ماضی کو نہ بھولیں ۔آو ہم بھی بدلہ لیں

16دسمبر 1971 میںسقوط ڈھاکہ کا زخم مسلم امہ کے وجود پر لگا ۔بھارتی ا فواج اس روز قائد ؒ کے پاکستان کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب ہوئی ۔جس خطے کو مشرقی پاکستان کا نام دیا گیا تھا،16دسمبر1971سے وہ بنگلہ دیش کے نام سے ایک الگ ریاست کی شکل اختیار کرگیا۔اس خوفناک سانحے پر اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم آنجہانی اندرا گاندھی نے کہا تھاکہ “ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے اور برصغیر پر مسلمانوں کے ہزار سالہ اقتدار کا بدلہ لے لیا ہے “۔ جماعت اسلامی پاکستان کے ایک شہید رہنما ڈاکٹر نذیر احمد نے اس موقع پر ایک احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اشکبار آنکھوں اور کپکپاتے ہونٹوں پر قابو پانے کے بعد کہا کہ لوگو وعدہ کرو تب تک ہنسیں گے نہیں جب تک نہ بھارت سے اس کا بدلہ لیں گے ۔ڈاکٹر صاحب پھر زیادہ دیر تک دنیا میں نہیں رہے ۔8جون 1972میں انہیں ڈیرہ غازی خان میں نامعلوم قاتل کی گولی کا نشانہ بننا پڑا اور اس طرح ایک شہید کی حیثیت سے اللہ کے حضور پیش ہوئے۔اللہ تعالی ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائیں ۔آنجہانی اندرا جی نے اس فتح کو 1947میں قیام پاکستان کی حد تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس نے مسلمانوں کی اس شکست کو ایک ہزار سالہ مسلمانوں کے اقتدار اعلیٰ کا بدلہ قرار دیا۔یعنی بقول اس کے یہ شکست محمد بن قاسم سے لیکر بانی پاکستان قائد اعظم ؒ کے دو قومی نظرئیے کی شکست کے مترادف تھی۔اندرا جی کے سامنے اس وقت اس خطے میں ہزار سال سے بھارت پر حکومت کرنے والے مسلمان حکمرانوں کی پوری فہرست سامنے تھی۔اسے یاد تھا کہ712 ء میں مسلمان حکمران محمد بن قاسم نے ہندوستان میں قدم رکھا۔اس نے دمشق میں موجود مسلمان خلیفہ ولید بن ملک بن مروان جوالولید کے نام سے جانے جاتے ہیں اور بغداد کے گورنر حجاج بن یوسف کی آشیر باد سے ہندوستان پر حکمرانی کا آغاز کیا۔پھر 1590ء تک مسلمان حکمران شہنشاہ اکبر تقریباً پورے ہندوستان پر غلبہ پا چکا تھا۔ مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی ۔مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی۔1947میں پھر قائد اعظم ؒ نے دو قومی نظریئے کی بنیاد پر ایک الگ وطن حاصل کیا۔لا الہ اللہ کے نام پر ایک مملکت معرض وجود میں آئی ۔ہزار سال کے بعد ہندوکو بھارت تو ملا لیکن اس کے بطن سے قائد نے بڑی دانائی اور فراست سے مسلمانوں کیلئے ایک الگ خطہ بھی حاصل کیا۔جس کا نام مملکت خداداد پاکستان رکھا گیا۔یہ صورتحال بھی ہندو توا کے پیروکاروں کیلئے انتہائی تکلیف دہ اور ہتک آمیز تھی ۔بنگلہ دیش بننے کے نتیجے میں ان کے زخموں پر مرہم پڑی اور وہ بے ساختہ بول پڑے کہ ہم نے بدلہ لے لیا۔سقوط ڈھاکہ کا فائدہ بہر حال بھارت کو زیادہ نہ ملا ۔اس نے اسے ایک طفیلی ریاست کی حیثیت سے رکھنے کے منصوبے تو بنائے لیکن بنگلہ دیشی عوام نے الحمد للہ ان کے یہ تمام منصوبے ناکام بنادئیے ۔بہر حال اللہ تعالی سب سے بڑا منصوبہ ساز ہے ۔دنیائی قوتیں اللہ کی طاقت کا کیا مقابلہ کرسکتی ہیں ۔لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ہم کہاں ہیں اور ہم حالات کا مقابلہ کیسے اور کس طرح کررہے ہیں ۔16دسمبر کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں ورثے میں کیسا بد خصلت دشمن ملا ہے ۔جس کی خمیر میں مسلم دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہو، اس سے کسی رحم یا انصاف کی توقع رکھنا فضول ہے ۔ماضی کو بھلانا نہیں چائیے ۔ماضی، حال اور مستقبل پر دلالت کرتا ہے ۔اندرا جی کو ماضی یاد تھا ،اسی یاداشت نے اسے ایک ایسی ملت کو شکست دینے کے قابل بنایاجو ملت شکست یا ہار کے لفظ سے بھی مانوس نہیں تھی۔1947سے وہ مقبوضہ جموں و کشمیر پر قابض ہیں۔مقبوضہ جموں وکشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت کو مٹانے کیلئے ہر اوچھا قدم اٹھایا جا رہا اور ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں ۔ اکھنڈ بھارت بنانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ان حالات میں ماضی بھولنے کی نہیں بلکہ ماضی کا سبق بار بار پڑھنے کی ناگزیر ضرورت ہے ۔دشمن کی ہر ادا پر نظر رکھنے کی ضروت ہے ۔اس کے ایک ہاتھ میں پھول دیکھ کر خوش ہونے کی نہیں اس کے چھپے ہوئے ہاتھ میں خنجر کو چھیننے کی ضرورت ہے ۔مقبوضہ جموں وکشمیر کو آزاد کرنے کی ضرورت ہے ۔اس کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔پھر ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم بھی بدلہ لینا جانتے ہیں ۔اور وہ لے لیا۔
٭٭٭