فروری کا مہینہ اور کشمیریوں کا غم واندوہ

گیارہ فروری کے بعد نو فروری اور بیس فروری کے پیچھے ایک ہی ذہنیت ہے کہ کسی طرح کشمیریوں کوحالات کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر مجبور کیا جائےمگر اِدھر صورت حال یہ ہے کہ ؎
بڑھتا ہے ذوق ِجرم یاں ہر سزا کے بعد

سید عارف بہار

فروری کا مہینہ کشمیریوں کے لئے داغ ہائے سینہ کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے جن کے لئے زندگی ایک ایسے خوفناک ڈرامے کا منظر بن کر رہ گئی ہے جوایک مقام پر رک گیا ہے ۔دہائیوں سے اس منظر کا ایکشن ری پلے جا ری ہے ۔جور وستم کا وہی انداز جو روزاول سے اپنایا گیا تھا ، سر جھکانے اور حوصلے توڑنے کی وہی کوششیں ،تعذیب وعتاب کے وہی طریقے ناموں اور کرداروں کی تبدیلی کے ساتھ جا ری ہیں۔ایک دور میں کسی کردار کا نام مقبول بٹؒ ہوتا ہے توکچھ مدت گزرنے کے بعد وہ کردار افضل گورو ؒکی شکل میں اور کچھ عرصہ بعد وہی کردار ایک اور اندازسے امتیاز عالمؒ کے نام سے سامنے آتا ہے ۔اسی طرح جبر کا کوڑا تھامنے والے کرداروں کو کسی دور میں اندراگاندھی تو کسی دور میں من موہن سنگھ اور نریندر مودی کہا جاتا ہے۔دنیا بدل گئی ،سردجنگ ختم ہو گئی ،یونی پولر منظر کا عبوری دور بھی اب آخری ہچکیاں لے رہا ہے اور اس کی جگہ ملٹی پولر دنیا کی تشکیل قریب قریب مکمل ہو چکی ہے ۔وسط ایشیا سے مشرقی یورپ تک آزادیوں کی فصل کو لہلہاتے ہوئے بھی زمانے گزر گئے مگر کشمیر یوں کے لئے وقت تھم کر رہ گیا ہے ۔

11فروری1984کو تہاڑ جیل میں قید کشمیری راہنما محمد مقبول بٹ ؒکو ایسے جرم میں تختۂ دار پر چڑھا دیا گیا کہ جو ان سے کوسوں دور برطانیہ کے شہر برمنگھم میں ہوا تھا ۔جس میں جذبہ حریت سے مغلوب چندنوجوانوں نے بھارتی سفارت کار رویندر مہاترے کو اغوا کرنے کے بعد قتل کر دیا تھا اور اس ردعمل میں اندراگاندھی نے تہاڑ جیل میں قید محمد مقبول بٹ ؒؒؒؒکو راتوں رات تختہ دارپر چڑھا دیا ۔یہ حقیقت میں کشمیریوں کو خوف زدہ کرنے اور انہیں آنے والے دنوں میں مطالبہ آزادی سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی مگر اس عمل کا ایسا ردعمل ہوا جس کی لہریں آج کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی پوری طرح موجزن ہیں ۔اس مجنونانہ فیصلے کے چند ہی برس بعد کشمیر میں ایک ایسی عدیم النظیر تحریک چلی جس نے بھارت کے استخوان ہلا کر رکھ دئیے ۔ بھارت نے محمد مقبول بٹ ؒ کا جسد خاکی بھی ان کے اہل خانہ کو نہیں دیا اور انہیں تہاڑ جیل کے کسی گمنام گوشے میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔وہ جس شخص کو بے نام ونشان رکھنا چاہتا تھا لاکھوں دلوں میں اس کی مرقد بن گئی ۔وہ اس گمنام گوشے کے اندر سے بھی بول رہا ہے ۔بھارت نے اس واقعے سے کوئی سبق نہ سیکھا اور کئی برس بعد 9فروری2013 میں بھارتی عدالت کے مقتول حریت پسند محمدافضل گورو کو عدالت کے ذریعے پھانسی کی سزا دی گئی ۔ افضل گورو 1969 کو سوپور میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم سوپور کے تعلمی اداروں سے حاصل کرنے کے بعد انہوںنے سری نگر کے جہلم ویلی میڈیکل کالج میں داخلہ لیا اسی دوران وہ کشمیر کی تحریک مزاحمت کا حصہ بنے ۔بھارتی حکام نے انہیں 13دسمبر2001میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے الزام میں گرفتار کیا ۔بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ بھی ایک ایسا فالز فلیگ آپریشن ہے جسے بھارت نے مغرب کی حمایت حاصل کرنے کے لئے اپنے’’ نائن الیون ‘‘ کے طور پر پیش کیا اور یوں مظلومیت کا ایک مشترکہ رشتہ قائم کر لیا ۔اس حملے کو دنیا بھر میں سب سے بڑی جمہوریت پر حملہ بنا کر پیش کیا گیا ۔بھارت نے افضل گور و پر ’’پوٹا ‘‘ کے متنازعہ اور سیاہ قانون کے تحت مقدمہ قائم کیا ۔ان کے مقدمے کے ابہامات پر بھارت کی عدالتوں نے کبھی توجہ نہیں دی کیونکہ اس وقت بھارت میںجمہوری ایوان پر حملے کے نام پر جذباتی ماحول اور فضا بنا دی گئی تھی ۔یہی وجہ ہے بھارت کی ایک سےبعد دوسری عدالت سے ان کے خلاف فیصلے آنے لگے ۔ہائی کورٹ کے بعد سپریم کورٹ نے بھی ان کی سزائے موت برقرار رکھی ۔ وادی میں بھارت نے پانچ اگست2019 کے فیصلے کو قبول کرنے کے لئے عوام پر خوف دہشت کی رات مسلط کر رکھی ہے مگر کشمیری عوام سروں کے چراغ ہتھیلیوں پر رکھ کر میدان عمل میں موجود ہیں ۔کشمیری عوام کا روز اول سے مطالبہ تھا کہ بھارت محمد افضل گورو اور محمد مقبول بٹ کے اجساد خاکی کو کشمیر منتقل کرے تاکہ ان شہدائے وطن کو پورے اعزاز سے خاک وطن کا کفن پہنا دیا جائے ۔محمد افضل گورو کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے الزام میں پھانسی دی گئی تھی اور بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں عوامی ضمیر کو مطمئن کرنے کا جواز پیش کیا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ عدالت نے یہ فیصلہ محض اپنے عوام کو خوش کرنے کی خاطر کیا تھا ۔ظلم کی حد یہ کہ افضل گورو کی پھانسی سے پہلے نہ تو اہل خانہ سے ان کی ملاقات کرائی اور نہ ہی ان کا جسد خاکی ورثاء کے حوالے کیا گیا۔اس سے پہلے11فروری 1984کو دہلی کی اسی تہاڑ جیل میں معروف حریت پسند محمد مقبول بٹ کو اسی طرح انتقام اور ردعمل میں پھانسی دی گئی تھی اور ان کے جسد خاکی کو بھی تہاڑ کے کسی گوشے میں سپرد خاک کیا گیا تھا۔اس وقت بھی کشمیر ی عوام ان کا جسد خاکی مانگ رہے تھے مگر بھارتی حکومت ان کے غم زدہ بھائیوں کو گرفتار کر رہی تھی ۔بھارت کا یہ رویہ کشمیریوں کے دلوں کو زخمی کر رہا تھا اور ان زخموں کی ٹیسیں بعد میں کشمیریوں کی ایک زوردار مزاحمت کی شکل میں سامنے آئی تھیں اپنے عوام کو خوش کرنے کے لئے بھارت وقفے وقفے سے کشمیری رہنمائوں کو بھلی چڑھاتا ہے ،یہی وجہ ہے افضل گورو کی پھانسی کو دنیا بھر کے منصف مزاج قانونی اور سیاسی ماہرین نے عدالتی قتل قرار دیا ۔ظلم کی انتہا یہ کہ بھارت کشمیریوں کو پھانسی دیتا ہے تو پھر ان کی لاشیں بھی اس خوف سے ورثاء کے حوالے نہیں کرتا کہ یہ مزار جدوجہد آزادی کے نشان اور علامتیں بنیں گی اور کشمیری عوام ان سے طاقت اور توانائی حاصل کرتے رہیں گے ۔حقیقت یہ ہے کہ نظریاتی طاقت اور توانائی حاصل کرنے کے لئے قبروں کا ہونا یا نہ ہونا اہمیت نہیں رکھتا اصل بات اس مقصد کی ہوتی ہے جس کی خاطر شہدا نے اپنی جان قربان کی ۔برسوں بعد بھارت نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے معروف حریت پسند رہنما امتیاز عالم کو عین اس وقت شہید کیا جب وہ نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد گھر واپس جا رہے تھے ۔امتیاز عالم کی ذات اور نظریات میں بھی بھارت کو ایک ایسی چنگاری محسوس ہوئی ہوگی جو شعلہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہو ۔

یہی وجہ ہے کہ بھارت نے اینٹلیجنس کا ایک جال بچھا کر انہیں نشانہ بنایا ۔یہ خون بھی بولتا رہا اور ان کے جنازے میں لگنے والے نعرے بتا رہے تھے کہ خون نے اپنے قاتل اور جلاد کا پتا پہلے ہی لمحے بتادیا ہے ۔ یوں گیارہ فروری کے بعد نو فروری اور بیس فروری کے پیچھے ایک ہی ذہنیت ہے کہ کسی طرح کشمیریوں کوحالات کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر مجبور کیا جائے مگر اِدھر صورت حال یہ ہے کہ ؎
بڑھتا ہے ذوق ِجرم یاں ہر سزا کے بعد

جناب سید عارف بہار آزاد کشمیر کے معروف صحافی دانشور اور مصنف ہیں۔کئی پاکستانی اخبارات اور عالمی شہرت یافتہ جرائدمیں لکھتے ہیں۔تحریک آزادی کشمیر کی ترجمانی کا الحمدللہ پورا حق ادا کر رہے ہیں ۔کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں