رانابشارت علی بارو
رانا آصف سرور المعروف اویس ڈار بھائی کا تعلق تحصیل جڑانوالہ کے گائوں 96 گ ۔ب شریں سے تھا ۔ آپ کے والد محترم محکمہ ڈاک میں ملازم تھے۔ملازمت کے تبادلے کی وجہ سے آپ جڑانوالہ سے فیصل آباد منتقل ہوگئے۔اویس ڈار بھائی 1972 کو 96 گ۔ب شریںجڑانوالہ میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی اور قرآن کی تعلیم اپنے گائوں میںحاصل کی اور زمانہ طالب علمی میں ہی اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی ہوگئی ۔1988 میں جب رو س افغانستان جنگ ہورہی تھی تو اویس بھائی نے اس جنگ میں بھی حصہ لیا اور فاتحین افغانستان میں شامل ہوئے۔ ادھر مقبوضہ کشمیر میں بھی جہادکشمیر جاری تھا تو اویس ڈار بھائی جہاد کشمیر میں حصہ لینے کے لئے 1991 میں مقبوضہ کشمیر لانچ ہوگئے اور عرصہ پانچ سال تک یعنی 1995 تک مقبوضہ کشمیر میں ہندو بنئے کو ناکوں چنے چبواتے رہے ،بعد ازاں غازی بن کر پاکستان واپس آئے اور ادھر پاکستان میں واپس آکر مجاہدین کی خدمت میں مشغول ہوگئے۔عرصہ 35 سال تک مجاہدین کی پشت پناہی کرتے رہے۔ 20 مارچ 2024 کوحرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے وفات پاگئے اللہ تعالیٰ ان کو جواررحمت میںجگہ عطا فرمائے۔آمین
اویس ڈار بھائی کا پہلی نماز جنازہ امیر البدرمجاہدین بخت زمین دامت برکاتہم نے پڑھا ئی۔ چونکہ اویس ڈار بھائی کے بیٹے ریحان بیرون ملک تھے اس لئے دو دن میت کولڈ سٹوریج میں رکھی گئی اور 23 مارچ کو اویس ڈار بھائی کی دوسری نماز جنازہ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق صاحب نے پڑھائی ۔نماز جنازہ میں ملک بھر سے مجاہدین البدر اور عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔جن میں نمایاں امیر البدر مجاہدین بخت زمین صاحب ،قاری اعجاز طیب صاحب ،مولانا ہارون صاحب ،عمر فاروق جدون ،زاہد فاروق بھائی اورسینکڑوں ساتھی شریک ہوئے۔
رب ذوالجلال کا فرمان ِ عظیم ہے ’کل من علیھا فان‘ کے مصداق جو بھی اس دنیا میں آیا ،اپنی زندگی کا اتنا ہی حصہ گزار سکا جتنا کہ اس کی تقدیر میں درج تھا۔اور ہر بندہ اپنے مقررہ وقت پر اس جہانی فانی سے کوچ کرگیا۔اس قانون الٰہی سے نہ انبیا و رسل مستثنیٰ رہے نہ جلیل القدر صحابہ کرام ؓ واولیا ئے کرام ،پیارے نبیؐ کی ذات بابرکات بھی اپنی مقررہ وقت سے ایک لمحہ زیادہ نہ کم اس دنیا میں گزارسکی۔

مگر مبارک ہوتی ہے وہ زندگی جو اللہ کے دین کی اشاعت اور اس کے کلمہ کی سربلندی کے لئے جنت کے عوض بیچ دی جاتی ہے اور مبارک ہوتی ہے وہ رحلت جس سے ہزاروں دل تڑپ اٹھیں ،آنکھیں نم ہوجائیں اور ہاتھ اٹھا کر ،پھیلا کر بھی جس کے لئے دعائیں مانگی جائیں،اور جن کی خدمات کے تذکرے ہر محفل ،ہر مجلس میں کیے جاہیں۔جو تاریخ پر اپنے عظیم کردار اور اعلیٰ صفات کے انمٹ نقوش چھوڑ جائیں۔یقینا یہ رخصتی بڑی مبارک ہے اور پھر ان سب سے بڑھ کر سعادت رب کی رضا و خوشنودی کہ جب جنتیں قریب لائی گئی ہوںفرشتے قطار درقطار کھڑے سلاماََ سلاماََ اور مرحبامرحبا کے استقبالیہ کلمات اداکررہے ہوں۔پروردگار جنتوں کے دروازے کھول کر بہت محبت اور پیار سے اپنے بندے کو پکارے ۔ترجمہ :اے میرے بندے ،آئواور رب ذولجلال کے خاص اور محبوب بندوں میںشامل ہوکر اس کی مہمان نوازیوں سے لطف اندوز ہو۔کس قدر اعلیٰ مقام ہے ۔مجھے یقین ہے ہمارے عظیم مجاہد و رہنما اویس ڈار بھائی کا استقبال بھی اسی انداز سے ہوا ہوگا۔انہی جیسے اہل ایمان کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن مجید کی یہ آیت یادآتی ہے کہ جس کا ترجمہ ہے ’’اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے عوض خرید لیے ہیں۔‘‘
اویس ڈار بھائی کے بارے میں اپنے احساسات کا اظہار کرنے کیلئے قلم اٹھایا ہے تو جہاں اس وقت میرے ذہن میںخیالات و جذبات کا اک طوفان بپا ہے۔سمجھ نہیں آتا کہ اس مجاہد انسان کی بارعب شخصیت کی تعریف کروں یا ان کے متبسم نورانی چہرے کی تصویر کشی کرو ں یا ان کی صلاحیتوں اور اخلاق کی خوبیاں بیان کروںیا ان کی جہادی خدمات کا تذکرہ کروں۔اویس بھائی حضور نبی کریم ﷺ کے ایک عاشق ،امتی اور جذبہ جہاد سے لبریز زندگی کے میدان میں طاغوت سے برسرپیکار ایک عظیم رہنما بھی تھے۔
نگاہ بلند سخن دل نواز جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کاروان کے لئے
وہ دلوں پر اپنے اخلاق اور عظیم کردار کے وہ انمٹ نقوش چھوڑ گئے کہ ان کا اثر نہ صرف مجاہدین پر تادیر محسوس کیا جائے گا بلکہ ہر دل میں بھی وہ طویل عرصے تک زندہ رہیںگے۔ اویس بھائی کی ایک نمایاں خوبی ان کا جذبہ جہاد تھا وہی جذبہ جہاد جو ایک مومن کا سب سے بڑا وصف اور اللہ اور اس کے دین سے محبت کا اظہار کا سب سے بہترین طریقہ ہے۔اویس بھائی کی رگوں میںجذبہ جہاد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔دشمن کی چال بازیاں ان سے ذرہ برابر بھی برداشت نہ ہوتیں۔اسلام امت مسلمہ پر جب بھی دشمن حملہ آور ہوا،اویس بھائی اس کے خلاف آواز اٹھاتے ۔اسلام اور مسلمانوں کی تذلیل یاشعائراللہ کی توہین پر انہوں نے ہر محاذ پر آواز بلند کی۔سخت مایوس کن حالات میں بھی اپنے رب کی رحمت سے پُر امید تھے نہ کبھی مایوسیوں نے انہیں گھیرا اورنہ کبھی دشمن کی طاقت سے خوفزدہ ہوئے۔نہ کبھی تھک کر ہار مانی بلکہ ان کے دل میں سخت مصائب ومشکلات کے دورمیں بھی امید کی ایک شمع روشن تھی اور اس شمع سے وہ اپنی ہر تقریر ،ہر تحریر میںملک و ملت کے مسلمانوں کوبھی مایوسی کی گھٹاٹوپ اندھیروں میں راہ دکھاتے نظر آئے۔اویس ڈار بھائی آرائش سے پاک رہے ،وہ ساتھیوں کو بھی اس بات کی تلقین کرتے کہ اس دارالفنا کے ساتھ دل لگانا اس کی رنگینیوں اور دلچسپیوں میں کھو جا نا مرد مومن کا شعار ہرگز نہیں ہے بلکہ مرد مومن تو زہد و قناعت کی زندگی گزارتا ہے کہ
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
مومن کی زندگی تو جد وجہد ،مشقت اور زہد وتقویٰ سے عبارت ہوتی ہے ،انہوں نے اپنے کارکنوں کو نہ صرف اس کا درس دیا بلکہ خود اس کا عملی نمونہ بن کر اپنا پیغام سب کے ذہنوں پر نقش کرگئے۔ اویس بھائی نے جہاد اور اقامت دین کے فریضے کی ادائیگی کو تمام نفلی عبادتوں میں اولیٰ سمجھا اور اقبال کی اس سوچ کو اپنا مقصد زندگی بنا لیا کہ
نہ مسجد میں نہ بیت اللہ کی دیواروں کے سائے میں
نماز عشق ادا ہوتی ہے تلواروں کے سائے میں
انہوں نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک دین اسلام کی دامے دِرمے قَدَمے سْخَنے خدمت کی اور ایک مجاہد کی طرح زہد وتقویٰ کی زندگی گزاری۔حضرت محمد ﷺ کے عاشق اور دین اسلام کے اس عظیم مجاہد کی اس جہان فانی سے رخصتی کے بعد ہماری ذمہ داری دوہری ہوجاتی ہے ۔ان کی وفات کے بعد ان کے مشن کو ہمیں لے کر چلنا ہوگا ۔ان جیسی اخلاق کو اپنانا ہوگا ۔ان کی مجاہدانہ زندگی اختیار کرنی ہوگی۔اس عظیم انسان کے جانے کے بعد ہم سب کو اپنی زندگیوں ،اپنی دلچسپیوں اور اپنی ترجیحات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔اپنے ہر عمل کو ایمان اور رضائے الٰہی کی کسوٹی پر پرکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ذمہ دین محمد ﷺ کی اشاعت اور اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام لانے کی جو عظیم ذمہ داری سونپی گئی ہے اس کے لئے ہم کس حد تک پرسرپیکار ہیں۔اس کٹھن ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے جس طرح حضرت محمد ﷺ نے کام کیا ،آپ ؐ کے ساتھیوں نے کیا ،اس وقت کے عظیم لوگوں نے کیا اور جس کیلئے اویس ڈاربھائی زندگی بھر سرگرم عمل رہے ،کیاہم بھی اس جذبے ،لگن اور اخلاص سے اس تندہی سے اپنافرض ادا کررہے ہیں؟
ہم جس انقلاب کی داعی ہیں وہ انقلاب ہمیں سب سے پہلے اپنی زندگی میں لانا ہوگا ،اپنی زندگی اپنی ترجیحات ،اپنے اخلاق،اپنے معاشرتی کردار کو ہمیں اسوئہ رسول ؐ کے سانچے میںڈھالنا ہوگا ،اور اس کے بعد اس انقلاب سے اپنے اہل خانہ کی زندگیوں کو بدلنا ہوگا ،کہ ہماری اولادیں ہمارے دست بازو بنیں ہمارے سینے نور قرآن سے منور ہوں اور ہمارے اخلاق قرآن اور سیرت محمدؐ سے مزین ہوںاور پھر جب ہم اپنی ذات اور اپنے اہل خانہ کو قرآن و حدیث پر چلنے ،ان کی سیرت کو اسوئہ حسنہ میںڈھالنے ان کی زندگیوں کو اسلامی طرز وتمدن پر روانہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو پھر اسلامی انقلاب ہماری دہلیز پر دستک دے گا۔اویس ڈار بھائی کے مشن کو لے کر چلنا ہوگا اویس ڈار بھائی کی رخصتی پر انہی کی طرح جذبہ جہاد سے بھر پور اخلاق حسنہ سے لیس ہوں ہزاروں اویس ڈار پیدا ہوں جو اس قوم کے دلوں میں امید کی شمع روشن کرکے انہیں مایوسیوں اور گوناگوں مسائل سے نکالیں اور اپنے یقین محکم اور عمل پیہم سے اس وطن و ملت کی تقدیر بدل دیں اور اس بگڑتے ہوئے معاشرہ کو گھر کی راہ دکھا کر نیک و صالح لوگوں کو امن و محبت اور سکون اور خوشحالیوں کا گہوارہ بنا دیں۔اللہ رب العزت کی بے پناہ رحمتیں ہوں اویس ڈار ؒ کے مرقد پر اور تمام مرحومین امت مسلمہ پر۔ اللھم اغفر لہ وارحمہ،وعافہ واعف عنہ
٭٭٭