نہیں ہوتیں کبھی ساحل کے ارمانوں سے وابستہ
ہماری کشتیاں رہتی ہیں طوفانوں سے وابستہ
ہمارا ہی جگر ہے یہ ہمارا ہی کلیجہ ہے
ہم اپنے زخم رکھتے ہیں نمکدانوں سے وابستہ
نہ لے چل خانقاہوں کی طرف شیخ حرم مجھ کو
مجاہد کا تو مستقبل ہے میدانوں سے وابستہ
میں یوں رہزن کے بدلے پاسباں پردار کرتا ہوں
مرے گھر کی تباہی ہے نگہبانوں سے وابستہ
ہماری بے قراری کو نہ چھیڑ و مطمئن لوگو!
کہ تقدیرِ سکوں ہے ہم پریشانوں سے وابستہ
کہیں مسلی ہوئی کلیاں،کہیں روندے ہوئے غنچے
بہت سی داستانیں ہیں شبستانوں سے وابستہ
مورخ! تیری رنگ آمیز یاں تو خوب ہیں لیکن
کہیں تاریخ ہوجائے نہ افسانوں سے وابستہ
ابھی یہ چلتے چلتے دیکھ لیتے ہیں خراشوں کو
ابھی کچھ اور زنجیریں ہیں دیوانوں سے وابستہ
محبت خامشی بھی ،چیخ بھی ،نغمہ بھی ،نعرہ بھی
یہ اک مضمون ہے کتنے ہی عنوانوں سے وابستہ
حفیظ میرٹھی کو کون پہچانے کہ بے چارہ
نہ ایوانوں سے وابستہ، نہ دربانوں سے وابستہ
شاعر اسلام حفیظ میرٹھیؒ