شہباز بڈگامی
انبیاء کی سرزمین کے وارث اہل فلسطین کے فرزند قبلہ اول کی حفاظت کیلئے سردھڑ کی بازی لگانے میں مصروف عمل ہیں۔انہوں نے اپنا سب کچھ تج دیا، ان کے چہروں پر نہ کوئی رنج و ملال اور نہ ہی حزن۔دنیا کے بڑے دماغ ان کی ادا پر ششدر،جبکہ امت وسطی کا درد رکھنے والے اہل فلسطین کا بالعموم اور امت کا بھرم رکھنے والی حماس کیلئے بالخصوص رطب اللسان ہیں،کہ گوشت پوست کے یہ انسان واقعی ایک خدا اور ایک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں۔انہوں نے ثابت کیا کہ اللہ تعالی کی واحدانیت کیلئے سر کٹانا ہی ان کا سرمایہ حیات ہیں۔07اکتوبر 2023ء جب شیخ احمد یاسین کے ہاتھوں لگایا جانے والا پودا حماس کی شکل میں صہیونی اسرائیل پر پل پڑا،تو بڑے بڑے فوجی ماہر انگشت بدندان رہے۔اس کے جواب میں دوسرے ہی دن صہیونی اسرائیل نے فضا،زمین اور سمندر سے غزہ پٹی کے باسیوں پر آگ و آہن کی بارش شروع کی ،یہاں تک کہ 19 جنوری 2025 آن پہنچا اور 42روزہ جنگ بندی عمل میں آئی۔ڈیڑھ برس کے طویل عرصے میں صہیونی اسرائیل نے غزہ کی ایک ایک عمارت اور تعمیر کو زمین بوس کیا۔بقول امریکی ڈاکٹروں جو غزہ میں اپنی پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے کیلئے آئے تھے ،94000فلسطینی صہیونی بربریت اور درندگی کی بھینٹ چڑھ گئے۔جن میں 70 فیصد خواتین اور بچے شامل ہیں،جبکہ ڈیڑھ لاکھ زخموں سے چور ہیں۔ہسپتالوں ،تعلیمی اداروں اور انسانی خدمات انجام دینے والے اداروں کے اندر بھی قتل عام کیا گیا۔ نہتے فلسطینیوں کو گرفتار کرکے لے جایا گیااور پھر ان کی میتیں گاڑیوں میں بھر بھر کر واپس غزہ پہنچائی گئیں۔ایک شہید فلسطینی نوجوان کے جسم کیساتھ بارودی مواد باندھا گیا،ان کا جب جنازہ اٹھایا جانے لگا،تو ایک خوفناک دھماکے میں مزید متعدد فلسطینی مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔اہل فلسطین کو بار بار ایک علاقے سے دوسرے علاقوں کی جانب نقل مکانی پر مجبور کیا گیا۔اہل فلسطین کی بیٹیوں کی آنکھوں سے چھلکتے آنسوئوں میں مظلومیت اور محکومیت جھلک رہی تھی۔پوری دنیا نے خاموشی کی چادر تان لی ،جبکہ امت مسلمہ کے کرتا دھرتایہ پورا منظر اپنی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔اہل فلسطین کو جب چاروں اطراف گھیرا گیا ،تو وہ پانی کی ایک ایک بوند کو ترسے اور محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی جانب دیکھ رہے تھے کہ شاید کوئی آگے بڑھے اور ان کی پیاس بجھانے کا مسیحا بن جائے۔مگر کسی میں ہمت نہ پڑی کہ ان کیلئے پانی کی ایک بوند کا ہی انتطام و انصرام کرتے۔

2024 میں اہل فلسطین ماہ مقدسہ میں سحری اور افطاری گھاس اور درختوں کے پتوں سے کرتے رہے۔بھوک کی شدت اس قدر کہ بچے بلک بلک کر اس دنیا سے اپنے رب کے حضور پہنچ گئے۔تب ہی ایک فلسطینی بچے نے کہا کہ اپنے رب کے پاس جاکر یہ شکایت کروں گا کہ ہم پر بھوک اور پیاس مسلط کی گئی اور ہمارے کلمہ گو تماش بین بنے رہے۔اس کے مقابلے میں صہیونی اسرائیل کو پوری دنیا نے اپنی بہترین اسلحہ ٹیکنالوجی فراہم کی۔امریکہ نے اپنے اسلحہ کے گوداموں کے دروازے کھول دیئے،اپنے ہی آئین کو پائوں تلے روندکر کانگریس کی منظوری کے بغیر اربوں ڈالر کے معاہدے اپنے ناجائز بچے کیساتھ کیے۔برطانیہ ،جرمنی،فرانس،اٹلی،سویڈن اور کئی دیگر ممالک کے جہاز ہر روز فوجی سازو سامان لیکر اسرائیل پہنچ جاتے۔اقوام متحدہ بطور ادراہ عضو معطل بن کر رہ گیا۔اسرائیل نے اس ادارے کی مٹی پلید کی۔عالمی فوجداری عدالت نے جب انسانیت کے قاتل اور دشمن نیتن یاہو اور سابق صہیونی وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے نام جنگی جرائم کی پاداش میں وارنٹ گرفتاری جاری کیے، تو صہیونی سرپرست امریکہ نے عالمی فوجداری عدالت اور اس کے ججوں پر نہ صرف پابندیاں عائد کیں،بلکہ ان کے تمام اثاثے ضبط اور ان کے سفر کرنے پر روک لگائی۔اہل غزہ کی ایک امید انروا (UNRWA)) جوکہ اقوام متحدہ کی انسانی ہمدردی کی ایک ایجنسی یا تنظیم ہے،صہیونی اسرائیل نے اس پر بھی پانبدی عائد کرکے اس کے غزہ اور دیگر علاقوں میں تمام دفاتر بند کردیئے۔امدای ایجنسی کے ٹرکوں کو انتہا پسند یہودی دن دیہاڑے لوٹتے رہے۔غرض غزہ کی 23لاکھ پر مشتمل آبادی کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں صہیونی اسرائیل نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔شیخ احمد یاسین کے تربیت یافتہ بچوں کو قتل کرنے کیلئے صہیونی اسرائیل دو دو ہزار پونڈ وزنی بم بھی گراتا رہا۔البتہ حماس مقتل میں تہنا کھڑی رہی۔ حماس کے یہ بچے ٹوٹے بندوقوں سے دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی اور سامان حرب و ضرب کا جگہ جگہ اور گلی کوچوں میں مقابلہ کرتے نظر آئے۔انہوں نے سینکڑوں صہیونیوں فوجیوں کو جہنم واصل کیا،اسرائیلی ٹینکوں،بکتر بندگاڑیوں اور بلڈوزروں کو الیاسین گولوں سے تباہ و برباد کیا،جس کی تصاویر اور ویڈیو ز 19 جنوری کی شام کو ہی سوشل میڈیا کی زینت بنیں،جب اہل غزہ جنگ بندی کے نتیجے میں اپنے تباہ شدہ مسکنوں پر واپس لوٹے،اس عرصے میں سینکڑوں صہیونی فوجی خود اپنے ہاتھوں سے ہلاک کرتے رہے،جس کا بھانڈا اسرائیلی میڈیا نے پھوڑا۔جہاں ایک لاکھ کے قریب فلسطینی صہیونی ریاستی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے،وہیں اہل فلسطین کے قلب و روح میں بسنے والی حماس نے اپنی فرنٹ لائن قیادت کو بھی قربان کیا،جس میں سب سے پہلے جناب اسماعیل ہنیہ 31جوالائی2024 میں رات کی آخری پہر ایران کے دارلحکومت تہران میں ایک حملے میں اپنے محافظ سمیت مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے،ان کے بعد 17 اکتوبر2024 میں حماس کے نئے سربراہ جناب شیخ یحییٰ سنوار جو 78گھنٹوں سے بھوک اور پیاس کی حالت میں تھے،غزہ کے رفح علاقے میں صہیونی افواج کیساتھ ایک دوبدو مقابلے میں جام شہادت نو ش کرگئے۔29 جنوری کی شام حماس نے اپنے ایک اور اولعزم قائد جناب شیخ محمد الضیف کی شہادت کا اعلان کیا۔جس سے ان مظلوموں مگر جذبہ آزادی اور حریت سے سرشار فلسطینیوں اور حماس کی محبت رکھنے والے کروڑوں مسلمانوں کے دل چھلنی ہوگئے۔جناب محمد الضیف ہی 07 اکتوبر 2023 میں طوفان الاقصی کے منصوبہ ساز تھے۔حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز کے سربراہ محمد الضیف ابو خالد1965 میں غزہ کے خان یونس علاقے میں پیدا ہوئے۔محمد الضیف 1987 میں شروع ہونے والے پہلے فلسطینی انتفاضہ کے بعد حماس میں شامل ہوئے، انہیں حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز کی بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

2002 میں القسام بریگیڈز کے سربراہ سلاح شہادہ کی اسرائیلی حملے میں شہادت کے بعد محمد الضیف کو القسام بریگیڈز کا سربراہ بنا گیا اور وہ تب سے ہی صہیونی اسرائیل کیلئے ایک بڑا ہدف تھے۔محمد الضیف انتہائی پراسرار شخصیت کے مالک تھے، شہادت سے قبل ان کی چند ہی تصاویر دستیاب تھیں اور وہ کبھی منظر عام پر بھی نہیں آتے تھے، یہاں تک کہ 7 اکتوبر 2023 میں آپریشن طوفان الاقصی کے آغاز پر بھی ان کا آڈیو پیغام ہی جاری کیا گیا تھا۔یہی نہیں بلکہ غزہ میں حماس کی زیر زمین سرنگوں کے نیٹ ورک اور راکٹ سازی کا آغاز کرنے کا سہرا بھی محمد الضیف کے سر ہی سمجھا جاتا ہے۔محمد الضیف کو اسرائیل کی جانب سے نو زندگیوں والا کہا جاتا تھا جس کی وجہ 7 سے زائد اسرائیلی حملوں میں ان کا بچ نکلنا تھا۔ان حملوں میں محمد الضیف زخمی بھی ہوئے اور ان کی ایک آنکھ بھی متاثر ہوئی، ایک اسرائیلی حملے میں محمد الضیف خود تو بچ گئے تاہم ان کی اہلیہ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی جام شہادت نوش کرگئے تھے۔کیا حماس کے ان بچوں کا کسی سے کوئی تقابلہ ہوسکتا ہے؟ جواب یقینا نفی میں ہے۔ان بچوں نے جنگ بندی کے نتیجے میں صہیونی یرغمالیوں کی رہائی کے موقع پر جس بھرپور قوت کا اظہار کیا ہے،اس نے بڑے بڑے تجزیہ نگاروں کو ان کا گرویدہ بنایا ہے۔حماس کی اس عسکری صلاحیت اور منصوبہ سازی پر تمام عالمی نشریاتی اداروں نے خصوصی مضامین اور تجزیئے شائع کرکے اس بات کا اعتراف کیا،کہ حماس کسی اور دنیا کی مخلوق ہے اور اس کو ختم کرنے کے بارے میں سوچنا خود کو فریب میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے،البتہ دنیا جو پہلے ہی قیادت کی حد تک قحط الرجال کی شکار ہے،امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس میں ایک قاتل اور دہشت گرد نیتن یاہو کیساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا کہ امریکہ غزہ کو اپنی تحویل میںلیکر اس کی تعمیر نو کا کام کرے گا،جس پر پوری دنیا میں ایک وبال مچا ہے۔جن ظالموں نے کل تک اہل فلسطین کے قتل عام میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا،آج وہ بھی ٹرمپ کے اس اعلان کو پاگل پن سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ٹرمپ کا غزہ کے مستقبل سے متعلق اعلان کسی اور کیلئے نہ صیحیح مسلم دنیا خاصکر عربوں کیلئے پیغام ہے،اگر عربوں بشمول ترکیہ نے ٹرمپ کے اس شیطانی پیغام کو سمجھنے میں چوک کی ،تو اگلی باری ان کی ہوگی،جس کے بعد چراغوں میں روشنی نہیں رہے گی۔
جناب محمدشہباز بڈگامی معروف کشمیری صحافی اور کالم نگار ہیں۔ کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلامعاوضہ لکھتے ہیں۔