قرآن ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت ورحمت

کیا یہ مطمئن ہیں کہ خدا کے عذاب کی کوئی بلا انہیں دبوچ نہ لے گی یا بے خبری میں قیامت کی گھڑی اچانک ان پر نہ آجائے گی؟ تم ان سے صاف کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے ، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں ، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی ، اور اللہ پاک ہےا ور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیںِِ‘‘۔اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھے ، اور اِنہی بستیوں کے رہنے والوں میں سے تھے ، اور انہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں ۔ پھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان قوموں کا انجام اِنہیں نظر نہ آیا جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں؟ یقیناً آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے اَور زیادہ بہتر ہے جنہوں نے پیغمبروں کی بات مان کر تقوٰی کی روش اختیار کی ۔ کیا اب بھی تم لوگ نہ سمجھو گے؟پہلے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ وہ مدّتوں نصیحت کرتے رہے اور لوگوں نے سن کر نہ دیا یہاں تک کہ جب پیغمبر لوگوں سے مایوس ہو گئے اور لوگوں نے بھی سمجھ لیا کہ ان سے جھوٹ بولاگیا تھا ، تو یکایک ہماری مدد پیغمبروں کو پہنچ گئی ۔ پھر جب ایسا موقع آجاتا ہے تو ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ جسے ہم چاہتے ہیں بچا لیتے ہیں اورمجرموںپرسےتوہماراعذاب ٹالاہی نہیں جاسکتا۔ اگلے لوگوں کے ان قصّوں میں عقل و ہوش رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے ۔ یہ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جا رہا ہے یہ بناوٹی باتیں نہیں ہیں بلکہ جو کتابیں اس سے پہلے آئی ہوئی ہیں انہی کی تصدیق ہے اور ہر چیز کی تفصیل اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ۔

سورۃ یوسف آ یت نمبر107 تا 111تفہیم القرآن سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

خوش بخت انسان کون

حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم ! میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے :’’ بلاشبہ انتہائی خوش بخت ہے وہ انسان جو فتنوں سے بچا رہا ۔ بڑا خوش بخت ہے وہ انسان جو فتنوں سے بچا رہا ‘ بڑا خوش بخت ہے وہ انسان جو فتنوں سے بچا رہا ۔ اور جو ان میں مبتلا کیا گیا پھر اس نے صبر کیا ‘ تو اس کا کیا کہنا ۔‘‘

( سنن ابی داؤد)

سچے ایمان کی نشانی

حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تک کسی شخص کو دیکھو کہ وہ مسجد سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی خدمت اور نگہداشت کرتا ہے تو اس کے لیے ایمان کی شہادت دو، کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ کی مسجدوں کو آباد وہی لوگ کرتے ہیں جو ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور یوم آخرت پر۔

(جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، مسند دارمی)

تشریح

مطلب یہ ہے کہ مسجد اللہ تعالیٰ کی عبادت کا مرکز اور دین مقدس کا شعار و نشان ہے اس لیے اس کے ساتھ مخلصانہ تعلق اور اس کی خدمت و نگہداشت اور اس بات کی فکر و سعی کہ وہ اللہ کے ذکر و عبادت سے معمور اور آباد رہے، یہ سب سچے ایمان کی نشانی اور دلیل ہے۔