قائد تحریک آزادی احمد حسن

اویس بلال

18اور 19جولائی کی درمیانی رات کا ذکر ہے جب بھارتی کمانڈوز پیرا شوٹ کے ذریعے تیرہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع پیر پنچال کے سلسلے کوہ کی ایک چوٹی پر ا ترے۔ جہاں حزب المجاہدین کے ڈپٹی ایڈوائز جنرل احمد حسن نے اپنا مسکن بنارکھا تھا۔بھارتی فوج کا خیال تھا کہ یہاں کوئی بہت بڑا کیمپ ہوگا۔ بہت زیادہ مجاہدین ہوں گے۔ اس لیے کمانڈوز سینکڑوں کی تعداد میں گئے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ اس سے نیچے کے علاقے میں بھی ہر طرف فوج پھیلا دی گئی تھی۔ بھارتی کمانڈوز ہوائی جہاز سے چھلانگ لگا کر پیرا شوٹ کے ذریعے پہاڑ کی چوٹی پر اُترے تو فوراً ہی جناب احمد حسن او ران کے جانثار ساتھیوں کو صورت حال کا اندازہ ہوگیا ۔ یہ پورا گروپ بہترین لڑاکا نوجوانوں پر مشتمل تھا جسے احمد حسن نے خصوصی طور پر تیار کیا تھا۔ تمام مجاہدین اپنے مسکن کے ارد گرد پھیل گئے اور انہوں نے پوزیشنیں سنبھال لیں۔ کیونکہ اس گھیرے کو توڑنے کی کوشش میں جان دینے سے زیادہ بہتر تھا کہ جم کر مقابلہ کیاجائے اور دشمن کو بھاری نقصان سے دوچار ہونا پڑے۔۔۔ ۔ کمانڈوز نے گھیراؤتنگ کرنا شروع کیا تو جناب احمد حسن کے شاہین بھی اپنے کمانڈر کی ہدایت پر اپنے اپنے مورچوں میں گھات لگا چکے تھے۔ جب بھارتی کمانڈوز قریب آئے تو چاروں اطراف سے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی اور پھر لمحہ بہ لمحہ اس معرکے کی شدت بڑھتی ہی چلی گئی۔ پوری رات مقابلہ جاری رہا تھا۔۔۔ صبح تہجد کا وقت تھا۔۔۔ کمانڈوز گھیرا لمحہ بہ لمحہ تنگ ہورہا تھا۔ کچھ پاکباز روحیں تو جنت کی طرف پرواز کرچکی تھیں۔ سینکڑوں کمانڈوز کے تابڑ توڑ حملوں اور بارش کی مانند برستی گولیوں کے جواب میں مجاہدین کے مورچوں میں خاموشی چھاچکی تھی۔ اور جب سورج نے پیر پنچال کی چوٹیوں پر اپنی مہربان کرنیں نچھاور کیں تو جناب احمد حسن اور ان کے نوجوان مجاہدوں پر بھی صبح شہادت کا نزول ہوچکا تھا۔مقابلے میں 16بھارتی کمانڈوز بھی ہلاک ہوگئے۔ اور ان کی لاشوں کے ساتھ کئی زخمی بھی ہوچکے تھے۔ احمد حسن اور اس کے ساتھیوں نے اس بلند محاذ پرجہاد جرأ ت و شجاعت، جوانمردی اور بہادری کے نئے باب رقم کئے اور اپنی طرح اس معرکہ خیر و شر کو بھی یاد گار بنا دیا۔آ پ کے ساتھ شہید ہونے والے مجاہدین مولوی ماسٹر نزیر احمد عرف بلال (ایڈمنسٹریٹر بانہال، جماعت اسلامی)شاہ نواز عرف برکت (موچھی مرمت ڈوڈہ)، نزیر احمد ڈار عرف غازی اسلم (مائی سیمہ سری نگر)شبیر احمد عرف سلیم گوہر (پارہ چاڈورہ)۔۔۔۔احمد (چاڈورہ)اور چوہدری زبیر احمد خان (گول گلاب گڑھ ادھمپور) شامل ہیں۔

زندہ ہوجاتے ہیں جو مرتے ہیں اس کے
اللہ اللہ موت کو کس نے مسیح کردیا۔

احمد حسنؒ پچپن برس قبل بڈگام کی مردم خیش بستی گوہر پورہ چاڈورہ میں پیدا ہوئے تھے۔ بی اے کیا، پھر ایل ایل بی اور کے بعد عدلیہ میں بحیثیت ریڈر تعینات ہوئے۔ تحریکی مصروفیات کے سبب ملازمت کو خیرباد کہا اور اپنی تمام تر صلاحیتیں اور توانائیاں تحریک اسلامی پر نچھاور کردیں۔ بلاشبہ آ پ جماعت اسلامی کا قیمتی اثاثہ تھے۔ طالب علمی کے دوران ہی آپ مفکر اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کا لٹریچر پڑھ کر اس فکر کے ساتھ منسلک ہوئے۔ اس حیات بخش دعوت کو گھر گھر پہنچانے کے لیے ہر در پر دستک دی، تڑپ اور لگن نے بہت جلد رفیق سے رکن بنایا۔ اپنے حلقے کے ناظم بنائے گئے۔ پھر تحصیل کے سیکرٹری اور پھر امیر تحصیل کی حیثیت سے اسلام کی خدمت کی۔ اس دور میں ان کی ساری سرگرمیاں اور توجہ کا مرکز دعوت اسلام کا کام بن کر رہ گیا تھا۔ اس عشق وجنون کو دیکھ کر آپ کو ضلع بڈگام کا سیکرٹری مقرر کیا گیا اور مرکزی شوریٰ کا رکن ہونے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ احمد حسن ان خوش بختوں میں سے ایک ہیں جنہیں سنت یوسفی ؑکی راہ گزر سے بھی کئی بار گزرنا پڑا۔ جیل سے باہر آتے ہی کام کا آغاز کرتے مساجد میں تقاریر کرتے، لوگوں سے گھروں اور بازاروں میں جاکر ملتے اور اس طرح دعوتی کاموں میں جت جاتے۔

جب مسلح جہاد کا آغاز ہوگیا تو جناب احمد حسن پہلے کمپنی ایڈمنسٹریٹر اور پھر بٹالین کمانڈر بنائے گئے۔ گوہر پورہ کی ماڈل بستی سے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد موصوف کے توسط سے تربیت کے لیے روانہ ہوئی۔ بلکہ پو رے پلوامہ ضلع میں عسکریت کو مہمیز دینے میں آپ نے اہم رول ادا کیا۔ احمد حسن بہترین خوبیوں کے مالک ایک مثالی کارکن، درویش صفت مجاہد اور ہمدرد قسم کے قائد تھے۔ ان کے قول وفعل کی مطابقت نے معاشرے پر مفید اوردوررس اثراث چھوڑے۔ مجاہدین کے اندر جہاد کی صحیح اور حقیقی روح بیدار کرنے کی طرف خاص توجہ دی۔ دیگر برادر تنظیموں کے ساتھ آپ کے گہرے مراسم تھے، کسی بھی معاملے کے بارے میں آپ کا فیصلہ ہر ایک مجاہد کو قبول ہوتا۔، کیونکہ وہ حق و انصاف کا فیصلہ ہوتا تھا۔

18/ اگست 1992ء کو آپ شہید قائد جہاد کشمیر جناب شمس الحقؒ کے ساتھ بیس کیمپ گئے۔ آپ ذرا بھاری جسم کے مالک تھے سنگلاخ اور دشورا راہوں سے چلنا مشکل ہوگیا توا یک مقام پر رُکے اور حق صاحب سے کہا آپ اپنے قافلے کو لے کر سفر جاری رکھیں، میری وجہ سے آپ پریشان نہ ہو۔ اس پر گائیڈ نے کوسا اور تحقیری زبان استعمال کی۔ شمس الحق کو یہ باتیں ناگوارگزریں اور منزل پر پہنچ کر گائیڈ کو سرزنش کی۔۔۔۔ “تمہیں معلوم ہے تم نے کس کے ساتھ گستاخی کی۔” اس پر گائیڈ بہت نادم ہوئے اور معافی مانگی۔ لیکن احمد حسن کی نرم طبعیت اس وقت بھی اپنی شگفتگی نہ کھوئی۔ کہنے لگے۔۔۔” معافی مانگنے کی کیا ضرورت ہے، یہ اللہ کا فضل اور آپ کی مہربانی ہے کہ میں اپنی منزل کو پہنچا ہوں۔ ” بیس کیمپ میں ساڑھے چار برس تک قیام کیا۔ اس عرصے میں بہت متحرک رہے۔ تربیت کے سارے مرحلے عام مجاہدین کیساتھ پورے کئے۔ اس دوران جو مشکلات پیش آئیں، ان کی شکایت کے لئے کبھی لب نہ کھولے۔

سخت ورزش آ پ کے معمولات میں شامل تھی، شائد ہی کبھی ناغہ کیا ہو۔ہفتے میں دو دن روزہ رکھتے اور تہجد باقائدہ پڑھتے۔ سحر کے وقت اللہ کو یاد کرنا مومن کی صفت بیان کی گئی ہے۔ احمد حسن صاحب نمونہ تھے۔ ایک مجاہد جو سفر کیا کرتے تھے نے ایک بار بتایا کہ میں نے گیارہ دن ان کے ساتھ گزارے۔ ایک رات کاذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ

”رات کے تیسرے پہر میرے کانوں میں رونے کی آ واز آئی۔ میں بیدار ہوا، دیکھا نماز پڑھ رہے ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسوں برس رہے ہیں۔وہ خدا کے حضور بہت زیادہ گڑگڑارہے تھے ان کا یہ عمل میں نے گیارہ دن مسلسل دیکھا۔“

