قربانی ،استقامت ،بقا اور عزت کی ضمانت

چیف ایڈیٹر کے قلم سے

ستمبر کا مہینہ کئی حوالوں سے تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہی مہینہ ہے جب 1965ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان بھرپور جنگ چھڑی تھی۔ یہ جنگ کشمیر کے تنازعے ہی کا شاخسانہ تھی۔ پاکستان نے حریت پسند کشمیری عوام کو آزادی دلانے کے لیے آپریشن جبرالٹر کی صورت میں ایک جنگ چھیڑ دی تو بھارت نے بین الاقوامی سرحد پر محاذ کھول دیا۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ بھارتی جارحیت کے باوجود پاکستان کا پلہ بھاری رہا اور بالآخر بھارت کو اقوامِ متحدہ میں جنگ بندی کی بھیک مانگنی پڑی۔ ستمبر کا مہینہ ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ قربانی اور استقامت ہی بقا اور عزت کی ضمانت ہے۔یہی مہینہ ہمیں ایک اور عظیم شخصیت کی یاد دلاتا ہے،کشمیری عوام کے قائد، حریت کے امام، سید علی گیلانیؒ جو چارسال قبل یکم ستمبر2021 ءکوہم سے رخصت ہوگئے مگر ان کی یاد اور فکر آج بھی دلوں میں زندہ ہے۔ دراصل امام گیلانیؒ محض ایک فرد کا نام نہیں، بلکہ وہ ایک عہد، ایک نظریہ اور روشنی کا ایک مینار تھے جو کشمیریوں کے حوصلے اور پاکستان کی روح وفا کو جلا بخشتے رہیں گے۔ان کی زندگی ایک جہد مسلسل کا نام تھی۔ وہ ایک پرعزم، پروقار اور ایک موقف پر ڈٹے رہنے والے قائد تھے۔ان کی زندگی کا بیشتر حصہ جیلوں میں گزرا جبکہ زندگی کے آخری 11 برس وہ اپنے ہی گھر میں نظر بند رہے۔دوران اسیری وہ صحت کے سنگین مسائل سے دوچار ہوئے ۔ان کے دل کے ساتھ پیس میکر لگا ہوا تھا۔ ان کا پِتہ اور ایک گردہ نکالاجاچکا تھا جبکہ دوسرے گردے کا بھی تیسرا حصہ آپریشن کر کے نکالاجاچکا تھا۔لیکن کبھی بھی باطل قوتوں سے رحم کی بھیک نہ مانگی۔ ایک انچ بھی اپنے مؤقف سے پیچھے نہ ہٹے۔ انہیں مراعات، وظائف اور آسائشوں کے جال میں پھانسنے کی کوششیں ہوئیں مگر ان کا دوٹوک جواب یہ تھاکہ میں اپنی جان و مال کا سودا اپنے رب سے کرچکا ہوں، میں بکاؤ مال نہیں ہوں۔یہی وہ روشنی ہے جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔مسلح جدوجہد کی حمایت سے لے کر حریت کانفرنس کے قیام تک اور پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت تک، سید علی گیلانیؒ ہر مرحلے پر ایک غیر متزلزل اور پرعزم رہنما کے طور پر ابھرے۔ وہ پاکستان کو کشمیریوں کی آخری اُمید سمجھتے تھے اور اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اسی اُمید سے وابستہ رہے۔5 اگست 2019 کو جب بھارت نے جموں و کشمیر کو غیر قانونی طور پر اپنے آئین میں ضم کیا، تو امام گیلانیؒ نے دنیا کے مسلمانوں اور بالخصوص پاکستان کے نام SOS پیغام جاری کیا۔ یہ ان کی بے بسی نہیں بلکہ ایک مجاہد کی للکار تھی کہ کشمیری اپنے خون کے آخری قطرے تک لڑنے کے لیے تیار ہیں، مگر پاکستان بھی آگے بڑھے۔ امام گیلانیؒ کا جنازہ اور تدفین اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ مرنے کے بعد بھی بھارت کے لیے خوف اور اہل کشمیر کے لیے حوصلے کا استعارہ ہیں۔ بھارت نے ان کی میت کو لواحقین سے چھین کر رات کے اندھیرے میں دفنا دیا، ان کی قبر پر پہرہ بٹھایا تاکہ وہ مرجع خلائق نہ بن جائے۔ مگر کون ہے جو دلوں پر پہرہ بٹھا سکے؟ سیدگیلانیؒ تو آج بھی ہر کشمیری اور ملت اسلامیہ کے ہر فرد کے دل میں زندہ ہیں۔امام گیلانیؒ کی حیات دراصل نئی نسل کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ان کی خود نوشت ’’ولر کنارے‘‘ نہ صرف ایک سوانح عمری ہے بلکہ کشمیری قوم کی اجتماعی داستان حریت ہے۔ یہ کتاب نئی نسل کے لیے ایک مینول ہے جس سے وہ استقامت، قربانی اور مقصدیت کا سبق حاصل کرسکتی ہے۔واضح رہے کہ ستمبر ہمیں دو یادیں یاد دلاتا ہے، ایک 1965 کی جنگ کا ولولہ اور دوسرا امام سید علی گیلانیؒ کی جدوجہد اور وفا کی لازوال داستان۔ ان کا نعرہ آج بھی فضا میں گونج رہا ہے،اسلام کے رشتے سے ۔۔۔ہم پاکستانی ہیں،ہم پاکستانی ہیں۔۔۔ پاکستان ہمارا ہے۔آزادی کا مطلب کیا لا الٰہ اللہ ۔۔یہی نعرے یہی پیغامات ہماری رہنمائی کرتے ہیں کہ جب تک کشمیر آزاد نہیں ہوتا، سید علی گیلانیؒ کی روح بے قرار رہے گی۔ ملت اسلامیہ کا بالعموم اور اہل پاکستان کا بالخصوص یہ فرض ہے کہ وہ ان کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے اپنی سفارتی، سیاسی اور عسکری ذمہ داریاں پوری کریں۔ یہاں اس حقیقت کا ادراک بھی ضرور ہونا چاہیےکہ جہاں ان کا یہ نعرہ تھا کہ ہم پاکستانی ہیں ،پاکستان ہمارا ہے وہیں یہاں کی قیادت کا یہ نعرہ اور پیغام ہونا چاہیے تھا ۔ہم کشمیری ہیں ۔۔۔کشمیر ہمارا ہے ۔اللہ تعالیٰ امام گیلانی ؒ کے درجات بلند سے بلند تر فرمائیں ، کشمیری اور فلسطینی عوام کو آزادی کی نعمتوں سے سرفراز کریں۔آمین