ماہ فروری اور آزادی کشمیر کے شہداء

اسرائیل تھک ہار کر معاہدے پر مجبور ہوا

امتیاز عالم کی شہادت سے دشمن نے ہمیں پیغام دیا کہ ہمیں ہر حال میں ہوشیار اور محتاط رہنا چاہیے

دشمن سے رحم اور انصاف کی توقع رکھنا ،احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے

شہزاد منیر احمد

فکر معاش کی تمیز، (حلال و حرام)اور فکر معاشرت میں امتیاز ( جائز و نا جائز ایک دفعہ انسان کے زبان و حلق سے اتر کر دل میں بیٹھ جائے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے فتح نہیں کر سکتی ۔ آپ نے مٹھی بھر فلسطینی مجاہدینِ کو دنیا کی سپر عسکری طاقت اسرائیل کے سامنے اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے لڑتے اور شہادت پاتے دیکھا مگر ان کا نہ حوصلہ کمزور ہوا نہ جذبہ جہاد میں کوئی کمی دیکھی گئی ۔ فلسطینیوں کی غزہ میں پوری پوری بستی مسمار ہو گئی ، پورا پورا قبیلہ شہید ہوگیا ، مگر فلسطینی ( اہل غزہ) اسرائیل کا جبر و ستم اور انسانیت سوز سلوک بڑے صبر و استقامت سے برداشت کرتے رہے۔ آخر اسرائیل تھک کر معاہدے پر مجبور ہوا۔ اس لیے کہ ” شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن”اللہ کے ہاں شہید کا بہت بلند رتبہ اور اعلیٰ ترین انعام ہے۔ حق و باطل کی ایسی ہی جنگ، بر صغیر،وادی کشمیر میں بھی جاری ہے ۔1947 سے کشمیری عوام حالت جنگ میں ہیں اور بے شمار جوان بوڑھے مرد عورتیں ہندوستانی افواج اور سیکورٹی فورسز کے ظالمانہ سلوک کی بھینٹ چڑھ کر شہید ہوچکے ہیں۔ مرتبہ شہادت میں کوئی بڑا چھوٹا نہیں ہوتا، وہ صرف شہید کہلاتا ہے۔ کشمیر کی جنگ آزادی کے شہدوں میں دو نام بھلانے سے بھی نہیں بھولتے۔ اس لئے کہ ان کے ساتھ ہندوستان حکومت کے غیر اخلاقی غیر قانونی اور غیر انسانی سلوک روا رکھے جانے پر جس استقامت صبر و تحمل سے ان مجاہدوں نے سامنا کیا وہ واقعی قابل صد تحسین ہے۔ یہ دونوں فرزندان کشمیرمحمد مقبول بٹ شہید،اورمحمد افضل گورو شہید ہیں۔ ان دونوں شہدا کا تعارف مختصراً پیش کرتے ہیں۔

ماہ فروری میں عظیم مجاہد جنہیں 11 فروری 1984 میں ہندوستان نے بہیمانہ اور انتہائی ظالمانہ انداز میں شہید کیا وہ محمد مقبول بٹ ؒہیں۔ ان کی زندگی اور مجاہدانہ سرگرمیوں کی تفصیلات مختصراً مندرجہ ذیل ہیں ۔ محمد مقبول بٹ ( شہید) 11 فروری 1938 کو کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے گاؤں ترہگام میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم وہیں مکمل کی ۔ پھر سینٹ جوزف کالج بارہمولہ میں داخلہ لیا۔ وہ ایک ذہین طالب علم تھے اور ضمنی تعلیمی سرگرمیوں میں اس قدر منہمک اور متحرک رہتے تھے کہ۔ان کے ایک انگریز عیسائی پرنسپل نے کہا تھا کہ ” مقبول ایک بہت بڑا کارنامہ انجام دے گا، یا اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا”۔مقبول بٹ نے بی اے کرنے بعد پاکستان میں ایک واقف کار کے ذریعے پشاور یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ مقبول ؒنے اپنی ہجرت کا یہ وقت بڑی جواں مردی اور جہد مسلسل کے ساتھ کاٹا۔ اخبار میں کام کیا ، ساتھ ساتھ پڑھا بھی اور پشاور یونیورسٹی سے اردو اور صحافت میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں ۔1960 کے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئے۔ 1965 میں انہوں نے ” محاذ آزادی کشمیر قائم کیا۔۔ محاذ کا کنونشن سیالکوٹ میں ہوا۔ جس میں ممبران نے پاکستان اور ہندوستان کے بارڈر پر کھڑے ہو کر جموں کی مٹی ہاتھوں میں لے کر یہ حلف لیا ” اے وطن ، تیری آزادی کی خاطر ہم جان بھی قربان کر دیں گے۔ “
آزادی کی جنگ لڑتے لڑتے مقبول بٹ ہندوستان کی جیل تک پہنچے۔ ایک سفارتکار کے قتل میں انہیں ملوث کر کے تہاڑ جیل میں مقدمہ چلا کر سزائے موت سنائی گئی، اور پھر انہیں 11 فروری 1984 کو پھانسی دے دی گئی ۔ ان للہ و انا الیہ راجعون ۔ اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے ۔اندرون ملک اور بیرون ملک بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کے خوف سے ہندوستان نے انہیں تہاڑ جیل ہی میں دفنا کر قبر پر پہرہ لگا دیا ۔اللّٰہ الرحمٰن سے دعا ہےکہ ہمارے شہدائے کشمیر کی شہادتیں قبول فرمائے ۔ آمین۔

