مسئلہ کشمیر،عالمی سوداگر اور مقبول بٹ

شہزاد منیر احمد

آزادی کشمیر کی جنگ اب اس عمر و حال کو پہنچ چکی ھے کہ آج نوجوان نسل پوچھتی ہے کہ مسلہ کشمیر ہے کیا۔ سنجیدہ اور ادھیڑ عمر کے لوگ سوال کرتے ہیں کہ مسلہ کشمیر اتنا پرانا مقدمہ ہے اقوام متحدہ اسے آخر حل کیوں نہیں کراتا۔ سوال دونوں ہی اہم، چبھتے اور دکھی کرنے والے ہیں۔ تاریخ عالم جواب دیتی ہے۔

مسائل تب حل ہوے ہیں اگر انہیں انصاف کے مسلمہ قوائد و ضوابط کے تحت سنا اور فیصلہ کیا جائے تو۔
ہندوستان پر قابض برطانوی حکومت کا، ہندوستان کی محکوم دونوں بڑی سیاسی جماعتوں، آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ 15 اگست 1947 کو ہندوستان کو دو آزاد ریاستوں، پاکستان اور انڈیا میں تقسیم کر کے برطانوی لوگ واپس انگلینڈ چلے جائیں گے۔ انگریزوں کی قابض حکومت ختم کر دی جائے گی۔۔ہندوستان میں 1947 میں کم و بیش 637 چھوٹی چھوٹی ریاستیں بشمول خود مختاری و خصوصی اہمیت کی حامل ریاست جموں و کشمیر موجود تھیں۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد ان ریاستوں کو مذکورہ بالا۔معاہدے کے مطابق یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ ہندوستان یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ریاست کے ساتھ الحاق کر سکیں گے۔ وہ مرحلہ بھی سوائے ریاست جونا گڑھ اور کخمیر کے حل ہو گیا۔
کشمیر کا البتہ پاکستان کے بننے کے ساتھ ہی پیدا ہو گیا تھا جب ہندوستان نے، ” معاہدہ تقسیم ہندوستان، ” کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر میں اپنی فوجیں اتار دیں۔۔حالانکہ 19 جولائی 1947 کو کشمیری عوام کی نمائندہ مسلم کانفرنس پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد بھی پاس کر چکی تھی۔
برطانوی مورخ فلپ ڈیگلر اپنی کتاب ماونٹ بیٹن میں لکھتا ہے۔:-
اگر ماؤنٹ بیٹن اپنے وزیر اعظم نہرو کے ریاست کشمیر کے بارے بنائے ہوئے ذہن اور ارادوں کے کی گہرائی اور نتائج پر کچھ غور کر لیتا تو وہ ایسا نہ کرتا۔ لیکن اس کے کاموں سے دکھائی دے رہا تھا کہ وہ ہندوستان کی اس حد تک مدد کرنا چاہتا تھا کہ وہ کشمیر کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھ سکیں۔ ماؤنٹ بیٹن نے زور دیا تھا کہ ہندوستان کی مدد سے پہلے کشمیر کو ہندوستان سے پہلے الحاق کر لینا چاہیے تھا۔اس مقصد کے لیے 25 اکتوبر 1947 کو وی پی مینن کو مہاراجہ کے پاس الٹی میٹم دیکر بھیجا کہ فوری الحاق کرو۔ ریسکیو کی کاروائیاں چند گھنٹوں میں ہوں گے۔ ہچکچاہٹ کی صورت میں سب کچھ ضائع ہو جائے گا۔
وی پی مینن کو کشمیر کے خوف زدہ مہاراجہ سے دستخط لینے میں کوئی دقت پیش نہ آئی اور وہ شام 26 اکتوبر کو وآپس دہلی پہنچ گیا۔ 27 اکتوبر کو ہندوستانی افواج کشمیر میں داخل ہو گئیں۔
انہیں حالات میں تاریخ یہ بھی کہتی سنی جاتی ہے۔ شیخ عبداللہ کھلم کھلا بھارت کے حق میں تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے شیخ عبداللہ کو بہت سمجھایا کہ آپ ہندو ذہنیت اور فلسفہ سیاست سے ناواقف ہیں۔ میں نے ان میں رہ کر ان کی سیاست کی اور سمجھا ہے کہ وہ کسی صورت بھی قابلِ بھروسہ لوگ نہیں ہیں۔ شیخ عبداللہ نہ مانے۔

پاکستان بننے کے بعد بھی قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے سیکرٹری، کے ایچ خورشید کو ایک پیغام دے کر شیخ عبداللہ کے پاس بھیجا۔ شیخ عبداللہ نے بجائے خورشید حسن کی کوئی مدد کرنے کے اسے پاکستان کا جاسوس کہتے ہوئے ہندستان گورنمنٹ سے گرفتار کرا کر 18 ماہ تک جیل میں رکھا۔ یہاں تک کہ کے ایچ خورشید قائد اعظم (جنہوں نے خورشید کو بچپن سے گھر میں رکھ کر پالا تھا) کے جنازے میں بھی شرکت نہ کر سکے۔ آج تک شیخ عبداللہ کی غلطی کی سزا کشمیری بھگت رہے ہیں۔
کشمیر میں آزادی کی غیر منظم تحریکیں شروع ہو گئیں۔کچھ کشمیری لیڈر ہتھیاروں کی فراہمی اور مد لینے پاکستان آئے۔جنرل محمد اکبر خان تب جی ایچ کیو میں اسلحہ و بارود کا انچارج تھا۔ ان کی ملاقات اتفاقاً سردار محمد ابرہیم سے ہو گئی، جو اس وقت از خود ایک تحریک آزادی چلا رہے تھے۔ انہوں نے جنرل اکبر کو بتایا کہ پونچھ کے علاقے میں بے شمار ریٹائرڈ فوجی کشمیری موجود ہیں اور تحریک آزادی میں شامل ہونے کو تیار ہیں۔ اسی دوران جنرل اکبر کی ملاقات مسلم لیگ کے لیڈر میاں افتخار الدین سے بھی ہوئی۔میاں صاحب نے جنرل سے درخواست کی کہ وہ ایک پلان تیار کریں کہ اگر ہندوستان کشمیر میں جنگ شروع کرے تو اس کا دفاع کیسے کیا جائے۔ جنرل اکبر نے وہ منصوبہ بندی ایک ہفتے کے بعد میاں افتخار الدین کو خفیہ طور پر پیش کر دی۔ خفیہ اس اعتبار سے کہ اس پروگرام کو پاکستان کے کمانڈر ان چیف اور دیگر انگریز آفیسرز سے چھپایا گیا تھا۔ جنرل اکبر نے لکھا تھا، کشمیر پر زمینی حملہ صرف کٹھوعہ کے راستے ممکن تھا۔لہٰذ ا ا سے ایک ہزار مجاہدینِ سے جو اسلحہ بارود سے لیس ہوں گے بلاک کیا جائے گا۔
دوسرا آپشن ہوائی حملہ تھا۔اس منصوبے کے تحت دو سو مجاہدوں نے ائر پورٹ کو گھیرے میں لے کر اس پر ہندوستانی حملہ آوروں سے لڑنا تھا۔ دونوں گروہوں کو جی ایچ کیو میں پچھلی حکومت کا جمع کردہ اسلحہ بارود مہیا کرنا طے پایا تھا۔اس منصوبے کے مطابق مسلمانوں نے جنرل اکبر سے بھرپور تعاون۔ اسلحہ بارود مہیا کیا گیا، جس کی مجاہدینِ کشمیر میں تقسیم کرنے کی ذمہ داری، مسلم لیگ نیشنل گارڈز کے سابقہ آفیسر زمان کیانی اور خورشید انور جو کہ بھی نیشنل گارڈز میں رہ چکا تھا کو سونپی گئی تھی۔جنرل اکبر کو یہ خبر دی گئی کہ مجاہدین کی تعیناتی کر دی گئی ھے۔ اسی اثناء میں قبائلی بھی کشمیر پہنچ گئے۔ جب بھارتی فوج سری نگر ائیر پورٹ پر اتری تو جنرل اکبر نے حیرانی سے پوچھا کہ وہاں مقرر کردہ مجاہدین کہاں ہیں، تو انہیں بتایا گیا کہ کٹھوعہ کے محاذ پر متعین لوگ خفا ہو کر اپنے گھروں کو واپس چلے گئے ہیں کیونکہ انہیں فوجی رائفلز کی بجائے درہ کی بنی ہوئی ناکارہ بندوقیں مہیا کی گئی تھیں۔ ایئرپورٹ پر متعین لوگوں کو رائفلز دی ہی نہیں گئی تھیں۔ تاریخ یہ سچ کہے بغیر نہیں رہتی کہ تحریک آزادی کشمیر شروع ہی سے اپنوں اور غیروں کی چالاکیوں، سازشوں، بد دیانتی اور غداریوں کا شکار ہوئی اور مفلوج ہو کر رہ گئی۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ھے ازل سے
ھے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
1947 کے سیاسی ماحول اور زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے کشمیری عوام کو امید تھی کہ وہ تقسیم ہند کے اصول کے مطابق، جیسا اوپر بیان کیا گیا ہے، پاکستان میں شامل ہو جائیں گے، یا آزادانہ استصواب رائے کے ذریعے اپ اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر سکیں گے۔لیکن ہندوستان نے اعلان آزادی کے فیصلوں ، نہ حق خود ارادیت اور کشمیری عوام کی جد و جہد اور قربانیوں کا کوئی احترام کیا۔ریاست جموںو کشمیر پر قبضہ کرنے کیلئے ہوائی حملہ کیا اور چھاپہ ماروں، رضاکاروں، اور قبائلیوں کے خلاف ایک بھرپور جنگ شروع کی اور اس وقت تک یہ جنگ بند نہ کی گئی جب تک چھاپہ ماروں سے وادی، جموں، لداخ اور پونچھ کے علاقے خالی نہ کرا لیے گئے۔ ٹھیک ان حالات میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی ہندوستان اور پاکستان کو جنگ بندی کا حکم دے دیا۔ یوں ریاست جموں و کشمیر کا دو تہائی رقبہ بھارت کے فوجی قبضے میں چلا گیا اور کنٹرول لائن معرض وجود میں آ گئی جس کی نگرانی کیلئے اقوام متحدہ نے پاکستان، ہندوستان سرینگر اور مظفرآباد میں اپنے فوجی مبصرین تعینات کر دئیے۔
پھر اقوم متحدہ نے پاکستان اور ہندوستان کے با اختیار فوجی حکام کو کراچی بلا کر 2 جولائی 1949 میںکنٹرول لائن کا نقشہ مرتب کیا۔ اس معاہدے کو کراچی ایگریمنٹ کا نام دیا گیا۔ اچنبھے کی بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر کا علاقہ ازاد کرنے والے مجاہدوں اور گلگت بلتستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والے کشمیریوں کا کوئی نمائندہ معاہدہ کراچی میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ یہی روایت ہندستان اور پاکستان کے درمیان آج تک ہونے والے مذاکرات میں قائم رکھی جا رہی ہے۔

مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان چار جنگیں، 1948, 1965, 1971 اور کارگل آپریشن، لڑی جا چکی ہیں۔ ظاہر ہے ان جنگوں نے دونوں ممالک کو ہر شعبہ زندگی میں بہت نقصان پہچایا ہے۔ ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان عمر اور رقبے کے اعتبار سے ایک چھوٹا ملک ہے۔ اسے سر منڈاتے ہی اولے پڑنے کے مصداق جنگ کشمیر نے آ دبوچا۔ جس سے ہماری قومی زندگی کو بڑا دھچکا لگا۔ مگر حریت پسند غیور کشمیری عوام نے ہمت نہیںہاری تھی نہ ہی آج پیچھے ہٹے ہیں۔ انہوں نے اپنے وطن کی آزادی کیلئے کسی جانی مالی قربانی دینے میں کہیں لچک نہیں دکھائی۔
1971 میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والی جنگ نے نہ صرف پاکستان کا ایک حصہ الگ کروا دیا، ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کو بھی الجھا دیا۔ بعد از جنگ دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے” شملہ معاہدہ ” نے اس بین الاقوامی تنازعے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں میں زندہ ہونے کے باوجود نیم مردہ حالت میں” باہمی مذاکرات ” کا ٹھکیہ لگا رکھا ہے۔ جب اقوام متحدہ میں اسے مذاکراتی ایجنڈے میں شامل کیا جاتاہے تو شملہ معاہدہ ہندوستان کا وکیل صفائی بن کر رکاوٹ بن جاتا ہے۔ جب پاکستان اور ہندوستان کو شملہ معاہدے کے حوالے سے مذاکرات کیلئے کہا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ سلامتی کونسل کو حل کرنا ہے۔ ” نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن ”
تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ منگولوں کی عالم گیر یورش اور فتوحات کی زد میں کشمیر بھی آیا۔یہ ہندوؤں کا آخری زمانہ تھا اور راجہ سہو دیوکی حکومت تھی۔ منگول بارہمولہ کے راستے سے جموںو کشمیر میں داخل ہوئے گئے۔ علاقہ فتح کیا، گورنر کا تقرر عمل میں لایا۔ کشمیر کو لوٹا نوچا اور واپسی پر بہت سارے کشمیری غلام اور لونڈیاں بنا کر لے ساتھ گئے۔
1254 اور 55 میں کشمیری عوام نے منگولوں کے خلاف بغاوت کی مگر وہ ناکام ہو گئے۔ ملک میں انارکی پھیل گئی۔ کشمیری عوام اسلام کی کرنوں کو اپنے لئے نجات سمجھنے لگ گئے۔ تاریخی اعتبار سے تیرھویں صدی عیسوی میں مسلمان تاجر کشمیر میں وارد ہوئے۔ تجارتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ تبلیغ دین بھی جاری رہی چودھویں صدی عیسوی میں مسلمان فاتحین جموںو کشمیر میں داخل ہو گئے اور اسلام کی جڑیں عوام میں گہری ہوتی چلی گئیں۔ شاہ میر خاندان کا دور جموںوکشمیر میں امن و استحکام کا زمانہ تھا۔سلطان شہاب الدین نے اپنی فتوحات سے جموںو کشمیر کو ایشیائی سلطنت کی شکل دے دی۔اسی خاندان کے سلطان زین العابدین نے ملک میں صنعت و حرفت کو فروغ دیا۔ مذہبی آزادی اور رواداری کی تعلیمات کو عام کیا۔ سلطان نے ملک سے جرائم پیشہ عناصر کا قلع قمع کر کے رکھ دیا۔ 1857 کے بعد مغل بادشاہ اکبر اور دیگر مغل حکمرانوں نے جموںو کشمیر کے قدرتی حسن کے مطابق یہاں باغات بناکر اسے جنت نشاں بنا دیا۔ 1752 سے مغلوں کے زوال کے بعد افغان حکمرانوں اور گورنروں کے67 سالہ ظالمانہ نظام حکومت بعد از آں سکھا شاہی کے مذہبی اور سیاسی استبداد نے کشمیری عوام کو کمزور کیا۔ ایران کے حکمران نادر شاہ افشار نے دہلی پر حملہ کر کے اس کو تختہ و تاراج کیا۔ اور واپسی پر کشمیر راجہ رنجیت سنگھ کو اس کی خدمات کے عوض بطور عطیہ دے دیا۔ 1820 میں ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کو جموں کا علاقہ بطور جاگیر بخش دیا۔اس آمرانہ اور متعصبانہ شخصی نظام حکمرانی سے جموںو کشمیر میں اسلام کے پھیلاو کو دھچکا لگا۔
1846 میں انگریزوں نے یہ خطہ ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کو 75 لاکھ نانک شاہی سکوں میں فروخت کر ڈالا۔ اس طرح اس خطے کی غلامی اور باشندگان وطن کی سیاسی، معاشی اور مذہبی حکومت کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ پاکستان ہمیشہ سے ایک مہذب اور ذمہ دار رکن اقوام متحدہ ثابت ہوا ہے۔مسئلہ کشمیر پر بھی ہندوستان کی طرف سے یکم جنوری 1949 میں اقوام متحدہ میں درج کیے جانے والے مقدمہ اور اس پر اپریل 1949 میں پاس کی جانے والی قرارداد ہی کے مطابق فیصلے پر عمل درآمد کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ہندوستان مگر اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہوئے اس مسئلے کو مزید پیچیدگیوں میں دھکیلتا جا رہا ہے۔
کشمیر کی جنگ آزادی سے متعلق کشمیری عوام کا کردار بڑا ہی قابل داد ہے۔ وہ نا مساعد حالات، بے سروسامان ہونے کے باوجود اپنی مدد آپ کے تحت اور کٹھن حالات میں رہ کر یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ لاکھوں شہداء کی قربانیوں میں ایک ایک شہید نے اپنے عمل سے اپنی قوم و ملت اور دین اسلام کی عظمت کی سربلندی کیلئے کمال کر دکھایا ہے۔ عظیم کشمیری شہید قائدین میں سید علی گیلانی، مقبول بٹ اور افضل گورو جیسے فرزندوں کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے۔

11 فروری کو محمد مقبول بٹؒ کا 40واںیوم شہادت ہے۔ وہ 11 فروری 1938 میں شمالی کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے ترہیگام گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں مکمل کی۔ پھر سینٹ جوزف کالج بارہ مولہ میں داخلہ لیا۔ تعلیمی اور دوسری سرگرمیوں میں متحرک رہتے تھے۔ ایک انگریز عیسائی پرنسپل نے مقبول بٹؒ کے بارے میں کہا تھا کہ وہ بہت بڑا کارنامہ انجام دے گا یا اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔
مقبول بٹ BA کرنے کے بعد آزاد کشمیر میں ا ٓگئے۔ ایک واقف کار کی وساطت سے پشاور یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ اخبار میں کام کیا۔ پشاور یونیورسٹی سے اردو اور صحافت میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ 1960 کے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئے۔ 1965 میں محاذ آزادی کشمیر قائم کی۔ سیالکوٹ میں محاذ کا کنونشن ہوا۔ پھر سچیت گڑھ، پاکستان اور جموں کے بارڈر پر محاذ کے سب ساتھیوں نے جموں کی مٹی ہاتھوں میں لے کر حلف اٹھایا کہ اے وطن تیری آزادی کی خاطر ہم جان بھی قربان کریں گے۔

