مرکزی نائب امیر جماعت اسلامی گلگت بلتستان

شیخ محمد امین

سیدمودودی ؒ نے سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اپنے کارکنوں کی تربیت کی

تحریک آزادی کشمیر۔۔۔۔پہلے دوست بہت زیادہ نظر آرہے تھے۔اب دشمن زیادہ نظر آرہے ہیں

اس تحریک کو مجاہدین صف شکن نے اپنے پاک لہو سے سینچا ہے۔ اس تحریک کو کوئی ختم نہیں کرسکتا

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ا مام گیلانی ؒنے اپنی زندگی میں ہی اپنے لاکھوں جانشین تیار کئے تھے

امان اللہ خان ؒ کا اول بھی اور آخر بھی کشمیرتھا

کشمیر ہی آزاد نہیں ہوگا بلکہ کشمیر کی آزادی پوری دنیا کے غلاموں کی آزادی کا باعث بھی بنے گی

جناب محمد مشتاق خان صاحب ڈوئیاں استور میں جنوری 1955ء میں پیدا ہوئے۔گاوں کے سکول میں اول جماعت کا امتحان پاس کیا۔ان کے والدین اسی دوران بونجی منتقل ہوئے۔اس طرح پرائمیری کی تعلیم بونجی میں مکمل کی ۔ چھٹی جماعت گلگت اور پھر بقیہ تعلیم میٹرک اور ایف ایس سی اسلامیہ کالج پشاور سے 1974 میں مکمل کیا۔ گریجویشن، پوسٹ گریجویشن اور ایل ایل بی کیلئے 1975 میں کراچی یونیورسٹی جانا پڑا یوں ان کا یہ دنیاوی تعلیمی سفر تقریباً مکمل ہوا ۔1981 – 82 میں دوران تعلیم پشاور سے ہی اسلامی جمعیت طلبہ سے متعارف ہوئے۔ کراچی یونیورسٹی میں سٹوڈنٹس پالیٹکس میں سرگرم کردار ادا کیا۔اس دوران اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن بھی بنے ۔

ا1986میں جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر کی رکنیت حاصل کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔1992تا1999تک گلگت بلتستان کی آزادی کے ہیرو اور مجاہد مولانا عبدالمنان دامت برکاتہم کی امارت میں سرگرم عمل رہے امیر ضلع گلگت کی حیثیت سے 6 برس اور پھر گلگت بلتستان کے سکریٹری جنرل کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں بہ حسن خوبی انجام دیتے رہے ۔ 2000ء میں امیر جماعت اسلامی گلگت بلتستان منتخب ہوئے ۔یہ ذمہ داری 2000ء تا 2009 اور 2015ء تا 2019 ء تک نبھاتے رہے۔ اس عرصے کے دوران 2015 میں 6ماہ تک گلگت بلتستان کے بحیثیت نگران وزیر قانون اور پارلیمانی امور بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ جماعت اسلامی آزاد جموں کشمیر وگلگت بلتستان کے نائب امیرجماعت کی حیثیت سے بھی ایک طویل عرصے سے ذمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں ۔آج کل جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر گلگت بلتستان کے مرکزی نائب امیر ہیں ۔ 1990 میں مجاہدین و مہاجرین کشمیر کی آمد کے موقع پر مرکزی شوریٰ کے رکن اور گلگت بلتستان کے ذمہ دار کی حیثیت سے راولپنڈی، آزاد کشمیر کے کیمپوں اور گلگت بلتستان میں مہاجرین و متاثرین کشمیر کی خدمت کیلئے شب وروز مصروف عمل رہے ۔ الحمدللہ گلگت بلتستان کو عملی طور پر آزادی کشمیر کا بیس کیمپ بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔امیر محترم کو گلگت بلتستان کی تمام دینی ،تحریکی و سیاسی شخصیات عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔آر پار کی کشمیری قیادت اور کارکناں بلا کسی تفریق کے ان کے مدبرانہ اور مجاہدانہ کردار کی تعریف کرتے نظر آرہے ہیں۔ متحرک اور مخلص رہنما ہیں ۔مقبوضہ کشمیر کے عوام کی تکالیف اور مظلومیت کا درد ان کی گفتگو سے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے ۔دورہ گلگت بلتستان کے موقع پر ان سے ملاقات کرنے کا موقع ملا۔ رابط کرنے پر انہوں نے اپنے گھر بلایا۔اپنے نمائندے عبد الہادی بونجوی کی معیت میں ہم(راقم ،عارف جان اور شجر خان) ان کے گھر پہنچے ۔جناب نعمت اللہ خان صاحب کی طرح یہاں بھی ایک کشمیری انداز کی مہمان نوازی دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملا۔بہت ہی جذباتی ماحول اس وقت مجھے محسوس ہوا اور میری آنکھیں نم بھی ہوئیں جب امیر محترم نے ایسا بے تکلفانہ انداز اختیار کیا ،جس سے لگا کہ جیسے ہم بہت پہلے سے انہیں جانتے تھے اور کافی عرصے تک ان کے ساتھ رہ کر آج طویل وقفے کے بعد ان سے ملے ہیں ۔حالانکہ یہ ہماری ان کے ساتھ پہلی ملاقات تھی ۔کشمیریت اسی کا نام ہے ۔اللہ تعالی پیار و محبت کی ان روایات کو ہمیشہ قائم و دائم رکھیں ۔ ان کے ساتھ ہوئی گفتگو قارئین کی نذر۔۔۔۔۔۔۔۔(شیخ محمد امین، اویس بلال)

سوال :امیر محترم !آپ جماعت اسلامی میں کب شامل ہوئے ۔مولانا مودودی ؒسے کبھی ملاقات ہوئی ۔تب کی جماعت اور آج کی جماعت میں کوئی واضح فرق محسوس کررہے ہیں ؟

جواب:82ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کا رکن بنا۔1986 میں جماعت کی رکنیت کا اعزاز حاصل ہوا۔براہ راست مولانا مودودی ؒ سے ملاقات نہیں ہوئی۔ ہمارے یہاں کے بانی امیر مولانا عبدالمنان صاحب دامت برکاتہم مولانا مودودی ؒ کی عصری مجالس میں شریک ہوتے تھے۔ان کی امارت کے سائے میں مجھے کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے ۔سیدمودودی ؒکے دور کے لوگ محنتی تھے تحریکی کام زور وشور سے بڑی محنت ا و رلگن سے کرتے تھے، ان کے لٹریچر نے ایک انقلاب بپا کیا۔سید مودودی ؒ کو اس دور میں یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ جب مذہب کو محض چند عبادات اور رسومات تک محدود کرنے کی کوششیں عروج پر تھیں تو انہی حالات میں سید ؒ نے دلائل اور حقائق کی بنیاد پر یہ ثابت کیا کہ دین اسلام مکمل نظام حیات ہے اور اسے صرف محض چند عبادات تک محدود نہیں کیا جاسکتا ۔سید مودودی ؒ نے اس نظام کو قائم کرنے کی ہر ممکنہ جدوجہد خود بھی کی اور اپنے کارکنوں اور ہمنوائوں کو بھی اس کی تلقین کی ۔سید نے یہ بھی واضح کردیا کہ ہمارا کام صرف جدوجہد کرنا ہے قائم ہونا یا نہ ہونا یہ اللہ کی مشیت ہوتی ہے۔ کل قیامت میںہم سے صرف یہ پوچھا جائیگا کہ ہم نے اس نظام کو قائم کرنے میں کتنا کردار ادا کیا۔مولانا مودودی ؒ کے دور کے کارکناں بھی عظمت و عزیمت کی علا متیں تھیں ۔ ہمارے اپنے مولانا عبدالمنان دامت برکاتہم جن کی عمر اس وقت 98 برس ہے ضعیف العمری میں بھی تحریک کے ساتھ پر جوش وابستگی اس وقت بھی نظر آرہی ہے ۔ان کی آنکھوں کی بینائی متاثر ہے لیکن ترجمان القرآن اور دیگر جرائد کا مطالعہ بینائی متاثر ہونے کے باوجود بھی کرتے ہیں ۔ساتھیوں ،دوستوں سے پڑھواکر سنتے ہیں ۔ہفتہ وار اجتماعات میں ہر حال میں شامل ہوتے ہیں ۔انہیں دیکھ کر ہر کارکن عش عش کر اٹھتا ہے۔مولانا مودودی ؒ نے سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اپنے کارکنوں کی تربیت کی تھی اور وہ دور سے نظر بھی آرہا ہے کہ وہ کارکن کندن تھے مولانا عبد المنان دامت برکاتہم کی مثال میرے کیا ہم سب کے سامنے ہے۔۔آج گو کہ سید کی براہ راست رفاقت نہیں ہے،لیکن ان کا لٹریچر موجود ہے۔ کارکنوں کے معیار میں کمی آئی ہے لیکن ایسا ہوتا رہتا ہے۔تغیر و تبدل کے اثرات پڑتے ہیں ۔پھر بھی الحمد للہ معاملات زیادہ خراب بھی نہیں ہیں ۔کارکنوں کی تربیت کیلئے ہر ممکنہ طریقہ کار اختیار کیا جارہا ہے۔

سوال :طویل عرصے سے جماعت اسلامی پاکستان اقامت دین کیلئے جدوجہد کررہی ہیں لیکن۔۔۔

جواب:بقول سید مودودی ؒ (مفہوم عرض کررہا ہوں )جب ہم اقامت دین کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ہمارا مطلب مسجدوں میں دین قائم کرنا یا چند مذہبی عقائد اور اخلاقی احکام کی تبلیغ کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ گھر اور مسجد سے لے کر ہائی کورٹ ،پارلیمنٹ ہاوس تک ،سب جگہ پر اسی ایک خدا کا دین قائم ہوجائے ،جسے ہم اپنا رب اور معبود تسلیم کرتے ہیں ۔آگے مولانا فرماتے ہیں مسلمان دریا کے بہاو پر بہنے کیلئے پیدا نہیں کیا گیا ۔مسلمان دریا کا بہاو موڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ میرے لئے اقامت دین کی جدوجہد عین مقصد زندگی ہے ۔میرا مرنا اور جینا اسی کیلئے ہے ۔کوئی اس راہ پر چلنے کیلئے تیار ہوجائے یا نہ ہوجائے مجھے تو چلنا ہے ۔کوئی آگے بڑھے یا نہ بڑھے میں بڑھوں گا۔کوئی ساتھ دے نہ دے میں اکیلا چلوں گا۔ساری دنیا متحد ہوکر مخالفت کرے تو مجھے تن تنہا اس سے لڑنے میں کوئی انکار نہیں ۔حق حق ہے اور باطل باطل ۔پوری دنیا باطل کو ہی حق سمجھے ۔میں اکیلا ہی اسے باطل کہہ دوں گا۔نتائج کی پرواہ کئے بغیر ۔اس لئے شیخ صاحب جس قائد نے ہمیں اس تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دی ،ہم نے بلکل اسی حقیقت کو سامنے رکھ کر اس جدوجہد میں حصہ ڈالا اور ڈال رہے ہیں ،ہمارے لئے کا میابی اور ناکامی کا معیار مختلف ہے ۔ہمارا کام ہے اللہ کی رضا کیلئے جدوجہد کرنا۔۔۔ کامیابی اور کامرانی اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ سیدناامام حسینؓ بظاہر ناکام ہوئے لیکن حالات و واقعات یہ ثابت کررہے ہیں کہ وہی کامیاب ہوئے۔اس لئے مجھے پختہ یقین ہے کہ ہم کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور ہم کامیاب ہیں ۔الحمد للہ

سوال :تحریک آزادی کشمیر کہاں کھڑی ہے ؟

جواب: جاری ہے اور جاری رہے گی ۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پہلے دوست بہت زیادہ نظر آرہے تھے۔اب دشمن زیادہ نظر آرہے ہیں ۔9/11کی آڑ میںعالم کفر ایک ہی صف میں کھڑا ہوا۔ہم امت مسلمہ منتشر حالت میں ہیں بلکہ خوف ودہشت کے نتیجے میں انہی کی صف میں بھی جاکے بیٹھ بھی گئے ہیں۔اس لئے یہ تحریک کافی حد تک کمزور ہوئی تاہم تحریکات میں نشیب و فراز کے ایسے ادوار آتے رہتے ہیں ،ان شا ء اللہ یہی تحریک دیر سویر ضرور کامیابی سے ہمکنار ہوگی ۔ مجھے یاد ہے وہ دور۔1990 کی بات کررہا ہوں۔ جب مجاہدین کا آنا جانا تھا۔ریل پیل تھی،ایک تعلق تھا جوش و جذبہ تھا۔پرویزمشرف نے وہ سلسلہ ختم کروایا ۔آرپار عوامی رابطوں میں کمی آئی،جو گہرا تعلق تھا اس میں بھی بریک جیسی لگی۔ کمی آئی ۔ اس دوران ہمارے پاکستانی حکمرانوں نے بہت یو ٹرن لیے ، لیکن یہ بھی ایک عیاں حقیقت ہے کہ اس تحریک کو مجاہدین صف شکن نے اپنے پاک لہو سے سینچا ہے اس لئے اس تحریک کو کوئی بھی شخص ختم نہیں کرسکتا ۔

سوال :اس تحریک کی کامیابی کیلئے گلگت بلتستان کی قیادت اور عوام کیا کردار ادا کررہی ہے ۔

جواب :ہم جانتے ہیں کہ ایک بڑی طاقت کے خلاف کشمیری جدوجہد کررہے ہیں اور گلگت بلتستان کے عوام اس جدوجہد کو قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،اسے اپنی جدوجہد سمجھتے ہیں۔گلگت بلتستان چونکہ جموںو کشمیر ہی ہے اس لئے ہم اسے آزادی کا بیس کیمپ سمجھتے ہیں ۔اس سوچ میں یہاں پورے گلگت بلتستان میں آپ کو سیاسی یا تحریکی حلقوں میں دو رائے نظر نہیں آئیگی۔ جماعت اسلامی گلگت بلتستان سیاسی،سفارتی و قلمی سطح پر کشمیری عوام کی جدوجہد میں برابر شریک ہے۔ میرے اپنے خاندان کا اس تحریک میں براہ راست کردار ہے ،شاید آپ کو معلوم نہیں ہوگا مرحوم امان اللہ خان ننھیال کی طرف سے میرے قریبی رشتہ دار تھے۔ میری والدہ محترمہ کے چچا زاد بھائی تھے،امان اللہ خان کو بچپن سے ہی بہت قریب سے دیکھا، تحریک آزادی کشمیر میں یہاں سے جنہوں نے حصہ لیا جدوجہد کی ۔ان میں امان اللہ خانؒ سر فہرست ہیں۔مرحوم امان اللہ خانؒ کا تعلق استور سے ہے۔ بچپن سے لے کر آخری سانس تک تحریک کے ساتھ جڑے رہے۔مرحوم اصول پرست اور اپنے موقف پر ڈٹنے والے تھے،نظریاتی اختلاف تھا ان سے،مگر وہ اصول پرست راہنما تھے،ہمارے ساتھ جب بیٹھتے تھے تو ان کا پدرانہ اور مشفقانہ سلوک دیکھنے کے قابل ہوتا تھا۔ان کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔کشمیر کی آزادی کیلئے انہوں نے بہت کام کیے،کشمیر کی آزادی کیلئے ان کا اول بھی کشمیر تھا اور آخر بھی کشمیر تھا۔امام سید علی گیلانیؒکے بعد میں امان اللہ خان ؒ کو ہی اعلیٰ کشمیری رہنما سمجھتا ہوں۔ان کی جدو جہد بے مثال تھی ان سے بہت سارے اختلاف کے باوجو یہ کہنے میں مجھے کوئی باک محسوس نہیں کہ انہوں نے آزادی کشمیر کے حوالے سے مختلف النظریات لوگوں کو اکٹھا کیا اور جدوجہد کرنے کے گر سکھائے۔ہم گلگت بلتستان کو ریاست جموں و کشمیر کا اٹوٹ حصہ سمجھتے ہیں اور ہم اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق ریاست کا فیصلہ چاہتے ہیں ۔پاکستان کشمیری عوام کو استصواب دینے میں نہ کبھی رکاوٹ تھا نہ ہے ۔یہ بھارت ہے جو طاقت کے بل پر ریاست کے ایک حصے پر قابض ہے ۔

سوال:ایک فریق کی حیثیت سے پاکستان کا کیا کردار ہے؟

مختصر جواب دوں گا ۔حکمرانوں کو کشمیری عوام کے حوالے سے جو کچھ کرنا چاہیے تھا نہ کرسکے نہ کررہے ہیں۔اللہ تعالیٰ اس مملکت کو ایسی قیادت فراہم کرے جو وہ کردار ادا کر سکے،جس کی ہم کشمیری تمنا اور امید رکھتے ہیں ۔جس رہنما کی صحیح سمت نہ ہو وہ کامیاب نہیں ہوسکتا ہے۔قیادت کی تبدیلی سب سے زیادہ ضروری ہے۔

سوال :کیا کشمیری مہاجرین کی صورتحال سے آپ واقف ہیں ؟کیا موجودہ صورتحال میں کوئی قائدانہ کردار ادا کرنا ضروری سمجھتے ہیں؟

جواب: مہاجرین کشمیر ہمارے بھائی ہیں ، ہمارے مہمان ہیں ۔جماعت نے ہمیشہ حتی الوسعٰی ان کے مسائل کو کسی حد تک کم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ الخدمت فاؤنڈیشن اپنا کردار ضرور نبھاتا ہوگا۔مجھے احساس ہے کہ موجودہ گراں بازاری کے نتیجے میں ہمارے بھائی سخت مسائل کے شکار ہوئے ہونگے ۔ان حالات میں ہر صاحب ثروت کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ میں خود اپنی جماعت میں اس پر بات کروں گا۔ان شا ء اللہ اپنا کردار ادا کریں گے۔میری خواہش ہے کہ گلگت بلتستان میں بھی ہم ایسا set up قائم کرسکیں تاکہ ہم یہاں بھی مہاجرین کشمیر کی امداد اور تعاون کرکے ثواب میں شریک ہو سکیں۔الخدمت فاونڈیشن کے ذمہ داروں کے ساتھ بھی مہاجرین کے مسائل پر بات کروں گا۔ان شا ء اللہ بہتر ہی ہوگا۔

سوال :امام سید علی گیلانیؒ کی جدائی کے بعد بعض لوگ دعویٰ کررہے ہیں کہ تحریک آزادی کشمیر اب آخری سانسیں لے رہی ہے ۔ امیر محترم آپ کی کیا رائے ہے ؟

جواب:سید علی گیلانی ؒ کی آواز سنتے ہی دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ ا نہوں نے تحریک اسلامی اور تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے جو کام کئے ہیں وہ رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔سیدعلی گیلانیؒ اس دور کے عظیم رہنما ہیں ان سے براہ راست ملاقات نہیں ہوئی، لیکن انکی تقاریر وگفتگو سن کر ہمارے جذبوں میں اصافہ ہوتا تھا۔کشمیر کی آزادی کیلئے سید علی گیلانیؒنے جو کچھ بھی کہا ہے کیا ہے وہ منفرد ہے،لازوال ہے۔انہیں زیر حراست شہید کیا گیا۔ان کے جنازے کو دیکھ کر امام حسن البناؒء یاد آئے ۔امام حسن البنا ؒ کے جنازے میں صرف گھر کے چند افراد کو جنازے میں شامل ہونے دیاگیااور یہاں سید گیلانی ؒ کے جنازے میںگھر والوں کو بھی جنازے میں شرکت سے زبر دستی روکا گیا ۔کچھ مقامی لوگوں کو کڑے فوجی پہرے میں ان کا جنازہ ادا کرنے دیاگیا امام حسن البناءؒ کی تحریک بھی جاری ہے ان شا ء اللہ امام سید علی گیلانیؒ کی تحریک بھی جاری رہے گی ۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سید گیلانی ؒنے اپنی زندگی میں ہی اپنے لاکھوں جانشین تیار کئے تھے ۔وہ اس تحریک کو کامیاب کرانے اور حصول منزل تک جاری رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتے رہینگے۔ان شا ء اللہ

سوال :کیا آپ کو یقین ہے کہ کشمیر آزاد ہوگا۔

جواب :سو فیصد یقین ہے ۔کشمیر ہی آزاد نہیں ہوگا بلکہ کشمیر کی آزادی پوری دنیا کے غلاموں کی آزادی کا باعث بھی بنے گی۔

سوال:کشمیر الیوم کے قارئین کیلئے کوئی پیغام

جواب:تحریک آزادی کشمیر کا ترجمان جریدہ ہے ،اور الحمد للہ ترجمانی کا بھر پور حق ادا کررہا ہے ۔اس سلسلے میں اس جریدے سے وابستہ افراد داد تحسین کے مستحق ہیں ۔جریدے کو ہر خاص و عام تک پہنچانے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے ۔ان شا ء اللہ اس حوالے سے گلگت بلتستان کے پہلے سے موجود قارئین بھی اپنا
کردار ادا کریں گے ۔

٭٭٭