شہزاد منیر احمد
مالک ارض و سما، خالق کائنات اللہ الرحمٰن نے انسان کو پیدا کر کے تنہا لاوارث نہیں چھوڑا۔۔ اسے عقل صالح اور پاکیزہ شعور دے رکھا ہے۔ انسان مسلسل اللہ تعالیٰ کی نگہبانی اور نگرانی میں ہے۔مقدس کتاب، قرآن پاک میں اس کی راہنمائی کے لیے ایک جامع نصاب حیات موجود ہے۔ اس میں ہر قسم کی نصیحت اور فہمائش کر دی گئی ہے۔ اگر آدمی عقل سے کام لے گا تو عذاب الٰہی سے خود کو محفوظ رکھے گا تو امن وسلامتی کی زندگی جی کر خیر پائے گا۔ انسان مگر خود رو ہے۔ کتاب مبین میں درج ھدایات کو نظر انداز کر کے اپنے فیصلے خود کرتا ہے۔حماقتیں کرتا ہے، اپنے علاوہ دوسروں کی زندگی بھی عذاب میں ڈالے رکھتا ہے۔ دانشور، صاحبان فکر و خیال کہتے ہیں:-
Believers Are The Winners

تاریخ شاہد ہے کہ قومی زندگی میں قوم کے متفقہ دستور و قوانین و ضوابط سے صرف نظر کر کے فیصلے کرنے والے تخت نشین، خواہ مخواہ اپنے لیے مسائل ہی پیدا کرتے اور بدنامی کے ساتھ ناکام ہوتے ہیں۔ یہ رویہ نہ تو اخلاقی اعتبار سے معتبر ہوتا ہے نہ انتظامی اصولوں کی رو سے موثر ثابت ہوتے ہیں۔ مگر کیا کیا جائے انسان اپنی فطری خامیوں میں جکڑا ہوا ہے اسلیے وہ اپنے فیصلوں کا نفاذ چاہتا ہے۔
1944 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے لیاقت علی خان نے آل انڈیا کانگریس کے بھولا بھائی ڈیسائی سے دو طرفہ معاہدہ کیا جس کی قائد اعظم محمد علی جناح کو خبر نہ تھی۔ جب اس بارے قائد اعظم کو اخبارات میں چھپی خبروں سے معلوم ہوا تو انہوں نے اس امر پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور نتیجتاً وہ معاہدہ، بن کھلے پھولوں کی طرح مرجھا گیا۔ قائد اعظم کے دل میں لیاقت علی خان پر اعتماد کرنے بارے کئی سوالات اٹھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے ممبران میں بھی بد دل ہوئے۔ لیاقت علی خان کے اس فیصلے نے ان کو سیاسی میدان میں ناقابلِ فراموش نقصان پہنچایا۔
پاکستان بننے کے تین دن بعد عید الفطر تھی۔ قائد اعظم مہاجرین کی زبوں حالی،ضرورتوں اور پریشانیوں میں گھرے ہوئے عید منانے والوں سے خوب آگاہ تھے۔ انہوں نے کراچی کے مہاجر کیمپس کا عید کے دن دورہ کیا۔ وہاں کی بد انتظامی دیکھ کر اپنے اے ڈی سی سے کہا
” ”Tell army to take over the administeratve cotrol of these camps
27 دسمبر 1947 کو وزیراعظم پاکستان، لیاقت علی خان نے گورنر جنرل، قائد اعظم محمد علی جناح کو اپنا استعفیٰ بھیج دیا۔ اس کی وجہ ان کی بیگم رعنا لیاقت علی خان کا وہ ناپسندیدہ رویہ تھا جس پر قائد اعظم نے برہم ہو کر انہیں آگاہ کیا تھا۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان کے بیانیہ کو جواز بنا کر لیاقت علی خان نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔ وہ خط جو انہوں نے قائد اعظم کو لکھا اس میں وہ اپنی بیگم کے کام کی تعریف کرتے اور ان کے سرکاری کردار کو سراہتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
“A Prime Ministers wife can not live in a vacuum.She has to take her place in the life of the nation”
پاکستان بن گیا، قائد اعظم بیمار پڑ گئے، انہیں زیارت بھیجوا دیا گیا۔ کس نے یہ فیصلہ کیا اور کیوں کیا اس بارے سچ شاید کبھی معلوم نہ ہو پائے گا۔وزیراعظم لیاقت علی خان، زیارت میں قائد اعظم کی عیادت کے لیے گئے۔جب واپس آئے تو فاطمہ جناح نے اس ملاقات کے متعلق جناح صاحب سے دریافت کیا تو جواب یہ تھا کہ تیمارداری کا تو بہانہ تھا وہ یہ جاننے کے لیے آئے کہ میں اور کتنے دنوں تک زندہ ہوں۔ قائد اعظم کا یہ افسوسناک جواب اسی بدگمانی کا شاخسانہ تھا جو ان کے دل میں گھر کر گئی تھی۔۔
قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے درمیان سیاسی تعلقات کبھی بھی آئیڈیل نہ تھے۔ بہت ساری تفصیلات محترمہ فاطمہ جناح کی BROTHER” MY ” میں پڑھی جا سکتی ہیں۔11 ستمبر 1948 کو پاکستان اسٹیٹ بنک کے افتتاح کے موقع پر کابینہ کے ارکان اور گورنر جنرل، قائد اعظم محمد علی جناح بھی تقریب گاہ میں پہنچ چکے تھے مگر لیاقت علی خان نہیں پہنچے تھے۔ قائد اعظم کی وقت کی پابندی کے متعلق سب کو معلوم تھا کہ وہ اس طرح وقت کے پابند تھے کہ لوگ انہیں دیکھ کر اپنی گھڑیوں کا وقت ملاتے تھے۔ لیاقت علی خان کو گورنر جنرل کی صدارت میں اس طرح لاپرواہی کا مظاہرہ یقیناَ قابل مذمت تھا۔ تبھی قائد اعظم کے حکم پر ان کی خالی کرسی اٹھوا دی گئی اور انہیں کھڑے رہ کر تقریب میں شرکت کرنا پڑی تھی۔

زیارت سے واپسی پر ملک کا گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کراچی آرہا ہے، وہ تھے بھی لاغر بیمار اور اس کے استقبال کے لیے صرف کھٹیرا سی ایمبولینس بھیجی جاتی ہے جو راستے میں بند اس لیے ہو جاتی ہے کہ اس میں سے پٹرول ختم ہو گیا تھا۔ کراچی (لیاری) کی سڑک پر گرم موسم میں گورنر جنرل کی دیکھ بھال کے لیے کوئی نہ تھا سوائے ان کی بہن اور ایک نرس کے۔گورنر جنرل کی بیماری میں اس حالت اور ماحول کا زمہ دار کون تھا۔ یہ سب کو پتہ ہے مگر کوئی اس شرمندہ کرداری قابل مذمت پرفارمنس پر زبان نہیں کھولتا۔حسد و منافقت اور نا اہلیت میں چھپے ہوئے کئی ایسے کرداروں کی وجہ سے قائد اعظم نے کہا تھا میری جیب میں ” کھوٹے سکے” ہیں۔
برعکس اس کے قائد اعظم محمد علی جناح کو 11 ستمبر 1948 کو رات گیارہ بجے فوت ہو جانا ہے۔دن گیارہ بجے فاطمہ جناح سے پوچھتے ہیں, فاطی! آج تو کشمیر کمیٹی کا اجلاس ہے، لوگ ابھی تک پہنچے کیوں نہیں۔ اللہ اکبر۔۔۔۔۔یہ تھا اس پاکیزہ روح کی پاکستان سے محبت اور احساس ذمہ داری کا مقام و زاویہ۔ہم تو قائد اعظم محمد علی جناح کو اس کا محنت و محبت سے کمایا ہوا جائز مقام بھی نہ دے سکے۔ انہوں نے البتہ پاکستان کو اپنی زندگی دے دی اور اپنی ساری پونجی اس خط پاک سر زمین کے لیے وقف کر دی۔ ۔۔۔
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں ہے، کہ حق ادا نہ ہوا۔
پاکستان کے سیاسی منظر کو سیاہ کرنے، بے وقعت بنانے اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے امور اور عناصر میں شامل جاگیرداری اور زمیندار ہیں۔۔جاگیرداری اور سرداریاں ختم کرنا تو دور کی بات، پاکستان میں تو زرعی ٹیکس نہیں لاگو ہونے دیا جا رہا۔ پاکستان بنانے میں پیش پیش دونوں کردار علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح اس ٹیکس کی اہمیت سے واقف تھے تبھی حصول آزادی سے پہلے علامہ اقبال جب،1926 سے 1930 تک پنجاب اسمبلی کے ممبر تھے تو وہ اپنی ہر تقریر میں جاگیر داری کے خاتمے اور زرعی ٹیکس کے نفاذ کا مطالبہ کرتے تھے۔ مگر وہ کامیاب نہ ہوئے۔ آج بھی ہماری پارلیمنٹ میں انہی مخالف خاندانوں کی اولادیں بیٹھی ہیں۔ انہیں کے بھتیجے بھانجے داماد اور حاشیہ بردار اقتدار کی باگ ڈور سنبھالے چل رہے ہیں اسی لیے نہ زرعی زمین کی حد مقرر ہو سکی، نہ زرعی ٹیکس لگا نہ زراعت سے متعلقہ دوسری اصلاحات ہی کی جا سکیں جو ایک زرعی ملک کے شایان شان ہوں۔
افسوس کا مقام ہے کہ ملک میں قومی زبان اردو کا نفاذ بھی نہیں ہونے دیا گیا باوجود اس حقیقت کے کہ یہ قائد اعظم کا حکم تھا اور پھر سپریم کورٹ آف پاکستان کا حکم بھی ہے۔ ہمارے سیاست دانوں نے سب کچھ کیا سوائے عوام کو ایک قوم ہونے کا احساس دلا کر متحد ہونے اور پاکستان کے مفادات کی خاطر تعمیری فیصلے کرنے کے۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاست پاکستان اور اس کے شہریوں کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی سرکاری خط و کتابت کا ریکارڈ بھی ریاستی تحویل Arcives State سے غائب ہے۔ کس نے غائب کروایا کس کی تحویل سے یہ ریکارڈ اٹھوایا گیا۔کسی کو کچھ معلوم نہیں۔بالخصوص علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کے درمیان خط و کتابت بھی دستیاب نہیں۔ اس حقیقت کا انکشاف جناب قیوم نظامی صاحب نے اپنی کتاب ” قائد اعظم، بحیثیت گورنر جنرل” میں بھی کیا ہے اور دیگر محققین نے بھی۔
آل انڈیا کانگریس کے گاندھی اور قائد اعظم محمد علی جناح دونوں سیاسی قائدین کا موازنہ کرتے ہوئے جسونت سنگھ نے اپنی کتاب
JINNAH. INDIA PARTITION” “INDEPENDENC
میں لکھا ہے کہ ایک مخلصانہ طور پر کھرا ہندوتھا، دوسرا اسلام کا اتفاقیہ پرستار تھا۔ایک نے مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا دوسرے نے اصول کی بنیاد پر مذہب سے حذر کیا۔
جسونت سنگھ، ہندؤ ہونے کی وجہ سے قائد اعظم کے بارے ایسا متعصبانہ تبصرہ کر سکتا تھا کہ وہ نظریہ اسلام کی جامعیت اور صداقتوں سے نابلد تھا۔ افسوس تو ہندوستان کے ان سیاستدانوں اور لیڈروں پر ہے جو اس وقت قائد اعظم کے بارے ایسی رائے رکھتے کہتے تھے کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کو دین کے نام پر ورغلا کر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔ ان سیاستدانوں میں یونینسٹ پارٹی پیش پیش تھی۔
1946 جون تک یونینسٹس Unionist انگریزوں کے نظریہ سیاست پر قائم تھے۔ جب انہیں حالات، قرائین اور انگریزوں سے معلوم ہو گیا کہ اب قائد اعظم کی موجوزہ ریاست پاکستان کو وجود میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا تو وہ قائد اعظم آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔
اگر بہ نظر غائر ان سارے سیاستدانوں کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ وہی لوگ تھے جو قائد اعظم کی مضبوط شخصیت اور با اصول قیادت کے سامنے بولنے کی جرأت تو نہیں رکھتے تھے مگر ان کے ارد گرد اسی لیے جمع ہوئے تھے کہ انہیں مفادات و اقتدار کا کوئی ٹکڑا اگر مل سکتا تھا تو وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی وساطت ہی سے مل سکتا تھا۔ کیا دولتانے، کیا قزلباش، کیا ٹوانے کیا پیر کیا جاگیر دار، سرمایہ دار زیل دار یہ خود غرض مفاد پرست افراد سب علاقوں میں موجود تھے۔
ادھر قائد اعظم کی آنکھ بند ہوئی، تو انہوں نے ریاست اور سیاست میں سے ادھم مچا کر رکھ دی۔لوٹ کھسوٹ اور چھینا جھپٹی شروع کر دی۔
دلچسپ لطیفہ تو یہ ہوا کہ قرارداد مقاصد پاکستان جو قائد اعظم دستور ساز اسمبلی سے منظور کروا کر گئے تھے اس پر عمل درآمد التوا میں ڈال دیا۔ زندہ مثال اردو زبان کا پاکستان میں بحیثیت قومی و سرکاری زبان کا نفاذ ہے جو آج تک نافذ نہیں کی گئی۔ معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں لے جا کر فیصلہ لیا گیا، جسے بھی آئے ہوئے سات سال ہو گئے ہیں مگر قومی زبان کا نفاذ نہیں ہونے دیا جا رہا۔یہ ہیں قائد اعظم کے مخلص دوستوں، رفقائے کارجنہیں قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے کھوٹے سکے کہا تھا کی اولادیں جو آج تخت اقتدار پر بیٹھی ہیں۔۔

قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے درمیان خط و کتابت کا کہیں ریکارڈ نہیں ملتا, نہ اقبال اکیڈمی میں نہ حکومتی ARCHIVE میں ہی۔
LETTERS OF IQBAL TO JIMNAH ایک کتابچہ چھپا تو اس کے دیباچہ میں بھی ان خطوط کے بارے قائد اعظم نے ان خطوط کی اہمیت کا تذکرہ۔ ان کی گم شدگی پر اظہار افسوس کرتے لکھا ہے۔ قائد اعظم لکھتے ہیں۔:-
I think these letters are of great historical importance,particularly those which explain his views in clear and unambiguous terms on the political future of Muslim India.His views are substantially in consonance with my own and had finally led me to the same conclusions.As a result of careful examination and study of the constitutional problems facing India and found expression in due cource in the united will of Muslim India as adumbrated in the Lahore Resolution of the All India Muslim League,popularly known as the ” PakistanResolution” The booklet contains 13 letters written by Dr Iqbal to Quaid e Azam between May 1936 to November 1937..
قائد اعظم مذید لکھتے ہیں
It is however much to be regretted that my own replies to Iqbal are not availiable during the period under reference,,I worked alone unassisted by the benefit of a personal staff and so did not retained duplicate copies of the numerous letters that I had to dispose of.I made enquiries from the trustees of Iqbal’sestate at Lahore and was informed that my letters are not traceable.
25 دسمبر 1955 کو سر محمد شفیع نے” جناح اور اقبال کی خط و کتابت” پر لکھے ہوئے مضمون میں بھی ان خطوط کی عدم دستیابی پر افسوس کا ذکر کیا تھا کہ کتنے افسوس اور حیرت کی بات ہے کہ ہمارے قومی ہیروز کے درمیان اہم ترین معاملات پر ہونے والی خط و کتابت کا کہیں سے ریکارڈ محفوظ نہیں کیا گیا۔ یا تو اس خط وکتابت کی اہمیت کو غیر اہم سمجھ کر محفوظ نہیں کیا گیا، اور اگر ان کا ریکارڈ تو تھا مگر غیر اہم جان کر تلف کر دیا گیا، ہر دو صورت میں یہ امر قابلِ مذمت ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک خط میں قائد اعظم نے لکھا تھا۔
I fully agree with you that the politicl objective of the Indian Muslims must be stated clearly and un equivocally. But there are practical difficulties.Amongst the practical difficulties ‘ which were ‘ our people are politically unorganized, educationally backward and finincally nowhere. I want to pull them up step by step and before making them run, I want to be sure that they are capable of standing on their own legs.”
قارئین! اس سے اندازہ کر لیں کہ بانی پاکستان کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا گیا جب کہ انہیں انکی بیماری کے پیش نظر ہماری انتہائی توجہ ہمدردی تعاون، اپنے ہاتھ کا چھالا” سمجھتے ہوئے ان کی نگہداشت و نگرانی میں محفوظ رکھنا تھا۔
٭٭٭
شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر اور کالم نگار ہیں