سید عارف بہار
غزہ میں ہونے والی نسل کشی نے دنیا میں بے چینی اور ہیجان کی ایک نئی لہر پیدا کی ہے ۔طاقتور فیصلہ سازوں کے جنگوں اور فسادات اور مذہبی نسلی تصادم کی حوصلہ افزائی کے پیچھے پوشیدہ مفادات سے قطع نظر دنیاکی عام رائے عامہ آج بھی اپنی خونیں اشرافیہ کے برعکس سوچ اپنائے ہوئے ہے ۔وہ جنگوں اور فساد سے گریز چاہتی ہے مگر المیہ یہ ہے کہ فیصلہ کرنے والوں کو اس سوچ سے غرض نہیں بلکہ وہ پس پردہ اور پوشیدہ مقاصد کی تکمیل پر اصرار کر رہے ہیں ۔مغربی اور مسلمان حکمران ایک صف میں کھڑے نظر آتے ہیں مگر رائے عامہ دوسری سمت میں کھڑی ہے ۔مغربی ممالک میں ہونے والے احتجاج اس کا ثبوت ہیںجن میں لاکھوں کی تعداد میں مقامی اور سفید فام شہری شریک ہو رہے ہیں ۔کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کو جس طرح عوام کے سوالات اور احتجاج کا سامنا کرنا پڑا اور چار وناچار انہوں نے موقع سے فرار ہونے میں ہی عافیت جان لی وہ عام آدمی کے جذبات کی عکاسی کر رہا ہے ۔

مغرب میں تو اسرائیل کی سفاکانہ وارداتوں کے خلاف آوازیں اُٹھ رہی ہیں مگر یوں لگتا ہے مسلمان ملکوں میں غیر محسوس طریقے سے ’’ توہینِ اسرائیل‘‘ کا قانون نافذ ہوتا جا رہا ہے ۔پاکستانی نژاد امریکی خاتون انیلا علی نے اسرائیل کی حمایت میں مظاہرے میں جس طرح اسرائیل کو محفوظ بنانے کیلئے فلسطینیوں کو کچلنے کی بات کی وہ پاکستانیوں کو شرمسار کرنے کیلئے کافی ہے ۔قابل غور بات یہ ہے کہ یہ وہی خاتون ہے جو تسلیم اسرائیل مہم کے طور پر ا سرائیل کیلئے پاکستانیوں کے وفود لے کر جاتی رہی ہیںان میں ایک مخصوص کوارٹر سے تعلق رکھنے والا پاکستانی اینکر احمد قریشی بھی شامل ہے۔دوسری طرف پاکستان کی ایک جانی پہچانی شخصیت شیما کرمانی نے کراچی میں برطانوی قونصل خانے کی ایک تقریب میں غزہ کے مظلوموں کی حمایت میں آواز بلند کی اور انہیں اس تقریب سے نکال دیا گیا ۔دنیا کی جنگ باز اشرافیہ اور رائے عامہ کی دوری کی ایک اہم وجہ سوشل میڈیا ہے جس نے حقائق کو عام آدمی کی دسترس تک پہنچادیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں نفرت کی ایک نئی لہر بھی اُٹھتی ہوئی نظر آرہی ہے جس کا ثبوت امریکہ کا حالیہ واقعہ ہے۔ امریکہ میں اکہتر سالہ مالک مکان جوزف سوزوبا نے اپنے فلسطینی نژاد کرایہ داروں پر چاقو سے حملہ کرکے ایک چھ سالہ بچے ودیع الفیوم کو قتل کیا جبکہ بچے کی والدہ بتیس سالہ حنین شاہین دفاع کرتے ہوئے شدید زخمی ہوگئی ہیں۔درندہ صفت سفید فام جنونی نے معصوم بچے پر چاقو کے چھبیس وار کئے ۔خاتون نے اپنی مدد کیلئے پولیس کو طلب کیا جس نے جنونی پر قابو پالیا۔مغربی میڈیا اور حکمرانوں نے جس طرح اسرائیل پر حماس کے حملوں کو تاریخی پس منظر میں اسرائیل کی ظالمانہ پالیسیوں اور فلسطینیو ں کے ساتھ روا پچھترسالہ سلوک اور ان کے مستقبل کے ارادوں سے الگ کر کے پیش کرنا شروع کیا ہے اس سے مسلمانوں کے خلاف مغرب میں نفرت کی نئی لہر اُٹھنا یقینی امر ہے ۔9/11 کے بعد بھی مغربی میڈیا نے جو رویہ اپنایا تھا اس کا نتیجہ اسلاموفوبیا کی بدترین لہر کی صورت میں برآمد ہوا تھا ۔گوکہ مغرب میں انصاف پسند ذہن بھی موجود ہے جو مشرق وسطیٰ کے تنازعے کو تاریخی پس منظر میں دیکھتا ہے مگر مغرب کی حکومتیں اور اسٹیبلشمنٹ پر امریکہ کا غالب اثر ہے اور اسی وجہ سے مغربی ممالک وہی زبان بولتے ہیں جو امریکہ ان کے اندر فیڈ کرتا ہے ۔یوں مغربی ممالک امریکہ کے ڈیجیٹل طوطے ہیں۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مسلمان ممالک بھی اس معاملے میں امریکہ کی لائن پر ہی عمل پیرا ہوتے ہیں۔امریکہ جس بے دردی سے اسرائیل کے ہر جائز وناجائز کا دفاع کررہا ہے اس سے مغرب کی رائے عامہ کے ایک بڑے حصے کو یہ لگتا ہے کہ فلسطینی ظالم اور مغربی کلچر کے مخالف ہیں جبکہ اسرائیل مظلوم اور مغربی تہذیب کا نمائندہ اور علامت ہے ۔حما س کو ایک جارح اور دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور اسرائیل کو ایک مظلوم کردار بتایا جا رہا ہے جوایسے مسلمان ملکوں میں گھرا ہو اہے جو اس کا وجود مٹانے کے درپے ہیں ۔اسرائیل کے مظالم اس کی ہوس زمین، فلسطینیوں کا وجود مٹانے کی روش کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے۔یوں عالمی کٹہرے میں اصل مظلوم یعنی فلسطینی عوام کا ظالم اور اصل ظالم اسرائیل کو مظلوم بنا کر پیش کیا جاتاہے ۔


