5 فروری یوم یکجہتی کشمیر کے نام سے پورے پاکستان میں منایا جا تا ہے ۔کہیں جلسے ،کہیں جلوس ،کہیں کشمیر پر سیمنار ہوتے ہیں ۔کوئی شہر اور قصبہ ایسا نہیں جہاں اس روز ہر مکتبہ فکر کے لوگ ،کشمیری عوام کے ساتھ اپنے اپنے انداز میں یکجہتی کا اظہار نہ کرتے ہوں ۔پاکستانی عوام کا کشمیریوں کے ساتھ والہانہ لگاو ہے،تھا اور ان شا ء اللہ ہمیشہ رہے گا ۔تاہم مقبوضہ ریاست جن حالات سے اس وقت گذر رہی ہے ،ان حالات میں عملی اقدامات کی کافی اقدامات کی زیادہ ضرورت ہے ،جو بظاہر نظر نہیں آرہے ۔حد تو یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو منجمد رکھنے اور بھارت کے ساتھ تجارت کرنے اور ماضی کو بھلانے کے نظرئیے پر عملدرامد عملاََ ہورہا ہے ۔ معروف کشمیری صحافی اور دانشور نعیمہ احمد مہجور نے دو سال پہلے اپنے ایک کالم “منجمد نہیں کشمیر دفن ہے “میں لکھا تھا ـ” باجوہ صاحب نے ماضی کو بھول جانے کی ہدایت دی ، یعنی جو ہو گیا وہ ہو گیا، حالات سے سمجھوتہ کرنا سیکھ لیں۔ آگے وہ لکھتی ہیں کہ اس طرح کی سوچ اور اقدامات سے انڈیا کے ہندوتوا والے جس پروگرام پر گامزن ہیں اس کو دیکھتے ہوئے اگلے دو دہائیوں میں شاید نہ کشمیر رہے گا اور نہ کشمیری۔۔ نعیمہ جی کا تجزیہ اگر آج فروری 2024میں سو فیصد درست ثابت ہورہا ہے ۔بھارتی سپریم کورٹ نے دفعہ370اور35Aکو ختم کرنے کے اقدامات کو آئینی اور قانونی قرار دے کر مودی حکومت کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کا اکثریتی تشخص مکمل طور پر ختم کردیں ۔اب یہ عیاں حقیقت ہے اور کھلی آنکھوں سے نظر آرہا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر اصولی طور پر ہندوتوا کے بے رحم طوفانی موجوں میں تحلیل ہو چکی ہے۔ کشمیر ی تشخص اور انفرادیت پامال ہو چکی ہے۔کشمیر کا نام لینا اب جرم اور اپنے کو کشمیری کہنا یا کہلوانا اب پھانسی کے پھندے کو چومنے کے مترادف بن چکا ہے ۔اردو زبان کے بجائے اب ہندی زبان کو فروغ دیا جارہا ہے ۔حریت پسند عوام کی آواز کو خاموش کرنے کے لئے فوجی قوت کا بے تحاشا استعمال بغیر کسی کی رکاوٹ کے استعمال ہورہا ہے ۔ہزاروں پُرامن شہری جن میں بزرگ، جوان، خواتین اور بچے شامل ہیں، بھارتی زندانوں اور عقوبت خانوں میں شدید مصائب و مشکلات برداشت کرتے ہوئے انتہائی کربناک زندگی گزار رہے ہیں اور گرفتاریوں کا یہ سلسلہ جاری ہے۔لاکھوں کنال زرعی، باغاتی، جنگلاتی زمین فوج کی تحویل میں تھی ہی اب2019ء سے مزید زرعی زمین اور جنگلاتی زمین کو دفاع کے نام پر قبضے میں لیاجارہاہے۔اطلاعات کے مطابق پانچ ملین بھارتی شہریوں کو ریاست کی سٹیٹ سبجیکٹ جاری کی جاچکی ہیںاور مزید جاری کرنے کے فرمان جاری ہورہے ہیں ،ہر اہم منصب پر غیر ریاستی افسر تعینات ہے اس لئے بلا کسی رکاوٹ کے وہ سب کچھ کیا جارہا ہے جو فلسطین میں صیہونی کررہے ہیں ۔ بہرحال امن اور مذاکرات کے نام پر نہ مشرف صاحب اور نہ باجوہ صاحب کھیل سمجھ سکے اور یہ اسی کے ثمرات ہیں کہ جہاں بھیگی بلی شیرنی کی طرح اب دانت دکھارہی ہے اور ان دانتوں سے اب کھل کے اور بے خوف ہوکے کاٹ بھی رہی ہے۔ کوئی اور اس حقیقت کو سمجھے یا نہ سمجھے، کشمیری اس طریقہ واردات کو خوب سمجھتے تھے اور سمجھتے ہیں۔ اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ بھارت کی روایتی ہٹ دھرمی، غیر حقیقت پسندانہ روش اور فوجی غرور اور عالمی طاقتوں اور اداروں کے دہرے معیار اور سرد مہری کی صورتحال نے پرامن ذرائع کی افادیت مکمل طور پر ختم کردی ہے ۔نریندر مودی کے بھارت کے ساتھ موجودہ حالات میں تعلقات استوار کرتے وقت ستم رسیدہ کشمیریوں کے جذبات و احساسات ملحوظ رکھنے کے مکلف کو یہ حقیقت ازبر ہونی چایئے کہ مقتول کی وکالت اور قاتل کے ساتھ دوستی بیک وقت چل نہیں سکتی۔اس طرح کی حکمت عملی دشمن کی دشمنی سے زیادہ خوفناک ثابت ہوگی۔باجوہ ڈاکٹرائن کی کہانی اصولی طور پر اب ختم ہوچکی ہے اور اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اپنی کشمیر پالیسی کے نقائص کو دور کرنے کا فیصلہ کرے۔۔یوم یکجہتی کشمیر منانے میں کوئی حرج نہیں لیکن کشمیری عملی یکجہتی کا مطالبہ کررہے ہیں ۔حکمران اس طرف توجہ دیں گے ،تو بات بنے گی ورنہ بقول نعیمہ مہجور اگلے دو دہائیوں میں شاید نہ کشمیر رہے گا اور نہ کشمیری۔اللہ رحم فرمائے۔
٭٭٭