عادل ترابی
8ستمبر کو ماہنامہ کشمیر الیوم اور یونائٹیڈ کشمیر جرنلسٹس ایسوسی ایشن”یکجا” نے اپنی تابندہ روایات کو جاری رکھتے ہوئے مرحوم و مغفور جناب شیخ تجمل اسلام ؒ کو ان کی تیسری برسی پر خراج عقیدت پیش کیا۔کتنے خوش نصیب اور قابلِ رشک ہیں وہ لوگ جو”مر” کر بھی نہیں مرتے!بلکہ ہر وقت ہمارے دلوں میں دھڑکن بن کر دھڑکتے رہتے ہیں اور کتنے بدنصیب ہیں وہ لوگ جو ”زندہ” تو ہیں مگر گھونگھے،اندھے اور بہرے بنے ہوئے ہیں۔انہیں ایک پراسرار خاموشی نے گھیرا ہوا ہے۔ ورنہ جن حالات سے قوم گزرچکی اور گزر رہی ہے ہمیں جائز اور معروف طریقے سے آسمان سر پر اٹھا لینا چاہیے تھا لیکن تمام تر قیامتوں کو سہنے اور قربانیوں کے انبار لگانے کے بعد بھی ہم ایک قبرستان کی مانند ہیں جہاں کوئی صدا ہے نہ گونج۔ بس ”ہو” کا عالم ہے اور مفادات کے چھن جانے کا ڈر! ان دگرگوں حالات کے اندر بھی جو ادارے یا افراد رضاکارانہ طور پر دن رات مقصد کی آ بیاری کو اپنا وظیفہ حیات بنا چکے ہیں وہ یقیناً صد قابلِ تحسین ہیں۔

شیخ محمد امین مدیر ماہنامہ کشمیر الیوم اور یونائٹیڈ کشمیر جرنلسٹس ایسوسی ایشن یہ کام بڑی خوش اسلوبی اور تسلسل کے ساتھ سرانجام دے رہے ہیں۔البتہ ہم احتراماً یہ بھی عرض کرنا چاہتے ہیں کہ شیخ تجمل اسلام ہوں یا کوئی اور شہید تحریکی قائدان کی برسی کے پروگرامات کو چند گنے چنے لوگوں تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ ان برسیوں اور تعزیتی ریفرنسز میں ہر خاص و عام کو مدعو کیا جانا چاہیے۔ہم شیخ تجمل اسلام مرحوم کو زیادہ نہیں جانتے تھے اور نہ ہی تحریکی زندگی میں ان سے کبھی کوئی ورکنگ ریلیشن رہی ہو البتہ چند سال قبل کشمیر سے میرے ایک معزز اور خاص قریبی رشتہ دار مجھ سے ملاقات کی خاطر یہاں میرے پاس تشریف لائے۔ان سے اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں میری ملاقات ہوئی۔حال احوال سننے اور سنانے کے بعد میرے معزز مہمان نے مجھ سے استفسار فرمایا کہ کیا شیخ تجمل اسلام صاحب سے ملاقات ہوسکتی ہے؟میں نے عرض کیا کہ کیوں نہیں۔میں نے اپنے ایک دوست کی وساطت سے شیخ صاحب کو یہ پیغام بھیجا کہ کشمیر سے آ پ کے فلاں دوست تشریف لائے ہیں اور وہ آ پ سے ملاقات کا شرف چاہتے ہیں۔شیخ صاحب تک پیغام پہنچنے کی دیر تھی ،وہ فوراً اسلام آباد کے اسی ہوٹل میں تشریف لائے جہاں ان کے دوست ٹھہرے ہوئے تھے۔کالج اور یونیورسٹی کے زمانے کے یہ دو دوست جب آپس میں ملے تو ان کی یہ ملاقات ہر پہلو سے بالکل ہی مختلف تھی۔محبت کا اظہار،ضبط اور شائستگی،حالات حاضرہ پر تبصرہ،قوم کی انمول قربانیوں کے ضائع ہونے کا خوف اور فکرمندی وغیرہ وغیرہ۔بہرحال چائے پر یہ ڈیڑھ دو گھنٹے کی ملاقات میرے لئے اتنی خوشی اور دلچسپی سے بھرپور رہی کہ پتہ ہی نہ چلا کہ یہ وقت کیسے اور کتنی تیزی سے گزرا۔دہائیوں بعد دو دوستوں کی یہ دو گھنٹے کی ملاقات مجھے پوری زندگی بالخصوص ”تحریک آزادی کشمیر”کے حوالہ سے سبھی کچھ بتا اور سمجھا گئی۔ہم نے ایک دوسرے کو نمناک آنکھوں بلکہ بہتے آ نسوئوں کیساتھ الوداع کہا اور اپنی اپنی منزل کیطرف روانہ ہوئے۔چند منٹوں کی خاموشی کے بعد میرے معزز مہمان نے مجھے کہا کہ آپ کو کیا معلوم کہ شیخ تجمل اسلام کون ہیں؟ان کی دانش اور بصیرت کا کیا لیول ہے!فرمانے لگے کہ ”شیخ” اخلاص کا ہمالیہ پہاڑ ہیں،سچائی کا مینار ہیں،حمیت اور غیرت کا استعارہ اور عنوان ہیں،قربانیوں کا پیکر ہیں اور آ خر پر فرمانے لگے کہ اگر کبھی اللہ نے ہماری قوم کی قربانیوں کے عوض ہمیں آ زادی کی نعمت سے بہرہ مند فرمایا تو کیا یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ ” شیخ صاحب” پر مقالات لکھیں جائیں۔وہ مجھ سے فرمانے لگے کہ آپ گذشتہ 23 سالوں سے اس تحریک کے ساتھ منسلک ہیں اور پھر بھی آ پ شیخ تجمل اسلام جیسی شخصیت کو مکمل نہیں جانتے!میں شرمندہ سر جھکائے اپنے مہمان کی باتیں سن رہا تھا اور میں خود سے کہہ رہا تھا کہ واقعی ہم اپنے بزرگوں کو نہیں جانتے!اور شائد اسی “نہ جاننے” کی وجہ سے ہم بھی کبھی کبھار منفی پروپیگنڈا کا شکار ہوتے ہیں اور وہی زبان بولنا شروع کرتے ہیں جو ہمارے دشمن کی زبان ہوتی ہے۔ہم مرحوم شیخ تجمل اسلام کی برسی پر بس اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنے ان ہیروز کی بائیو گرافیز پر کام کرنا چاہیے۔ان کو مرتب کرنا چاہیے اور انہیں اپنے تحریکی نصاب کا خاص حصہ بنانا چاہیے تاکہ آ نے والی نسلوں کو کوئی اس تحریک اور ان عظیم قربانیوں سے متنفر نہ کرسکے۔