غلام اللہ کیانی
بھارتی عدالت نے کشمیری حریت پسند رہنما اور لبریشن فرنٹ کے چیئر مین محمد یٰسین ملک کو دہشت گردی کی مالی معاونت کے کیس میں مجرم قرار دے کر دوہری سزائے عمر قید بامشقت سنا نے کے بعد انہیں بدنام زمانہ تہاڑ جیل کے”ڈیتھ سیل“میں منتقل کر دیا تاکہ انہیں بھی انصاف کے تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارتی عوام کے ضمیر کی تسکین کے لئے شہید محمد مقبول بٹ، محمد افضل گورو کی طرح بے دردی سے قتل کرنے کی راہ ہموار کی جائے۔بھارت کی جیلوں میں اس وقت قید 13ہزار کے قریب کشمیریوں کی جان کو سنگین خطرہ لاحق ہے کیوں کہ بھارت انہیں جدوجہد آزادی کی رہنمائی کرنے پر انتقام پر مبنی سزا دینے کی پالیسی پر گامزن ہے۔یاسین ملک پر اسی انتقام کی بنیاد پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون کے تحت الزامات عائدکئے گئے۔عدالت نے بھارتی تحقیقاتی ادارے (این آئی اے) کو کہا کہ ان کے مالی حالات کا جائزہ لیں تاکہ ان پر جرمانے کی رقم کا تعین کیا جاسکے۔جس کے بعد انہیں 10لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔

یاسین ملک کو بھارتی خصوصی عدالت نے یک طرفہ ٹرائل کرتے ہوئے دو مرتبہ عمر قید کے ساتھ دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا سناکر اپنی نا انصافی کی مثال قائم کی۔بھارت کی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی(این آئی اے) کی عدالت میں یٰسین ملک کو جب بھاری سکیورٹی میں پیش کیا گیا، جج پروین سنگھ نے فیصلہ پڑھ کر سنایا تو وہ کوئی جواز نہ دے سکے کہ یٰسین ملک کو انڈین پینل کوڈ کی سیکشن 121 (ریاست کے خلاف جنگ کو فروغ دینے) کے جرم میں عمر قیدکی سزا کیوں دے ہے ہیں۔عدالت یاسین ملک کے سوالات کا بھی جواب نہ دے سکی۔این آئی اے نے عدالت سے یٰسین ملک کو سزائے موت دینے کی درخواست کی تھی۔اس پر یٰسین ملک نے عدالت سے کہا،”میں یہاں کوئی بھیک نہیں مانگوں گا۔ آپ نے جو سزا دینی ہے دے دیجیے۔ لیکن میرے کچھ سوالات کا جواب دیجیے۔“ یٰسین ملک نے سوال اٹھائے،”اگر میں دہشت گرد تھا تو ملک(انڈیا) کے سات وزیراعظم مجھ سے ملنے کشمیر کیوں آتے رہے؟ اگر میں دہشت گرد تھا تو اس پورے کیس کے دوران میرے خلاف چارج شیٹ کیوں نہ فائل کی گئی؟اگر میں دہشت گرد تھا تو وزیراعظم واجپائی کے دور میں مجھے پاسپورٹ کیوں جاری ہوا؟اگر میں دہشت گرد تھا تو مجھے بھارت سمیت دیگر ملکوں میں اہم جگہوں پر لیکچر دینے کا موقع کیوں دیا گیا؟۔یاسین ملک پر2017 میں مقبوضہ کشمیر میں ’’دہشت گرد کارروائیوں، دہشت گردی کے لیے مالی وسائل فراہم کرنے، حملے اور وطن سے بغاوت جیسے الزامات عائد کیے گئے۔یٰسین ملک کو فروری 2019 میں سری نگر سے گرفتار کیا گیا اور تب سے ان کا پاکستان میں مقیم اہلیہ مشعال ملک اور 10 سالہ بیٹی رضیہ سلطانہ سے کوئی رابطہ نہیں۔ مارچ 2020 میں یٰسین ملک کی بہن کے ساتھ تہاڑ جیل میں ملاقات کروائی گئی۔ ان کی صحت کے حوالے سے تشویش ناک خبریں بھی آتی رہیں جن پر بھارت نے سرکاری سطح پر کوئی وضاحت نہیں دی۔
10 مئی کی عدالتی کاروائی کے دوران خصوصی عدالت نے انہیں ’مجرم‘ قرار دیتے ہوئے استغاثہ کو حکم دیا کہ ان کی جائیداد اور اثاثوں کا تخمینہ لگایا جائے تاکہ ان کی سزا کے ساتھ ساتھ جرمانے کا بھی تعین ہو سکے۔بھارت کے سرکاری میڈیا نے چند ہفتے قبل ایک دعویٰ کیا کہ یٰسین ملک نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے جرائم کا اعتراف کر لیا ہے۔ مگرمقدمے کے دوران یٰسین ملک نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں من گھڑت اور سیاسی عزائم پر مبنی قرار دیتے ہوئے ان پر احتجاج کیا۔
سزا سے قبل بھارتی کینگروعدالت نے یٰسین ملک کو ہدایت دی تھی کہ ایک حلف نامہ جمع کروائیں جس میں آمدن کے تمام ذرائع اور تمام اثاثے درج ہوں۔عدالت نے سزا کے تعین کے لیے 25 مئی کو دلائل سنے جب پاکستان میں عمران خان لانگ مارچ کے دوران اسلام آباد میں دھرنے پر بیٹھنے کے لئے رواں دواں تھے۔ یہ مارچ چھ روز کے الٹی میٹم کی زد میں آ کر ختم ہو گیا۔یٰسین ملک عدالت کو بتارہے تھے کہ وہ الزامات کا مقابلہ نہیں کر رہے ہیں، ان الزامات میں تعزیراتِ ہند کی دفعات 16 (اقدام دہشت گردی)، 17 (دہشت گردوں کی مالی معاونت)، 18 (دہشت گردانہ عمل کی سازش)، 20 (دہشت گرد تنظیم اور گینگ کی رکنیت) کی دفعات شامل کی گئیں۔عدالت کا کہناتھا کہ یٰسین ملک نے پوری دنیا میں ایک وسیع اسٹرکچر اور میکانزم تشکیل دیا ہے تاکہ جموں و کشمیر میں آزادی کی جدوجہدکے نام سے غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے مجاہدین کی مالی معاونت کی جاسکے۔عدالت نے دیگر کشمیری حریت پسند رہنماؤں پر بھی فردِ جرم عائد کی۔جن میں فاروق احمد ڈار عرف بٹا کراٹے، شبیر احمدشاہ، حریت کانفرنس کے محبوس چیئرمین مسرت عالم بٹ، حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین، آفتاب احمد شاہ، الطاف احمد شاہ، نعیم خان، محمد اکبر کھانڈے، معراج الدین کلوال، بشیر احمد بھٹ، ظہور احمد شاہ وٹالی، عبدالرشید شیخ اور نوال کیشور کپور شامل ہیں۔لشکرِ طیبہ (ایل ای ٹی) کے بانی پروفیسر حافظ سعید کے خلاف بھی چارج شیٹ دائر کی گئی جنہیں اس کیس میں اشتہاری مجرم قرار دیا گیا ہے۔
اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی نے اس سزا کی مذمت کرتے ہوئے بھارت سے کہا ہے کہ وہ کشمیری قیدیوں کو رہا کرے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو آزادانہ اور منصفانہ ریفرنڈم کے ذریعے اپنا مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے۔کشمیریوں پر منظم ظلم و ستم کو روکا جائے۔پاکستان نے بھارتی حکام کی طرف سے محمد یٰسین ملک کے خلاف من گھڑت الزامات عائد کرنے اور سزا کی مذمت کرتے ہوئے بھارتی سفارتی امور کے عہدیدار کو ایک ڈیمارش (احتجاجی مراسلہ) سونپا ہے۔دفتر خارجہ کی جانب سے مقامی کشمیری رہنماؤں کی آواز کو دبانے سے متعلق پاکستان کی تشویش کے حوالے سے بھارت کو آگاہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ دہلی نے انہیں من گھڑت محرکات میں پھنسانا شروع کر دیا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ کشمیری قیادت کے خلاف جھوٹے الزامات لگانے کے مذموم بھارتی حربے، ظلم و جبر اور دھمکیوں کا ماحول بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کے عوام کی آزادی کی جدوجہد کو ختم نہیں کر سکتا ہے۔ پاکستان نے بھارتی حکومت سے کہا کہ وہ یٰسین ملک کے خلاف تمام بے بنیاد الزامات واپس لے اور انہیں فوری طور پر رہا کرے تاکہ وہ اپنے خاندان سے دوبارہ مل سکے اور معمول کی زندگی میں واپس آ سکے۔پاکستان نے اقوام متحدہ، انسانی حقوق اور انسانی ہمدردی کی تنظیموں سمیت عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ بھارت کی جانب سے کشمیری رہنما کے ساتھ کئے جانے والے غیر انسانی سلوک کا فوری نوٹس لیں۔یاسین ملک کے خلاف بھارت کی عدلیہ نے یک طرفہ ٹرائل کیا۔ بھارتی عدالتیں کشمیریوں کو عدل و انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ اس لئے کشمیریوں کو بھارتی عدلیہ پر اعتماد نہیں رہا۔اس وجہ سے آزاد جموں کشمیر کے وزیر اعظم سردار تنویر الیاس نے بھارتی عدالت کوکینگرو کورٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ یٰسین ملک کے یکطرفہ ٹرائل کی مذمت کرتے ہیں۔ یٰسین ملک کو بدنام زمانہ نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی دائر دہشت گردی کے من گھڑت مقدمے میں جرم قبول کرنے پر مجبورکر رہی تھی۔
یٰسین ملک آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے انسان ہیں۔ آزادی کی جدوجہد کوئی جرم نہیں ہے۔ مگر بھارت اسے جرم تصور کرتا ہے۔ خدشہ تھا کہ بھارتی حکومت انہیں جھوٹے الزامات میں سزائے موت دے گی۔ جے کے ایل ایف کے ترجمان رفیق احمد ڈار نے کہا کہ یٰسین ملک کے منصفانہ ٹرائل سے انکار نریندر مودی کی زیر قیادت ہندوتوا حکومت کے کہنے پر ان کے خلاف سیاسی انتقام کا ایک اور واضح مظہر ہے جس کا مقصد بین الاقوامی سطح پر متنازع ریاست جموں و کشمیر کی آزادی کے لئے لوگوں کی سب سے طاقتور اور مقبول آواز کو خاموش کرنا ہے۔یٰسین ملک سیاسی قیدی اور تحریک آزادی کے پر عزم رہنما ہیں جو کشمیریوں کی آزادی کے منصفانہ مقصد کے لئے پرامن جدوجہد کی حمایت کر رہے ہیں۔ مہاتما گاندھی اورجواہر لعل نہرو نے برطانوی راج کے خلاف پر امن جدوجہد کی۔ بھگت سنگھ نے انگریزوں کے خلاف مسلح جدوجہد کی کمان کی۔ بھگت سنگھ کو بھارت ایک طرف ہیرو قرار دیتا ہے اور کشمیری آزادی پسندوں کو دہشتگرد قرار دے کر حقائق کی نفی کرتا ہے۔ سابق پاکستانی سفیر عبدالباسط نے کہا کہ یٰسین ملک کو مودی حکومت پھانسی دینے کے لیے جھوٹی بنیادیں تیار کر رہی ہے جیسا کہ مقبول بٹ اور افضل گورو کے معاملے میں کیا گیا۔ لبریشن فرنٹ نے اسلام آباد، نیویارک، لندن اور برسلز سمیت دنیا بھر میں میں ہندوستانی سفارت خانوں کے باہراحتجاج کیا۔ مودی سرکار کی ہدایت پر عدلیہ کے غیر منصفانہ حربوں کیخلاف احتجاجاً یاسین ملک نے ایک سال سے زائد عرصہ قبل اپنا وکیل صفائی واپس لے لیا تھا۔ یاسین ملک نے 10 مئی کو نئی دہلی کی خصوصی عدالت کے احاطے میں،شریک ملزمان کشمیری رہنماؤں اور ان کے وکلاء کی موجودگی میں سر عام بڑے فخر سے اعتراف کیا کہ وہ جموں وکشمیر کے عوام کے حق خودارادیت اور تحریک آزادی کی قیادت کر رہے ہیں جو مقامی یا بین الاقوامی قوانین کے خلاف ورزی نہیں ہے۔ یاسین ملک نے خصوصی عدالت کے جج کے سامنے اپنے بیان میں یہ بھی واضح کیا کہ اگر آزادی مانگنا جرم ہے تو وہ اسے بار بار دہرائیں گے اور اس کے نتائج کو بھی دل سے قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔یاسین ملک فخر سے نتائج کا سامنا کرنے کا انتخاب کیا لیکن بھارتی جابرانہ اقدامات کے سامنے نہیں جھکے۔ آزاد کشمیر کے رہنما بھی اس احتجاجی ریلی میں شریک ہوئے۔ مسلم لیگ (ن) پاکستان کے مرکزی رہنما صدیق الفاروق، آزاد جموں و کشمیر کے سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر، پی پی پی (اے جے کے) کے صدر چوہدری یاسین، پی ٹی آئی (اے جے کے) کے سیکرٹری اطلاعات ارشاد محمود، حریت کانفرنس کے سید فیض نقشبندی، شیخ عبدالمتین، سینئر رہنما محمود احمد ساگر، شیخ یعقوب، مسز شمیمہ شال، سابق امیر جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر عبدالرشید ترابی،منظور احمد شاہ، امتیاز احمد وانی، زاہد اشرف اور ایم شفیع ڈار نے بھی شرکت کی۔ احتجاجی ریلی میں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کی بڑی تعداد سمیت مسز یاسین ملک اور ان کی بیٹی رضیہ سلطانہ نے بھی شرکت کی۔ مظفر آباد میں تحریک آزادی میں انتہائی متحرک تنظیم پاسبان حریت کے زیر اہتمام احتجاج کیا گیا جس میں مہاجرین اور انصار نے شرکت کی۔ لندن، برطانیہ میں بھارتی ہائی کمیشن کے باہر ایک مشترکہ احتجاج کیا گیا۔ یورپی یونین کے دارالحکومت برسلز، بیلجیئم میں بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ گلگت پریس کلب کے باہر بھارت کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ عالمی برادری بالخصوص عالمی رہنماؤں اور عالمی اداروں جیسے کہ یو این او اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی گئی کہ وہ فوری طور پر مداخلت کرکے یاسین ملک اور بھارت کی جیلوں میں بند دیگر کشمیری رہنماؤں کی قیمتی جانیں بچائیں۔حکومت ہند کو بھی خبردار کیا گیاکہ اگر یاسین ملک کے ساتھ کچھ غلط ہوا تو سنگین اور خطرناک نتائج برآمد ہوں گے، جس کا ذمہ دار خود بھارت ہوگا۔ بھارت اور اس کی عدلیہ پر او آئی سی کی طرح عالمی برادری اخلاقی دباؤ ڈالے کہ وہ کشمیری آزادی پسندوں کے خلاف یک طرفہ ٹرائل اور ماورائے عدالت فیصلے کرنے کا سلسلہ بند کرے۔ بھارتی عدلیہ کا کشمیریوں کے ساتھ غیر منصفانہ اور انتقام پر مبنی رویہ ہے۔ اس لئے کشمیری بھارتی عدلیہ پر اعتماد نہیں کرتے۔کشمیری حریت پسندں کے خلاف بھارتی من گھڑت الزامات کا جائزہ لینے کے لئے انٹرنیشنل جوڈیشل ٹریبونل بنایا جائے، بھارتی ریاستی دہشتگردی کا بھی جائزہ لیا جائے تا کہ سچ اور جھوٹ میں تمیز ہو اور کشمیریوں کے ساتھ بھی انصاف ہو سکے۔
غلام اللہ کیانی مقبوضہ کشمیر کے معروف صحافی اور کالم نگار ہیں