتا ہے انہیں تو درمیان والی کوئی بات قبول ہی نہیں ہوتی…… وہ دنیا میں رہ کر سعادت کی زندگی گزارتے ہیں اور شہادت کی موت ان کا مقدر بنتی ہے۔ حزب المجاہدین کے ڈپٹی سپریم کمانڈر غازی نصیب الدین بھی ایسے ہی بلند نصیب تھے۔ انہوں نے جیسا چاہا ویسا ہی پایا۔ سکندری کا تاج اس وقت اُن کے سر سجا، جب ۶/ مارچ 1997ء کو انہیں سرینگر سے ایک اہم نشست کے درمیان گرفتار کیا گیا اور پھر 7مارچ کو وحشیانہ تشدد کے بعد انہیں شہید کر دیا گیا۔ شہید موصوف کی گرفتاری اپنے چند دوسرے کمانڈروں کے ہمراہ اس وقت عمل میں آئی جب آپ انہیں ایک اہم منصوبے کے متعلق بریف کر رہے تھے۔ مخبر کی بھر وقت اطلاع پر ٹھیک دن کے تین بجے اس جگہ پر چھاپہ مارا گیا جہاں نشست ہو رہی تھی۔ گرفتار کرتے ہی فوج آپ کو سرینگر کے نواح میں کسی خفیہ مقام پر لے گئی جبکہ آپ کے دوسرے کمانڈر ساتھیوں منظور احمد خان، فردوس کرمانی اور غازی الیاس کو دوسری مختلف جگہوں پر لے جایا گیا۔ یہ سب لوگ بھارتی حکومت کو برسوں سے مطلوب تھے۔ غازی نصیب الدین تو پھر غازیوں کے کارواں کے روح رواں تھے…………! آپ کو ایک چارپائی کے ساتھ کس کے باندھ دیا گیا اور اشارہ ملتے ہی کئی فوجی بھوکے بھیڑیوں کی طرح آپ پر ٹوٹ پڑے۔ واہ……! کیا بہادری ہے بھارتی سورماؤں کی……! ایک ایسے نہتے انسان کے اوپر حملہ آور ہو رہے ہیں جس کے ہاتھ پاؤں بندھے پڑے ہیں۔جب تشدد سے بھارتی سورما پوری طرح لطف اندوز نہیں ہوئے تو انہوں نے کئی گولیاں آپ کے سینے میں اُتاریں۔ آپ نے زبان سے کلمہ حق ادا کیا اور روح عالم بالا کی طرف پروار کر گئی ؎
اسی وقت آپ کی لاش کو اٹھا کر چھرگام اسلام آباد کے علاقے میں سڑک کے کنارے پر چھوڑا گیا۔ یہاں دوسری طرف جمہوریت کے دعویداروں اور امن و امان کے داعیوں نے ریڈیو کے ذریعے اعلان کر دیا کہ حزب المجاہدین کے ڈپٹی سپریم کمانڈر غازی نصیب الدین فوج کے ساتھ ایک مقابلے میں مارے گئے ہیں۔7 مارچ جمعہ کے روز جب لوگوں نے چھرگام سے آپ کی لاش برآمد کی تو خبر سنتے ہی پورے کشمیر میں سکتہ طاری ہوگیا۔ دکانیں بند ہوگئیں اور کاروباری زندگی معطل ہوکر رہ گئی۔ لاش کو آپ کے گھر پہنچایا گیا۔ ہزاروں انسان مختلف راستوں سے آپ کے آبائی گاؤں نیلو کولگام کی طرف آرہے تھے۔ فوجیوں کے لاکھ روکنے پر بھی لوگ آپ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے پروانہ وار لپکتے رہے۔ حزب کے مجاہدین نے کئی جگہوں پر فوجی کیمپوں اور چھاؤنیوں پر حملہ کرکے اپنے محبوب قائد کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی شہادت سے تنظیم اور تحریک ایک گراں قدر سرمایہ سے محروم ہوئی مگر آپ کی شہادت سے کئی نئے غازی میدان میں آئیں گے اور آپ کے چھوڑے ہوئے مشن پر چل کر اپنی مظلوم قوم کو آزادی سے ہمکنار کریں گے۔ انشاء اللہ!