آزادی کی جنگ لڑتے لڑتے مقبول بٹ بھارتی جیل تک پہنچے۔ایک بھارتی سفارتکار کے قتل میں انہیں ملوث کر کے تہاڑ جیل میں مقدمہ چلا کر سزائے موت سنائی۔گئی۔ اور پھر 11 فروری 1984 میںانہیں پھانسی دے دی گئی۔اللہ تعلی ان کی شہادت قبول فرمائے۔ اندرون اور بیرون ملک ہونے والے احتجاجی ہنگاموں کے خوف سے زدہ بھارتی حکومت نے انہیں تہاڑ جیل کے اندر ہی میں دفنا کر اپنے لیے رسوائی کا سامان کیا۔ آزادی کشمیر کے شہداء کی قائم کردہ جرآت مندانہ روایت کی پاسداری میں کشمیری بچہ بچہ جہادی سفر پر رواں دواں اور نعرہ زن ہے۔” ربنا اننا آمنا فاغفر لنا،
ربنا اننا آمنا فاغفر لنا۔۔

5 اگست 2019 میں مودی کے بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برعکس اور یک طرفہ طور پر مقبوضہ جموںو کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بھی ختم کر کے کشمیری عوام پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں۔ پاکستان بھارت کے ہر ظالمانہ اقدام پر بین الاقوامی فورمز پر آواز اٹھاتا ٓا رہا ہے۔ پاکستان نے ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ کو باور کروایا ہے کہ جموں و کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متازعہ علاقہ ھے۔ نہ تو جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور نہ ہی ان کا اندرونی معاملہ ہے۔اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مشن کے سیکرٹری راجہ اعجاز نے نیو یارک میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی چھٹی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل نے اپنی قراردادوں میں کہہ رکھا ہے کہ تنازعہ کشمیر کا فیصلہ کشمیری عوام عالمی ادارے کی زیر نگرانی رائے شماری کے ذریعے کریں گے۔ بھارت نے اس فیصلے کو قبول کر رکھا ہے۔وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 کے تحت تعمیل کرنے کا پابند ہے۔ بھارت کو علاقے کی حیثیت کو تبدیل کرنے کیلئے کسی قسم کی یک طرفہ کارروائی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ وہ کشمیری عوام کی حق خودارادیت کی جائز جد وجہد کو بڑی بے شرمی سے کچلنے میں مصروف ہے۔ اصولی طور پر یہ اقوام متحدہ ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ جارح بھارت کو نکیل ڈال کر اسے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزدانہ استصواب رائے پر مجبور کرے۔اگر وہ اس طرف نہیں آتا تو اقوام متحدہ اس پر کاروائی کر کے اقتصادی پابندیاں عائد کرے۔جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا اس خطے میں امن کی ضمانت کوئی نہیں دے سکتا۔ آج کے آزادی، جمہوری،اور بنیادی انسانی حقوق کے دور میں بھی کشمیری عوام کی آزادی اور خود مختاری بحال کرنے کا احساس کسی میں پیدا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ میری اس پرآشوب دور میں کشمیری قائدین سے عاجزانہ اپیل ہے کہ وہ آزادی کشمیر پر اپنے اپنے موقف اور لائحہ عمل پر نظر ثانی کرتے ہوئے ایک مشترکہ ایجنڈے پر متفق ہو کر مرکزی قیادت تشکیل دیں۔ پھر اس پر صدق دل سے عملدرآمد کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔ اللہ انہیں کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد خود کرتے ہیں۔
٭٭٭
شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)راولپنڈی / اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر،مصنف اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں