ماہ فروری اور تحریک آزادی کشمیر کی کہانی

شہزاد منیر احمد

5 فروری کا یوم یک جہتی کشمیر، آزادی کشمیر کی خاطر بر صغیر کے مسلمانوں کی طرف سے کی جانے والی اسی جد وجہد کا تسلسل ہے جو تاریخی اعتبار اور زمینی حقائق کی بنیاد پر اس دن سے ہی شروع ہو گئی تھی جب کشمیر کو انگریزوں نے 1846 میں اس وقت کے بدمعاش راجہ گلاب سنگھ کو 75 لاکھ روپوں کے عوض بیچ دیا تھا۔ اکا دکا مزاحمتی سرگرمیاں انفرادی اور کہیں اجتماعی طور پر جاری رہیں۔ مگر پر امن نہتے کشمیری عوام مسلح افواج کا مقابلہ تو نہیں کر سکتے۔ راجہ انگریزوں شہہ۔پشت پناہی اور افواج کی مدد سے حکمرانی کرتا رہا۔

1931 کو سرینگر میں عبد القدیر کے مقدمہ کی سماعت کے دوران ہزاروں لوگ جمع ہو گئے۔ جمعہ کا دن تھا۔ مولوی صاحب،مصری حکومت فرعون کے مظالم پر خطاب کرنا چاہتے تھے کہ انہیں کشمیری راجہ کی فوج نے روک دیا تو ہنگامہ برپا ہو گیا۔احتجاجی لوگوں پر فائرنگ سے 22 لوگ جان بحق ہوئے۔ 500 انگریزی سپاہیوں کی۔مدد سے حالات کو قابو کیا گیا۔ کشمیری نوجوان شیخ عبدااللہ اس وقت قائد بن کر نمایاں ہوئے۔

ماہ فروری کا ہلال دیکھنے کے ساتھ ہی کشمیری عوام پر کئی اعتبار سے افسردگی کے سائے پھیلنے شروع ہو جاتے ہیں۔جوں جوں دن بڑھتے جاتے اور چاند مزید روشن ہوتا جاتا ھے تو شمع آزادی پر فدا ہونے والا اک اک پروانہ سامنے آتا جاتا ہے۔جدوجہد آزادی کشمیر میں اٹھائے جانے والے دکھ، جھیلی ہوئی مصیبتیں اور اذیتیں پھر تازہ ہو جاتی ہیں۔ زخم رستے ہیں تو آنکھیں روتی ہیں۔

یہ حقیقت اپنی جگہ درست سہی کہ ریاست کی آزادی کا حصول قربانیاں مانگتا ھے اور آزادی کو برقرار رکھنا مسلسل جدوجہد کا متقاضی ہوتا ہے۔ مگر کشمیریوں کو تو یہ سب کچھ حاصل تھا۔وہ نہ تو کشور کشائی کے قائل ہیں نہ کسی ریاست کے حقوق و معاملات میں مداخلت کرتے تھے۔ اس کے باوجود ان کی جنت نظیر وادی کشمیر اور امن پسند عوام کو جبر اور محکومی کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا۔ ان کا قصور یہ ہے کہ وہ توحید ورسالت پر ایمان لانے والے مسلمان ہیں۔

فرنگی کے دین اسلام سے تعصب کی بنیاد پر ان کی آزاد ریاست کشمیر کو 19 نومبر 1846 میں ڈوگرہ حاکم راجہ گلاب سنگھ کو 75لاکھ نانک شاہی سکوں میں بیچ دیا۔ اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف کشمیریوں نے احتجاج شروع کیا جو وقت کے ساتھ ساتھ تحریک آزادی کی شکل اختیار کر گیا اور آج تک جاری ہے۔

ہندوستان کی تقسیم پر انگریز حکومت، آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ تینوں فریقین کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے مطابق ریاست کشمیر کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا تھا، جیسا کہ ہندوستان میں تب موجود دوسری خود مختار ریاستوں کو حق دیا گیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے کسی بھی نئی ریاست، ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کر سکیں گی۔ مگر اس معاہدے پر عمل نہ کیا گیا بلکہ 27 اکتوبر 1947 کو مکمل جابرانہ اور غاصبانہ انداز میں انڈین فوجیں انگریزوں کی شہہ پر کشمیر میں داخل ہو گئیں۔ دعویٰ یہ کیا گیا کہ کشمیر کے راجہ ہری سنگھ نے ہندوستانی حکومت سے درخواست کی تھی کہ ریاست جموں وکشمیر میں امن و امان قائم رکھنے میں ان کی مدد کی جائے۔ ہندوستان کے جھوٹ اور ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ وہ معاہدہ آج تک نہ اقوام متحدہ کے کسی فورم میں پیش کیا گیا نہ ہی کسی اور بین الاقوامی سطح کے ادارے کے سامنے لایا گیا، جسے مبینہ طور پر راجہ ہری سنگھ کی درخواست کہا جاتا ہے۔ ہندوستان کے اس غیر منصفانہ اقدام پر کشمیر میں جنگ چھڑ گئی۔ پاکستان نے اپنا قانونی اور اخلاقی موقف اپنایا اور کشمیریوں کی مدد کے لیے فوجی دستوں اور سویلینز لشکر سے سپورٹ کیا۔ جرائم پیشہ افراد کتنے ہیں دلیر نظر آئیں اول میں وہ کمزور اور بزدل ہوتے ہیں۔ کشمیریوں کے آزادی پسند دستوں اور مجاہدوں نے انڈین فورسز کو ناکوں چنے چبوائے۔ اپنی شکست کو واضح دیکھتے ہوئے بھارتی وزیراعظم موتی لال نہرو بھاگتے ہوئے اقوام۔متحدہ میں گئے اور کشمیر میں جنگ بندی کرانے کی قرارداد پیش کر دی۔

اقوام متحدہ میں کیس چلا، دونوں فریقین پاکستان اور ہندوستان کو سنا گیا۔ اور جنگ بندی کی قراد داد اس شرط پر منظور ہوئی کہ اقوام متحدہ کشمیر میں جلد ہیں استصواب رائے کرائے گا کشمیری اپنا حق رائے دہی استعمال کر کے فیصلہ کریں گے کہ وہ کس ریاست کے ساتھ الحاق کریں گے۔ وہ قرار داد ابھی تک اقوام متحدہ میں زندہ مگر التوا میں پڑی ہوئی ہے جس پر عملدرآمد کے لیے کشمیری انتظار کر رہے ہیں۔ ماہ فروری کے آغاز ہونے کے ساتھ ہی کشمیریوں کے آزادی کی خاطر کھائے غم تازہ ہو جاتے ہیں۔ تاریخ عالم میں طویل ترین جنگ آزادی کشمیریوں کی جنگ ہے۔ مسلہ کشمیر کے حل کی۔خاطر ہندوستان اور پاکستان تین جنگیں لڑی چکے ہیں مگر مسلہ کشمیر کو مغربی خبیث طاقتیں کسی طور حل نہیں کرنا چاہ رہیں۔ بلکہ نئی نئی اضافیت شامل کر کے مسلہ کشمیر کو اور گھمبیر بنا کر گھناؤنی صورتحال میں دھکیلا جا۔ رہا ہے۔

5 اگست 2019 سے نریندر مودی کی حکومت نے ریاست کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے، شہریوں سے شخص آزادیاں اور انسانی حقوق چھین رکھے ہیں۔ کرفیو نافذ کر کے اذیتوں میں اضافہ کر رکھا ہے۔ گویا ایک اور جنگ کا اہتمام کر دیا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں حریف ممالک ایٹمی قوتیں ہیں۔ علاقے میں بگڑتے ہوئے فوجی طاقت و توازن کے پیش نظر وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اقوام متحدہ اور اس کے ہر ذیلی اداروں کو بڑے واضح الفاظ میں بتا رکھا ہے کہ اگر ہندوستان اور پاکستان میں جنگ چھڑ گئی تو وہ صرف علاقائی جنگ تک محدود نہیں رہے گی بلکہ عالمی امن کو لپیٹ میں لے لے گی۔ مگر مقتدر قوتوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ کوئی دانشمندانہ یاذمہ دارانہ رویہ نہیں ہے۔ جنگ آزادی کشمیر کے لاکھوں پیاروں نے آزادی کی خاطر جانیں قربان کی ہیں۔ ان میں محمد افضل گورو شہید اور مقبول بٹ شہید کا دکھ ناقابلِ فراموش ہے۔

فروری کا مہینہ جنت نظیر وادی کشمیر کے باسیوں کے لیے عجب طرح سے سوگ اور افسردگی میں لپٹا ہوا آتا ہے۔ ایک دکھ کے آنسو سوکھتے نہیں تو دوسرے زخموں سے خون رسنے لگتا ہے۔ کشمیری عوام 9 فروری کو سوگ اور سسکیوں میں ڈوبے ہوئے اپنے بیٹے محمد افضل گورو شہید کے تہاڑ جیل میں ظلم و جبر کی پھانسی کے پھندے پر لٹکائے جانے پر اس کی قربانی پر ایصال ثواب کرتے ہیں، اس شہید کی قربانی کے صدقے میں اللہ الرحمٰن کا کرم احسان اور آزادی مانگنے سے فراغت نہیں پاتے کہ انہیں دوسرے بیٹے معصوم و بے قصور مقبول بٹ شہید ؒکی تہاڑ جیل میں پھانسی دیے جانے کا غم آن لیتا ہے۔ جسے 11 فروری کو سزائے موت دی گئی تھی۔ ظلم تو یہ بھی کیا گیا کہ ان شہیدوں کے جسد خاکی بھی ان کے لواحقین کو نہ دئے گئے بلکہ تہاڑ جیل ہی میں دفنا دئیے گئے تھے۔

محمد افضل گورو۔۔1969 میں جموں وکشمیر کے ضلع بارہ مولا میں پیدا ہوئے۔ وہیں سے 1986 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ پھر ہائیر سیکنڈری ایجوکیشن مکمل کرنے کے بعد میڈیکل یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا،بھارتی ظلم و تشدد اور غاصبانہ قبضے کے خلاف جدوجہد میں شامل ہوئے۔کچھ مدت بعد گھریلو حالات کی وجہ سے پھر اپنے ذاتی معاملات اور گھریلو معاملات کی طرف راغب ہوئے لیکن۔ وہ اسی دوران انہیں ہندوستان کی لوک سبھا پر حملے ہونے پر مبینہ ملزمان کو پناہ دینے،اسلحہ فراہم کرنیاور معاونت کرنے کے جعلی مقدمہ میں گھسیٹ کھینچ کر 13 دسمبر 2001 میں گرفتار کر لیا۔ مقدمے کی رسمی سی پولیس اور عدالتی کاروائی کے بعد انہیں 2004 میں سزائے موت سنا دی گئی۔ جس کے خلاف اپیل کی گئی جسے تعصب کی بنیاد پر مسترد کر دیا گیا اور 2006 کو پھانسی دینے کا اعلان کر دیا جسے محمد افضل گورو کی اہلیہ کی طرف سے ہندوستان کے صدر سے رحم کی اپیل کرنے پر ملتوی کرنا پڑا۔معمول کی کارروائی کرنے کے بعد وہ اپیل بھی مسترد کر دی اور انہیں 9 فروری 2013 کو پھانسی دے دی گئی۔ قانونی ماہرین کا موقف ہے کہ چونکہ محمد افضل گورو کا مقدمہ اس وقت سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا لہٰذا ان کو پھانسی نہیں چڑھایا جا سکتا تھا۔ مگر بنیاد پرست ہندوؤں نے کشمیریوں کی نسل کشی کا ارادہ کر رکھا ہے تاکہ آزادی کشمیر کی جدوجہد کو سبوتاژ کیا جاسکے۔ اس لیے وہ کسی قانون یا اخلاقی ضابطے کی پروا نہیں کرتے۔

مقبول بٹ شہیدؒ

متعصب ہندوؤں کے ہاتھوں سب سے زیادہ کمینگی کے سلوک اور کلی ظالمانہ رویوں کا سامنا مقبول بٹؒ کو کرنا پڑا۔ انہیں اس مقدمہ قتل میں ملوث قرار دے کر سزائے موت سنائی اور پھانسی گھاٹ اتارا گیا جو مقبول بٹ کے وجود سے 7000 میل دور برطانیہ میں ہوا تھا۔ وہ یوں کہ برطانیہ میں۔ہندوستانی سفارت کار راوندر مہاترے کو کشمیری مجاہدوں (آزاد جموں و کشمیر فرنٹ) نے اغوا کر لیا، اس کی رہائی کے لیے مقبول بٹ جو اس وقت جیل۔میں تھے۔ان کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ ہندوستانی حکومت سے اپنے مطالبے کے پورا نہ کرنے پر راوندر مہاترے کو اغوا کاروں نے مار ڈالا۔ادھر ہندوستان نے مقبول بٹ کو فوری طور پر پھانسی دینے کا فیصلہ کر دیا۔۔

نیو دہلی میں واقع تہاڑ جیل کے سابق جیلر سنیل گپتا نے اپنی کتاب(Black Warrant: Confessions of a Tihar Jailer)میں آزادی پسند کشمیری لیڈر مقبول بٹ کے بارے لکھا ھے کہ وہ ایک تعلیم یافتہ شگفتہ مزاج اور شریف انسان تھا۔ فکر و خیال کا مالک اور دانشور اور درد دل رکھنے والا قیدی تھا۔ کسی قیدی کو کوئی مشکل درپیش آتی یا کسی کو مشاورت کی ضرورت ہوتی تو وہ یا تو شوبھراج کے پاس جاتے یا مقبول بٹ سے رجوع کرتے تھے۔ مقبول بٹ فیض احمد فیض کا بڑا فین تھا اور اکثر فیض کا یہ شعر سناتا رہتا تھا کہ۔

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں۔

مقبول بٹ 1938 کو کپواڑہ، جموں و کشمیر میں پیدا ہوئے۔انہوں نے پشاورور یونیورسٹی سے تعلیم پائی۔مقبول بٹ ایک صاحب فکر و خیال شخصیت تھے۔ انہوں نے شعور کی آنکھ کھلتے ہی خطہ کشمیر کے پر امن عوام کو ڈوگرہ حاکم کے ہاتھوں جبر و ستم میں پستے ہوئے دیکھا۔۔انسانی فکر و خیال اس کی ذہنی فکرمندی کا چشمہ ہوتا ہے۔مقبول بٹ بھی اسی فکر مندی کا شکار ہوئے۔ مقبول بٹ ایک غیر معمولی حساسیت کا مالک نوجوان تھا۔انہیں اپنے وطن کی غلامی اور عوام کی زبوں حالی دیکھ کر دکھ ہوتا تھا تو انہوں نے کھلے بندوں کشمیر کی ہندوستان سے آزادی اور علیحدگی کے لیے کوششیں تیز کر دیں۔ ہم خیالوں کو اکٹھا کر لیا اپنے سفر پر چل پڑے۔ ہندؤ انسپکٹر امر چند قتل ہوا تو اس مقدمے میں مقبول بٹ کو بطور مجرم شامل کر لیا۔ 1966 میں اس مقدمے میں انہیں سزائے موت سنائی گئی تو مقبول بٹ نے جج کو مخاطب کر کے کہا، ابھی ہندوستان۔میں وہ رسی نہیں بٹی گئی جس سے مقبول بٹ کو پھانسی دی جائے۔ اس واقع کے صرف چار۔ماہ بعد وہ جیل سے ایک سرنگ نکال کر فرار ہو کر آزاد جموں وکشمیر میں ا گئے اور آٹھ سال کے بعد واپس مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئے۔