محمد افضل جیل میں بند کر کے ان کا مقدمہ 12 سال تک بغیر سماعت لٹکا کر رکھا گیا۔ آزدی جموں و کشمیر کی جنگ لڑنے والے کشمیری شہیدوں کی تعداد بے شمار اعداد تک پہنچ چُکی ہے۔ وہ جو اپنی بھرپور جوانی میں آزادی کشمیر کی جنگ لڑتے لڑتے 9 فروری 2013 کو رتبہ شہادت پر فائز ہو ئے وہ ہیں محمد افضل، جنہیں ان کے ساتھی قائدانہ اوصاف اور صلاحیتوں کے اعتبار سے ” افضل گورو” کہہ کر پکارتے تھے ۔حریت پسند محمد افضل( شہید ) بارہمولہ کے قصبے سوپور کے قریبی گاؤںدو آب گاہ میں جون 1969 میں پیدا ہوئے ، انہوں نے ابتدائی اور سیکنڈری تعلیم بارمولہ ہی میں1986 میں مکمل کی۔ پھر میڈکل کی تعلیم کے لیے جہلم وادی میں داخل ہوئے ۔ انہوں نے MBBS کا سال اول مکمل کیا اور خود کو مقابلے کے امتحانات کے لیے تیار کرنے لگے۔ افضل گوروبڑے حساس ذہن کا مالک نوجوان تھا۔ شعور کی آنکھ کھلی تو وادی کشمیر کو غلامی کے پر آشوب ماحول میں پایا ۔ جوں جو ںشعور نکھرتا گیا ، کشمیر کی تاریخ اور موجودہ ماحول کے بارے اس کے علم میں اضافہ ہوتا گیا، آزادی کشمیر کی خاطر جنگ لڑنے والے مجاہدین کی آئے دن گرفتاریوں اور شہادت کی خبریں سنتا تو اس کے اندر کا افضل کشمیری بے چین ہو کر کچھ کر گزرنے کا سوچنے لگا۔ علامہ اقبال لکھتے ہیں
موت ہے اک سخت تر ، غلامی ہے جس کا نام
مکر و فن خواجگی ، کاش سمجھتا غلام
افضل گورو ظالم آقاؤں کی طرف سے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور ان کے مکر و فن و فریب سے آگاہ ہو چکا تھا ۔نوجوان محمد افضل گورو، ہجرت کر کے مظفرآباد ( پاکستان) آ گئے اور باقاعدہ گوریلا کاروائیاں شروع کرنے کی تربیت حاصل کرنے لگے۔پھر وادی واپس چلے گئے ۔کچھ عرصہ ایک ایک خاص حکمت عملی کے تحت خاموش رہے ۔بہر حال ان کی اس خاموشی میں بھی دشمن کو افضل کا اندر کا مجاہد نظر آیا۔2001 میں حریت پسندوں کے گروپ( جیش محمد) نے کار میں بیٹھ کر جعلی نمبر پلیٹ لگا کر ہندوستان کی پارلیمنٹ کی عمارت میں ہونے والے اجلاس، جس میں وزیراعظم بھی شامل تھے پر آتشیں اسلحہ سے حملہ کر دیا۔ حملے سے ھدف شخصیات تو بچ گئیں مگر 13 کے قریب لوگ ہلاک ہوئے اور 16 کے قریب زخمی ہوئے۔ 13 دسمبر 2001 کو مقدمات درج ہوئے ۔ مرنے والے حملہ آوروں سے ملنے والے موبائل فون کی کال لسٹ اور دیگر رابطوں کی بنیاد پر 15 دسمبر 2001 کو افضل گورو کو کئی اور ساتھیوں سمیت گرفتار کیا ۔ ملک دشمنی، بغاوت، قتل عمد دہشتگردی اور بھاری بھرکم دفعات جن کی سزا لازماً موت ہے کی شقیں ملزمان پر لگا دی گئیں۔ ملزمان اور ان کے خاندانوں مسلسل ذہنی دباؤ اور پریشانی میں رکھنے کے لیے یہ کیس بارہ سال تک چلایا گیا۔ طرح طرح سے ملزمان کو تفتیشی مراحل میں سے گزارا گیا۔ ذہنی دباؤ اور اذیتوں سے زیر بار رکھا گیا۔پولیس اور سیکیورٹی اداروں کی طرف سے ملزمان کے جعلی اعترافی بیانات پیش کئے گئے۔ ہر عدالت سے کیس ہوتا ہوا اعلیٰ ترین عدالت تک پہنچا۔ جنہوں نے ان کی سزائے موت دینے کی سفارش کی۔ صدر ہندنے ملزمان کی فائلیں وزیر داخلہ کو پورے کیس پر نظر ثانی کے لیے بھجوائیں ۔ انہوں نے 16 نومبر 2012 کو یہ کہتے ہوئے فائل صدرملکت کو واپس بھیجوا دی کہ افضل گورو کو سنائی گئی سزائے موت قانونی اور صحیح ہے ۔ صدر نے محمد افضل گورو کو 3 فروری 2013 کو پھانسی دینے کی منظوری دے دی۔ صدر سے رحم کی اپیل کی گئی جو کہ بھی نا منظور کر دی گئی۔جیل حکام نے پھانسی کی سزا کے بارے افضل گورو کی فیملی کو بذریعہ خط اطلاع بھیجی ۔ افضل ؒکو 9 فروری 2013 کو پھانسی دینے کی اطلاع درج تھی۔ وہ ان کی سزا پا لینے کے بعد ملی ۔اس سزا کے بارے صرف ان چند لوگوں کو بتایا گیا تھا جنہیں سزا کا اہتمام کرنا اور کفن دفن کی ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔ محمد افضل گور و کوفروری 2013 کو تختہ دار پر لٹکایا گیا ۔انا للہ و انا الیہ راجعون ۔شہید کی میت کو بڑی رازداری اور خاموشی سے تہاڑ جیل ہی میں دفنا دیا گیا تھا۔اللہ تعلی ان کے درجات بلند فرمائے۔
20فروری2023, اس لحاظ سے نہ صرف کشمیری عوام بلکہ پاکستانی عوام کیلئے بھی انتہائی تکلیف دہ اور پرخاش ثابت ہوا جب دشمن کے ایجنٹوں نے برما ٹاون کھنہ میں حزب سے وابستہ ایک اعلیٰ رہنما پیر بشیر احمد المعروف امتیاز عالم کو گولیوں کا نشانہ بناکر شہادت سے سرفراز کیا۔امتیازعالم کو تمغہ شہادت ضرور ملا ۔وہ اپنے شہید والد ،شہید اماں اور شہید بھائی کے حضور بڑے سج دھج اور پر وقار انداز میں ضرورپہنچے لیکن دشمن کا یہاں آکر ان پر حملہ آور ہونا ،کئی سوالات کو جنم دیتا ہے ۔ہمیں دشمن کی ہر ادا کو سمجھنا بھی چائیے اور اس کی سفاکیت کا جواب بھی دینا چائیے ۔کشمیری قوم کو یہ پیغام ہر لمحہ اور ہر وقت جانا چائیے کہ وہ ہمارے ہیں اور ہم ان کے ہیں ۔کوئی بھی طالع آزما ہمارے اس رشتے کو ختم نہیں کرسکتا ۔قرآن میں واضح کہا گیا ہے یہ کافر و مشرک آپ کے دوست نہیں ہوسکتے ۔جب دوست نہیں ہوسکتے تو مطلب ہے کہ وہ دشمن ہیں اور دشمن سے رحم اور انصاف کی توقع رکھنا ،احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے ۔اللہ تعلیٰ شہید امتیاز عالم کے درجات بلند فرمائے۔آج کے حالات کے مطابق کوئی شخص بھی یہ بات وثوق نہیں کہہ سکتا کہ جنگ آزادی کشمیر کب ثمربار ہو گی۔ یہ سچ البتہ نوشتہ دیوار ہے کہ کشمیریوں کو اپنی تحریک پر نظر ثانی کرنے کی شدید ضرورت ہے ۔جس کےلئے کشمیر کی ساری چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کے نمائندے سر جوڑ کر بیٹھیں اور آئندہ کا لائحہ عمل تیار کریں۔ کشمیری سیاسی قائدین ، اکابرین و مدبرین سے میری مؤدبانہ اپیل ہے کہ وہ متحد ہوکر آگے بڑھیں ۔دشمن اندرونی ہو یا بیرونی اس کی ہرچند کوشش ہےکہ مسئلہ کشمیر کو جتنا ممکن ہو اسے التوا میں رکھا جائے تا کہ کشمیری عوام بد دل اور مایوس ہو کر گھر بیٹھ جائیں۔
فاعتبرویا اولی الابصار ۔

جناب شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)راولپنڈی / اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر،مصنف اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں