قائد تحریک امام گیلانی ؒ

ڈاکٹر محمد مشتاق خان

امیر جماعت اسلامی آزاد جموں کشمیر وگلگت بلتستان

ریاست جموں کشمیر کی بدقسمتی رہی ہے کہ کم از کم گزشتہ دو صدیوں تک انہیں ایسی قیادت میسر نہیں آئی جو انہیں منجدھار سے نکال کر کنارے تک پہنچا سکے۔ اللہ نے سید علی گیلانیؒ کی صورت میں اہل کشمیر کو ایک ایسی قیادت عطا کی جس نے اپنی جہد مسلسل سے ماؤں کی گودوں سے بچے تیار کیے اور آج ایک پوری نسل بھارت کے ظلم کے مقابل سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن چکی ہے۔سید ؒ کی پوری زندگی مصائب اور مشکلات میں گزری ہے۔ انہوں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ جیلوں اورعقوبت خانوں میں گزارا۔اپنی لازوال جدوجہد سے انہوں نے شیخ عبداللہ کا سحر توڑا،جب لوگ شیخ عبداللہ کو خدا کا اوتار مانتے تھے،اس کے ایک اشارے پر مرنے مارنے پر تُل جاتے تھے۔شیخ عبداللہ جیسے دیگر مداریوں نے برسوں تک سادہ لوح کشمیریوں کو دھوکے میں رکھا۔وہ سبز رومال اور نمک کی ڈلی لہرا کر یہ تاثر دیتے رہے کہ وہ اہل کشمیر کے لیے جدو جہد کررہے ہیں،ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ حق خود ارادیت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔شیخ عبداللہ کشمیری ملت کو برسوں تک دھوکہ دیتا رہا۔ کشمیریوں نے اسے ’’شیر کشمیر‘‘ مان لیا۔ بھارتی حکمرانوں کے ساتھ مل کروہ اہل جموں کشمیر کا حق آزادی غصب کرتا رہا۔

سید علی گیلانی ؒ مولاناسعدالدین ؒ کے مکتب فکر سے وابستہ ہوئے تو ان کی زندگی بدل گئی۔انہوں نے شیخ عبداللہ کو للکارا اور اس جعلی شیر کے چہرے سے نقاب نوچ ڈالا۔ کشمیریوں کو دھوکہ دینے والے ہر نام نہاد لیڈر کو اس کی اصلیت سے آشنا کیا۔ جعلی شیروں کے نقاب الٹنے کے بعد اندر سے گیدڑ برآمد ہوئے۔سید علی گیلانی ؒ نے اسمبلی کے ایوان میں قدم رکھا توان منافقین کے چہرے اور بھی بے نقاب ہوئے۔کشمیر کے طول وعرض میں پیر وجواں سید ؒکے ہمنوا ہو گئے۔ایک وقت آیا کہ کشمیر کی یہ نام نہاد قیادت منہ چھپائے دہلی میں پناہ گزین ہو گئی۔سید علی شاہ گیلانی ؒ نے ایک عرصے تک سیاسی اور پر امن جدوجہد کی،کشمیریوں کو ان کا حق دلانے کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کی،اوڑی سے لکھن پور تک ہر جگہ پہنچے۔انہوں نے اسلام، اتحاد اور آزادی کا نعرہ دیا۔ایک طرف ریاستی جبر تھا اور دوسری طرف جدوجہد اور استقامت تھی۔وہ مولانا سعدالدین تارہ بلی سے اکتساب فیض پاتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ظلم کا کوئی بھی حربہ انہیں جھکنے اور بِکنے پر مجبور نہ کر سکا،وہ زندگی کی آخری سانس تک اللہ کے دین کی سر بلندی اور تکمیل پاکستان کی جنگ لڑتے رہے۔ وہ اپنی جدوجہد مکمل کرکے اپنے رب کے سامنے حاضر ہو گئے۔ ان کی جدوجہد ابھی باقی ہے،جس کا عَلم اب ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ہمارے اوپر یہ بات واجب ہے کہ ہم سید علی گیلانی ؒ کا یہ علَم گرنے نہ دیں۔یہ درست ہے کہ ہماری جدوجہد طویل ہے،ہمارے راستے میں اندرونی اور بیرونی رکاوٹیں کھڑی ہیں۔ہماری نئی نسل مایوسی کی طرف جا رہی ہے۔اس موقعے پر ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کے حوصلے ٹوٹنے نہ دیں۔امیدیں زندہ رکھیں،سید ؒ کے راستے اور منزل کو دھندلانے نہ دیں۔قوموں کی زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔قیادت کا کام ہے کہ جب ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو اپنے اسلاف کی جدوجہد کو تازہ کریں ان کی قربانیوں اور مشکلات کو یاد کریں۔

میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں سید علی گیلاانی ؒ کے نقش قدم پر چلائے اور وہ دن جلد آئے جب قربانیاں رنگ لائیں اور جموں کشمیر کے افق پر آ زادی کا سویرا طلوع ہو۔