
متین فکری
بطل حریت قائد کشمیر حضرت سید علی گیلانی علیہ الرحمہ کی بے مثال مجاہدانہ اور سرفروشانہ زندگی پر ایک خوبصورت ڈاکیومینٹری نظرنواز ہوئی۔یہ ادارہ کشمیر الیوم کی پیش کش ہے۔ماہنامہ کشمیرالیوم کے چیف ایڈیٹر شیخ محمد امین قابل مبارکباد ہیں کہ ان کی مساعی بار آور ثابت ہوئی ہے اور اس ڈاکیو مینٹری کو بڑے پیمانے پر سراہا جارہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ سید علی گیلانی اپنی زندگی ہی میں ایک کرشماتی شخصیت کا درجہ اختیار کرگئے تھے۔وہ بلا شبہ ایک غریب سید گھرانے میں پیدا ہوئے ان کے والد ایک ان پڑھ مزدور تھے لیکن انہیں اپنی اولاد کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا شوق تھا۔یہی شوق سید علی گیلانی کے لیے مہمیز ثابت ہوا وہ تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے آگے بڑھتے گئے اور قدرت انہیں جس کارِ خاص کے لیے تیار کرنا چاہتی تھی اس کی استعداد پیدا کرکے میدان کار زار میں جاکودے اور کم و بیش ستر سال تک بھارتی استعمار کے خلاف چومکھی لڑائی لڑتے رہے۔سیدؒکی صحت بلاشبہ بہت کمزور تھی دل کی حرکت کو ہموار رکھنے کے لیے پیس میکر لگا ہوا تھا،ایک گردہ اور پتّہ بھی جسم سے نکال دیا گیا تھا لیکن ان تمام کمزوریوں کے بعد ان کے عزم و حوصلے اور صبر و ثبات میں کبھی لغزش پیدا نہیں ہوئی انہوں نے ظلم و جبر کے مقابلے میں کبھی کم ہمتی یا بزدلی نہیں دکھائی اور پوری جوانمردی سے دشمن کی آنکھیوں میں آنکھیں ڈالے ڈٹے رہے۔
ڈاکیو مینٹری میں جن صحافیوں،دانشوروں اور تحریک آزادی کے اکابرین نے اظہار خیال کیا ہے ان سب کی متفقہ رائے یہ ہے کہ گیلانی صاحب نے اپنی پُر عزم اور لازوال جدوجہد سے تحریک آزادی کشمیر میں ایک نئی روح پھونک دی تھی،یہ روح اب بھی جاری و ساری ہے بلا شبہ سید علی گیلانی جسمانی طور پر ہم میں نہیں ہیں لیکن روحانی طور پر وہ اب بھی اس تحریک کی قیادت کررہے ہیں۔ ان کا قول اور عمل دونوں اہل کشمیر کے لیے مشعل راہ اور اہل کشمیر ان سے اپنے لیے توانائی حاصل کررہے ہیں، انہیں یقین ہے کہ سید علی گیلانی نے جو جد وجہد شروع کی تھی وہ ضرور برگ و بار لائے گی اور کشمیر میں آزادی کا سورج طلوع ہوکر رہے گا۔
ڈاکیو مینٹری میں صرف پاکستان اور آزاد کشمیر کے صحافیوں،دانشوروں اور اکابرین تحریک کی آراء شامل نہیں، اس میں مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں اور اہل علم کی رائے سے بھی استفادہ کیا گیا ہے اور جو لوگ دستیاب تھے انہیں اس دستاویزی فلم میں جگہ دی گئی ہے جبکہ امریکا سے ڈاکٹر غلام نبی فائی بھی مکالمے میں شریک ہیں۔ان سب نے بھارت کے اس گمراہ کن پروپیگنڈے کی سختی سے تردید کی ہے کہ گیلانی صاحب ایک شدت پسند لیڈر تھے وہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل نہیں چاہتے تھے۔ان سب لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ گیلانی صاحب ایک سیاسی مدبر تھے وہ مذاکرات سے کیسے انکار کرسکتے تھے البتہ وہ چاہتے تھے کہ مذاکرات کا کوئی پیرامیٹر ہونا چاہیے،بے مقصد اور لایعنی مذاکرات کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہے لیکن بھارت نے کبھی بامقصد مذاکرات کی حامی نہیں بھری وہ مذاکرات کے لیے بنیادی شرط پوری کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہوا۔ وہ بنیادی شرط یہ تھی کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہنا ترک کردے۔ظاہر ہے کہ ”اٹوٹ انگ“پر تو مذاکرات نہیں ہوسکتے تھے چنانچہ جب کشمیری نوجوانوں نے ”تنگ آمد بجنگ آمد“کے مصداق دشمن کے خلاف بندوق اٹھالی اور عسکری جد وجہد کا آغاز کیا تو ہم دیکھتے ہیں کہ گیلانی صاحب نے اس کی پُر جوش حمایت کا اعلان کیا ان کا موقف یہ تھا کہ بھارت نے پُر امن جد وجہد کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرکے اور اپنی وعدہ خلافیوں کے ذریعے نوجوانوں کو بندوق اٹھانے پر مجبور کیا۔انہوں نے جب عسکری جدوجہد کی حمایت تو اپنی مادر جماعت،جماعت اسلامی سے اپنا راستہ الگ کرلیااور ایک مفاہمت کے نتیجے میں جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیارکرکے آل پارٹیز حریت کانفرنس کی بنیاد رکھی جسے بجا طور پر کشمیری مجاہدین کا سیا سی محاذ کہا جاسکتا تھا۔اس محاذ کے ذریعے گیلانی صاحب بھارت اور پاکستان کی حکمران قیادت پر جو دباؤ ڈال سکتے تھے اس میں انہوں نے کوئی کوتاہی نہیں کی۔ڈاکیومینٹری میں جن دانشوروں اور اکابرین نے اس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے انہوں نے بجا طور پر یہ رائے دی ہے کہ گیلانی صاحب عسکری دباؤ کے ذریعے بھارت کو بامقصد مذاکرات کی میز پر لانا چاہتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ محض طاقت کے ذریعے یا میدان جنگ میں کسی مسئلے کا حل تلاش نہیں کیا جاسکتا اس کے لیے بہر کیف فریقین کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑتا ہے اس کی تازہ مثال امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات سے دی جاسکتی ہے جس کے نتیجے افغانستان سے امریکا کا انخلاء عمل میں آیا لیکن افسوس کشمیر کے معاملے میں مذاکرات کا یہ ماحول نہ بن سکا۔اس میں جہاں بین الاقوامی سازشیں کار فرما رہیں وہیں اپنوں کی کوتاہیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔سید علی گیلانی باربار ان کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے رہے۔تاہم ڈاکیومینٹری اس حوالے سے خاموش ہے۔


سید علی گیلانی کی وفات پر ان کا ایک ویڈیو کلپ بہت وائرل ہوا تھا جس میں وہ کشمیریوں کے ایک مجمع میں بڑے ردھم کے ساتھ یہ نعرہ لگا رہے ہیں ”ہم پاکستانی ہیں،پاکستان ہمارا ہے“پورا مجمع بھی اس نعرے میں ان کے ساتھ شریک ہے۔یہ ویڈیو کلپ گیلانی صاحب کی پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت کا اظہار تھا اور اسے ڈاکیو مینٹری میں شامل ہونا چاہیے تھا لیکن راقم الحروف کو یہ کلپ نظر نہیں آیا۔پاکستان گیلانی صاحب کے دل میں بستاتھا وہ پاکستانیوں سے بڑھ کر پاکستانی،سچے اور کھرے پاکستانی تھے لیکن جب جنرل پرویز مشرف کے دور میں سرینگر تا مظفر آباد دوستی بس کا اجراء ہوا اور پہلی بس میں مقبوضہ کشمیر سے تمام تر کوششوں کے باوجود گیلانی صاحب مظفر آباد کیوں نہیں آئے؟اس پر کسی صاحب رائے نے روشنی نہیں ڈالی حالانکہ ڈاکیو مینٹری سے اس کا جواب ملنا چاہیے تھا۔ڈاکیومینٹری میں بعض صحافیوں کو غیر معمولی پروجیکشن دی گئی ہے حالانکہ اصل پروجیکشن صرف گیلانی صاحب کی ہونی چاہیے تھی۔بہر کیف بعض تسامحات کے باوجود ڈاکیو مینٹری گیلانی صاحب پر ایک اچھی دستاویز ہے اور بلا شبہ اس سے آزادی کی تحریک کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔
٭٭٭