حزب المجاہدین کے قائدین اس بات کے معترف ہیں کہ میدان جہاد کے بدلتے ہوئے حالات احمد حسن صاحب نے مجاہدین کے اندر اجاگر کرنے کی طرف خاص توجہ دی اس حوالے سے کئی اقدام کئے۔ دس دس مجاہدین پر مشتمل گروپ تشکیل دئے اور تربیت کے خصوصی انتظامات کئے۔ عسکری تربیت کے ساتھ ساتھ ایڈوائز جنرل کی حیثیت سے مجاہدین کیمپوں میں تربیت کا خاص اہتمام کیا۔ اس کے لیے اس نے نئے محاذ کھولنے کی طرف بھی بھر پور توجہ دی۔ جموں کے اضلاع راجوری، پونچھ اور ادھمپور کو مجاہدین کے مضبوط اور متحرک گڑھ بنا، جس میں ان کا بنیادی کردار تھا۔ شبانہ روز محنت کرکے یہاں نوجوانوں کو متحرک کیا اور بہت کم وقت میں مجاہدین کی ایک بڑی تعداد تیار کرکے میدان میں اتاردی۔ اس نئی قوت کو بھارت کی فوجی قیادت اپنے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دیتی ہے۔ پیر پنچال سیکٹر سے مجاہدین کی آمد رفت کے لیے راستے تلاش کرنے کا سہرا بھی احمد حسن کے سر ہے۔ماسٹر مائنڈ نزیر احمد بانہال جو آ پ کے ساتھ شہید ہوئے، ان کے ساتھ خط و کتاب کے دوران وعدہ کیا کہ میں جب آؤں گا آپ کے ساتھ ہی کام کرو ں گا۔ آ پ نے اس وعدے کو پورا کرکے دکھایا، مگر اللہ کے ہاں ان کے لیے مہلت عمل بہت کم تھی۔

بیس کیمپ میں قیام کے دوران بھارتی فوج نے احمد حسن کے مکان کو بارود سے تباہ کردیا۔ اس کے رد عمل میں کہا۔۔۔”گھروں کو جلا کر معصوم بچوں کا خون کرکے، ہمارے جسموں کے ٹکڑے کرکے، عزتوں کو پامال کرکے اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ ہمیں راہ جہاد پر چلنے سے روک لے گا۔ ہماری تحریک کو کچل دے گا، تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔“

اتحاد بین المجاہدین ان کی دلی تمنا تھی۔اس کے لیے مجاہد تنظیموں کیساتھ رابطے کئے اور ذاتی طور پر ان کے ذمہ داران سے ملتے۔ متحدہ جہاد کونسل کے قیام میں ان کی کوششیں بھی شامل تھیں۔ احمد حسن شہید بے باک اور صاف گو تھے۔ بات دو ٹوک کرتے تھے۔ لمبی ڈاڑھی اور سر پر گرمیوں میں سفید اور سردیوں میں افغان ٹوپی رکھتے۔سادگی آ پ کا شعار، سخت کوشی اور جفا کشی آپ کی عادت بن گئی تھی۔ اپریل1997ء کے آخری دنوں میں گرم مورچوں کی طرف روانہ ہوئے۔ جانے سے پہلے ہر ایک جاننے والے سے ملے۔ سہو وخطا پر معافی مانگی،جن سے مل نہ سکے انہیں خطوط لکھے اور غلطیاں معاف کردینے کی درخواست کی۔ادھم پور پہنچ کر نوجوانوں کو تربیت کے لیے نکالا۔ ان کے اندر جہاد کی تڑپ پیدا کی۔ احمد حسن صاحب نے یہ کام ثابت کردیا کہ محنت اور لگن سے کوئی بھی مشکل کاانجام دیا جاسکتا۔ زبیر خان جو آپ کے ساتھ شہید ہوگئے۔ چوہدری حاجی بلند خان کے فرزند ارجمند ہیں۔حاجی صاحب نیشنل کانفرنس کے سابق اسمبلی ممبر اور ایک بورڈ کے چیرمین رہے ہیں۔ یہ احمد حسن صاحب ہی کا امتیاز تھا کہ گھرانے کے فرد کو جہاد کی وادی میں اتارنے میں کامیاب ہوگئے۔جہادی نیٹ ورک قائم کرنے کے بعد گول گلاب گڑھ کے نزدیکی پہاڑ پر تیرہ ہزار فٹ کی بلندی پر اس کی نگرانی کے لیے قیام گاہ قائم کی۔ اس چوٹی سے وادی اور صوبہ جموں۔۔۔۔۔ دونوں علاقے دکھائی دیتے ہیں۔ اتنی بلندی پر اپنا لہو بہا کر تحریک کی کھیتی کو سیراب کردیا۔

مقتل میں اور کس کی گواہی ہے معتبر
جو سب سے معتبر ہے شہادت لہو کی ہے۔
پھر یاد آرہے ہیں شہیدان محترم
اسلام کو آج پھر ضرورت لہو کی ہے

٭٭٭