غلام نبی نوشہری
نوشہری صاحب بھی آنکھوں میں آزادی کا خواب سجائے رخصت ہوئے
مولاناغلام نبی نوشہری بھی اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے ہیں۔24جون بروز سوموار کی صبح انہوں نے ہجرت کے سفر میں آخری سانسیں لیں اور پھر اپنے آبائی وطن اور گھر سے ہزاروں میل دور مملکت خداد داد کی سرزمین میں دفن ہوئے۔وہ بھرپور مذہبی، سیاسی اورسماجی زندگی کی اننگزکھیل کر عارضی زندگی سے ابدی سفرپر روانہ ہوئے۔ان کی وفات نے کنٹرول لائن کی دونوں جانب،پاکستان اور دنیا بھر میں تحریکی حلقوں میں ایک ہل چل سی مچادی۔وہ جماعت اسلامی مقبوضہ جموںو کشمیر کے نائب امیر کے عہدے پر آخری سانس تک فائز رہے۔اس کے علاوہ جماعت اسلامی مقبوضہ جموں وکشمیر کی جانب سے امور خارجہ کی تفویض کردہ ذمہ داری بھی بخوبی نبھائی۔وہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے اس شعر
نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو۔۔رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز۔۔۔کے۔۔ عملی مصداق تھے۔ 1989 میں جب مقبوضہ جموںو کشمیر میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے ایک ہمہ گیر جدوجہد شروع ہوئی،تو مولانا غلام نبی نوشہری بغیر کسی توقف کے اس جدوجہد کا حصہ بنے۔انہیں حزب المجاہدین نے ناظم تعلیم و تربیت کا سربراہ مقرر کیا۔انہوں نے مقبوضہ جموں وکشمیر کے چپے چپے کا دورہ کرکے مجاہدین کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔گو کہ مسلح جدوجہد کے ابتدائی ایام میں وہ جماعت اسلامی مقبوضہ جموںو کشمیر میں ناظم تعمیرات تھے اور بقول تحریک آزادی کے سراپا نیک سیرت اور دیانت و امانت میں اپنی مثال آپ شہید میر احمد حسن کے نوشہری صاحب کی تحریک آزادی کیلئے قربانیاں کسی سے اگر زیادہ نہیں تو کسی سے کم بھی نہیں ہیں،وہ اپنا گھر بار،اپنا وطن اور اپنے عزیز واقارب چھوڑ کر ہجرت کے پر کٹھن سفر کے مسافر بنے۔انہیں 1989 میں صورہ سرینگر میںاغوا تک کا مشکل دہ مرحلہ بھی سہنا پڑا لیکن کبھی اُ ف تک نہیں کی۔مولانا غلام نبی نوشہری 1993 میں کنٹرول لائن اپنے پائوں تلے روند کر بیس کیمپ پہنچے۔انہیں باضابطہ طور پر سید صلاح الدین احمد جو اس وقت فیلڈ میں بنفس نفسیں سپریم کمانڈر تھے کے علاوہ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر نے بھی اس سفر اور ہجرت کیلئے روانہ کیا۔یہاں پہنچ کر انہیں حزب المجاہدین کے تمام معاملات کی ذمہ داری تفویض کی گئی،جو وہ 1994 کے اختتام سید صلاح الدین احمد کی بیس کیمپ آمد تک نبھاتے رہے۔مقبوضہ جموںو کشمیر سے لیکر بیس کیمپ تک مرحوم نے حزب المجاہدین کو مربوط،منظم اور یکجا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔بعدازاں انہوں نے کشمیر المسلمز اور ہیتہ الغاثیہ کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی۔جہاں کشمیریوں کی بلالحاظ تنظیم اور تفریق کے معاونت کی جاتی رہی۔وہ آخری سانس تک اس ادارے کے سربراہ رہے۔یہ نوشہری صاحب کا ہی خاصہ ہے کہ ان کے ہاتھوں سے لگایا گیا پودا شجر سایہ دار کی شکل اختیار کرچکا ہے۔نوشہری صاحب ٹوکنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے اور اس سلسلے میں جماعت پر تنقید کرنے والوں کو وہ معاف نہیں کرتے تھے،البتہ وہ دل کے بڑے صاف تھے اور ٹوکنے والوں کو پھر گلے سے لگاتے تھے۔

مولانا مرحوم مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے سلسلے میں OIC،رابطہ عالمی اسلامی اور دوسرے اہم فورموں پر نمائندگی کا حق ادا کرچکے ہیں۔وہ رجل عظیم مولانا سعدالدین تاربلی کے دست راست بھی رہے اور حق گوئی و بے باکی کی پاداش میں انہیں کئی بار جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں،لیکن اس مرد مجاہد کی طبیعت کبھی مضمحل نہ ہوئی۔
گزشتہ چھ برسوں سے وہ گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے۔انہیں ہفتے میں تین بار Dialysis کے مراحل سے گزرنا پڑتا تھا لیکن اس مرد حق و آگاہ کی زبان سے کبھی آف تو دور کی بات شکوہ و شکایت نہیں سنی گئی۔بلکہ وہ اللہ تعالی کی رضا پر راضی تھے۔ بیماری کے ایام میں ہی ان کی دو تصانیف قصہ نصف صدی کا اور نقش ناتمام بھی تاریخ کا حصہ بنیں۔جنہیں اگر آٹو بیوگرافی بھی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ان دونوں مذکورہ تصانیف میں مولانا نے کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔تحریک آزادی اور اس سے درپیش مشکلات و رکاوٹیں،تحریک آزادی کیساتھ وابستہ افراد کا 1989سے لیکر آج تک کردار اورجماعت اسلامی مقبوضہ جموںو کشمیر،پاکستان اور آزاد کشمیر کے علاوہ عالمی سطح پر اسلامی تحریکوں کا بھرپورخلاصہ کیا ہے۔اپنے حالات زندگی پر بھی مولانا نے قلم کو جنبش دی اور 1972 میں جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کی جانب سے مقبوضہ کشمیر اسمبلی کا ممبر منتخب اور پھر بطل حریت سید علی گیلانی کی پارلیمانی سربراہی میں اسمبلی میں بھارت نواز باالخصوص شیخ عبد اللہ اور دوسرے افراد کو چلینج کرنے کے واقعات بھی قلم بند کئے ہیں۔وہ جب بھی بولے تو ڈنکے کی چوٹ پر بولے۔وہ تحریک آزادی کے حوالے سے جہاں بڑے حساس تھے وہاں جذباتی بھی بہت تھے۔نجی محافل ہوں یا سرکاری،نوشہری صاحب حق اداکرنے میں کسی پس و پیش سے گزیر نہیں کرتے تھے۔انہیں جو حق معلوم ہوتاتھا وہ بیان کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔جس پر انہیں بعض اوقات ناپسندیدگی کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا،لیکن حق گوئی ان کی سرشت میں شامل تھی،جس سے وہ باز نہیں آتے تھے۔یہی وصف انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا تھا۔اپنی رحلت سے دو برس قبل ہی نوشہری صاحب کی اہلیہ بھی خالق حقیقی سے جاملیں،چونکہ نوشہری صاحب اوالاد نرینہ سے محروم تھے،اہلیہ کی وفات کے بعد جیسے ٹوٹ گئے تھے کیونکہ ان کی اہلیہ ان کی بہترین رفیق سفر اور ہمراز تھیں اور انہوں نے قدم قدم پر نوشہری صاحب کا ہاتھ تھاما تھا۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں اپنے عزیزواقارب بھی انہیں داغ مفارقت دیکر چلے گئے اور آب خود مولانارب کے حضور اس حال میں پیش ہوئے کہ اپنا سب کچھ تحریک اسلامی کیلئے اپنی زندگی میں ہی وقف کرگئے تھے۔بلاشبہ وہ قربانی کا مجسمہ تھے۔ان کی زندگی پوری قوم اور جہادی قیادت کیلئے مشعل راہ ہے۔ ان کے داعیانہ مشن کو ہر حال میں جاری رکھنا ہی مولانا غلام نبی نوشہری اور وطن عزیز کے لاکھوں شہدا اور کٹے جسموں کو بہترین خراج عقیدت ہوگا۔
اگر چہ نوشہری صاحب گردوں کی پیوند کاری بھی کراسکتے تھے اور اس کیلئے ان کے بے شمار معتقدین انہیں گردہ دینے پر بھی از خود پیش کش بھی کرچکے تھے لیکن وہ رب کے ہر فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرنے میں ہی عافیت سمجھتے تھے۔نوشہر صاحب چونکہ بچپن سے ہی تحریک اسلامی کیساتھ وابستگی اختیار کرچکے تھے لہذا انہوں نے ہمیشہ خود کو جماعت اسلامی آزاد کشمیر اور پاکستان کیساتھ وابستہ رکھا اور اس پر فخر کرتے تھے۔ان کا جماعت کیساتھ تعلق کا یہ عالم تھا کہ اپنی کل پونجی بھی اپنی زندگی میں ہی تحریک اسلامی کے نام وقف کی تھیں۔وہ اس حوالے سے کسی شک و شبہ میں مبتلا اور شکار نہیں تھے۔ان کا ضمیر مطمئن تھاکہ انہوں نے جو کچھ کیا ہے اللہ کی رضا کے حصول کیلئے کیا ہے۔اس میں اور کوئی مدعا اور مقصد نہیں تھا۔ان کی نماز جنازہ امیر جماعت اسلامی پاکستان انجینئر حافظ نعیم الرحمان نے پڑھائی،جس کی موالانا پہلے وصیت کرچکے تھے۔انہیں اپنی اہلیہ محترمہ کے پہلو میں ہی سپرد خاک کیا گیا،کیونکہ اہلیہ محترمہ کی وفات کے موقع پر ہی نوشہری صاحب اپنے لئے قبر کی نشاندہی کرچکے تھے۔وہ اس حال میں اپنے رب سے ملے کہ ا ن کا نفس مطمئنہ ان سے راضی تھا۔ وہ صبر و شکر و رضا کے عملی پیکر تھے۔یقینا نوشہری صاحب کی رحلت اہل کشمیر اور تحریک آزادی کیلئے ایک بڑا خلا ہے۔جس کا اظہا ر تحریک آزادی کی قیادت نے بھی انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کیا ہے۔ امیر حزب المجاہدین اور متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین سید صلاح الدین احمد نے مولانا غلام نبی نوشہری کی وفات پر انہیں ان الفاظ میں یاد کیا ہے۔نوشہری صاحب بذات خود ایک تحریک تھے اور اپنا سب کچھ تحریک پر ہی قربان کیا۔ان کی رحلت جہاں تحریک اسلامی اور تحریک آزادی دونوں کیلئے ایک بڑا نقصان ہے وہیں ایک بڑا خلا بھی ہے جس سے پر کرنا مشکل ہے۔ مولانا مرحوم جہاں ایک نابغ روزگار شخصیت کے مالک تھے وہیں اسلا م کی سربلندی اور تحریک آزادی کشمیر کیلئے انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کیا۔نہ صرف مقبوضہ جموں وکشمیر میں باطل قوتوں اور ان کے آلہ کاروں کو بغیر کسی خوف وڈر کے للکارا بلکہ جب بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا تو مولانا مرحوم اس عظیم اور لازوال جدوجہد کا حصہ بنے۔مولانا نوشہری صاحب کی یاد میں منعقدہ ایک دعائیہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سید صلاح الدین احمد نے کہا ہے کہ مولانا غلام نبی نوشہری نے مزاقاََ بھی جھوٹ نہیں بولا جبکہ سچ کہنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔

مولانا غلام نبی نوشہری مرد بے باک تھے ‘ وہ کبھی حق بات کہنے سے باز نہیں آئے اور زندگی کی آخری سانس تک حلال و حرام اور حق و باطل کے درمیاں تمیز کرتے تھے۔یہی حق گوئی اور بے باکی ان کا طرہ امتیاز تھا۔سید صلاح الدین احمد کہتے ہیں کہ مرحوم مولانا نوشہری کیساتھ 49 سالہ تعلق رہا ہے لیکن اللہ کو گواہ ٹھرا کر کہتا ہوں کہ نوشہری صاحب نے مذاقاََ بھی جھوٹ نہیں بولا اور حق و سچ کہنے میں کبھی نہیں ہچکچائے۔یہی ان کا بڑا وصف اور خاصا تھا۔وہ چاہیے تنظیمی معاملات ہوں یا ذاتی زندگی کے روز مرہ واقعات۔ان کیساتھ نزدیک رہ کر یہی بات مشاہدہ میں آچکی ہے کہ وہ تقویٰ اور پرہیز گاری میں اپنی مثال آپ تھے۔ سید صلاح الدین احمد نے کہا کہ 49 برس قبل مولانا مرحوم کیساتھ مدرسہ فوقانیہ نواکدل سرینگر میں اس وقت تعلق قائم ہوا جب وہ صدر مدرس تھے اور بچوں کو سائنس اور ریاضی پڑھانے والا استاد ادارہ چھوڑ چکے تھے اور مجھے ان کی جگہ عارضی طور پر بھرتی کیا گیا کیونکہ امتحان سر پر تھا۔جہاں 1965 میں مولانا شیخ سعدالدین نے ہی انہیں مذکورہ مدرسے میں بطور عربی استاد تعینات کیا تھا،کیونکہ 1965 میں ہی نوشہری صاحب مولوی فاضل اور مولوی عالم کی ڈگریاں حاصل کرچکے تھے ۔جس کے بعد میرا ان کیساتھ تنظیمی کے علاوہ روحانی تعلق قائم ہوا۔جو آج تک قائم و دائم تھا۔جبکہ ہم سب کے مشترکہ مربی اور استاد شیخ سعدالدین تارہ بلی تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ جب جماعت اسلامی مقبوضہ جموں وکشمیر پر پابندی عائد کی گئی تو نوشہری صاحب زیر زمین چلے گئے اور پھر جب 1989 میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے جدوجہد شروع کی گئی تو مولانا مرحوم اس جدوجہد میں شامل ہوئے اور حزب المجاہدین کو منظم اور مربوط کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔انہوں نے کہا کہ وہ مجھے بھی سرزنش کرتے تھے کہ میں ارباب اقتدار تک اہل کشمیر کا پیغام واضح اور دوٹوک انداز میں پہنچائوں کیونکہ اہل کشمیر نے عظیم اور لازوال قربانیاں دی ہیں ان قربانیوں کی لاج رکھنا از حد ضروری ہے۔اس سلسلے میں آر پار قیادت کو ایک پیج پر متحد کرنا ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ یکے بعد دیگرے ہم قیادت سے محروم ہورہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ خون کے آخری قطرے تک بھارت کے خلاف جدوجہد جاری اور اس جدوجہد میں دی جانے والی قربانیوں کی حفاظت کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ سید علی گیلانی اور محمد اشرف صحرائی بھارتی عقوبت خانوں اور خانہ نظربندی میں اپنی وفا پوری کرچکے ہیں۔تحریک آزادی کی پوری قیادت اور ہزاروں نوجوان بھارتی جیلوں اور تعذیب خانوں میں پابند سلاسل ہیں ان فقیدالمثال قربانیوں کی حفاظت ہم سب پر قرض اور فرض ہے۔تحریک آزادی کشمیر کے خلاف عالمی سطح اور مقامی طور پر سازشوں کا بڑی جرآت کیساتھ مقابلہ کرنا ہے۔دشمن کے سامنے سر جھکائے بغیر شہدا کے مشن کو پائیہ تکمیل تک پہنچانا ہے ورنہ ہم اللہ کے سامنے قابل گرفت ہوں گے۔بلاشبہ نوشہری صاحب ایک سچے ،کھرے اور زہد وتقوی میں اپنی مثال آپ تھے۔وہ اپنا عہد نبھا چکے ہیں۔ان کے قدم نہ تو ڈگمگائے اور نہ ہی باطل کے سامنے سر نگوں کرنا ان کے خون میں شامل تھا۔ان کی منزل غلبہ اسلام اور مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کا خاتمہ ،جس کیلئے وہ آخری سانس تک کار بند رہے۔یہی سبق انہیں اپنے مرشد سید ابو الااعلی مودودی ؒسے ملا جس کو وہ مظبوطی سے تھامے رہے۔
خدا رحمت کنند ایں عاشقان پاک طینت را

