قومی سلامتی اور یوم یکجہتی کشمیر

محمد احسان مہر

سال نو کا آغاز ہوتے ہی حکومت نے قوم کو خوشخبری سنا دی،جی ہاں قومی پالیسی کے کچھ حصے پبلک کر دیے اور کچھ خفیہ رکھے،اب قوم پبلک کیے گیے حصے سے واقف حا ل ہو کر فرہاں وشاداں اپنے روزمرہ معمولات میں مشغول ہو جائے گی،اور امید واثق ہے کہ خفیہ رکھے گئے حصے قومی سلامتی کے ناصرف ضامن ہو نگے بلکہ قومی مسائیل کو حل کرنے میں بھی معاون و مدد گار ثابت ہوں گے،ویسے بھی قوم ۷۴سالہ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی سے اچھی طرح واقف ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے بھوکے اور لٹیرے حکمران کس طرح ملکی وسائل لوٹ کر نمائشی اقدامات اور اصلاحات کے نام پر قوم کو بے وقوف بناتے ہیں،کیا قوم بھول گئی ہے۔۔کہ قومی پالیسی کے اہم ترین جز۔۔کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔۔۔کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا،زندہ قومیں بیانات سے نہیں اقدامات سے پہچانی جاتی ہیں،گفتار کے غازی ہم بہت بن گئے اور کردار کا غازی بننے کے لئے کسی نئی پالیسی کی ضرورت نہیں قرآن کے احکامات کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ء ہونے کی ضرورت ہے،یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے بات کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ حکومتی اور عوامی سطح پرکشمیری قوم کے ساتھ ہر سال بھر پور اظہار یکجہتی کیا جاتا ہے، ہاتھوں کی زنجیر بنائی جاتی ہے،سیمینار اور کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے،مقبوضہ وادی میں کشمیریوں پر بھارتی ظلم وستم کی بھر پور مذمت کی جاتی ہے،لیکن۔ قابض بھارتی فورسز حیلے اور بہانوں سے مسلمانوں پرظلم و ستم کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں اور وہ طنزیہ طور پر کہتے ہیں کہ بلاؤ اپنے پاکستانی بھائیوں کو جنہیں تمہارابڑادرد ہے،پاکستانی حکومتوں کے نمائشی اقدامات کی وجہ سے کشمیری مسلمانوں کے بعد اب بھارتی مسلمان بھی ہندؤ شدت پسندوں کے ہاتھوں تشدد کا شکا ہیں،بھارت میں ہندؤ مختلف سیمینارز میں مسلمانوں کے خلاف کھلم کھلا زہر اگل رہے ہیں،جس میں ہندؤوں کو مسلمانوں کی املاک کو نقصان اور انہیں قتل کرنے پر اکسایا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں مسلمانوں پر تشدد ایک معمول بن گیا ہے،بھارتی مسلمان اداکارنصیرالدین کا کہنا ہے کہ بھارت میں مسلما ن عدم تحفظ کا شکار ہیں،ان کا خیال ہے کہ 20کروڑ مسلمانوں کو یوں نظر انداز کرنا خود بھارتی سماج کے لیے خطرناک ہے،کشمیر کے بعد بھارت میں بھی مسلمانوں کا جینا مشکل بنا دیا گیا ہے،کیا عالمی برادری ہٹلر سے بھی سفاک اور ظالم ”مودی“کو جنوبی ایشیاء میں انسانیت کا قتل کرنے کے لیے کھلا چھوڑ سکتی ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں پاکستان کا کردار کیا ہو گا،کیا گجرات فسادات اور کشمیریوں کی نسل کشی کی طرح ہم اس معاملے میں بھی خاموش تماشائی رہیں گے،خطے کے دیگر مسائل کو اجاگر کرنے ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنی بقا ء سے جڑے عوامل کو باریک بینی اور ہوش مندی کے ساتھ ساتھ جرأت اور ہمت سے حل کرنے کی ضرورت ہے،بھارت میں مسلمانوں سے نفرت اگر اسی طرح برقرار رہی تو بھارت میں مسلمانوں کا مستقبل شدید مشکلات کا شکار ہو سکتاہے،ہم جس طرح کشمیریوں سے نمائشی اظہار یکجہتی کر رہے ہیں اسے دیکھ کر کیا بھارتی مسلمان ہم سے کوئی امید رکھیں گے،ان مشکل ترین حالات میں کشمیری قوم کے ساتھ ساتھ بھارتی مسلمانوں کو بھی تحفظ کے احساس کی ضرورت ہے۔ ہمیں اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے منفی رویوں کو جانچنے سے ذیادہ اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے کشمیریوں کو کیا دیا،فقط تقریروں سے ہی مسائل اگر حل ہونے ہوتے تو دنیا ایٹمی اور مزائل ٹیکنالوجی کی طرف نا دوڑتی،اب بھی وقت ہے موجودہ حقیقت اور اپنی ذمہ داریوں کو پہچانیں اقتدار کا حریص بن کر ذاتی مفادات کے بجائے ملکی وسائل کو ملکی مسائل حل کرنے میں صرف کریں،کشمیریوں کی تحریک آزادی اور بھارتی مسلمانوں کا محفوظ مستقبل صرف پاکستان کے جراء ت مندانہ فیصلوں میں پوشیدہ ہے،عالمی برادری بھی اس سلسلے میں سنجیدہ کردار ادا کرے،اس میں کوتاہی پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومتی پالیسیاں کس حد تک کامیاب ہوتی ہیں یا ماضی کی طرح صرف نمائشی اقدامات ثابت ہوتی ہیں یا حقیقت میں بھی انقلابی تبدیلیاں لانے میں کردار ادا کرتی ہیں،اللہ تعالیٰ فرزندان اسلام کو کفر کے مقابلے میں ہمت واستقامت عطاء فرمائے، آمین

محمد احسان مہر شیخ پورہ پنجاب کے نوجون قلمکار ہیں

ماہنامہ کشمیر الیوم کے مستقل کالم نگار ہیں