بدر مجیب مزاری
یہ 1971 کی بات ہے جب تحصیل روجھان کے مزاری خاندان کے ایک انتہائی غریب گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوتا ہے۔جسکا نام مجیب الرحمن رکھا جاتا ہے۔وہ شیر خوارگی کی عمر میں اپنی کل کائنات ماں کو کھو دیتا ہے۔شدید مصائب اور غربت میں وہ اپنی تعلیم جاری رکھتا ہے۔ خاندان کا پہلا فرد جو خاندان کی مخالفت کے باوجود تعلیم مکمل کرجاتا ہے۔اسلامی جمعیت طلبہ کا رکن اور پھر ناظم ڈویژن بنتا ہے تو دیکھتے ہی دیکھتے نوجوانوں کے آنکھوں کا تارا بن جاتا ہے۔پھر جہاد کشمیر کو جوائن کرتا ہے اور پل بھر میں پوری تحریک کشمیر کا روح رواں بن جاتا ہے۔وہ سید صلاح الدین احمدحفظ اللہ کا معتمد خاص تھا۔
جماعت اسلامی کی شان تھا
افکار مودودیؒ کا ترجمان تھا
اک مقرر شیریں بیان تھا
روجھانیوں کی جان تھا
مخلوق خدا پر مہربان تھا
بے سہاروں کا سائباں تھا
وہ مجیب الرحمن تھا
ہاں وہ مجیب الرحمن تھا
خدا کا یہ بندہ مجاہد ساری زندگی اللہ کی راہ میں دوڑ کے بالآخر 29 جولائی 2024داعی اجل کو لبیک کہہ کر خدا کے جنتوں کا راہی بن گیا۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
والد محترم مجیب الرحمن مزاری ؒ کی زندگی کو ہم تین پہلوؤں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ جس میں سے ایک نمایاں ترین پہلو فلاحی کاموں پر مشتمل ہے۔اسی سلسلے میں وہ ملک بھر اور بیرون ملک اپنے روابط کو استعمال کرتے ہوئے مساجد کی تعمیر و مرمت اور غرباء کی مدد و استعانت کرتے۔ ذاتی حیثیت میں بھی فلاحی کاموں میں بے دریغ خرچ کرتے۔میں کہتا کہ ’’ابو ہمیں باقاعدہ ہر سال محرم الحرام کو زکوٰۃ نکالنی چاہیے‘‘۔ تو کہتے ’’میرا بیٹا پریشان مت ہو۔ زکوٰۃ تو ایک معمولی رقم ہے آپکا بابا زکوٰۃ سے بہت زیادہ خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔‘‘
حقیقت بھی یہی تھی۔ بستی کے غرباء کی ہر ماہ مستقل بنیادوں پر مدد کرتے۔ نبی کریم ﷺ کے یوم پیدائش اور حضرت حسین ؓ کی یوم شہادت پر تین تین دیگیں پکوا کر خیرات کرتے۔ ابھی اسی محرم کی بات ہے کہ بیماری کی وجہ سے شدید تنگدستی کا شکار تھے۔ قرض لے لے کر علاج جاری تھا ہم نے کہا کہ ابو اللہ دیکھ رہا ہے اور وہ نیتوں کے حال جانتا ہے۔ اس بار محرم پر خیرات نہ کریں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ دکان سے سامان ادھار پر اٹھالو۔ خیرات لازمی کرنا ہے۔ لہٰذا ایسا ہی کیا گیا۔ یہ انکی زندگی کا آخری خیرات تھی۔ ان شاء اللہ ہم اس سلسلے کو جاری رکھیں گے۔
کوئی مانگنے والا کبھی انکے در سے خالی ہاتھ نہ گیا۔ کبھی جیب خالی ہوتی تو ہم سے پوچھتے بیٹا آپکے پاس کچھ ہے ،ہمارے پاس جیب میں پانچ سو۔ ہزار جتنے بھی ہوتے لے کر ضرورت مندوں کو دے دیتے۔کوئی بیمار ہوتا یا کسی پر برا وقت آتا تو انہیں گھر جاکر بڑی بڑی رقم دے آتے۔ کہتے ، یہ رکھ لیں آپکو شاید چند دن کام نہ کرنا پڑے اس لئے یہ رقم کام آجائے گی۔ ’’یہ ہے زندگی کا مقصد کا اوروں کے کام آنا ‘‘
اس شعر کی عملی تصویر مجھے ابوجان کی ذات میں دکھائی دیتی ہے کہ جنہیں’’خادم روجھان ‘‘کے لقب سے پکارا گیا۔
مجیب الرحمن مزاری ؒ کی زندگی کا دوسرا نمایاں ترین پہلو کشمیرسے انتہائی حد تک لگاو اور مجاہدین کشمیر کی سرپرستی و ترجمانی تھا۔ وہ کشمیر کو آزاد کرانے کے مشن پر 30 سال تک ڈٹے رہے۔ کشمیر انکی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا تھا۔
جمعیت سے فارغ ہوئے تو تحریک آزادی کشمیر زور و شور سے جاری تھی۔ سید مودودی ؒ کے فکری جانباز بیٹے ’’حزب المجاہدین‘‘ کے پلیٹ فارم سے کشمیر کے محاذ پر جانوں کا نذرانہ پیش کررہے تھے۔بھارتی ظلم و استبداد کے خاتمے اور آزادی کا سورج طلوع ہونے کو تھا۔ غریب ماں باپ کا یہ بیٹا پڑھ لکھ چکاتھا اور گھر والوں کی نظریں اس پر تھیں کہ اب شاید گھر کے حالات بدلیں گے۔ لیکن اس کی آنکھیں کچھ اور ہی منظر دیکھ رہی تھیں۔اور اسکی کانوں میں آواز یہ گونج رہی تھی۔ شہداء نے پکارا ہے تم کو فردوس کے بالاخانوں سے ۔۔۔ہم راہ خدا میں کٹ آئے تمھیں پیار ابھی تک ہے جانوں سے لہٰذا انہوں نے اس پکار پر لبیک کہتے ہوئے سب سے بڑے فرض کی تیاریاں شروع کردیںاوربالا تاخیر حزب المجاہدین میں شامل ہوگئے۔
بقول احسن عزیز شہید
ابھی بیمار ماں کو بھی معالج کو دکھانا تھا
ضعیف اک باپ کا بھی ہاتھ پھر ہم کو بٹانا تھا
مگر ہم سر ہتھیلی پر لیے فی اللہ نکل آئے
یہ فرض عین بھی آخر ہمیں ہی تو چکانا تھا


پہلے افغانستان اورپھر کشمیر کے محاذ پر بھارتی سامراج کے خلاف برسرپیکار ہوئے۔حزب کے ایک عام کارکن مجاہد سے سفر جہاد شروع کیا۔ تحصیل ،ضلع اور پھر پنجاب کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ 15 برسوں تک مری تا روجھان پنجاب کے اندر کشمیر کاز کے لئے متحرک رہے۔ اپنے مجاہدانہ مزاج اور شعلہ بیانی سے پنجاب کے نوجوانوں کو تحریک آزادی کشمیر کا ہر اول دستہ بنادیا۔ غالبا 2015 میں حزب کے مرکزی جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے۔ اور تادم آخر بیماری کے باوجود اس ذمہ داری کو نبھاتے رہے۔
نوجوانی کی دہلیز میں داخل ہوتے وقت انہوں نے خدا اور اسکے رسول ﷺ سے وفاداری کا جو حلف اٹھایا تھا وہ اس پر زندگی کی آخری سانس تک ڈٹے رہے۔ وہ جماعت اسلامی کے ایک اہم اور قد آور رہنما تھے۔روجھان تحصیل جو کہ مزاری سرداروں کا گڑھ ہے یہاں پر آپ نے جماعت اسلامی کو ایک تناور درخت بنادیا تھا۔ آپ نے ملک بھر میں ہزاروں خطبات جمعہ اور دیگر اجتماعات سے خطابات کئے اور اپنے خطابات میں عوام الناس کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی ،دین کو غالب کرنے اور جہاد فی سبیل اللہ کا پیغام دیا۔مجیب الرحمن مزاری ایک شخص نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہے۔ ایک ایسا عہد جو کبھی بھی ختم نہیں ہوگا۔ وہ ہمارے دلوں میں تاقیامت زندہ رہے گا۔
30 جولائی 2024کی صبح 8بجے آپکے جنازے میں لوگوں کی ایک کثیر تعداد پرنم آنکھوں اور شکستہ دلوں کے ساتھ شریک تھی۔ ملک بھر سے کارکنان جماعت کی بڑی تعداد اسلام آباد دھرنے سے رخصت لے کر اپنے اس عظیم ساتھی کی آخری دیدار کے لئے حاضر ہوئے۔ ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر زبان سے مرحوم کے لئے نیک الفاظ نکل رہے تھے۔ نماز جنازہ سے قبل لوگوں کے اجتماع سے حزب سربراہ سید صلاح الدین احمدحفظ اللہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’مجیب الرحمن مزاری کی جدائی سے تحریک آزادی کشمیر میں خلا پیداہوا جسے پر کرنا بہت مشکل ہے۔ وہ اپنے کردار اور سیرت کے حوالے سے ہمیشہ نمایاں رہے۔انکی جدوجہد کا ہر لمحہ قابل