میڈیا جب باربار مسلم ٹیررسٹ کہتا ہے تو اس سے مسلمانوں کا تصور آتے ہی ان کے ذہنوں میں ایک دہشت گرد کا سراپا بنتا ہے اور یوں ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت جنم لیتی ہے ۔یہی اسلامو فوبیا کی بنیاد بنتی ہے ۔جب ذہن نفرت سے بھر جاتے ہیں تو نیوزی لینڈ جیسے روح فرسا واقعات جنم لیتے ہیں جہاں ایک اسٹریلوی جنونی برینٹن ٹارنٹ نے مسجد پر حملہ کرکے درجنوں مسلمانوں کوشہید کیا تھا۔اس وقت مغربی میڈیا نے منہ میں گھگیاں ڈالدی تھیں اور کسی بھی لمحے قاتل کو کرسچئن ٹیررسٹ کا نام نہیں دیا تھا ۔اس واردات کو اس کا ذاتی فعل کہا گیا تھا ۔گویا کہ اس واردات کا قاتل کے مذہب اوررنگ ونسل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا ۔ایسی ہی ورادات اگر کوئی مسلمان کرتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے مذہب اور ملک کا ذکر کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے ۔مغربی میڈیا نے اس طرح اپنی رائے عامہ کی ذہن سازی نفرت کے انداز میں کی ہے ۔اسرائیل کی جارحیت اور فلسطینیوں کے حالیہ قتل عام پر بھی مغربی ملکوں اور میڈیا کا یہی رویہ ہے ۔جس سے اس بات کا اندیشہ ہے کہ مغرب میں اسلاموفوبیا کی نئی لہر چل پڑے گی ۔سفید فام قوم پرستی باقاعدہ طور پر دہشت گردی میں بدل جائے گی اور مغرب میں مسلمانوں کیلئے مشکلات بڑھائی جائیں گی ۔امریکہ میں ایک اکہتر سالہ شخص نے جس درندگی ،نفرت اور شقاوت قلبی کا مظاہرہ کیا ہے وہ خطرے کی گھنٹی ہے ۔شاید امن اور ترقی کے نام پر دنیا کو تقسیم کا شکار کرنا اور نفرت کی لہریں اُٹھاتے رہنا ضروری ہے۔یوں لگتا ہے کہ سوشل میڈیا نے جو اطلاع اور ابلاغ کی جو گلوبلائزیشن پیدا کی ہے وہی عوامی طاقت میں ڈھل کر دنیا کو نسبتاََ پرامن اور محفوظ بنا نے کے کام آئے گی ۔اسلحہ ساز کمپنیوں کی دلالی کرنے اور کمزور ملکوں کے معدنی خزانوں کوتنازعات پیدا کرکے لوٹنے والی اشرافیہ امن کو ایک نعرے کے طور پر تو استعمال کرسکتی ہے مگر حقیقی امن قائم نہیں ہونے دے گی ۔دنیا میں اگر کوئی عالمی نظام کام کر رہا ہے تو کیا وہ اس حد تک ناانصافی اور عدم توازن کا شکار ہوسکتا ہے کہ جو غزہ کے مناظر میں دکھائی دے رہا ہے ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا مگر ایسا ہو رہا ہے ۔
سید عارف بہار

جناب سید عارف بہار آزاد کشمیر کے معروف صحافی دانشور اور مصنف ہیں۔کئی پاکستانی اخبارات اور عالمی شہرت یافتہ جرائدمیں لکھتے ہیں۔تحریک آزادی کشمیر کی ترجمانی کا الحمد للہ پورا حق ادا کر رہے ہیں ۔کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں
٭٭٭