تحریک اسلامی گھرانے کے چشم و چراغ جناب نجم الدین خان بھی یاد آئے جو 24اگست 2021میں مہاجرت کے سفر میں بیس کیمپ میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے تھے۔وہ سراپا تحریک تھے۔گوکہ وہ جسمانی طور پر معذور تھے لیکن انہوں نے کھبی اس معذوری کو آڑے نہیں آنے دیا ۔وادی لوالاب کپواڑہ سے تعلق رکھنے والے مرحوم نجم الدین خان جناب محمد اشرف خان صحرائی کے بھتیجے تھے۔اس خاندان سے کون واقف نہیں ہے۔اپنے تو اپنے پرائے بھی ان کی قربانیوں کی گواہی دیتے ہیں۔مرحوم نجم الدین خان کے برادر عبدالقوم خان جو کہ حزب المجاہدین کیساتھ وابستہ تھے،1990میں بھارتی افواج کیساتھ ایک خونریز تصادم میں جام شہادت نوش کرگئے۔پھر ان کے والد صاحب قمر الدین خان جو کہ صحرائی صاحب کے بڑے بھائی تھے اور جماعت اسلامی مقبوضہ جموںو کشمیر کے رکن تھے بھارت کے عقوبت خانے میں بدترین تشدد کے باعث معذور ہوچکے تھے اور پھر یہی تشدد ان کی موت کا سبب بنا۔ان کی ہمشیرہ بھی بھارتی بربریت کا نشانہ بن چکی ہے۔جس کی گواہی کوئی اور نہیں بلکہ جناب سید صلاح الدین احمد دے چکے ہیں کہ بھارتی درندوں نے ملت مظلومہ کی اس بیٹی کو چھت کیساتھ الٹا لٹکا کر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔جبکہ ایک بھائی ریاض احمد خان آج بھی مہاجرت کے سفر میں ہیں۔پھر مرحوم نجم الدین خان کے چچا جناب محمد اشرف خان صحرائی کی بات کریں تو قلم بھی رک جاتا ہے اور الفاظ بھی ساتھ دینا چھوڑ دیتے ہیں۔بس صرف اتنا تاریخ نے جناب اشرف خان صحرائی کو وہ مقام اور مرتبہ بخشا ہے کہ شاید دوسرے اس کی تمنا ہی کرسکتے ہیں۔جب لخت جگر جنید اشر ف صحرائی کشمیر یونیورسٹی سے MBA کی ڈگری مکمل کرچکے تھے تو نوکری کے بجائے حزب المجاہدین کی صفوں میں شمولیت اختیار کی۔یہ خبرمقبوضہ جموںو کشمیر سے لیکر دنیا کے تمام ذرائع ابلاغ کی لیڈ بنی۔مودی کے حواریوں نے جناب محمد اشرف خان صحرائی سے اپنے بیٹے سے واپس آنے کی اپیل کرنے کا مطالبہ کیا تو تاریخ ساز انسان نے یہ تاریخی جواب دیکر پوری دنیا کو ششدر کردیا کہ اگر میں دوسرے بیٹوں کو واپس آنے کی اپیل نہیں کرتا ہوں تو اپنے بیٹے کو واپس آنے کی اپیل کیسے کرسکتا ہوں۔کیا میرے بیٹے کا خون دوسرے بیٹوں سے زیادہ قیمتی ہے؟ان الفاظ نے جناب اشرف صحرائی کا قد ہمالیہ سے بھی زیادہ بلند کیا ہے۔پھر خود بھی مئی 2021میں جموں جیل میں اس حال میں اللہ کو پیارے ہوگئے کہ وہ دیکھو کہ میرا سر بھی تو پڑا ہے مری دستار کے ساتھ۔مرحوم نجم الدین خان نظم و ضبط کے سخت پابند تھے ۔وہ تنظیم کا ایک ایک پیسہ امانت سمجھ کر خرچ کرتے تھے۔انہیںامیر محترم سیدصلاح الدین احمد کا بے حد ادب اورعزت و احترام تھا۔نجم صاحب مرحوم کا بڑا وصف جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا تھا کہ وہ جس شخص کیساتھ گفتگو اور بات چیت کرتے تھے نہ صرف اس سے ہمہ تن گوش سنتے بلکہ بھر پور توجہ بھی دیتے تھے۔انہیں تحریک آزادی اور حزب المجاہدین کیساتھ جنون کی حد تک عشق اور وابستگی تھی۔ اللہ تعالی اس خاندان کی ان قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائیں۔
محمدشہباز بڈگامی معروف کشمیری صحافی اور کالم نگار ہیں۔ کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلامعاوضہ لکھتے ہیں۔