محمدعلی جناح

شہزاد منیر احمد

قومی ہیرو فرشتے نہیں ہوتے، انسان ہوتے ہیں

لیکن جب انہیں تاریخ ہیرو تسلیم کر لے تو پھر انہیں ان کے اسی مقام و مرتبت سے مخاطب کرنا چاہیے

محمد علی جناح کی تربیت اور ناموری سقراط، ارسطو، کنفیوشس مارکس، یا ماؤ زے تنگ جیسی شخصیات کے مکتبہ فکر سے نسبت رکھنے کا نتیجہ نہ تھی

بلکہ ان کے اندر تعلیمات اسلامی کے نور کا معجزہ تھا۔

قیادت کرنے کا مطلب ہے معاشرے کو بھلائی اور مسرتوں کی جانب ترغیب دینا۔ انسانی جبلت میں ہے کہ وہ علم و ہنر میں اپنے سے کمتر شخص کے زیر اہتمام کام کرنا اپنی توہین سمجھتا ہے، اس لیے لیڈر کا کئی پہلوؤں سے عام لوگوں سے برتر ہونا لازمی ہے۔ اس کا بہتر، مضبوط کردار، اور اعتماد بھرے جارحانہ انداز کا حامل ہونا ایک مؤثر ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح میں مذکورہ اوصاف بدرجہ اتم موجود تھے۔ وہ بیمار اور پاؤ بھر پھولوں کے وزن کا دبلا پتلا شخص بڑے بڑے ہیوی ویٹ پہلوانوں پر حاوی تھا۔ اس لیئے کہ وہ اپنے علم و ہنر(وکالت) اور کارکردگی(نظریاتی سیاست) میں سب پر سبقت رکھتے تھے۔ کانفرنس میںTable Talk میں وہ کسی سے مات نہیں کھاتے تھے۔

قائدین کے بارے عالمی محققین کی متفقہ رائے ہے کہ” کسی قائد کی عظمت کردار اور سچائی، وہ تبصرے اور جائزہ رپورٹس ہوتی ہیں جو اس لیڈر کے منظر سے ہٹنے کے بعد اس کی عدم موجودگی میں سامنے آتے ہیں۔ ”

اس اعتبار سے راقم کو پاکستانی مورخ ڈاکٹر صفدر محمود کی یہ تحریر قابل داد و تحسین لگی۔ وہ لکھتے ہیں۔قومی ہیرو فرشتے نہیں ہوتے، انسان ہوتے ہیں۔ لیکن جب انہیں تاریخ ہیرو تسلیم کر لے تو پھر انہیں ان کے اسی مقام و مرتبت سے مخاطب کرنا چاہیے۔ حیرت بلکہ مزید حیرت اور صدمہ اس بات پر ہوتا ہے کہ ابھی پاکستان کو معرض وجود میں آئے تقریباً 68 (اب 75) ہوئے ہیں۔ یہ کوئی صدیوں کا سفر نہیں اور ہم نے ابھی سے اپنی مختصر سی تاریخ کو بھلا دیا ہے۔ اور بنیادی حقائق ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔ کم از کم قائد اعظم پہ تبصروں کی نوازشات فرماتے ہوئے تاریخ کے اوراق پڑھ لیا کیجئے تا کہ آپ کی تحریریں ابہام اور بد گمانی پھیلانے کا موجب نہ بنیں، اور نوجوان نسل کو گمراہ نہ کریں۔”

قائد اعظم محمد علی جناح پر امریکی پروفیسر، محقق و مورخ اسٹینلے وولپرٹ نے اپنی لکھی کتاب Jinnah of Pakistan میں ان کی ہمہ گیر شخصیت،نظریاتی سیاست اور قابل تقلید و تحسین عملی زندگی میں کامیابی پر لکھا ہے۔ دنیا میں کم ہی ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے تاریخ کا دھارا بدل کے رکھ دیا ہو، اس سے بھی کم تعداد میں ایسی شخصیات ملتی ہیں جن کے کام سے عالمی نقشہ میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہوں۔ اور وہ لوگ تو خال خال ہی نظر آتے ہیں جنہوں نے کوئی قومی ریاست تشکیل دی ہو۔ آفرین ہے محمد علی جناح پر جنہوں نے تن تنہا اپنی سیاسی جدو جہد، استقلال اور دیانتدارانہ قیادت سے تینوں کارنامے انجام دے ڈالے۔ ” محمد علی جناح 25 دسمبر 1976 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد پونجا جناح تھے۔خاندان کے نام کے ساتھ روائتی نام بھائی اضافی طور پر لکھا جاتا تھا۔ پونجا جناح ایک انگریز کے ساتھ مل کر کھالوں کو برآمد کرنے کی تجارت کرتے تھے۔ وہ اوسط درجے کے تاجر تھے۔

محمد علی کو گھر پر مادری زبان گجراتی میں تعلیم دینے کے لیے اتالیق مقرر کیا ہوا تھا۔ سکول جانے کی عمر کو پہنچے تو انہیں سکول میں داخل کرادیا گیا۔ تب محمد علی جناح کی عمر تقریباً 9 سال تھی۔

فاطمہ جناح نے اپنی کتاب My Brother میں دو بڑے دلچسپ اور سبق آموز واقعات لکھے ہیں، جن سے محمد علی جناح کی اوائل عمری میں مشکل صورتحال میں بالغانہ فہم و فراست اور تدبر سے کام لے کر مسائل کا حل ڈھونڈ نکالنے میں سرخرو ہوئے۔ وہ لکھتی ہیں سکول میں امتحانات میں کم نمبر آنے پر علی دل گرفتہ ہو گئے تھے۔ والد صاحب نے وجہ پوچھی تو صاف گوئی سے بولے میرا سکول جانے کو دل نہیں کرتا۔ والدین نے بڑا سمجھایا مگر علی بضد رہا کہ وہ والد کا دفتر میں ہاتھ بٹائے گا۔ دفتر میں کوئی دو ماہ کام کیا تو والد سے کہا میں پڑھنا چاہتا ہوں۔۔ والد صاحب بڑے خوش ہوئے اور کہا بیٹا زندگی گزارنے کے دو ہی طریقے ہیں۔ یا تو اپنے بڑوں کے تجربات اور دانش کے مطابق کام کریں۔ دوسرا یہ کہ اپنے تجربے سے کام کریں سیکھیں اور آگے بڑھتے جائیں۔

دوسرے واقعہ محمد علی جناح کی پہلی شادی ، جو ان کی تقریباً سولہ سال کی عمر میں ” ایمی” سے ہوئی تھی کے بارے ہے۔ یہ شادی ہندوستان کی ریاست گونڈل کے علاقے پانیلی میں ہوئی تھی۔ جناح خاندان اس شادی کے لیے ایک ماہ تک پانیلی میں شفٹ ہو گیا تھا۔ شادی کے بعد خاندانی رسم و رواج کے مطابق دولہن کو تین ماہ تک اپنے دولہا کے ساتھ اپنے میکے میں ہی رہنا تھا۔ ادھر پونجا جناح اپنے کاروبار سے اتنی دیر تک دور نہیں رہ سکتے تھے۔ محمد علی کو بھی پڑھائی کے لیے لندن جلد روانہ ہونا تھا۔مذکورہ رسم پر دونوں خاندانوں میں اختلاف بڑھ گیا۔

فاطمہ جناح لکھتی ہیں کہ دونوں گھروں میں کھنچاو کا یہ عالم ہو گیا کہ معمول کی آمد و رفت بھی رک گئی۔ ایک دن محمد علی بغیر کسی سے مشورہ کئے از خود ایمی کے گھر پہنچ گیا۔ مروت پیار سے اس کا استقبال ہوا۔ پھر علی نے انہیں اصل صورتحال کا بتاکر قائل کر لیا کہ ایمی ابھی ان کے ساتھ کراچی چلی جائے۔ جب علی لنڈن چلا جائے تو ایمی اگر چاہیے تو کراچی ہی رکی رہے نہیں تو پانیلی واپس آ جائے۔ یہ جان کر سب لوگ بہت خوش ہوئے کہ نوجوان محمد علی نے اپنے زیرک پن اور تحمل سے وہ کام کر دکھایا جسے خاندان کے بڑے بھی ناممکن سمجھ رہے تھے۔ دوسرے دن علی کے سسرال والے ہمارے گھر آ گئے اور باہمی رضامندی سے ہمارا کراچی واپس آنے کا پروگرام بھی فائنل ہو گیا۔ اور پھر ہم خوشی خوشی دلہن کو لے کر کراچی آ گئے۔

محمد علی جناح کی ابتدائی حیات میں ان کی علمی کاوشوں اور عملی زندگی میں پیشہ ورانہ جد وجہد کا جائزہ لیا جائے یہ پہلو بڑا واضح طور پر سامنے آتا دکھائی دیتا ہے کہ فطرت خود کرتی ہے لالہ کی حنا بندی ” وہ لندن میں پہنچے تو وہاں موجود پونجا جناح کی گراہمس کمپنی کے آفس میں اپریٹس شپ کرتے اکثر سوچتے تھے کہ میں ایک ایسے کاروبار کے لیے تیار ہو رہا ہوں جو میری ذات کے ساتھ شروع ہوگا اور میرے ساتھ ہی ختم ہو جائے گا۔یہ درست سہی کہ والد صاحب کے کاروبار کو وسعت دینے میں یہ اپریٹس شپ بڑی معاون ثابت ہو گی اور میں پیسہ بھی کما سکوں گا مگر مجھے کوئی ایسا کام کرنا چاہیے جس میں تسلسل ہو اور کاروبار سے زیادہ معاشرتی مفاد بھی ہو۔ انہوں نے تاریخ میں بڑے لوگوں کی سوانح عمریاں پڑھی تھیں جن سے انہوں نے جانا کہ ان سب قائدین اور راہنماؤں نے پہلے قانون کا پختہ علم حاصل کیا تھا پھر وہ عوامی زندگی میں داخل ہوئے اور کامیابیاں پائیں اور ناموری بھی۔

انہیں اخباری اشتہار کے ذریعے معلوم ہوا کہ لندن میں لٹل گو LITTLE GO” ”سکیم ابھی جاری ہے اور اگلے سال یہ سکیم ختم کر دی جائے گی۔ محمد علی جناح کے لیے یہ ایک چانس تھا کہ وہ لٹل گو سکیم میں شامل ہو کر وکیل بن سکتے تھے۔لہذا انہوں نے یہ Chance Avail کیا۔ امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کیا اور وہ وکیل بن گئے۔(یہ تھا وہ پوائنٹ جس پر آصف زرداری نے ایک بار یہ پھبتی کسی تھی کہ قائد اعظم کون سے گریجویٹ تھے) ۔محمد علی جناح نے اپنے علم اور مشاہدے سے زمین پر انسانی کردار کا انوکھا خاکہ بنا رکھا تھا جس پر وہ عمل کر کے تسکین پاتے تھے۔۔ لنڈن میں جب وہ بیرسٹری کی تعلیم کے دوران ایک بار شیکسپیئر کا ڈرامہ دیکھنے گئے تو ایک کردار کے بولے جانے والے مکالمات پر تبصرہ کیا۔ان کی ادائیگی Acting خود کر کے دکھایا کہ ڈرامے کے کردار کو dialogues یوں deliver کرنا زیادہ موثر ثابت ہوگا۔۔۔۔ بغیر کسی آڈیشن کے محمد علی جناح کو تھیٹر میں کام کرنے کی پیش کش کر دی گئی۔ جناح صاحب نے کچھ دیر وہاں کام بھی کیا۔۔

بعین اسی طرح ان کا وکالت کرنے، سیاست اور قیادت کرنے کا اسٹائل بھی معاصرین سے الگ انوکھا اور زیادہ موثر رہا محمد علی جناح کی سیاسی اصول پسندی اس قدر واضح اور موثر تھی۔ ان پر حریفوں نے تبصرے تو کئے مگر ان کی حقیقتوں کو جھٹلا نہ سکے۔

12 جولائی 1940 کو مولانا ابوالکلام آزاد نے قائدِ اعظم کو ایک امتیازی بیان کے حوالے سے تار بھیجا اور پوچھا کہ کیا مسلم لیگ ،مشترکہ کابینہ (ہندو مسلم) میں واقعی دو قومی نظریہ سے کم کسی پوائنٹ پر رضامند نہ ہوگی۔قائد اعظم نے غصے میں مگر بڑے شائستہ انداز میں جواب بھیجا۔ کہا کہ میں آپ سے بات کرنا مناسب نہیں سمجھتا، کیونکہ کانگرس ہندوؤں کی نمائندہ سیاسی جماعت ہے۔۔انہوں نے اپنی مکاری اور خود غرضی کو چھپانے اور دنیا کو دھوکا دینے کی غرض سے آپ کو BOY SHOW بچہ جمورا بنا رکھا ہے۔ اپنی خودفریبی کے جال سے باہر نکلو، اسلامی برتری و عظمت اپنی شناخت اور عزت نفس کی پاسداری میں تمہیں فوراََ مستعفی ہو جانا چاہیے۔۔ چونکہ آپ نہ ہندوؤں کے نمائندہ ہیں نہ ہی مسلمانوں کی نمائیندگی کرنیکا اختیار رکھتے ہیں۔

محمد علی جناح، نہ صرف اپنی ذات میں خود دار اور غیور انسان تھے بلکہ وہ دوسرے انسانوں کو بھی بڑی محبت، شفقت اور انسانی وقار سے ملتے۔ وہ اوروں کی عزت نفس کا بڑا خیال رکھنے والے قائد تھے۔ نمود نمائش سے انہیں بہت بیزاری ہوتی تھی۔

مسلم یونیورسٹی آف علی گڑھ کے ڈاکٹر سر ضیاء الدین احمد، جو 1937 سے کئی سال تک وائس چانسلررہے نے 23 اپریل 1942 کو محمد علی جناح کو خط لکھا کہ یونیورسٹی کی ایگزیکٹو کونسل نے گزشتہ اجلاس منعقدہ مورخہ 12 اپریل 1943 میں آپ کو مسلم یونیورسٹی آف علی گڑھ کی طرف سے قانون کی اعزازی ڈگری دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ مجھے اس سلسلے میں آپ کو باقاعدہ اطلاع دینے، تقریب کے انعقاد کی تاریخ اور دیگر تفصیلات طے کرنے کو کہا گیا ہے، جو میں بذریعہ خط ہذا کر رہا ہوں۔ محمد علی جناح نے جواب میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی ایگزیکٹو کونسل کا شکریہ ادا کرتے لکھا کہ میں سیدھا سا محمد علی ہوں میں اپنے نام کے ساتھ کسی طرح کا لاحقہ پسند نہیں کرتا۔ وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ڈاکٹر ضیاء الدین احمد کی طرف سے بار بار کی درخواستوں کے باوجود ان کی اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری قبول کرنے پر راضی نہ ہوئے۔۔

جناب زید اے سلہری اپنی کتاب LEADER MY میں لکھتے ہیں۔:-

1946 میں قائد اعظم محمد علی جناح اور نواب زادہ لیاقت علی خاں برطانوی کابینہ سے مذاکرات کے سلسلے میں لندن پہنچے۔قائد اعظم کو لندن میں کلریجز ہوٹل میں اسی کمرے میں ٹھہرایا گیا تھا جہاں یونانی بادشاہ اپنی جلا وطنی کے زمانے میں جنگ عظیم میں ٹھہرا تھا۔ برطانوی حکومت نے ایک کشادہ آرام دہ لیموزین گاڑی قائد اعظم کے استعمال کے لیے مختص کر رکھی تھی (یہ محمد علی جناح کا سٹائل تھا اور خوش لباسی کے ساتھ ساتھ شخصیت کا رعب بھی تھا جس سے انگریز دبتے تھے۔)

قائد اعظم نے سلہری صاحب سے پوچھا نماز جمعہ کس مسجد میں ادا کریں گے۔ انہیں بتایا گیا کہ ” ایسٹ اینڈ مسجد میں”. یہ ایسی مسجد ہے جس میں عام مسلمان نماز پڑھتے ہیں۔ قائد اعظم یہ سن کر بہت خوش ہوئے۔ جب نماز کے لیے مسجد میں پہنچے تو قائد اعظم پچھلی صفوں میں بیٹھ گئے، خطبہ سنا اور نماز ادا کی۔ جب وہ باہر آئے تو ایک عقیدت مند نے آگے بڑھ کر ان کے جوتے انہیں پیش کرنے کی کوشش کی تو قائد اعظم نے انہیں محبت سے پکڑ لیا اور کہا ایسا مت کرو۔۔ اسی اثناء میں دوسرے شخص نے ان کے جوتے کے تسمے باندھنے کی کوشش کی انہوں نے برا مناتے ہوئے اسے بھی منع کر دیا اور کہا میں اسے اخلاقی طور پر صحیح نہیں سمجھتا۔ یہ واقعی ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو محمد علی جناح کو مغرور اور متکبر شخصیت۔کہتے ہیں۔

اصولوں پر قائم رہنا محمد علی جناح کی شخصیت کا سب سے اعلیٰ وصف تھا۔ ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے اے ڈی سی، CAMPBEL JHONSON بتاتے ہیں کہ وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ایک پورا دن محمد علی جناح سے ہندوستانی مسائل کے ممکنہ حل اور قابل عمل فیصلوں کے لیے مختص کر رکھا تھا۔ لارڈ اپنا ہر شیطانی حربہ اور انسانی داؤ پیچ آزمانے کے بعد بھی محمد علی جناح کو اپنے شیشے میں اتارنے سے قاصر رہے تو بلبلا اٹھے اور مذاکرات وقت سے پہلے ختم کرنے کا اعلان کر دیا، اور کہا۔” اف!!! یہ تو برف کی مانند ٹھنڈے مزاج کا شخص ہے جسے کسی طرح کا لالچ و پیشکش اس کے مقام و ارادے سے پیچھے نہیں ہٹا سکتا۔”

بانی پاکستان محمد علی جناح کی شخصیت کے بارے آپ کا جاننا بہت ضروری ھے، تا کہ نوجوان نسل اور طلباء طالبات کو آپ قائد اعظم۔کی سیاسی جدو جہد کی تفصیلات ان کی دیانتدارانہ قیادت اور میعاری اخلاقیات پر پر اعتماد بات کر کے انہیں باور کروائیں کہ قائد اعظم کتنی بڑی شخصیت تھے۔ محمد علی جناح کی تربیت اور ناموری کسی بڑے ادارے، بڑے فلاسفرز،(سقراط، ارسطو، کنفیوشس مارکس، یا مائوزے تنگ).شخصیات کے مکتبہ فکر سے نسبت رکھنے کا نتیجہ نہ تھی بلکہ ان کے اندر تعلیمات اسلامی کے نور کا معجزہ تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت سادہ طرز زندگی کے حامل متوسط میمن خاندان میں ہوئی تھی۔

پونجا جناح کے بزنس پارٹنر۔ مسٹر ڈریک کا جملہ your desires will come true only if you deserve soعمر بھر ان کے پیش نظر رہا۔ یہی وہ اصول تھا جس پر محمد علی جناح نے زندگی بھر عمل کیا، کہ پہلے خود کو کسی عہدے یا نمائندگی کا اہل ثابت کیا پھر وہ میدان میں اترے۔ وہ میدان بیرسٹر بننے کی خواہش تھی، سیاست میں شمولیت کا شوق تھا یا آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت تھی۔

انگلستان میں قیام کے دوران انہوں نے مغربی تہذیب سے اچھے اچھے پہلوؤں کو سیکھا اور پیروی کی۔نفیس شخصیات اور نامور سیاستدانوں سے ملے ادب واحترام سیکھا اور پھر ایک وہ وقت بھی آیا کہ وہ سب سے زیادہ خوبصورت لباس پہننے اور نفیس شخصیت قرار پائے۔ دیکھیں ان کا خوبصورت تھری پیس سوٹ میں فلیٹ ہیٹ اور منہ میں قیمتی سگار لیئے سنجیدگی سے بلیئرڈ کھیلتے ہوئے۔

مغربی تہذیبی قدریں بھی ان کے قلب و نگاہ سے مشرقی اقدار اور رشتوں کا وقار و احترام نہ مٹا سکیں۔ لنڈن میں جس گھر میں وہ بحیثیت GUEST PAYINGٹھہرے تھے ان کی ایک تقریب میں تفریحی کھیل میں نوجوان لڑکی نے KISS کرنے کو کہا تو نوجوان محمد علی جناح کا جواب تھا کہ ” ہمارے مشرقی معاشرے میں ایسا کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ”

لنڈن سے واپسی پر انہوں نے اپنی چھوٹی بہن فاطمہ جناح کو دہلی میں کانونٹ سکول میں تعلیم دلوائی اور انہیں ڈینٹل سرجن بنوایا۔ یہ ان کی اپنے خاندان سے محبت اور اپنے عزیز و اقارب سے انس رکھنے کا ثبوت ہے۔

میری دانست میں علامہ اقبال کی فکری وسعتوں اور محمد علی جناح کی سیاسی انتھک جدو جہد نے صدیوں سے انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی پہ شاکر بڑے بڑے راجاؤں مہا راجاؤں اور علما و اکابرین کا زور توڑا۔ پسے ہوئے بے بس مسلمانوں کو جرأت و اتحاد کا راستہ دکھایا، ان میں جذبہ حریت بیدار کیا ان کی مخلصانہ راہنمائی کی تو اللہ الرحمٰن نے انہیں دیگر بڑے بڑے دل و دماغ والے مسلمانوں کو بھی ان کے کارواں کا حصّہ بنا دیا،

مسلمانوں کو اللہ رب العالمین مالک ارض و سما نے کامیاب کیا اور ہمیں آزاد ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان مل گیا۔ ۔

سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔

قارئین ! آئیں اس مخلص محمد علی جناح، قائد اعظم کی مغفرت اور بلندی درجات کی اپنے اللہ رب العالمین سے دعا کریں۔

رب اغفر و ارحم و انت خیر الراحمین۔