آپ کی جرأت اور مردانگی آنے والے مجاہدین کے لئے مثال ہے۔
بیس کیمپ میں دو ماہ تک وہ مجاہدین کی دینی اور فکری تربیت میں مصروف رہے۔ اگست 1990 میں مجاہدین کو سیف اللہ کی قیادت میں حزب اسلامی افغانستان کے زیر اہتمام چلنے والے کیمپ میں عسکری تربیت کے لئے روانہ کیا گیا۔ وہاں پر تربیت حاصل کرکے وہ واپس آگئے۔۔نومبر 1990ء کی بات ہے کہ حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین احمد بیس کیمپ آئے اور بیس کیمپ میں موجود کمانڈنگ کیڈر کو میدان کارزار جانے کا حکم دیا۔ ان میں سیف اللہ سرفہرست تھے۔ امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر عبدالرشید ترابی صاحب نے اُن کو کئی بار یہیں رہنے کے لئے کہا لیکن وہ نہ مانے۔ کئی روز کے کٹھن سفر کے بعد وہ 80 مجاہدین کا گروپ لیکر وادی پہنچ گئے۔
کمانڈر سیف اللہ کو ڈپٹی ڈسٹرکٹ کمانڈر اسلام آباد مقرر کیا گیا۔ کمانڈر سیف اللہ نے اپنے آبائی ضلع میں کئی کامیاب کاروائیاں کیں۔ جنوبی کشمیر میں حزب المجاہدین کو فعال بنانے میں کمانڈر سیف اللہ کا خاص کردار رہا ہے۔ ۱۹۹۱ء میں سپریم کمانڈر سید صلاح الدین احمد نے اُن کو ڈپٹی ڈویژنل کمانڈر مقرر کیا۔ ان کی نگرانی میں مجاہدین نے نیشنل ہائی وے پر کئی کامیاب کاروائیاں کیں جن میں تین گاڑیاں، سینکڑوں فوجی، درجنوں فوجی آفیسر ہلاک ہوئے۔ 1993ء میں جب حزب کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین احمد نے تحریک کے لئے نائبین کی ضرورت محسوس کی تو کمانڈر سیف اللہ ڈپٹی سپریم کمانڈر غازی نصیب الدین بن گئے۔ نئی ذمہ داری اُن کی صلاحیتوں اور غیر معمولی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت تھی۔
شہید مقبول علائی اور شہید اشرف ڈار کی طرح وہ بھی مجاہدین میں گھل مل جاتے تھے۔ جب مجاہدین کے ساتھ ہوتے تو بڑے بھائی کی طرح ہدایات جاری کرتے تھے۔ موصوف جہاں بھی جاتے کوئی نہ کوئی ایکشن پروگرام تیار کرتے تھے۔ کارروائیوں میں مجاہدین کے شانہ بشانہ حصہ لیتے تھے اور کامیاب عسکری کارروائیوں پر مجاہدین کی حوصلہ افزائی کے لئے انعامات دیتے تھے۔ 1994ء میں جب سید صلاح الدین احمد بیس کیمپ جانے لگے تو غازی نصیب الدین کو سرینگر اور ڈوڈہ پر خاص توجہ دینے کو کہا۔ اسی سلسلے میں 1995ء میں سرینگر کے علاقہ بٹہ مالو میں ایک خصوصی نشست ہو رہی تھی۔ میں بھی نشست میں موجود تھا۔ فوج کو ہماری موجودگی کا علم ہوگیا۔ بھارتی فوجیوں نے اچانک بٹ مالو کا کریک ڈاؤن کیا۔ مجاہدین نے کریک ڈاؤن توڑنے کے لئے کاروائی شروع کی تو غازی نصیب الدین مجاہدین کے شانہ بشانہ لڑ رہے تھے۔ وہ نازک حالت میں بھی ہماری کمانڈر کر رہے تھے۔“
نیلو کولگام اسلام آباد کی بستی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ غازی نصیب الدین جیسے عظیم انسان نے وہاں آنکھ کھولی۔ والدین نے محمد یوسف نام رکھا۔ میدان جہاد میں اترے تو سیف اللہ کے نام سے معروف ہوئے۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غازی نصیب الدین ڈپٹی سپریم کمانڈر حزب المجاہدین بن گئے۔ ناز و نعم سے پالنے کے ساتھ ساتھ والدین نے آپ کو اعلیٰ تعلیم سے بھی آراستہ کیا۔ اکنامکس میں ماسٹرز ڈگری حاصل کرنے کے بعد آپ نے ایم۔بی۔اے کی ڈگری حاصل کی۔ جماعت اسلامی کے ایک اہم رہنما مولانا محمد امین نقشبندی کا تعلق بھی آپ ہی کی بستی سے تھا۔ انہی کے کردار سے اس بستی کے نوجوان متاثر ہوئے اور بعد میں بیسیوں نوجوانوں نے جہاد کی راہ اختیار کی۔ کمانڈر ندیم الاسلام اور کمانڈر غفور جیسے عظیم سپوت بھی اسی بستی سے اُٹھے۔ آپ کی جان پہچان کالج کے ہی زمانے میں تحریک کے قائدین سے ہوئی۔ مولانا نقشبندی صاحب کے علاوہ شیخ غلام حسن امیر ضلع اسلام آباد نے آپ کو زندگی کے حقیقی مقصد سے آشنا کیا۔ آپ چاہتے تو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے اپنے اوپر زندگی کی آسائشوں کے دروازے کھول لیتے مگر تحریک جہاد کے آغاز کے ساتھ ہی آپ نے اپنے روشن مستقبل کے خواب ادھورے چھوڑ دیئے اور اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ہر گاؤں میں چھوٹے چھوٹے یونٹ تشکیل دیئے تاکہ عسکریت کو عام کیا جائے۔ آپ باقاعدہ 1990ء میں بیس کیمپ تربیت کے لئے آگئے اور چند ماہ کی قلیل مگر سخت ٹریننگ کے بعد واپس وادی لوٹے۔ واپسی پر حزب المجاہدین نے آپ کو ڈپٹی ڈسٹرکٹ کمانڈر اسلام آباد مقرر کیا۔ 1992 میں آپ کو ڈپٹی ڈویژنل کمانڈر بنایا گیا۔ آپ نے ہر ذمہ داری کو ایسے احسن طریقے سے نبھایا کہ حزب المجاہدین نے آپ کے کردار سے متاثر ہوکر آپ کو تنظیم کا ڈپٹی سپریم کمانڈر مقرر کیا۔ اعلیٰ صلاحیتوں کے باعث آپ کم عمری میں ہی اس بلندی تک پہنچے۔ ڈھائی برس تک آپ نے یہ ذمہ داری سنبھالی۔
آپ نے وادیوں، بیابانوں، شہروں اور جنگلوں میں بھارتی فوج کو ایسا سبق سکھایا جس سے وہ کبھی بھی بھلا نہ پائیں گے۔ آپ مسلسل سفر میں رہتے اور جگہ جگہ پہنچ کر اپنی بہادر اور جری سپاہ کو براہ راست ہدایات دیتے۔ سرینگر، اسلام آباد اور بارہمولہ کی ہموار زمین ہو یا کپوارہ اور ڈوڈہ کے فلک بوس پہاڑ، آپ نے قریہ قریہ جاکر تحریک جہاد کو متحرک اور فعال بنانے کے لئے اپنی توانائی صرف کی۔ آپ نے بھارتی جرنیلوں کے تیار کردہ پلان کئی مرتبہ خاک میں ملا دیئے۔
دسمبر 1991ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے کنیا کماری سے ”ایکتا یاترا“کا آغاز کیا تو اس کی منزل سرینگر کا لالچوک تھا۔ بھارتی فوج نے (بی جے پی) کو ضمانت دے رکھی تھی کہ لالچوک پر بھارتی پرچم لہرانے تک کوئی اُن کے راستے میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا۔ بی جے پی کے لیڈر مرلی منوہر جوشی اس مقصد کے لئے کشمیر کی حدود میں داخل ہوگئے۔ جموں میں تو انہوں نے خوب جشن منایا۔ وہ لوگوں کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ بت پرستوں نے کشمیریوں کو بھارت کی غلامی پر رضامند کرلیا ہے۔ بھارتی فوج قدم قدم پر یاتریوں کے استقبال اور حفاظت کے لئے چوکنا کھڑی تھی۔ ہوا میں بھی یاتریوں کا دفاع کیا جا رہا تھا مگر آپ اپنے شاہینوں کے ساتھ اُن کو لوہے کے چنے چبوانے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ آپ کی قیادت میں سینکڑوں مجاہدین نے ایکتا یاترا پر ہلہ بول کر اُن کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ قافلہ تتر بتر ہوگیا۔ بہت سارے یاتری موت کے گھاٹ اترے۔ اس طرح ”ایکتا یاترا“ ناکام ہوئی اور بے آبرو ہوکر بھارت واپس لوٹی۔ منوہر جوشی بھی رُسوا اور ذلیل ہوکر اپنے زخم چاٹتا ہوا دہلی بھاگا۔ نصیب الدین غازی نے اس موقع پر قیادت اور کمان کی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔
غازی نصیب الدین واقعی ایک عظیم گوریلا کمانڈر اور سیماب صفت مجاہد تھے۔ آپ آخری سانس تک اپنے ربّ سے کیے ہوئے عہد پر کاربند رہے۔ آپ نے حزب المجاہدین کو متحرک کرنے میں کلیدی رول ادا کیا۔ آپ نامساعد حالات میں بھی ہمیشہ ثابت قدم رہے۔ ناموافق حالات کے دھارے کو تبدیل کرنے کے لئے آپ تن من دھن کی بازی لگا دیتے تھے۔
سابق چیف کمانڈر شہید ریاض رسول نے ایک بار آپ کے بارے میں یہ واقعہ سنایا ”سرینگر میں ایک خفیہ ٹھکانے پر ہماری اہم نشست ہو رہی تھی۔ اہم کمانڈر حضرات نشست میں موجود تھے۔ اچانک باہر سے فائرنگ کی آواز سنائی دی۔ مالک مکان نے شور مچایا۔ غازی صاحب نے انہیں حوصلہ دیا اور پھر حوصلہ کن لہجے میں کہا ’کچھ بھی ہو ہم اجلاس ختم کرکے ہی یہاں سے نکلیں گے۔‘ چنانچہ نشست کا اختتام ہوا تو ہم دن بھر بھارتی فوج کے نرغے میں رہنے کے باوجود بعد میں نکل گئے۔“
پھر7 مارچ کو ایسی ہی ایک اہم نشست کے دوران آپ اپنے کئی رفقاء کار سمیت سرینگر میں گرفتار ہوئے۔ آپ کو بڑی بے دردی سے شہید کیا گیا۔ آپ کی شہادت کی خبر سن کر لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نیلو کولگام میں جمع ہوگیا۔ بھارتی فوج نے لاکھ کوشش کی کہ آپ کے عقیدت مندوں کو اپنے بہادر سپوت کو خراج عقیدت پیش کرنے سے روکاجائے۔ پھر بھی لوگ پروانہ وار لپکتے رہے۔ آپ کی شہادت کے غم میں 10/ مارچ کو پوری وادی میں ہڑتال رہی۔ انتقامی کارروائیوں میں مجاہدین نے کپواڑہ سے لیکر ڈوڈہ تک بھارتی فوج پر تابڑ توڑ حملے کرکے سینکڑوں فوجیوں کو جہنم واصل کیا۔ آپ کی شہادت سے مجاہدین کا جذبہ جہاد کم نہیں ہوا بلکہ اس میں اور زیادہ اضافہ ہوگیا۔ اللہ تحریک جہاد کو آپ کا نعم البدل عطا کرے۔ آمین!
٭٭٭