غیرت ملت کا نشان

شہزاد منیر

دنیا میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو وقت کے دھاروں کے ساتھ بہہ کر زندگی گزار دیتے ہیں۔وہ لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو اپنے نظریہ حیات پر قائم رہ کر اپنا منفرد طرز زندگانی اپنا کر جیتے ہیں۔ یہ لوگ وہ ہوتے ہیں جو انسانی زندگی کی جامعیت اور انسان کی انتہا کا ادراک رکھنے والے ہوتے ہیں۔ ایسے راست رو اور متحرک زندگی گزارنے والے ہی غیور لوگ ہر دلعزیز اور پسندیدہ شخصیات کہلاتے ہیں۔ علامہ اقبال لکھتے ہیں:-

ہے قوموں کے لیے موت مرکز سے جدائی
ہو صاحب مرکز تو خودی کیا ہے، خدائی

کشمیر کی آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنما سید علی گیلانی شہید بھی ایسے ہی ” صاحب مرکز ” افراد میں شامل تھے جو حق و حقیقت کو جان کر توحید ورسالت کی گواہی دینے والے اور فلاح انسانیت کی خاطر جان دینے والے مثالی مجاھد تھے۔۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ وہ اللہ الرحمٰن کے برگزیدہ عالم دین اور قابل تقلید میر کارواں تھے ۔ سید علی گیلانی ؒکی ساری زندگی حصول علم، تبلیغ اسلام اور خدمت خلق میں گذری۔ میری دانست میں انکی زندگی پر ایک جامع تحقیقی کتاب لکھی جانی چاہیے (انشاللہ لکھی بھی جائے گی۔) تا کہ آئندہ نسلیں، بالخصوص کشمیری نوجوان اسے پڑھ کر آزادی کشمیر کے سفر کو جاری رکھنے میں کسی طرح کے وسوسوں کا شکار ہوئے بغیر اپنی جد وجہد آزادی کا سفر جاری رکھیں۔

زمین پر اتارے گئے آدم علیہ السلام اور بنی نوع انسان، جس کے پیدا کرنے کا مقصد صرف عبادت الٰہیہ ہے اس کی زندگی پر اقبال کے فلسفہ حیات کا مرکزی ستون یہ شعر سمجھا جاتا ہے۔

فکر فردا نہ کروں، محو غم دوش رہوں
میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں

اگر انسانی زندگی سے فکر فردا کو خارج کر دیا جائے تو پیچھے شب و روز کی بے مقصد آمد و رفت اور فضول سانس شماری ہی رہ جاتی ہے۔ اس لیے اہل فکر، اہل دانش اہل اللّٰہ اپنی زندگی کا ”آج ” ایک عظیم مقصد کی خاطر اس قدر با وقار انداز میں قربان کر کے” اپنا کل محفوظ” کرتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ ” چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست” کا مظہر ہوتے ہیں، بلکہ ان کے پسماندگان اور حلقہ احباب و اربابِ بھی ان سے نسبت رکھنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ سید علی گیلانی شہید ایسا ہی مقام پانے والے راہنما ثابت ہوئے ہیں۔

کشمیر کی آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنما سید علی گیلانی شہید کا شمار بھی ایسے ہی بہادر قابل فخر طالبان آزادی کشمیر کے حریت طلب فرزندوں میں شمار ہوتا ہے۔

سید علی گیلانی29 ستمبر 1929 کو کشمیر کے ضلع بارہ مولا کے علاقے سوپور میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان نے ”حجاز” سے بہت عرصہ پہلے تبلیغ دین کے لیے ہجرت کر کے کشمیر میں سکونت اختیار کر رکھی تھی۔ سید علی گیلانی ؒنے اپنی بنیادی تعلیم کشمیر ہی( بارہ مولا)میں مکمل کی اور پھر لاہور آ گئے، جہاں انہوں نے اورینٹل کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ اسی عرصہ کے دوران ان پر دو عظیم شخصیات علامہ اقبال ؒ اور سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کا نام اور کام سننے کا موقع بھی ملا۔ ان دونوں شخصیات کے ذاتی متحرک کردار اور علمی تحقیقاتی کوششوں سے سید علی گیلانی بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ان کا طرزِ حیات اور فلسفہ زندگانی ان کے دل پر نقش ہو کر رہ گیا۔

لاہور میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ کشمیر لوٹے تو وہ درس وتدریس سے منسلک ہو گئے۔ پھر 1953 میں جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے۔انہوں نے علامہ اقبال کی فارسی شاعری کی تین کتابوں کا ترجمہ کرنے، اپنی خود نوشت سمیت کوئی درجن بھر کتابیں لکھی ہیں۔ جو ان کی علم و دانش سے رغبت رکھنے، وابستگی اور عملی زندگی کو جد وجہد سے تعبیر کرنے کا زندہ ثبوت ہیں۔

فرزند کشمیر ہونے کے ناطے سے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ تقسیم ہندوستان کے نتیجے میں ہندوستان اور انگریزوں کی طرف سے کھڑا کئے جانے والے مسئلہ کشمیر سے کشمیریوں پر ٹوٹنے والی مشکلات، دشواریوں اور اذیتوں سے لاتعلق رہتے۔ وہ آزادی کشمیر کے لیے کی جانے والی کوششوں میں شامل ہو گئے۔

مسلہ کشمیر پر ان کا ون پوائنٹ One Point ایجنڈا تھا جس پر وہ ساری عمر قائم رہے۔ وہ یہ کہ کشمیریوں کو ان کا وہ حق استصواب رائے دیا جائے جو انہیں برطانوی حکومت، آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے درمیان تقسیم ہندوستان کے معاہدے میں درج ہے، کہ کشمیری عوام خود فیصلہ کریں کہ انہیں ہندوستان یا پاکستان میں سے کس کے ساتھ رہنا ہے۔ سید علی گیلانی کے اس اصولی موقف کو آزاد اور مقبوضہ کشمیر کے باشندوں میں بڑی پذیرائی ملی۔ عملی سیاست میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی وہ اپنے موقف، جرآت اظہار اور دیانتدارانہ رویے کی وجہ سے کشمیر کی سیاست پر چھاتے چلے گئے۔ انہوں نے جماعت اسلامی کی ٹکٹ پر 1972 میں کشمیر اسمبلی کا الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔.1977 اور 1987 میں بھی وہ رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔

جدو جہد آزادی کشمیر میں سید علی گیلانی شہید کا سب سے بڑا کارنامہ یہ رہا کہ انہوں نے آزادی کشمیر کی خاطر کشمیریوں کی مختلف سیاسی جماعتوں اور انتظامی گروہوں کو اپنا نقطہ نظر سمجھا کر، قائل کر کے 1993 میں سب جماعتوں کی ایک مرکزی جماعت ” آل پارٹیز حریت کانفرنس قائم کرا لی۔ جس کا انہیں بعد میں 1998 سے 2000 تک کثرت رائے سے چیئرمین منتخب کیا گیا۔ بعد میں کچھ کشمیری لیڈروں سے ان کا نظریاتی اختلاف ہوا۔سید علی گیلانی کا موقف تھا کہ سب سے پہلے کشمیر کو پاکستان کی اخلاقی، سفارتی اور قانونی طور پر امدادی کوششوں کے ذریعے استصواب رائے سے کشمیر کو آزاد کروایا جائے۔ کیونکہ کشمیریوں کو اپنی آزادی کے لیے جس امداد کی ضرورت ہے وہ صرف پاکستان ہی دے سکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ کشمیر کی آزادی کا سہ فریقی معاہدہ پاکستان نے کیا تھا کشمیر نے نہیں۔اس لیے کشمیری پاکستان سے کٹ کر نقصان میں رہیں گے۔

علی گیلانی شہید نے اپنے اس انتخاب کو نہ صرف درست ثابت کیا بلکہ اپنی جرآت کردار صبر و برداشت اور تدبر و دانش اور استقامت کا بھی ثبوت دیا۔ ان کے گھر کا چین سکون غائب ہوگیا، صحت ان کی جواب دے گئی۔ سید علی گیلانی نے مگر خود پر وارد ہونے والی ہر مصیبت کو ایسے قبول کیا کہ جیسے وہ رحمت بن کر آئی ہو۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ایک بار صحیح معنوں میں قبول کی گئی مصیبت فور اََرحمت میں بدل جاتی ہے۔ اللہ والو مقدر بے وفا نہیں ہو تا۔ مقدر تو رضائے الٰہی کا دوسرا نام ہے۔

کشمیر کے فریڈم فائٹرز (مجاہدین) پر غیر قانونی اور غیر اخلاقی پابندیوں کے پہاڑ توڑنا، انہیں اٹھا کر قانونی کارروائی کئے بغیرمہینوں غا ئب رکھنا بھارتی حکومت کا عام حربہ ہے۔ ظلم و ستم اور جبر کرنا، عورتوں بچوں پر نا روا سلوک کی انتہا کرنا، گھروں پر چھاپے مار کر پورے کنبوں کو گرفتار کر کے لیجانا تو مقبوضہ کشمیر میں عام معمول بنا دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں بھارت کے اس جبر و ستم پر احتجاج کرتی ہیں مگر کشمیریوں کے مصائب کم ہونے کو نہیں آتے۔

سید علی گیلانیؒ شہید کو بھی برسوں بغیر مقدمہ چلائے بھارت نے قید کیے رکھا۔ جب کبھی انہیں عدالتیں کوئی ریلیف دیتیں تو انہیں گھر میں نظر بند کر دیا جاتا۔ کئی بار عشروں گھر میں نظر بند رکھے گئے۔

سید علی گیلانیؒ ایک نظریاتی سیاستدان تھے اور نظریاتی سیاستدانوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ براہ راست Straight forward بات کرتے ہیں۔ وہ اپنے مدعا کو لفظوں کے پیچ و خم سے دور رکھتے ہیں۔ غرضیکہ ان کے قریب مصلحت کوشی ایک گناہ ہوتا ہے۔۔

کشمیریوں کی جنگ آزادی میں بے پناہ قربانیوں، لاکھوں جانوں کا نذرانہ دے کر بھی وقت بلند آواز میں کہہ رہا ہے۔ ” ہنوز منزل دور است”۔ کشمیریوں کی بے بسی اور دنیا بھر کے منصفوں کی بے حسی دیکھ کر علامہ اقبال کا شعر کتنا برمحل یاد آتا ہے۔

موت ہے اک سخت تر، جس کا غلامی ہے نام
مکر و فن خواجگی، کاش سمجھتا غلام

سید علی گیلانی ؒ یکم ستمبر 2021 میں سری نگر، حیدر پورہ میں اپنے گھر نظر بند تھے۔ اس رات ساڑھے دس بجے کے قریب ان کی طبیعت بہت خراب ہو گئی۔ پھیپھڑے جواب دے چکے تھے۔صبح ساڑھے چار بجے کے قریب ان کی روح جسد خاکی سے باذن اللہ پرواز کر گئی۔” انا للہ و ان الیہ راجعون ” ان کی عمر 92 سال تھی۔ ان کی میت کو بھارتی فورسز نے اپنی تحویل میں لیا۔ان کی بزرگ اہلیہ ،بیٹیوں اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بناکر میت کو گھسیٹ کر لے گئے اور کچھ مقامی باشندوں کی موجودگی کی میں ان کا جنازہ پڑھایا اور حیدر پورہ کے مقام پر انہیں دفن کیا گیا ۔پوری وادی میں کرفیو پہلے ہی نافذ کیا جاچکا تھا۔ان کی شہادت اور جنازے کی صورتحال نے ثابت کردیا کہ وہ حسینی سید کے قبیل سے واقعی تعلق رکھتے تھے اور ان کے ساتھ آخری لمحات میں وہی سلوک ہواجو امام حسین ؓ کے وجود پاک کے ساتھ ہوا۔

صلہ شہید کیا ہے تب و تاب جاودانہ۔ ”

فیض احمد فیض نے ایسے ہی شہیدوں کی جدو جہد، قربانیوں اور جاںنثاریوں پر لکھا ہے۔

مشکل ہیں اگر حالات وہاں،دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل والو کوچہ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں
جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا، وہ شان سلامت ر ہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے،اس جان کی کوئی بات نہیں
میدان وفا دربار نہیں، یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں
عاشق تو کسی کا نام نہیں، کچھ عشق کسی کی ذات نہیں
اگر بازی عشق کی بازی ہے، جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
جو جیت گئے تو کیا کہنے، ہارے بھی تو بازی مات نہیں


فیض احمد فیض


شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)راولپنڈی / اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر،مصنف اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں