غزہ کے بچے جن کے خواب ادھورے رہ گئے

رچرڈ ہال، آریانا بائیو

غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے آغاز سے اب تک زمینی اور فضائی کارروائیوں میں سات ہزار سے زیادہ بچے جان سے جا چکے ہیں۔ ایسے ہی چند بچوں کی کہانیاں جن کے خواب ادھورے رہ گئے۔جنگ سے پہلے غزہ کی گلیاں بچوں سے بھری رہتی تھیں۔ بحیرہ روم کے کنارے واقع اس تنگ پٹی کو گھر کہنے والے 20 لاکھ افراد میں سے تقریباً نصف کی عمریں 18 سال سے کم ہیں۔
اختتام ہفتہ اور سکولوں سے چھٹی کے وقت یہاں کے ساحل، پارکس اور کھیل کے میدانوں میں بچوں کے ہنسنے اور کھیلنے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔لیکن غزہ کے بچوں کو اپنی مختصر زندگی میں بہت کچھ سہنا پڑا ہے۔ ایک 15 سالہ بچے نے اپنی زندگی میں حالیہ تنازع سمیت پانچ جنگوں کی ہولناکیوں کا مشاہدہ کیا ہو گا۔ بہت سے لوگ متعدد بار بے گھر ہو چکے ہیں کیونکہ ان کے گھر بمباری سے تباہ ہو گئے تھے۔اس سب کے باوجود انہوں نے اس طرح کی تباہی کا مشاہدہ پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے آغاز سے اب تک فضائی حملوں، توپ خانے اور مارٹر حملوں میں سات ہزار سے زیادہ بچے مارے جا چکے ہیں۔یہ تعداد صرف ان لوگوں کی ہے جن کی شناخت ہو چکی ہے اور بہت سے اب بھی ممکنہ طور پر ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ دیگر ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ غزہ کو ’ہزاروں بچوں کا قبرستان‘ اور ’بچوں کے لیے دنیا کی سب سے خطرناک جگہ‘ قرار دے چکا ہے۔
ان ناقابل یقین اعداد و شمار میں ان بچوں کے چہرے، نام، زندگی اور خوشی کے لمحات گم ہو گئے ہیں۔ ایسے ہی کچھ بچوں کی کہانیاں یہاں بیان کی جا رہی ہیں۔

13 سالہ پراعتماد ایتھلیٹ سوار المدہون

سوار المدہون اپنی عمر کے لحاظ سے دراز قد بچی تھی اور انہوں نے اس خوبی کو اچھے طریقے سے استعمال کیا۔ انہیں باسکٹ بال کا جنون تھا۔ انہیں جب موقع ملتا وہ یہ کھیل کھیلتی، سکول میں، اپنے ذاتی وقت میں اور گرمیوں میں بھی۔ انہوں نے کئی ٹرافیاں جیتیں۔ان کی ایک ویڈیو سامنے آئی جو ایک باسکٹ بال ٹورنامنٹ جیتنے کے بعد لی گئی تھی جس میں انہیں ایک بڑے سٹیج پر ایک ہجوم کے سامنے رقص کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جب کہ ان کے گرد کنفیٹی سپرے ہو رہی ہے اور میوزک بج رہا ہے۔پوری ٹیم اپنے تمغوں کے ساتھ جمپ کرتی ہے۔ وہ ہر وقت فلوریڈا کے ایک ہائی سکول کی باسکٹ بال کی پرانی جرسی پہنتی تھیں کیونکہ اس کے سامنے ایک باسکٹ بال ہوپ اور ایک بال ہوتی تھی۔ انہیں والی بال بھی بہت پسند تھی، ایک اور کھیل جہاں ان کے دراز قد نے انہیں فائدہ پہنچایا۔
ان کے چچا ہانی المدہون کہتے ہیں کہ ’سوار اپنی عمر کی زیادہ تر لڑکیوں سے زیادہ آزاد تھی۔ انہیں پرواہ نہیں تھی۔ وہ باہر جاتی اور خود ہی اپنے کام کرتی، ساحل پر جا کر تیراکی کرتی۔ وہ ہمیشہ کام کرتی رہتی تھی اور بالکل بھی نہیں شرماتی تھی۔‘وہ اپنے تمام بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ پراعماد تھی۔ صرف 13 سال کی عمر کے باوجود وہ انتہائی پر اعتماد تھی۔ ہانی کو یاد ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے والدین کی مدد کرنا چاہتی تھی۔ سوار المدہون کو پکنک کا شوق تھا۔ اگر ان کے ہاتھ میں پیسے ہوتے تو وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ قریبی ریسٹورنٹ جاتی جہاں وہ ہر بار ایک ہی کھانے کا آرڈر دیتی یعنی شوارما سینڈوچ، اچار، کارن سیلڈ اور فرائز۔ یہ ایک کلیم شیل کنٹینر میں ملتا تھا۔سوار المدہون منجھلی بیٹی تھی اور وہ اپنے چھوٹے بھائیوں اور بہنوں کی حفاظت کرتی تھی۔ وہ اپنے چھوٹے کزنز کی دیکھ بھال کرنا بھی پسند کرتی تھی جب وہ انہیں ملنے آتے تھے۔ ان کے چچا ہانی کی اپنی بیٹیاں بھی جب امریکہ سے غزہ جاتی تھیں تو اپنا سارا وقت ان کے ساتھ گزارتی تھیں۔ہانی کے بقول: ’میری بیٹیاں جہاں بھی جاتیں وہ ان کے ساتھ جاتی تھی۔ وہ ان کے ساتھ سائے کی طرح چپکی رہتی۔ وہ سب کی پسندیدہ تھی اور ہر کوئی ان کا دوست تھا۔

فٹ بال کا دیوانہ نو سالہ عمر المدہون

عمر فٹ بال کے کھیل کا دیوانہ تھا۔ وہ اپنے والد ماجد سے اس بات پر لڑتا تھا کہ دنیا کا سب سے بڑا کھلاڑی کون ہے۔عمر کے نزدیک کرسٹیانو رونالڈو دنیا کے سب سے بڑے کھلاڑی تھے جب کہ ان کے والد کا خیال تھا کہ یہ کریم بینزیما ہیں۔وہ دونوں ریال میڈرڈ کے پرستار تھے اس لیے لیونل میسی اس بحث کا حصہ نہیں تھے۔عمر نے پچھلے سال کا بیشتر حصہ ورلڈ کپ کے جنون میں گزارا لیکن وہ غزہ میں اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کی جرسی یا اس کھیل کا کوئی سامان نہیں خرید سکا کیوں کہ اسرائیل نے 2007 سے یہاں کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے چچا ہانی سے مدد طلب کی۔ہانی نے ایک سٹور سے گول کیپر کے دستانے، ایک فٹ بال اور ایک بیگ اپنے کسی جاننے والے کے ساتھ غزہ بھیجا۔ عمر کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ہانی کہتے ہیں: ’وہ گول کیپر نہیں تھا۔ اس کا کھیل جارحانہ تھا، وہ ان دستانوں سے صرف دکھاوا کرنا چاہتا تھا۔‘لیکن عمر نے اسے سنجیدگی سے لیا۔ وہ موسم گرما کے فٹ بال کیمپ میں شرکت کر رہے تھے تاکہ وہ کھیل کی مشق کر سکے۔فٹ بال کے علاوہ عمر اپنے والد کے قریب رہنا پسند کرتے تھے۔ وہ اپنے والد کی کریانے کی دکان پر ان کے گرد گھومتا رہتا۔ وہ ہمیشہ اپنے والد کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا تھا جس کی وجہ سے ان کا کام مشکل ہو جاتا تھا۔ہانی کا کہنا ہے کہ اس نے نمایاں ہونے کی کوشش کی اور اس کے لیے ایسا کرنا آسان نہیں تھا کیونکہ اس کی شخصیت جارحانہ نہیں تھی اور نہ ہی وہ اپنی موجودگی محسوس ہونے دیتا تھا۔
ان کے چچا انہیں ایک پیارے اور قابل اعتماد بچے کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ان کے بقول: ’اگر آپ اسے کچھ بھی کام کرنے کو کہتے تو وہ ہمیشہ تیار رہتا۔ وہ اس قسم کی شخصیت تھی جس پر آپ بھروسہ کر سکتے ہیں۔‘عمر خاص طور پر اپنے دادا کے قریب تھے۔ ہانی کا کہنا ہے کہ جس رات انہیں قتل کیا گیا اس رات ان کے دادا نے انہیں اپنے خواب میں نوجوان دیکھا۔ وہ آدھی رات کو بیدار ہو گئے اور 10 منٹ نہیں گزرے کہ اسرائیلی حملے میں عمر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

سات سالہ شرارتی علی المدہون

علی خاندان کے لیے ایک شرارتی بچہ تھا۔ وہ چھوٹا تھا لیکن اس کا جسم پھرتیلا تھا اور وہ ہمیشہ لڑتا رہتا تھا۔ اس کے والد مذاق میں کہتے تھے کہ علی کی نئی لڑائیوں کا جواب دینے کے لیے پڑوسیوں کے گھر جانا معمول بن گیا تھا۔ ان کے چچا ہانی کا کہنا ہے کہ والد بھی اپنے بچپن میں بالکل ایسے ہی تھے۔کوئی نہیں جان سکتا تھا کہ ان میں اتنی توانائی کہاں سے آتی ہے۔ جب گھر والے ساحل سمندر پر جاتے تو وہ ہمیشہ نظروں سے غائب ہو جاتا تھا۔ان کے چچا کے مطابق: ’اس کو ہدایات دینا سب سے مشکل کام تھا۔ وہ قابو سے باہر ہو جائے گا اور خطرے میں کود پڑے گا اور وہ نہیں مانے گا۔ وہ بہت ضدی تھا۔‘
لیکن وہ خاندان میں سب سے چھوٹا بچہ تھا، اس لیے وہ سب کا لاڈلہ بھی تھا یعنی کزنز، دادا دادی، والدین، بڑے بہن بھائی سب کا۔ علی اپنی مسکراہٹ دکھا کر بہت کچھ کر جاتا تھا۔وہ اپنے والد سے ہمیشہ چپکا رہتا۔ وہ ہر جگہ اس کا پیچھا کرتا۔
علی، عمر اور سوار 24 نومبر کو ایک اسرائیلی فضائی حملے میں اپنی بڑی بہن ریمان اور اپنے والدین ماجد اور صفا کے ساتھ مارے گئے تھے۔وہ حالیہ تنازع میں عارضی فائر بندی شروع ہونے سے صرف ایک گھنٹہ پہلے اپنے آبائی گھر میں مارے گئے جہاں وہ 40 دنوں سے پناہ لیے ہوئے تھے۔اس اسرائیلی حملے میں مزید لوگ بھی مارے جاتے لیکن خاندان کے آدھے لوگ ماجد اور ہانی کی بہن کو ہسپتال میں ملنے کے لیے جا چکے تھے۔وہ ایک الگ فضائی حملے میں زخمی ہو گئی تھیں جن کا علاج جاری تھا۔ گھر والے رات بھر وہیں رہے کیونکہ وہ گھر جاتے ہوئے اسرائیلی سنائپرز سے ڈرے ہوئے تھے۔
خاندان کو ان سب کی لاشیں نکالنے میں کئی دن لگ گئے۔ عمر کی لاش سب سے پہلے ملی۔ وہ دھماکے سے اپنے گھر سے اتنی دور جا گرا کہ اسے ایک اجنبی شخص نے تلاش کے علاقے سے تقریباً 20 میٹر دور پایا۔ایک دن بعد انہوں نے اس کے والد یعنی ماجد کی لاش کو ملبے سے نکالا۔ تین دن بعد انہیں علی، ان کی ماں صفا اور بہن ریمان کی لاشیں ملیں۔

ننھی یوٹیوبر غنہ الکرنز

غنہ بے تابی سے ایک یوٹیوب سٹار بننا چاہتی تھی۔ صرف آٹھ سال کی عمر میں وہ پہلے ہی ایسی ویڈیوز بنا رہی تھی جس سے ان کا مزاح، لطافت اور اعتماد کا اظہار ہوتا تھا۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں، جسے انہوں نے کبھی پوسٹ نہیں کرنا پڑا، وہ ایک تجربہ کار ٹی وی میزبان کی طرح اشارے کرتے ہوئے ناظرین کو اپنے گھر کے آس پاس کے حالات دکھاتی ہے۔ وہ ہمیں کچن میں لے جاتی ہے اور ہمیں اپنے پسندیدہ چاکلیٹ ڈونٹس دکھاتی ہے جو ان کی والدہ نے ان کے لیے بنائے تھے۔اس کے چچا محمود الکرنز کہتے ہیں کہ غنہ ہمیشہ اس طرح کی ویڈیوز بناتی تھی۔ وہ جب بھی مائیکروفون دیکھتی اسے پکڑ لیتی اور آپ کو کوئی گانا یا تقریر سننے کو ملتی۔محمود کے مطابق: ’وہ اپنی روزمرہ کی زندگی کو ڈاکومینٹری بنانا چاہتی تھی اور لوگوں کو اپنی بہن اور بھائی اور اپنے کھلونے دکھانا چاہتی تھی۔ ان کے بہت سے خواب تھے لیکن سب سے زیادہ وہ ایک مشہور یوٹیوبر یا شاید ایک صحافی بننا چاہتی تھی۔‘
غنہ ناقابل یقین حد تک ذہین تھی۔ اس نے ہمیشہ سکول میں اچھے نمبر حاصل کیے۔ خاندان میں سب سے چھوٹی ہونے کا مطلب یہ تھا کہ ہر کوئی ان کے لاڈ اٹھاتا اور ان کی پرکشش شخصیت کے باعث ان کے بہت سے دوست تھے۔غنہ انی چچی اور چچا کے قریب تھی اس لیے محمود کو ان کے ساتھ کافی وقت گزارنا پڑتا تھا۔ وہ انہیں مقامی تالاب میں لے جاتا تھا اور انہیں تیرنا سکھاتا تھا۔ ان کا ایک ساتھ اچھا وقت گزرتا تھا۔ان کے بقول: ’وہ مجھ سے بہت قریب تھی، وہ مجھے ’محمود پول‘ کہتی تھی کیونکہ ہم ہمیشہ ساتھ تیراکی کرتے تھے۔‘
مارٹرز آف غزہ کی رپورٹ کے مطابق غنہ 23 اکتوبر کو جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں اس عمارت پر اسرائیلی فضائی حملے میں ماری گئی جہاں انہوں نے اپنے خاندان کے ساتھ پناہ لے رکھی تھی۔ان کا خاندان تحفظ کی تلاش میں شمال میں ہونے والی بمباری سے بھاگ رہا تھا۔ غنہ کی موت کے بعد ان کی والدہ نے محمود کو اس دن کے بارے میں بتایا جس دن ان کی موت ہوئی تھی۔
وہ کہتے ہیں: ’انہوں نے ہمیں بتایا کہ غنہ اپنی ماں سے پوچھ رہی تھی کہ وہ دوپہر کے کھانے میں کیا بنا رہی ہیں۔ انہیں ہر روز کھانا میسر نہیں تھا کیونکہ غزہ میں خوراک کی قلت تھی اس لیے کبھی کبھار انہیںصرف چائے اور بسکٹ پر گزارا کرنا پڑتا تھا۔ انہوں نے کھانا نہیں کھایا ہوا تھا۔‘گرچہ اس دن غنہ کی والدہ اس کا پسندیدہ پکوان پکا رہی تھی یعنی ٹماٹر کے سوپ کے ساتھ پھلیاں۔ غنہ گہرے لال رنگ کی وجہ سے اسے ’سرخ کھانا‘ کہتی تھی۔کھانا ملنے کے امکان پر وہ بے حد خوش تھی۔ جب ان کی والدہ نے چولہے پر برتن چڑھایا تو وہ چیختے ہوئے ادھر ادھر اچھلتے ہوئے ’سرخ کھانا! سرخ کھانا! سرخ کھانا!‘ کی آوازیں لگا رہی تھی۔اس کے صرف چند منٹ بعد ہی وہ ایک فضائی حملے میں ماری گئی۔ اس کی لاش 24 گھنٹے بعد گرنے والی عمارت کے ملبے کے نیچے سے ملی۔ان کی ماں خوش قسمت تھی کہ زندہ بچ گئی لیکن غنہ کھانا کھائے بغیر ہی جان سے چلی گئی۔‘

اسرائیلی ٹینک آ رہے ہیں مجھے بچائیں

لاپتہ فلسطینی بچی کی فریاد

ہند سے آخری بار بات کرنے والوں میں سے ایک اس کے دادا بہا حمادہ نے کہا کہ ’وہ خوف زدہ تھی، باہر نکلنے کی کوشش کر رہی تھی اور اس کی کمر، اس کے ہاتھ اور اس کے پاؤں زخموں سے لہو لہان تھے۔‘
چھ سالہ ہند رجب کی آواز آخری بار اس وقت سنی گئی تھی جب غزہ پر اندھا دھند بمباری کے دوران وہ اپنے قریبی رشتے داروں کی لاشوں کے درمیان اس کار میں پھنسی ہوئی تھی جسے اسرائیلی حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔
ہند سے آخری بار بات کرنے والوں میں سے ایک اس کے دادا بہا حمادہ نے کہا کہ ’وہ خوف زدہ تھی اور پریشان تھی اور اس کی کمر، اس کے ہاتھ اور اس کے پاؤں زخموں سے لہو لہان تھے۔‘انہوں نے روتے ہوئے بتایا کہ ’وہ مجھ سے کہتی رہی کہ میں آؤں اور اسے وہاں سے لے جاؤں۔‘
غزہ کی تنگ پٹی تقریباً چار ماہ قبل شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت کے بعد سے تباہی کا شکار ہے۔ سڑکوں پر اور بمباری سے تباہ شدہ عمارتوں کے نیچے لاشیں خراب ہو رہی ہیں۔غزہ شہر کئی ہفتوں سے پٹی کے جنوبی حصے سے کافی حد تک منقطع ہے اور اقوام متحدہ بار بار غزہ کی پٹی کے شمالی علاقوں میں رہنے والے لاکھوں افراد تک امداد پہنچانے میں حائل مشکلات کے خلاف احتجاج کر رہا ہے۔
ہند اپنے دادا حمادہ کے بھائی بشار، ان کی بھابھی اور دیگر بچوں کے ساتھ کار میں موجود تھی جب وہ ایک ہفتہ قبل اسرائیلی فوج کی آمد کے بعد غزہ شہر سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ہلال احمر نے پیر کو سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا کہ ٹیم کے ارکان یوسف زینو اور احمد المدھون جو چھ سالہ ہند رجب کو بچانے کے لیے گئے تھے، سات دن سے لا پتہ ہیں۔تنظیم نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ ’وہ (اسرائیلی) حکام پر ہند اور ریسکیو ٹیم کے ارکان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے فوری طور پر مداخلت کرے۔‘

حمادہ خود جنوبی شہر رفح میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہ ’ہم اس کا حال جاننا چاہتے ہیں کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔ میں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ لاشوں کے درمیان، بغیر کھائے پیے اور شدید سردی میں اکیلی تھی۔ کتے اور بلیاں لاشوں کو کھا رہے ہیں۔‘غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اکتوبر کے بعد سے اسرائیل کی تباہ کن فضائی، سمندری اور زمینی کارروائیوں میں غزہ میں تقریباً ساڑھے 27 ہزار افراد موت کے منہ میں چلے گئے جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔حمادہ کے بھائی اور بھابھی کے علاوہ چار سے 15 سال کی عمر کے پانچ بچے کار میں سوار تھے۔ ان کا تین سالہ پوتا اور اس کے والدین غزہ شہر میں پھنسے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’ہند میری پہلی پوتی ہے اور وہ میرے دل کا ٹکڑا ہے۔‘
دادا کی جانب سے دکھائی گئی تصویروں بچی کو شوخ رنگ کے پارٹی کپڑوں میں مسکراتے ہوئے کیمرے کے سامنے پوز کر کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔اپنے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے حمادہ نے اپنی پوتی آخری بات چیت کے لمحات کو یاد کیا۔ان کے بقول: ’وہ مجھے بتا رہی تھی کہ وہ خوفزدہ اور بھوکی تھی۔ وہ ہم سے اسے بچانے کے لیے کہہ رہی تھی۔ وہ مجھے بتا رہی تھی کہ ٹینک قریب آ رہے ہیں۔‘

٭٭٭