مقبول بٹ شہید کے وکیل آر ایم طوفیل اور تہاڑ جیل کے سابق جیلر سنیل گپتا کے مطابق شہید کو مقدمہ میں ملوث کرنے میں بے شمار سقم ہونے کے ساتھ ساتھ مقدمے کی عدالتی کاروائی اور سزائے موت دینے کے عمل میں بھی کئی ضروری قانونی کاروائیوں کو نظر انداز کر کے انہیں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ اور ان کا جس خاکی بھی اسی جیل۔میں دفن کر دیا گیا جسے ان کے لواحقین کے حوالے کرنا ضروری تھا۔

آزاد بندے، صبح امید کے نقیب
محصور و مقہور، دست بہ دعا

5 فروری کا دن خطہ کشمیر اور کشمیری عوام پر امیدوں بھری کرنوں کے ساتھ طلوع ہوتا ہے کہ وہ اپنی جدوجہد آزادی۔میں۔تنہا نہیں ہیں۔ دنیا بھر کے باضمیر انسان جو انسان کی حرمت، انسانیت کی عظمت اور انسانی آزادی پر ایمان رکھتے ہیں۔ وہ کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ 5 فروری دنیا بھر میں اظہارِ یک جہتی کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جس کا مطلب عالمی۔ضمیر یعنی اقوام۔متحدہ کو یہ یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ وہ قرارداد جو آپ نے سردخانے میں ڈال رکھی ہے، آپ کے اس بے حس رویے سے ہندوستان نے کشمیری عوام کی طرح طرح کے غیر انسانی رویوں سے نسل کشی شروع کر رکھی ہے۔

5 اگست 2019 سے خطہ کشمیر کو ایک قید خانہ بنا رکھا ہے۔ ظلم روا رکھنے کی بے شک کوئی حد مقرر نہ ہو صبر کی بہت حال ایک حد ہے۔ جب ظلم ایک ایک خاص سطح سے تجاوز کر جائے تو بغاوت ہی آپشن رہ جاتی ہے۔ بر صغیرمیں اگر کشمیریوں کی آزادی بحال نہ کی گئی تو اس خطے میں امن و امان قائم نہیں رکھا جا سکے گا۔اگر دنیا کو کشمیر اور کشمیریوں کی آزادی کی کوئی پرواہ نہیں تو انہیں بھی دنیا کے امن و امان سے کوئی غرض نہیں۔ تمہیں یہ یاد دہانی کرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ مسلمانوں کا عقیدہ یہی ہے

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو۔

دنیا کے منصفو!

تہاڑ جیل کے پھانسی گھاٹ سے شہید مقبول بٹ اور شہید محمد افضل گورو کی لاشوں سے کیا جانے والا احتجاجی اعلان نہ بھولو، کہ ہم لا الہ الاللہ پکارنے والے کشمیری مسلمان ہیں۔تم اپنے زندہ و پائندہ اللہ کو بھول رہے ہو۔ ہم راہ حق کے شہیدوں کو نہیں بھولیں گے۔
عالمی غاصبو۔! تم نے ہمارے شہری حقوق اور انسانی حقوق چھین کر ہماری زندگی دوبھر کر رکھی ہے۔ کشمیری تمہارا یہ ظلم اور جبر کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ ہماری۔مزاحمتی جنگ قیامت تک جاری رہے گی۔ ہمارا اللہ ہمارے ساتھ تمہیں دیکھ
رہا ہے۔

٭٭٭

شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر اور کالم نگار ہیں