قیادت کا امتیاز

عادل وانی

اُردو زبان کے کل سنتیس حروفِ تہجی ہیں آپ ان سنتیس حروف میں سے صرف چند حروف اپنے فون یا لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پر لاک کرکے دیکھ لیں تو آپ ایک چھوٹی سے عبارت بھی ہرگز نہیں لکھ پائیں گے۔ مطلب صاف ظاہر ہے کہ آپ کو ایک ایک’’حرف‘‘ کے مقام و مرتبہ اور صلاحیت و اہمیت کے حساب سے اُس ’’حرف‘‘ کا استعمال کرنا ہوگا تبھی آپ ایک مکمل اور خوبصورت تحریر کو وجود بخشنے میں کامیاب ہونگے

تحریکی کارکن کے نزدیک کامیابی کا اصل معیار کیا ہے؟ یہی وہ بنیادی سوال ہے جس کے گرد تحریک کا پورا وجود گھومتا دکھائی دینا چاہیے۔ اگر تحریکی کارکن کی سالہا سال تربیت اسی بنیادی نہج پر مختلف مراحل طے کرتے ہوئے اس منزلِ مراد کو پہنچا دی گئی ہے کہ وہ کامیابی کا اصل معیار صرف اور صرف اللہ کی رضا،جنت کا حصول اور دوزخ سے نجات کو ہی سمجھتا ہے تو لکھ لیجئے کہ پھر دنیا کی کوئی بھی طاقت اس تحریک کو کمزور،ناکام اور نامراد کر ہی نہیں سکتی۔ تمام تر مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود اگر تحریک اپنے کارکنان کو اس طرح کی تربیت فراہم کرتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کا اپنی تحریک سے تعلق اور وفاداری مشکوک اور متزلزل ہونے کی بجائے عشق و جنون کی سرحدوں کو پار کرکے شعور و فکر کی انتہاوں تک پہنچتا ہے تو پھر کیونکر، یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ ان کارکنان کو اپنے نصب العین سے متنفر یا دُور کردے!

94 سال یعنی ایک صدری گزرنے کو ہے کہ شہید امام حسن البنا ؒ کی تحریک اخوان المسلمین جس جبرو قہر سے گزرتی رہی اُس کے بعد تو اخوان المسلمین کا نام و نشان مِٹ جانا چاہیے تھا۔جس طرح اخوان کی قیادت: شہید حسن البنا ء ؒسے لیکر حسن اسماعیل الحدیبیؒ اور سید قطب شہیدؒ، محمد بدیعؒ اور ابراہیم منیر ؒ سے لیکر ڈاکٹر مرسیؒ تک کو بیدردی اور بے رحمی سے قتل کیا گیا اُس کے بعد تو نہ صرف اخوانیوں بلکہ پورے مصر کی عوام کو آزادی کے مطالبے سے ہی دستبردار ہونا چاہیے تھا مگر ایسا ہرگز بھی نہیں ہوا۔ اخوان کے 20 لاکھ ممبران میں ہزاروں اور لاکھوں سرگرم،متحرک اور خاص کارکنان کو چُن چُن کر جس طرح کئی دہائیوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید رکھا گیا اور اُن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔کیا ان مشکل ترین حالات سے گزر کر اخوان المسلمین اپنے ’’دعوہ‘‘ سے تائب ہوئی؟ نہیں۔۔۔ ہرگز نہیں۔ بلکہ ایک صدی کا مسلسل جبر ہارگیا،اُس کے تمام ہتھکنڈے ناکام ہوگئے اور اُس کے تمام وسائل و ذرائع برباد ہوگئے مگر اخوان المسلمین اور اُس کا ’’دعوہ‘‘ آج بھی 1929_30 کی طرح تازہ،صدابہار اور پوری دنیا میں پھیلے ہوئے لاکھوں انسانوں کا عقیدہ اور وظیفہ ء حیات بن چکا ہے۔ کیوں؟۔۔۔صرف اس لئے کہ امام حسن البنا ء ؒ شہید نے اپنی اس تحریک کی بنیادوں میں تربیت کا وہ خاص ہاشمی فولادی سیسہ بھر دیا ہے کہ جسے کسی بھی صورت اپنے نصب العین سے رَتی برابر بھی اِدھر اُدھر نہیں کیا جاسکتا۔

حماس اور حزب تقریباً ہم عمر ہیں۔ ہم سے صرف دو تین سال سے پہلے امام شیخ احمد یٰسین اور عبدالعزیز الرنتیسی نے مل کر اس مسلح مزاحمتی تحریک کی بنیاد رکھی۔40 سال کے اس طویل دورِ استبداد میں کونسا ایسا اوچھا حربہ یا ہتھکنڈا جارح اور قابض صیہونی سامراج اسرائیل نے حماس کی قیادت،کارکنان اور فلسطین کی غیور عوام پر نہیں آزمایا؟ اس بربریت،بمباری اور تباہی کے بعد تو فلسطینیوں کو آزادی کے مطالبے سے ایک بار کیا سو بار توبہ کرنی چاہیے تھی مگر ایسا کسی صورت اور کسی بھی زاویے سے دِکھنے میں نہیں آیا۔۔۔کیوں۔۔۔؟۔ اس لئے کہ معذور مگر فولادی عزائم کی مالک شخصیت شہید شیخ احمد یٰسین ؒ نے حماس اور فلسطینی عوام کی اُس خاص نہج پر تحریکی تربیت اور شعور کو پختہ اور غیر متزلزل بنیادوں پر اُستوار کر دیا تھا کہ چار دہائیوں کے جبر وقہر کے باوصف بھی فلسطینی عوام اور حماس کے باشعور سرفروشان، آج بھی صیہونی سامراج کے سامنے ہاتھوں میں غلیل اور پتھر اُٹھائے ڈٹ کر کھڑے ہیں۔یہ ایمان،۔۔ یہ عزم،۔۔ یہ حوصلہ، یہ عشق، یہ جنون، یہ شعور، یہ فکر اور کامیابی و ناکامی کے یہ حقیقی پیمانے تب سے اب تک حماس اور فلسطینی عوام کے رگ و ریشے میں خون کی طرح شامل ہیں۔ تربیت کی یہی وہ کیفیت ہے کہ جسے راقم کسی بھی تحریک کا خاصہ،فیصلہ کُن اور انتہائی قیمتی سرمایہ اور اثاثہ سمجھتا ہے کیونکہ اس نہج کی نبوی تربیت اندر باہر سے انسانوں کو بدل کر رکھ دیتی ہے اور پھر یہی تربیت یافتہ کارکنان نہ صرف لڑائی بلکہ انتظامی، سفارتی، ابلاغی، رفاعی، سماجی، تعلیمی، معاشی، معاشرتی اور انصاف کے جملہ محاذوں اور مورچوں پر بھی سنہری تاریخ رقم کرتے ہیں۔اب اگر خدانخواستہ گولی اور بندوق کے علاوہ ان دوسرے جملہ اہم مورچوں اور محاذوں کو اپنی تربیت اور منصوبہ بندی کا حصہ ہی نہ بنایا جائے تو پھر انسانی وسائل جن کا کوئی متبادل آج تک پیدا نہیں کیا جاسکا، زنگ آلود، بیکار اور برباد ہو جائیں گے۔انسانی وسائل کا بھرپور،بروقت اور صلاحیتوں کے عین مطابق استعمال کسی بھی تحریک کے لئے آبِ حیات کی طرح ہوتا ہے اگر علاقائی جتھوں اور سطحی پسند و ناپسند کے قبیح و مکروہ اصولوں کو صلاحیتوں پر مصلحتاً ہی سہی، مقدم تسلیم کیا جائے تو کسی بھی بڑی مستحکم اور منظم تحریک کو ریت کی دیوار بنتے دیر نہیں لگے گی!

ہم اس اہم بات کو عام اور سادہ فہم مثال سے سمجھانا چاہتے ہیں۔ اُردو زبان کے کل سنتیس حروفِ تہجی ہیں آپ ان سنتیس حروف میں سے صرف چند حروف اپنے فون یا لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پر لاک کرکے دیکھ لیں تو آپ ایک چھوٹی سے عبارت بھی ہرگز نہیں لکھ پائیں گے۔ مطلب صاف ظاہر ہے کہ آپ کو ایک ایک’’حرف‘‘ کے مقام و مرتبہ اور صلاحیت و اہمیت کے حساب سے اُس ’’حرف‘‘ کا استعمال کرنا ہوگا تبھی آپ ایک مکمل اور خوبصورت تحریر کو وجود بخشنے میں کامیاب ہونگے۔

ہماری تحریکِ آزادی بھی الحمد للہ اب 35 سال کی عمرِ بلوغت کو پہنچ چکی ہے ہم نے بلوغت کے ان مراحل کو طے کرنے میں بے مثال اور لازوال قربانیاں پیش کیں ہیں۔ہماری قیادت کی اکثریت بھی اپنا وعدہ وفا کرکے سُرخرو ہو چکی اور اللہ کے حضور پیش ہو چکی ہے اور دیگر ہزاروں کارکنان کی قربانیاں تو اس تحریک کے ماتھے کا دلکش اور دلربا جھومر ہے۔ہم نے اس تحریکی دشت و صحرا میں ہر پتھر کو پلٹ کر دیکھنے اور نشیب و فراز طے کرنے کا مشکل اور کٹھن سفر طے کر لیا ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ہم سب نے مل کر اپنا کام تقریباً مکمل کرلیا ہے تو یہ مبالغہ نہیں ہوگا۔ جو کارکنان گذشتہ تیس پینتیس سالوں سے ہر طرح کے جبر کے باوجود اس پاک نصب العین کے ساتھ کھڑے، ڈٹے ہوئے اور چمٹے ہوئے ہیں وہ سب معتبر اور قابلِ رشک ہیں۔ہمارے اختیار میں ہوتا تو ہم ان سب کارکنان کو ان کی انتھک جدوجہد،بے مثال قربانی اور قابلِ رشک ثابت قدمی پر 21 توپوں کی سلامی کے ساتھ نشانِ امتیاز اور ستارہ امتیاز جیسے ایوارڈز عطا کرتے اور آخری بات یہ کہ ملّاح کے بغیر ناؤ سبب نہیں بلکہ عذاب ہوتی ہے اور اب اگر ہماری یہ تحریکی ناؤ موجودہ بحرِ ظلمات کی طوفانی لہروں اور اتھاہ گہرایوں میں لاکھوں لوگوں کی امیدوں کا محور ہے تو پھرماننا پڑے گا کہ کوئی ہے جس نے اس منجدھار میں بھی اس کشتی کو اپنی حکمت و بصیرت سے سنبھالا دیا ہے۔

٭٭٭