سید عمر اویس گردیزی
وہ بلاشبہ سید مودودیؒ کے فکری تسلسل کا زندہ استعارہ تھے،فکر کے خم خانے میں اقبال کے خمیدہ ساقی تھے
وہ بولتا تو الفاظ نہیں، فکری قندیلیں روشن ہوتیں
ان کے قلم سے نکلے الفاظ گویا طلسماتی طلوعِ سحر کی مانند دل و دماغ کو منور کر دیتے
وہ معیشت کو محض مادی حرکیات کا تعامل نہیں سمجھتے تھے، بلکہ اسے ایک روحانی، اخلاقی اور سماجی فریضہ تصور کرتے تھے
انہوں نے محض کتابیں نہیں دیں، بلکہ ایک فکری سمت، ایک تہذیبی شناخت، ایک سماجی ذمہ داری دی
پروفیسر خورشید احمدؒ کا جانا ایک خسارہ نہیں… ایک عہد کا خاتمہ ہے
شام کے سائے جب علم و فکر کی گلیوں میں سرکتے ہیں تو ایک سنّاٹا پورے جہانِ دانائی پر چھا جاتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب کتابوں کے کتبے، روشن خیالات کی شمعیں، اور جامد سطریں گویا سانس لینے لگتی ہیں۔ پرانے مکتبے کی تپتی دیواروں سے ایک پراسرار خوشبو آتی ہے، جیسے کسی فراموش شدہ حکیم کی روح وہاں بھٹک رہی ہو۔ یہی وہ ساعتیں تھیں جب میں اکثر اس پرانے مدرسے کے عقب میں جا بیٹھتا، جہاں وقت ساکت ہو جاتا اور فکری ارتعاش آغاز پاتا۔ یہاں ہر خاموشی ایک داستان سناتی اور ہر گرد آلود الماری کسی عظیم گمشدہ وجود کی گواہی دیتی۔ ایک دن وہ پرانا خادم، جسے سب بابا خیالاتی کہتے تھے، میرے قریب آیا۔ اس کی آنکھوں میں حیرانی کا عکس اور لہجے میں راز تھا۔ وہ بولا: ’’تم نے کبھی اس الماری کی تیسری دراز کھول کر دیکھی ہے؟‘‘ میں ہنس پڑا، لیکن جب اس نے سخت لہجے میں کہا، ’’وہ دراز نہیں، ایک دروازہ ہے… ایک بھولی بسری دنیا کا‘‘، تو میرے دل میں بے نام سی سنسنی دوڑ گئی۔ وہ بولا ’’وہاں تمہیں وہ ملے گا… جسے اس زمانے کے لوگ درویشِ دانش کہتے تھے… جس نے تہذیب کو آوازاور اصولوں کو عزیمت دی…‘‘۔ میں نے اس رات دراز کھولی۔۔۔۔ اندر پرانے کاغذوں، شمع دان، اور ایک دھندلائی ہوئی تصویر کے سوا کچھ نہ تھا۔۔۔ لیکن کاغذوں میں کچھ ایسا لکھا تھا، جسے پڑھتے ہی مجھے یوں لگا جیسے میرے ذہن کے دریچے ٹوٹ گئے ہوں۔’’میری سوچ تمہارے کل کی رہنمائی ہے، اور میرا نظریہ تمہارے کل کی معیشت۔‘‘ یہ الفاظ دل میں اُترے جیسے کسی بیدار روح کی فریاد ہو۔ میری انگلیاں لرزنے لگیں۔ انہی کاغذوں میں ایک خط تھا، جس میں لکھا تھا: ’’یہ وہ ہے جس نے مغرب کی جامعات میں اسلام کی گونج پیدا کی، اور مشرق میں حکمت کے دریا بہا دیے… تم اسے پا سکتے ہو، اگر تم دل سے سوچنا جانتے ہو۔‘‘ مہینوں کی تلاش اور مسلسل فکری اضطراب کے بعد، میں نے اسے ایک خاموش کمرے میں پایا۔ سفید داڑھی، خاکی لباس، خاموشی میں ڈوبا ہوا۔ وہ بولا نہیں، فقط دیکھا۔ مگر اس کی آنکھوں میں صدیاں بولتی تھیں۔ یہ وہی تھا… پروفیسر خورشید وہ بولتا تو الفاظ نہیں، فکری قندیلیں روشن ہوتیں۔ اس نے معیشت کو محض مالی تعامل نہیں، بلکہ روحانی فریضہ بنایا۔ اسلامی معاشیات، تمدن، سیاست، اجتہاد… سب پر اس کا عبور ایسا تھا جیسے صدیوں کی حکمت ایک وجود میں مجسم ہو گئی ہو۔’’میرے بچے، یہ دور بے فکری کا ہے، مگر اس کا علاج فکر ہے۔‘‘ وہ بولا۔’’جو فکر مغرب میں جذب ہو گئی، اسے مشرق سے واپس ابھارنا ہے۔ یہی میرا خواب ہے، یہی میرا ورثہ…‘‘۔ اور پھر، ایک صبح جب مدرسے کی ہوا کچھ زیادہ خاموش تھی، میں نے سنا وہ درویشِ دانش جا چکا ہے۔ مگر کیا درویش کبھی جاتے ہیں؟ وہ جو ایک مکتب تھا، ایک دبستان تھا، ایک کارواں کا رہنما، اب اپنی تحریروں میں زندہ ہے، ہر اس ذہن میں رواں ہے جو سوال کرنا جانتا ہے۔ اور میں؟ میں اب بھی اسی تیسری دراز کے پاس بیٹھا ہوں… نئے خوابوں کے ساتھ… تاکہ کوئی اور بھی اس درویش کو پا سکے… اس گمشدہ دانشور کو، جو جا کر بھی فکری دنیا کا چراغ جلا گیا۔ اگر علم و حکمت کے کوہِ گراں اور فہم و فراست کے بحرِ بیکراں کا کوئی مجسمہ تلاش کیا جائے، تو وہ پیکرِ عزم و عمل، پروفیسر خورشید احمد مرحوم و مغفورؒ کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ وہ مردِ دانا جس کی نگاہِ دور رس نے صدیوں کے فکری دھاروں کو ایک مرکز پر مرتکز کر کے امت مسلمہ کے بکھرتے قافلوں کو فکری وحدت کی لڑی میں پرو دیا۔


میرے پروفیسر خورشید مرحوم ؒ سے قربت یا ملاقات کے زیادہ تو نہیں محض دو لمحے ایسے ہیں جو دو صدیوں کی مانند ہیں، خورشیدِ حکمت سے رُوبروئی پر مجھے آج لکھنے کا شرف حاصل ہوا تو یہ حوالہ شامل کرنا لازم سمجھا۔ یہ بیان محض دو ملاقاتوں کا نہیں، بلکہ دو روحانی انکشافات کا بیانیہ ہے۔ وقت کی سطح پر وہ لمحے شاید ساعتوں میں لپٹے ہوں، مگر شعور کی سطح پر وہ ایک ابدی مکاشفہ ثابت ہوئے۔ پہلی بار جب 2012 کی ادھ جلی صبحوں میں کراچی کے اک علمی خلوت کدے میں پروفیسر خورشید احمدؒ کی زیارت ہوئی، تو یوں لگا جیسے فہم و دانش کی صدیوں پر محیط صداقتیں گویا ایک قامتِ مجسم کی صورت سامنے ایستادہ ہوں۔ میں نے اُنہیں پہلی بار نہ صرف دیکھا بلکہ سنا۔ مگر یہ سننا محض صوتی ادراک نہ تھا، بلکہ فکری کائنات کی ایک نحوی اور رمزیہ پرت کا انکشاف تھا۔ اُن کے الفاظ زبان سے نہیں، وجود سے ادا ہوتے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے فلسفۂ عمرانیات، معیشتِ شرعیہ، اور تہذیبِ ربانیہ اپنے سروں پر پرانی کتبِ حکمت کے غبار لیے جھک کر مجھ سے مخاطب ہوں۔ ان کا ایک جملہ میرے اندر کی ادراکاتی کائنات میں کئی کہکشاؤں کو بیدار کر گیا۔ دوسری ملاقات، جو بقول حافظِ وقت و حافظِ حال غالباً 2016 کے حدود میں لاہور کی ایک فکری نشست میں وقوع پذیر ہوئی، میرے لیے گویا ’’کیمیاگریِ روح ‘‘کا تجربہ ثابت ہوئی۔ اس بار میں نہ صرف سامع تھا، بلکہ مخاطَب بھی۔ اُن کی نظری نگاہوں نے جب میرے وجود کی طرف التفات کیا، تو میری فکری کجرویوں پر جیسے نقدِ بصیرت کی بارش ہونے لگی۔ اُن سے بالمشافہ ہونے کا تجربہ محض مصافحہ نہیں تھا، بلکہ ایک فکری قَسم تھا جو انہوں نے میری سوچوں کے پیشانی پر ثبت کی۔ ان کی شخصیت کوئی بشر نہ تھی ، وہ ایک نوری لہجہ تھا، جو قرونِ وسطیٰ کے محدثین، متکلمین اور فلاسفہ کی جامع تصویر لگتا تھا۔ اُن کے جملوں میں صرف منطق نہیں تھی، ایک گمشدہ تہذیب کی سانسیں تھیں۔ میں نے محسوس کیا کہ اُن کا خاموش لمحہ بھی علم کی صدہا جلدوں پر بھاری ہے۔مجھے یوں محسوس ہوا جیسے غزالی، شاہ ولی اللہؒ ، اقبالؒ اور مودودیؒ اپنی اپنی فکری عصارات لیے ایک قالب میں حلول کر گئے ہوں، اور وہ قالب پروفیسر خورشید احمدؒ کا وجود تھا۔ وہ انسان نہیں، نظریۂ مکمل تھے۔ ایسی جامعیت، ایسی صوفیانہ بے نیازی اور فکری قطعیت ، میں نے نہ دیکھی، نہ سنی۔یہ دونوں ملاقاتیں میری زندگی کے علمی اطلس پر وہ دو ستارے ہیں جن کی ضیاء پاشی آج بھی میرے فکری افق کو روشن کرتی ہے۔ اُن کی خاموشی میں جو بلاغت تھی، اُس کا شور میری تحریروں میں آج بھی گونجتا ہے۔ اور شاید قیامت تک گونجتا رہے گا۔ پروفیسر خورشید احمد نہ فقط ایک ماہرِ معاشیات تھے، بلکہ وہ فلسفہ و حکمت، اسلامی سیاست، تمدن و تہذیب اور فکری تجزیہ نگاری کے ان پہلوؤں کے امین تھے جن کی تشریح عام فہم اذہان سے بالاتر ہے۔ ان کی تحریریں اور خطابات ایسا فکری جنم لیتے کہ گویا ابن خلدون اور علامہ اقبال کے تخیل کا امتزاج ہوں۔ ان کے قلم سے نکلے الفاظ گویا طلسماتی طلوعِ سحر کی مانند دل و دماغ کو منور کر دیتے۔ پیدائش 1932 کی دہلی میں ہوئی، مگر ان کی فکری ولادت مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے آغوشِ تربیت میں ہوئی۔ جس وقت ملت کے افق پر فکری انتشار کے بادل چھا رہے تھے، خورشید احمد اس مشعلِ فکر کو تھامے ہوئے جماعت اسلامی کے اندر وہ واحد آواز بنے جو نہ صرف مودودیؒ کی فکر کا شارح بلکہ اس کے نفاذ کا مجاہد بھی تھا۔ ان کی شخصیت میں سادگی و وقار، فہم و ادراک، تدبر و فراست، اور عزیمت و استقامت اس طرح پنہاں تھے گویا ایک حکیم و فقیہہ کے قالب میں تمام صفاتِ اہلِ صدق سمو دی گئی ہوں۔
’’نہ تھا اگر تو شریکِ سفر تو کچھ نہ سہی یہ کارواں تو ازل سے رواں دواں نکلا‘‘
یونیورسٹی آف لیسٹر (برطانیہ) سے اسلامی معیشت میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد، جب وہ علمی افق پر نمودار ہوئے، تو اسلامی معاشیات کا تصور محض ایک خیالی خاکہ نہ رہا بلکہ ایک منضبط نظام کی صورت میں متشکل ہونے لگا۔ وہ معیشت کو محض مادی حرکیات کا تعامل نہیں سمجھتے تھے، بلکہ اسے ایک روحانی، اخلاقی اور سماجی فریضہ تصور کرتے تھے۔ ان کے تجزیات میں الفاظ نہیں، آفاق بولتے تھے۔ انہوں نے اسلامی فاؤنڈیشن (لیسٹر) کی بنیاد رکھ کر مغرب کے علمی مراکز میں اسلام کی گونج پیدا کی۔ مغربی جامعات میں ان کے لیکچرز نے فلسفۂ اسلام اور معیشتِ اسلامی کو وہ وقار عطا کیا جو آج کے دور میں ناپید ہے۔ ان کی کتب، مقالات، اور نظریاتی خطبات آج بھی علمی دنیا میں مینارۂ نور کی حیثیت رکھتے ہیں۔سیاسی افق پر بھی ان کی قامت بلند رہی۔ 2002 میں متحدہ مجلسِ عمل کی جانب سے سینیٹر منتخب ہوئے اور سینیٹ میں انہوں نے اسلامی قانون سازی، معیشتی اصلاحات اور آئینی بالادستی کے لیے جو آواز بلند کی، وہ کسی نعرہ باز سیاستدان کی بازگشت نہ تھی، بلکہ ایک درویش صفت دانشور کی ملتِ بیضا سے وفا کی صدائے حق تھی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پلاننگ کمیشن کے نائب چیئرمین کی حیثیت سے انہوں نے معیشت کی اسلامائزیشن کی جو بنیاد رکھی، وہ آج بھی ماہرینِ معیشت کے لیے رہنما سنگ میل ہے۔کنگ فیصل ایوارڈ اور نشانِ امتیاز جیسے اعزازات گویا عالمی سطح پر ان کی فکری بالیدگی اور علمی گہرائی کا اعتراف تھے۔ مگر وہ خود ان اعزازات سے بے نیاز ایک مجذوبِ فکر تھے۔ ان کی تمام تر مساعی کا مرکز و محور رضائے الٰہی اور امت کی فلاح تھی۔
’’مگر یہ لوگ جو مسند نشیں رہے برسوں خود اپنی ذات سے آگاہ تک نہ ہو پائے‘‘
وہ بلاشبہ سید مودودیؒ کے فکری تسلسل کا زندہ استعارہ تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مودودیؒ کے بعد اسلامی فکر کی سب سے مضبوط دیوار، خورشید احمدؒ کی قامتِ فکر تھی، تو یہ مبالغہ نہ ہوگا۔ وہ اپنی ذات میں ایک دبستان تھے، ایک مکتب فکر تھے، ایک انجمنِ فکر و شعور تھے۔ ان کے فکری نظام میں اجتہاد کی روح بھی موجود تھی اور اصول پرستی کی تپش بھی۔ وہ جدید دنیا کے تقاضوں کو اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ کرنے کے ہنر میں یکتا تھے۔ وہ نہ صرف عالمِ اسلام کے اندر بلکہ مغربی دنیا میں بھی اسلامی فکر کے ایک مستند نمائندہ تھے۔وہ فکر کے خم خانے میں اقبال کے خمیدہ ساقی تھے، جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کو ایک نئے دورِ بیداری کی نوید سنائی۔ ان کی علمی مجلسیں افلاطونی مکالمات کی صورت اختیار کر جاتی تھیں، جہاں ہر سوال کا جواب نہ صرف دلیل سے بلکہ وجدان سے بھی دیا جاتا۔
’’خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں‘‘

13 اپریل 2025 کو وہ ہم سے رخصت ہوئے، مگر ان کی فکری چراغاں آج بھی قلوب و اذہان کو منور کر رہی ہے۔ ان کی جدائی ایک ایسا خلا ہے جو شاید عشروں میں بھی پُر نہ ہو سکے۔ ان کی زندگی ایک آئینہ ہے جس میں فکر، عمل، ایثار، اخلاص اور اصول پرستی کے عکس جھلکتے ہیں۔ ان پر مضمون لکھنا محض ایک علمی مشق نہیں بلکہ ایک فکری سفر ہے، جو ہر طالب علم کو اس شعور کی طرف لے جاتا ہے ۔ملائیشیا نے 2006ء میں انہیں اسلامی معاشیات پر پی ایچ ڈی۔ کی اعزازی ڈگریاں عطا کی ہیں۔
پروفیسر خورشید احمد متعدد نظریاتی موضوعات پر مبنی رسائل وجرائد کی ادارت کرچکے ہیں۔ آپ نے اردو اور انگریزی میں ستر کتابیں تصنیف کی ہیں۔ کئی رسائل میں اپنی نگارشات عطا کر چکے ہیں۔ دوسری بہت سی مصروفیات کے علاوہ فی الوقت آپ جماعت اسلامی کے ترجمان ماہنامہ ترجمان القرآن کے مدیر رہے، پروفیسرخورشید احمد دو اداروں کے بانی چیئرمین رہے، ایک انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اسلام آباد، دوسرا لیسٹر (یوکے) کی اسلامک فاؤنڈیشن۔ اسلامک سنٹر زاریا (نائجیریا)، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، فاؤنڈیشن کونسل، رائل اکیڈمی فار اسلامک سولائزیشن عمان(اردن)کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن جبکہ اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی اور لاہور کے وائس پریذیڈنٹ رہےان کا انتقال بلاشبہ عالمِ اسلام اور علمی دنیا کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ پروفیسر خورشید احمد رحمہ اللہ کی کامل مغفرت فرمائے، ان کی تمام علمی، دینی اور ملی خدمات کو شرفِ قبولیت بخشے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائے۔ جہاں علم فقط معلومات کا نام نہیں، بلکہ ایک روحانی تجربہ ہے۔انہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ سقراط کی زبان میں قرآن کی حکمت بیان کر رہے ہوں، یا جیسے ارسطو کے استدلال میں فقہِ اسلامی کی روح دوڑ رہی ہو۔ ان کی زندگی اس بات کا استعارہ تھی کہ علم اگر عمل کے قالب میں ڈھل جائے، تو وہ قوموں کی تقدیر بدل دیتا ہے۔’’قلم اٹھے گا تو رازِ ہستی بھی کھول دے گا یہی وہ فن ہے جو زندگی کو جہات دیتا ہے‘‘ ۔پروفیسر خورشید احمد کی عظمت کو سلام، ان کے افکار کو خراج، اور ان کے مشن کو عہدِ نو کا پیغام۔ ان کی فکر ہماری نسلوں کے لیے میراث ہے، اور ان کا نظریہ ہماری فکری بنیادوں کا سنگِ بنیاد ہے۔
کبھی کبھی تاریخ ایک ایسی شخصیت کو جنم دیتی ہے جو صرف ایک انسان نہیں، بلکہ ایک مکمل مکتبِ فکر بن جاتا ہے۔ میرے لیے پروفیسر خورشید احمدؒ کی شخصیت ایسی ہی تھی۔ ایک ایسا بے مثال فکری رہنما، جن کی سادہ مزاجی میں حکمت کی گہرائی، اور خاموش لبوں میں صدیوں کی صدا گونجتی تھی۔ میں جب بھی ان کی زندگی کے کسی گوشے پر نگاہ ڈالتا ہوں، تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تہذیبِ اسلامی کا ایک چلتا پھرتا استعارہ میرے سامنے کھڑا ہو۔ وہ بلاشبہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے فکری ورثے کے سچے امین تھے، مگر ان کا امتیاز صرف وراثت کا نہیں، اس میں اپنی ایک الگ تہذیبی چھاپ بھی تھی۔ انہوں نے جماعت اسلامی میں اصولوں کے ساتھ وابستگی کو صرف نعرہ نہیں، ایک عملی نظام میں ڈھالا۔ ان کی فکری زندگی کا سب سے بڑا اثاثہ ’’اسلامی معیشت‘‘ کی تشکیل و تدوین ہے۔ آج دنیا جب اخلاق سے خالی نظامِ معیشت کے بوجھ تلے سسک رہی ہے، تو پروفیسر خورشید احمدؒ کی فکر روشنی کی ایک کرن دکھاتی ہے۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ معیشت محض نفع و نقصان کا کھیل نہیں، یہ بندگی کی معراج اور عدل کی بنیاد ہے۔ اُنہوں نے عالمی فورمز پر جس اعتماد اور علمی وقار کے ساتھ اسلام کا مقدمہ پیش کیا، وہ ہمارے لیے آج بھی رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ ان کی جدوجہد نے ہمیں یہ شعور دیا کہ اسلام محض عبادات کا نظام نہیں بلکہ ایک مکمل تہذیب، ایک عادلانہ تمدن، ایک فکری و معاشی انقلاب ہے۔ پروفیسر صاحبؒ نے ہمیں بتایا کہ اگر علم کے ساتھ یقین ہو، اور فکر کے ساتھ اخلاص ہو، تو کوئی بھی مغلوب نہیں ہو سکتا۔ میرا نوجوانوں سے ایک درد بھرا سوال ہے: تمہاری انگلیاں سکرین پر رقص کرتی ہیں، مگر تمہارا ذہن کسی وژن سے خالی کیوں ہے؟ تم نے کبھی غور کیا کہ پروفیسر خورشید احمدؒ نے تمہارے لیے کیا چھوڑا ہے؟ انہوں نے تمہیں محض کتابیں نہیں دیں، بلکہ ایک فکری سمت، ایک تہذیبی شناخت، ایک سماجی ذمہ داری دی ہے۔ آج کا نوجوان اگر ان کی تحریروں کو اپنی راہ بنا لے، تو وہ صرف نوکری کا طالب نہیں، قوم کا معمار بن سکتا ہے۔ میرے لیے یہ خراجِ عقیدت نہیں، ایک قرض کی ادائیگی ہے۔ میں نے ان کی آنکھوں میں خوابوں کی چمک دیکھی ہے، اُن کے لبوں سے اُمید کی سرگوشیاں سنی ہیں۔ مجھے یہ ماننے میں کوئی جھجک نہیں کہ وہ اس صدی کے اُن گنے چنے افراد میں سے تھے، جنہوں نے علم، عمل اور کردار کو یکجا کر کے جیا۔ آج جب وہ ہمارے درمیان نہیں، تو بھی ان کی فکر ہر اس کتاب میں زندہ ہے جو نوجوان سوال کرنا سیکھے، ہر اس تقریر میں روشن ہے جو اصولوں کے حق میں ہو، اور ہر اس جدوجہد میں سانس لیتی ہے جو سچائی کی بنیاد پر کھڑی ہو۔ پروفیسر خورشید احمدؒ کا جانا ایک خسارہ نہیں… ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ مگر ہر خاتمہ، ایک نئی شروعات کا امکان بھی رکھتا ہے۔ اگر ہم ان کے خواب کو، ان کے فکر کو، اور ان کے پیغام کو آگے بڑھائیں، تو شاید یہ خسارہ ہمیں نیا وقار عطا کر دے۔ خدا ان کے درجات بلند کرے اور ہمیں ان کی امانت کو نبھانے کی توفیق دے۔ آمین۔ اِنّا لِلّٰهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن۔