
اللہ مالک ارض و سما نے انسان کو پیدا کر کے زندگی کی حدود اور سمتوں کا بھی واضح تعین کر رکھا ہے، اسے خود روی اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تخلیق آدم علیہ السلام کے بعد اللہ الرحمٰن نے اسے براہ راست علم الحیات تفویض کیا اور بے شمار اسما ء سکھائے، اور جنت الفردوس میں اسے اپنی زوجہ حوا کے ساتھ بے فکری کی زندگی گزارنے کا اذن دیا۔ ساتھ ہی آدم علیہ السلام کو اس کیlimitationsبھی بتائیں کہ تم فطرتاً ناشکرے ہو، جلد باز ہو،جھگڑالو ہو، نفس کے حصار میں بند ہو، تم خدا پرستی اور نفس پرستی، دونوں اوصاف کے حامل ہو۔ تم اسی عمل میں تاک ہو گے جس کی کوشش کرو گے۔ لہذا محتاط رہنا۔۔مزید یہ کہ ’’شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اگر اس کے جھانسے میں آ گئے تو وہ تمہیں خساروں میں ڈبو دے گا‘‘۔
اللہ الرحمٰن و رحیم کے متنبہ کرنے کے باوجود، آدم و حوا دونوں شیطان کے بہکاوے میں آ کر اللہ تعالیٰ کی ھدایت کو بھولے اور اپنی خواہش کی تکمیل کر بیٹھے، سہو کا شکار ہوئے، بہت کچھ کھویا اور اپنی دنیا ہی بدلوا بیٹھے۔ یہ تھا وہ لمحہ جس کے بارے کہا گیا ہے ۔ لمحوں نے خطا کی، تو صدیوں نے سزا پائی ۔۔۔آدم و حوا، نے اپنی سہو و خطا پر فوراََ معافی مانگی،توبہ کیا ،رجوع کیا اور عرض کیا ربنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکون من الخسرین ۔ اللہ الرحمٰن نے انہیں معاف تو فرما دیا مگر فرمایا کہ اب تم زمین پر اترو، تمہیں میری طرف سے ھدایات پہنچائی جائیں گی۔جو ان پر عمل کرے گا انہیں پھر واپس ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسی جگہ لا کر بسایا جائے گا، جہاں سے اب نکالے جا رہے ہو۔
انسانی زندگی میں زمین پر آدمیت کی زندگی کا دورانیہ گویا ایک اضافی اور ضمنی پیوند کی مانند ہے۔ یہ آزمائش کا عرصہ ہے زندگی نہیں۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین کی زندگی پر بھی بالواسطہ ھدایات بھیجوائیں اور فرمایا۔ ترجمہ، ہم نے تمہارے لیے یہ کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا ذ کر ہے۔ کیا تمہیں عقل و شعور نہیں( سورت الانبیاء آیت نمبر 10)
قران پاک میں درج ہے کہ انسان کو اللہ تعلی کی بہترین مخلوق قرار دے کر زمین پر اللہ کاخلیفہ بنا کر بھیجا گیا تا کہ وہ زمین پر اللہ کے بندوں میں اللہ کی نعمتوں کی تقسیم میں عدل و انصاف قائم کرکے ان کی زندگی آسان بنائے۔ ریاست پاکستان اس لیے معرض وجود میں لائی گئی تھی کہ یہاں اللہ کا قانون نافذ ہو، عدل و انصاف ہو ریاستی عوام ملک کے وسائل کو اجتماعی استعمال میں لائیں اور ملکی مسائل کو بھی باہمی مشاورت اور کوششوں سے حل کریں۔ یہ خواب مگر پورا نہیں ہوا۔ اسلامی ریاست میں انسان تو انسان جانوروں مویشیوں تک کی آرام دہ زندگی کی ضمانت دی گئی ہے۔ اسلامی حکمران، حضرت عمر فاروق کا یہ اعتراف زمہ داری ریکارڈ پر ہے، انہوں نے کہا تھا میرے تابع ریاست میں اگر کوئی کتا بھی بھوکا مرے گا تو عمر روز محشر اپنے اللہ الرحمٰن کے آگے جواب دہ ہوگا۔
بڑے افسوس سے پچھلے دنوں فیصل آباد میں ہونے والے دو دل خراش، شرمناک اور انتہائی بے حسی کے واقعات کا ذکر کرنا پڑ رہا ہے۔

پہلا واقعہ ماہ اگست 2022کے دوسرے ہفتے میں پیش آیا۔ ایک باپ نے اپنی دو بیٹیوں کو قرض، بھوک و مفلسی کے ہاتھوں تنگ آ کر ذبح کیا، دوست کو فون کر کے بتایا کہ میں نے یہ کردیا ہے اب خود بھی خودکشی کر رہا ہوں۔ ہمارے جنازے میں ہمارے رشتہ دار شامل نہ ہوں میرے گھر کا سامان اور ہماری میتیں ایدھی فاؤنڈیشن والوں کے حوالے کر دی جائیں۔ اس المناک واقعہ کا آخری جملہ سب سے زیادہ اذیت ناک، مہیب اور کراہت بھرا ہے۔ اب اس پر نام نہاد علماء دین فتوے دیں گے کہ خود کشی مایوسی کا اظہار ہے اور مسلمان کے لیے خود کشی حرام ہے۔ کون انہیں بتائے کہ بھوک کا نام صرف بھوک ہے یہ نہ تو آداب کے سانچوں میں ڈھالی جا سکتی ہے اور نہ ہی آج تک اس کا کوئی اور مہذب نام دریافت ہوا ہے۔
ایسا اس اسلامی ریاست میں ہوا جن کے مسلمان عوام کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ۔۔۔ تم اللہ کے دئیے ہوئے رزق سے محتاجوں ضرورت مندوں کی مدد پر خرچ کرو۔”
دوسرا واقعہ بھی فیصل آباد ہی میں پہلے واقعہ کے دو دن بعد16 اگست 2022 کو سامنے آیا۔
ایک نو دولتئیے نے جو ساٹھ کے پیٹے میں ہے اپنی بیٹی جو میدیکل کالج میں پڑھتی ہے کی کلاس فیلو لڑکی کو اپنی بیٹی کے ساتھ ان کے گھر جا کر شادی کی پیش کش کر دی۔ اس لڑکی نے انکار کر دیا۔ لڑکی اپنی ماں کے ساتھ رہتی ہے۔ اس کے دو بھائی ہیں جو تعلیم کے سلسلے میں ملک سے باہر گئے ہوئے ہیں۔ ایک ان دنوں چھٹیوں پر پاکستان آیا ہوا ہے۔
اس لڑکی کے شادی سے انکار کا سن کر اس نو دولتئے اور اس کی بے حیا بیٹی کی انا مجروح ہو گئی۔ انہوں نے اس لڑکی کو زبردستی کھینچ کرگھسیٹ کر اپنی گاڑی میں ڈالا اور اپنے گھر لا کر اس پر بیہمانہ تشدد کیا، ویڈیو بنائی۔ اپنے بیٹی کے ساتھ ملکر اسے نیم برہنہ کر دیا۔ لڑکی بیچاری منتیں ترلے کرتی رہی مگر سب بے سود رہا۔ پھر اس بے قصور و معصوم لڑکی سے اپنے الٹے جوتے زبان سے چٹوائے۔ساتھ ہی بہت بڑے تاوان کا مطالبہ بھی کیا۔ وقوعہ خود بولتا ہے۔ 18 اگست کو جب اسے عدالت میں پیش کرنے کے لیے پولیس ڈسٹرکٹ کورٹس فیصل آباد میں لا ئے تو وکلاء کی بہت بڑی تعداد مشتعل ہو کر اس پر ٹوٹ پڑی اور خوب دھویا، اسے بہت مارا کہ اس کے کالے کرتوت نے پورے شہر کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔
مزکورہ بالا دونوں واقعات بادی النظر میں شائد معمولی کہہ کر حکمران خود کو بری الزمہ سمجھ لیں۔ حقیقت میں مگر ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ خودکشی کرنے والا ہر شخص ملکی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، عدم انصاف ،حکمرانوں کی بے حسی۔ معاشرتی عدم مساوات، عدم تحفظ عوام، غیر مناسب سماجی اقدار، عدم اخوت، طبقاتی اونچ نیچ اور سنگدلی کے خلاف سخت احتجاج کرتا ہے، بغاوت کرتا ہے۔
اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ خود کشی کرنے والا اپنی فطری کمزوریوں، جلد بازی، زود رنجی،جھگڑالو پن اور عدم برداشت کا شکار ہوتا ہے ۔ مگر ان سب عوامل کا علاج کرنا بھی حکومت وقت کا فریضہ ہے جو وہ عام حالات میں کرتی ہے جو اکثر حکومتیں نظر انداز کر جاتی ہیں۔
تاریخ عالم اور قوموں کے عروج و زوال کا مطالعہ اور تحقیق یہ بتاتی ہے کہ ایسا ان ممالک اور ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں قوم راہ راست ترک کر کے بے سمت چلنے لگے اور پھر تاریک راستوں میں مارے جاتے ہیں۔ جہاں نظام ریاست اپنے نظریہ حیات سے منحرف ہو کر اپنے عوام کی بنیادی ضرورتوں کو قطعاً نظر انداز کر دے۔حکمرانی کے نشے میں رعونت برتنا شروع کردے۔ اپنے قومی فرائص کو کچھ اہمیت نہ دے۔عوامی امنگوں، ان کی فلاح بہبود سے ہٹ کر ملک میں ہونے والے ناپسندیدہ معاشرتی واقعات اور حالات سے لا تعلقی کا مظاہرہ کرے۔ اس بے حسی کی سب سے بڑی وجہ حکمرانوں کا جاگیردار ہونا، قابض اشرافیہ، ظالم مافیاز اور سرمایہ دارانہ سفاکیت ہوتی ہے۔
ایسی اقوام کا حشر تباہی ہوتا ہے، جیسا ہم نے قوم نوح کے گمراہوں کا حشر دیکھا۔ قوم لوط منحرفین کی تباہی دیکھی، اور قوم فرعون کی عبرت آموز غرقابی کا منظر دیکھا۔
یقیناً اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا (سورت آل عمران آیت نمبر، 193)
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ لڑائی انفرادی گالم گلوچ کی ہو، گروہوں میں کھینچا تانی اور تھپڑوں کا باہمی تبادلہ ہو یا پھر بین الاقوامی توپ و تفنگ، آتشیں اسلحہ و بارود کی جنگ، اس میں قانون گونگا بہرا بن کر آنکھیں بھی موند لیتا ہے۔ وہ تب متحرک ہوتا ہے جب جنگ بند ہو جائے تو۔۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بلکہ مہلک اثرات جنگ جوئی کے یہ ہوتے ہیں کہ سچائی اور معاشرتی انصاف کچلے جاتے ہیں۔ معاشرہ وقت کے حکمرانوں کی پہلے سفاکانہ بے نیازی اور بے حسی کا شکار ہو کر مردہ دل و نیم جاں ہوتا ہے اور پھر بتدریج تاریخ کے اندھیروں میں گم ہو جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے 100سال پہلے کہہ دیا تھا۔۔۔ دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی۔۔ دارو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظری کا قوموں کی ترقی اور زمان و ثقافت کی تبدیلی نئی نئی ایجادات سے جڑی ہوتی ہے، جبکہ ایجادات کا انحصار دریافتوں پر اور دریافتوں کا مآخذ علمی تحقیق ہوتی ہے۔ جس قوم میں طلب علم نہ ہو، نئے نئے افکار پیدا نہ ہوں، زندہ آنکھوں سے خواب نہ دیکھے جائیں، نئے زمانوں کی تلاش کی تڑپ نہ ہو وہ قوم معاشی پیمانوں کی رو سے پسماندگی کا شکار رہتی ہے۔ راقم نے اپنی 60 سالہ بلوغت کی زندگی میں تاریخ پڑھی بھی اور تاریخ بنتے بگڑتے دیکھی بھی ہے۔
میں وثوق سے کہنے کی پوزیشن میں ہوں کہ کائنات بھر میں کوئی ملک یا ریاست بھی غریب یا پسماندہ نہیں ہوتی ہے۔ جغرافیائی تقسیم کے اعتبار سے خالق کائنات نے زمینی سطع مرتفع، دریائوں ندی نالوں، کوہساروں، صحراؤں ، جمادات و نباتات کی بڑی منصفانہ تقسیم کر رکھی ہے۔ یہ ریاستی عوام ہوتے ہیں جو اپنے مزاج، علم اور بے خبری کی وجہ سے ملک کو ترقی یافتہ، ترقی پذیر یا پسماندہ بناتے ہیں۔

اگرچہ اللہ نے زمین پر آدمی کو ایک طرح سے پیدا کیا ہے مگر سارے انسان ایک جیسے نہیں بنائے، کوئی رنگت اور خد و خال میں مختلف ہے ، کوئی دلیر جفا کش محنتی ہے اورکچھ سست کاہل آرام پسند۔۔ اس مزاجی تضاد کی وجہ سے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں قومی دولت کی مساوی تقسیم قائم کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ کچھ امیر اور کچھ غریب۔ غربت تو برداشت ہو جاتی ہے مگر غربت کے ساتھ۔ ریاست میں عدل کشی اور نا انصافی بھی مل جائے تو برداشت سے معاملات باہر ہو جاتے ہیں۔
ہمارے پیارے وطن پاکستان میں جس سمت نظر اٹھائیں۔جس معاملے کو دیکھیں یا جس محکمے اور شعبے میں جھانکیں کہیں نہ ڈسپلن نظر آتا ہے نہ کارکردگی تسلی بخش ملتی ہے۔ خود غرضی، افرا تفری اور نفسا نفسی کے ہنگامے نظرآتے ہیں۔ملک میں نہ سیاسی استحکام ہے۔نہ ریاستی معاملات پر حکومتی گرفت ، دم توڑتی معیشت ہے۔مستقل خارجہ پالیسی نہیں ملک میں روز افزوں مہنگائی اور بے روزگاری کا سیلاب ہے۔ گھٹن کا ماحول ۔۔حبس کا سا سماں ہے۔ ایسے حال میں تازہ افکار کہاں سے پیدا ہوں۔ روشن و بلند خیالی کیسے پیدا ہو ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے عوام نے جیسے اپنے نظریہ حیات اور مقاصد ریاست سے بغاوت کر کے خود کشی کا ارادہ کر لیا ہو۔
قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جدائی
ہو صاحب مرکز تو خودی کیا ہے، خدائی۔
فقیہہ شہر ہو، میر کارواں ہو کہ سپہ سالار، وہ اپنے فیصلے، ہمہ جہت اور بخوبی غور و فکر کے بعد کرتے ہیں اور پھر پورے بھروسے کے ساتھ عمل درآمد کرتے ہیں۔ اقتدار کے نشے میں عموماً حکمران، شکست و ناکامی کے خوف سے اپنے اقتدار کو طوالت دینے کے لیے مختلف حربے اختیار کرتے ہیں۔

بادشاہت عیاری کے بغیر نہیں چل سکتی۔ اس کا ثبوت ایرانی بادشاہ، جمشید کا وہ پیالہ تھا ( جام جم) جس میں وہ جھانک کر جہاں بھر کے واقعات کے بارے جان لیتا تھا۔
بادشاہ تو صدیوں پہلے مر گیا مگر اس کے اس پیالے کی شہرت جمشید بادشاہ کو آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔حالانکہ وہ جام جم بناوٹ اور تصنع کا منبع تھا۔ مراد یہ ہے کہ بادشاہی کو قائم رکھنے کے لیے ہمیشہ کی طرح آج بھی اسی نوع کے حربے اور مکاری درکار ہے۔
اسی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا
اور بازار سے لے آئے گر ٹوٹ گیا
ساغر جم سے میرا جام سفال اچھا ہے
اب آتے ہیں اپنے ملک کی زبوں حالی، عدم انصاف اور خود کشی کے روز افزوں واقعات کی جانب۔ سوچنا یہ مقصود ہے کہ خود کشی کرنے والوں کی تعداد کیوں بڑھتی جا رہی ہے۔ ظاہر ہے ان کے پیچھے معاشرے میں وہ خاموش بغاوت ہے جو دھیرے دھیرے جوان اور پختہ ہو رہی ہے۔ مقتدر حلقوں کے خلاف نفرت کا پکتا ہوا لاوا کل کو آتش فشاں کی طرح پھٹ بھی سکتا ہے۔عوامی مسائل سے حکومت کی بے حسی بہت بڑا عنصر ہے۔اب حکومت اور ہم سب کو مل کر اس صورت حال پر قابو پانا ہے۔ہمیںلوٹ کر اپنے اصل نظریہ حیات کی جانب لوٹنا ہوگا۔ اور نظریہ ریاستی امور کو عدل و انصاف کے سانچے میں ڈھال کر طبقاتی تقسیم کو ختم کرنا ہوگا۔ ملک کی لوٹی دولت کو ملک میں واپس لانا ہوگا۔اشرافیہ اور سرمایہ داروں جاگیرداروں کو قائل کرنا ہوگا کہ وہ زکوٰۃ، خیرات صدقہ اور ٹیکس ادا کریں۔ عوام کو اپنی حیثیت کو پہچان کر ووٹ کی اہمیت جان کر مضبوط کردار لوگوں کا انتخاب کریں تا کہ وہ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے بنائے۔ عوام کی اجتماعی خوشیوں کا حصول آسان بنائیں ریاستی دولت اور مراعات کی مساوی تقسیم کے لیے قانون سازی کریں۔۔ ہم مشترکہ کوششوں کے بغیر نہ مضبوط قوم بن سکتے ہیں نہ ہی ترقی یافتہ ریاست قائم کر سکتے ہیں۔ہم نے اگر لاتعلقی، بے حسی اور غیر ذمہ دارانہ رویہ ترک نہ کیا تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ:-
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہونگے
میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہو گی
میرے ماحول میں انسان نہ رہتے ہوں گے
وما علینا الاالبلاغ المبین
فاعتبروا یا اولی الابصار
شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)راولپنڈی / اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر،مصنف اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں