شہزاد منیر احمد
علم سیاسیات کے محققین کا یہ کہنا ہے کہ کوئی بھی ریاست غریب نہیں ہوتی۔ ریاست تشکیل ہی تب پاتی ہے جب ایک مکمل ریاست کیلئے ناگزیر(عوام، علاقہ، اقتدارِ اعلیٰ اور حکومت) عناصر اور امور مملکت کو چلانے کے لوازمات میسر اور متحد ہوں۔اس ضمن میں گذارش یہ کرنا مقصود ہے تاریخی اعتبار سے جموں وکشمیر میں اسلام چودھویں صدی کے شروع میں ترکستان سے صوفی بلبل شاہ قلندر اور ان کے ایک ہزار کے قریب مریدین کیساتھ جموں وکشمیر میں وارد ہوئے۔ بودھ راجا رنچن نے اس کے دینی افکار، اخلاقی میعار اور معاشرتی اصولوں سے متاثر ہو کر بلبل شاہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔یوں راجہ رنچن سلطان صدر الدین کے نام سے جموں و کشمیر کا پہلا مسلمان حکمران بنے۔سولہویں صدی میں طاقتور شاہ میری سلطنت کے بعد یہ سلطنت نراج کا شکار ہو گئی تو حکمران تقسیم ہو کر ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے۔
1885 میں چک خاندان کی سلطنت کو ہندوستان کی عظیم مغلیہ سلطنت نے نگل لیا۔ ان کے زوال کے بعد جموں و کشمیر پر افغانوں کی حکومت آ گئی، ان کے بعد سکھا شاہی قائم ہو گئی۔ پھر انگریزوں نے اپنے مطیع و فرمان جموں و کشمیر کے ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کو بیچ دیا۔جموں وکشمیر پر یہ بیرونی ظالمانہ حکومتوں کا نظام 1947 تک جاری رہا۔گو کہ ریاست جموں و کشمیر، عالمی سیاسی میعار اور قواعد و ضوابط کے مطابق آج بھی ایک مکمل ریاست ہے لیکن اکتوبر 1947 سے لیکر آج تک ریاست جموں و کشمیر کی توڑ پھوڑ اتھل پتھل اور کشمیری عوام کی حالت زار دیکھ کر یہ کہنا بجا اور درست لگتا ہے۔
ہاں کھائیو مت فریب ہستی
ہرچند کہیں کہ ہے، نہیں ہے
در حقیقت ریاست جموں و کشمیر و اقصہائے تبت ہے۔ یہ ریاست چودھویں صدی میں معرضِ وجود میں آئی اور اکتوبر 1947 تک ایک آزاد و خودمختار مملکت کے طور پر قائم رہی اس کا کل رقبہ 85806 مربع میل ہے۔ انسانی زندگی پر شاعر نے کیا خوب کہا ہے؛
زندگی کا سفر وہم و گماں و مکافات عمل
غیرت فکر کو عطاء،جہان آگہی کی سوغات
تقسیم برصغیر کے وقت انگریزوں، آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے درمیان معاہدہ یہ طے پایا تھا کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے انہیں الگ ریاست (پاکستان) بنایا جائے گا۔ بھارت میں جو خود مختار ریاستیں ہیں(یاد رہے تقسیم ہند کے وقت ملک بھر میں 639 ریاستیں موجود تھیں) انہیں اختیار ہوگا کہ وہ اپنی مرضی سے جس ملک،بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کیساتھ الحاق کرنا چاہیں تو کر سکیں گی اور اگر وہ کچھ شرائط کیساتھ خود مختار رہنا چاہیں تو بھی انہیں اجازت ہو گی۔ریاست جموں و کشمیر اپنے تاریخی، جغرافیائی، مذہبی اور ثقافتی اعتبار سے پاکستان کو ملنی چاہیے تھی۔ مگر ایسا نہ تو کیا گیا اور نہ ہی ایسا ہونے دیا گیا۔ بلکہ الٹا بھارت نے وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی ایماء پر اپنی فوجیں ریاست جموں و کشمیر میں اتار کر اس پر جابرانہ قبضہ جما لیا۔ مسئلہ کشمیر جب اقوام متحدہ میں پہنچ گیا تو اس کے بعد اسے سیاسی، قانونی اور اخلاقی طور پر حل کرنے کی بجائے بھارت کے ’’ میں نہ مانوں‘‘کے فارمولے کے تحت لٹکتا آ رہا ہے۔ مثلاً:-
اقوام متحدہ کی طرف سے جو پہلا جموں وکشمیر مشن مقرر کیا گیا، اس کے انچارج چیکوسلواکیہ کے ماہر وکیل، غالباً ان کا نام جوزف کاربیل تھا، انہوں نے بھارت کے غیر مفاہمتی نان کوآپریٹو رویے سے تنگ آ کر استعفیٰ دے دیا۔گو کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نو مولود ریاست کیلئے 1947 میں بھارت کیساتھ جنگ میں الجھنا زیادہ نقصان دہ تھا مگر وہ اس حقیقت سے چشم پوشی کر جاتے ہیں کہ 27 اکتوبر 1947 سے لیکر یکم جنوری 1948 تک دو ماہ سے زائد عرصہ بھارت نے جنگ کر کے اندازہ لگا لیا تھا کہ اس جنگ میں پاکستان کا پلڑا بھاری تھا۔ پاکستان جنگ کا پانسہ اپنے حق میں بدل رہا تھا۔ بھارت نے اپنے ہاتھوں سے جموں وکشمیر نکلتا دیکھ کر بین الاقوامی سطح پر ہزیمت اٹھانے کے خوف سے یکم جنوری 1948 میں جموں و کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں لے گیا۔ 15 جنوری 1948 میں اقوام متحدہ سلامتی کونسل نے کمیشن برائے پاک و ہند تشکیل دیا ۔ 20 جنوری 1948 میں مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی غرض سے جموں و کشمیر کمیشن کے قیام کی قرارداد منظور کی گئی جو بیلجیم نے پیش کی تھی۔ اس کمیشن کا نام UNCIP رکھا گیا۔
یوگوسلاویہ کے نمائندے جوزف کوربیل Joseph Corebell کو اس کمیشن کا سربراہ چنا گیا۔جوزف کوربیل بڑے متحرک، دیانتدار اور احساس ذمہ داری سے کام کرنے والی شخصیت کے حامل تھے۔ انہوں نے بڑی دلیری سے کام کیا۔ 3 جنوری 1949 میں جموں و کشمیر کمیشن UNICP نے جموں و کشمیر میں آزادانہ اور منصفانہ رائے شماری کا اعلان کیا۔ جوزف کوربیل نے اس سلسلے میں انتہائی جانفشانی سے کام کیا اور اس معاملے میں اچھی خاصی پیش قدمی بھی کرکے دکھائی۔ لیکن نہ جانے انہیں کیوں1949 کے آغاز ہی میں اس کمیشن سے الگ کر دیا گیا۔ جوزف کوربیل کی علیحدگی کیساتھ ہی کمیشن برائے جموں و کشمیر پوری دنیا کو تھکا تھکا نظر آنے لگا۔بعد میں اقوام متحدہ نے فیصلہ کیا کہ مسئلہ کشمیر سے متعلق سارے معاملات برطانوی ایڈمرل چیس نمٹز کو بھجوائے جائیں، جنہیں ناظم رائے شماری مقرر کیا گیاتھا۔


پاکستان نے یہ تجویز بھی مانی مگر بھارت نے انکار کیا۔معاملہ واپس سلامتی کونسل کو بھیجا گیا جس نے 12 اپریل 1950 میں آسٹریلیا کے نامور قانون دان سر اون ڈکسن Sir Owone Dickson کو اقوام متحدہ کا نمائندہ برائے جموں و کشمیر مقرر کیا۔سر ڈکسن نے بڑی دیانتداری سے جموں و کشمیر میں رائے شماری کیلئے کام کیا۔ تیاری کی تجاویز دیں۔ مگر انگریزوں کی ایماء پر بھارت نے اپنے رویے اور بد سلوکی سے انہیں اس حد تک زچ اور مایوس کیا کہ انہوں نے اقوام متحدہ کو اپنا استعفیٰ پیش کر دیا اور واپس چلے گئے۔اقوام متحدہ، سلامتی کونسل نے ڈاکٹر فرانک گراہم کو ان کا جانشین مقرر کر دیا۔ اس مقام پر مجھے یہ جسارت کرنے کی اجازت دیں کہ ’’ مسائل انفرادی ہوں یا قومی انہیں کسی نظریاتی اصول کے تحت ہی حل کیا جاتا ہے۔ چونکہ مسئلہ کشمیر کو الجھایا ہی اس طرح اور اس لیے گیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر کسی قیمت پر بھی اس کی تاریخی آزاد حیثیت میں بحال نہ ہونے پائے۔لہٰذا یہ معاملہ آج تک لٹکتا چلا آ رہا ہے۔ جب بھی کسی مسئلے کا حل ڈھونڈا جاتا ہے، فیصلہ ساز اپنی جیب سے حل پیش نہیں کرتے بلکہ وہ زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر اپنے علم، فراست، مہارت اور مسئلے کے پس منظر سے مکمل آگاہی پا کر اور مستقبل میں فیصلے کے دیرپا ہونے کی ضمانت لیکر فیصلہ کرتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل کرنے میں بظاہر کوششوں میں یہ سب کچھ نظر تو آتا رہا مگر آنکھ سے اوجھل خباثتیں سب کو ششوں کو بے نتیجہ کرتی رہی ہیں۔ مثلاً اکتوبر 1947 میں قبائلی لشکر کی قیادت کرنے والے خورشید انور(جو اپنے نام کیساتھ میجربھی لگاتا تھا) مسلم لیگ نیشنل گارڈز کا سربراہ لڑتے ہوئے سرینگر کے قریب پہنچ گیا تھا۔ پھر وہ لشکر کو چھوڑ کر پشاور واپس آ گیا۔ اس نے مسلم لیگی خاتون سے شادی کر لی اور پھر ہنی مون منانے کیلئے غائب ہو گیا۔دوسری طرف شوکت حیات اپنی کتاب ’’ گم گشتہ قوم ‘‘میں لکھتے ہیں۔ کہ ہمارا منصوبہ تھا کہ ستمبر 1947 ء میں مقبوضہ جموں و کشمیر داخلے کیلئے کٹھوعہ اور مظفرآباد کی طرف سے حملہ کیا جائے۔یہ حملہ خورشید انور کے اچانک غائب ہونے کی وجہ سے اکتوبر میں کرنا پڑا تھا۔مسئلہ کشمیر پر جو ہوا سو ہوا، جو ہو رہا ہے وہ سامنے ہے۔ آئیں ذرا ان کرداروں کا ذکر کریں جن کے غیر دانشمندانہ رویے اور غیر معتبر نظریاتی سرگرمیوں نے تحریک آزادی کشمیر کو زیادہ نقصان پہنچایا۔ایسے کرداروں میں تاریخ شیخ عبداللہ کا ذکر کرتی ہے جسے ہوس اقتدار کی بھوک میں نہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی رفاقتوں کا پاس رہا جن کی وجہ سے اسے یہ مقام ملا تھا اور نہ قائد اعظم محمد علی جناح کی نصیحتیں یاد رہیں۔
شیخ عبداللہ کو قائد اعظم محمد علی جناح نے بار بار جموں وکشمیر کی خود مختار حیثیت برقرار رکھنے پر سمجھایا اور انہیں تحریک پاکستان سے تعاون کرنے کو کہا۔ قائد اعظم نے انہیں یہ بھی کہا کہ ٓاپ ان ہندوئوں میں رہ کر بھی ان کی ذہنیت کو نہیں سمجھتے ۔میں نے ان کیساتھ برسوں کام کیا ہے۔ وہ چانکیائی سیاست کرتے ہیں انہیں سمجھو۔۔۔چانکیہ ایک طرف تو اخلاقیات اور انسانیت کا درس دیتا تھا لیکن حکومت کرنے کے حوالے سے اس کے افکار بڑے گھناؤنے اور تباہ کن تھے۔چانکیہ نے ہی چندرگپت موریا کو طاقتور خاندان نندہ کا تخت الٹنے کیلئے مشورے دیئے تھے ۔ چانکیہ چندرگپت موریا کا وزیراعظم اور مشیر اعظم بھی رہا۔ آپ’’ ارتھ شاستر‘‘ پڑھیں۔ یہ لوگ خباثتوں اور کہہ مکرنیوں کے ماہر ہیں۔ یہ آپ کو تحریک پاکستان کے خلاف استعمال کریں گے اور پھر اپنے فطری ہندو ذہنیت کے عین مطابق انتقام کا نشانہ بنا کر چھوڑ دیں گے۔شیخ عبداللہ نہرو، گاندھی اور پٹیل کے بہکاوے میں آ کر ریاست جموں کی وزارت اعلیٰ قبول کر کے ایسے گناہ کا ارتکاب کر گیا جس کی سزا نہ جانے کب ختم ہو گی۔ اس نے اپنی وراثت میں بھی ویسی ہی حریص لالچی مفاد پرست اور بزدل اولادیں چھوڑی ہیں۔
پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح کے پریس سیکرٹری کے ایچ خورشید چند دن چھٹیاں گزارنے کیلئے سرینگر گئے تو کے ایچ خورشید کو گرفتار کر لیا گیا۔ قائد اعظم نے نہرو کو اس ضمن میں خط بھی لکھا تھا مگر خورشید حسن کو رہائی نہ ملی۔ انہیں گیارہ ماہ قید میں رکھا گیا۔ یہاں تک کہ خورشید حسن اپنے محسن قائد اعظم کی نماز جنازہ میں بھی شریک نہیں ہو سکے تھے۔ انہیں 1949 میں قیدیوں کے تبادلے میں رہا کیا گیا۔اس پہلو پر غور کریں کہ اگر کے ایچ خورشید سرینگر میں قید ہونے کے بجائے کراچی میں گورنر جنرل کیساتھ ان کے پریس سیکرٹری موجود ہوتے تو وہ تاریخ پاکستان کے عینی معتبر شاہد ہوتے۔ پاکستانی عوام اور دنیا کے میڈیا کو صحیح اور بروقت خبریں دستیاب ہوتیں۔ بالخصوص مسئلہ کشمیر کے بارے میں جو قائد اعظم کی ڈائری میں ان کے 11 ستمبر 1948 کو بھی میٹنگ کرنا چاہتے تھے جس دن رات کو انہیں فوت ہو جانا تھا۔

دوسرے نمبر پر وہ کشمیری مجاہدین تھے جنہیں جنرل اکبر (جو اکتوبر 1947 میں جی ایچ کیو میں ڈائریکٹر ارمامنٹ Director of Armament تھے۔ انہوں نے اسکندر مرزا جن کے پاس دفاع کا کنٹرول تھا کو بتائے بغیر صرف جذبہ حب الوطنی کے تحت سرکاری رائفلیں کشمیری مجاہدین میں تقسیم کروائی تھیں۔ ان میں کچھ کو راجوری کے پاس بھارتی فوجیوں کے حملے روکنا تھے۔ دوسرے گروہ کو بھارتی افواج کے دستوں کو سرینگر کے ہوائی اڈے پر اترنے سے روکنا تھا۔ ان کے انچارج ریٹائرڈ فوجی اور پولیس آفیسران مقرر کیے گئے تھے۔مبینہ طور پر مقامی قیادت ریٹائرڈ پنشنرز مجاہدین کشمیر پر مضبوط کنٹرول نہ رکھنے اور دلیرانہ رہنمائی نہ کر سکے۔لہٰذا مجاہدین نے (جیسا کہ کہا جاتا ہے) نے سرکاری رائفلیں مہنگے داموں بیچ دی تھیں اور توڑے دار زنگ آلود بندوقیں خرید لیں۔ وہ مجاہدین خاطر خواہ دفاع نہ کر سکے اور مطلوبہ مقاصد حاصل نہ ہوسکے۔ یقین سے کہا جاتا ہے کہ اگر سرینگر ہوائی اڈے پر انچارج فورسز جرأت مندانہ کردار ادا کرتے تو بھارت کے مسلح دستوں کو زمین پر اترنے سے روکنا چنداں مشکل نہ تھا۔ ظاہر ہے’’ کچھ Casualties تو ہوتیں مگر جنگ، وقت اور زمینی حقائق کی کنجی ہمارے ہاتھ میں ہوتی، لیکن خوئے بد را بہانہ ہائے بسیار‘‘
جنگی وقائع نگار لکھتے ہیں کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر بزور بازو جیتنے کے کئی مواقع گنوائے۔
1۔1947ء میں خورشید انور کے بے موقع شادی کرنے اور ہنی مون کیلئے چلے جانا۔
2۔1962 ء میں جب چین نے بھارت پر جنگ مسلط کر کےEngage کر لیا اور صدر جنرل ایوب کو بذریعہ قدرت اللہ شہاب پیغام پہنچایا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کو آزاد کروا سکتے ہیں۔
3۔1964 ء کے صدارتی انتخابات میں جنرل ایوب خان نے دھاندلی سے محترمہ فاطمہ جناح کوہروایا۔ اس خفت کو مٹانے کیلئے وہ مئی 1965 ء میں جموں و کشمیر میں آپریشن جبرالٹر شروع کرکے مقبوضہ جموں و کشمیر لینا چاہتا تھا لیکن1965ء کی جنگ میدان میں قوم نے جیت لی مگر جنرل ایوب روسی شہر تاشقند میں بھارتی وزیر اعظم لال شاستری سے جنگ بندی قبول کر کے جموں وکشمیر کو آزاد کرانے میں ناکام ہوئے۔
4 ۔چوتھا موقع 1995-96 میں تھا جب تحریک آزادی کشمیر کے مجاہدین نے جموں و کشمیر میں بھارت کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی اندرونی چپقلش نے یہ موقع بھی گنوا دیا۔
5 ۔جنرل مشرف نے 1999ء میں کارگل آپریشن شروع کرا دیا۔ جو میدان میں تو پاکستان کی کامیابی تھی کہ بھارتی افواج پاکستان کے گھیرے میں ہونے کی وجہ سے بھارت سے کٹ کر رہ گئی تھیں۔مگر امریکی صدر بل کلنٹن کے پاس میاں نواز شریف پہنچ گئے اور جنگ بندی ہو گئی۔
2015 میں وزیراعظم نواز شریف نے روس کے شہر اوفا میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے سرکاری ملاقات کی۔ اس کے بعد جو باضابطہ اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں مسئلہ کشمیر کا ذکر تک نہیں تھا۔
اب مسئلہ جو سب سے اہم ہے وہ کشمیری قائدین کا آپس میں سر جوڑ کر بیٹھ کے اپنی صفوں کو نئے سرے سے ترتیب دینا اور STRATEGY قائم کرنا ہے۔ کشمیری عوام میں مناسب اتحاد کا نہ ہونا اور یکجہتی اور ہم آہنگی کا فقدان رہا ہے۔ قائدین برادریوں میں بٹ گئے۔ جب کہ ضرورت صرف اور صرف کشمیری ہو کر جنگ کشمیر لڑنا ہے۔انہیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے بنیادی اصولوں FAITH، UNITY DISCIPLINE ایمان، تنظیم اور اتحاد پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔اس لیے تحریک آزادی جموں و کشمیر کے قائدین کو جناب محمد علی جناح کے پیرو کار کو تلاش کر کے قیادت اسے سونپنی چاہیے۔


بات ختم کرنے سے پہلے یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بھارت میں ہندوؤں کا اصل منصوبہ کیا تھا جس نے علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کو ہندوستان کوتقسیم کر کے ایک علیحدہ مسلمان ریاست تشکیل دینے کا مطالبہ اس شدت سے کرنا پڑا تھا۔لالہ دھنپت رائے نے 26 اپریل 1925 میں ایک بیان جاری کیا جو اخبار ’’ پرکاش‘‘ لاہور میں چھپا تھا۔:-’’ بھارت میں سوائے ہندؤ راج کے دوسرا کوئی راج قائم نہیں ہو سکتا۔ایک دن ضرور آئے گا کہ بھارت کے تمام مسلمان شدھی ہو کر آریہ سماج ہو جائیں گے اور بھارت میں صرف ہندو ہی ہندو رہ جائیں گے ‘‘
اس منصوبے کی تفصیلات 9 دسمبر 1925 میں امرتسر کے اخبار ’’وکیل ‘‘میں یوں شائع تھی۔
ہندو راج قائم ہونے کے بعد ہم ان شرائط پر عمل درآمد کرائیں گے۔:-
1 ۔قرآن مجید کو الہامی کتاب نہ سمجھا جائے۔
2۔حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیغمبر نہ سمجھا جائے۔
3۔حج کا خیال دل سے نکال دیا جائے۔
4۔سعدی اور رومی کی جگہ کبیر اور تلسی داس کی تصانیف کا مطالعہ کیا جائے۔
5 ۔اسلامی تہواروں کی بجائے ہندو تہواروں کو منایا جائے۔
6۔اسلامی نام ترک کر کے ہندی نام رکھے جائیں۔
7۔ عربی کی بجائے ہندی میں عبارت لکھی جائے۔
آخر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میری دانست میں بھارت اور پاکستان ہمسایہ ممالک ہونے کے باوجود 77 برسوں میں دوست یا اچھے ہمسائے نہیں بنے تو اس میں اچنبھے کی بات ہرگز نہیں۔ یہ دوری فطری امر ہے۔ اس کا ختم ہونا ناممکن ہے۔ دینی، مذہبی، نظریاتی اور ثقافتی اختلافات کے باعث ایسا ہی ہونا تھا۔ اوپر سے بھارت نے جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضہ جما کر پاکستان کی سیاسی حق تلفی بھی کر رکھی ہے۔
سب سے بڑھ کر تو یہ کہ مسلمانوں کیلئے حکم و ہدایت ہے کہ اے ایمان والو! مت بناؤ یہود و نصاریٰ (مشرکین) کو دوست۔ وہ آپس میں دوست ہیں ایک دوسرے کے۔جو کوئی ان سے دوستی کرے وہ انہیں میں سے ہے۔۔ سورت المائدہ 51.
یہاں پر مسئلہ کشمیر کے محرکین اور ناجائز ریاست اسرائیل کی خودمختاری کے محرکین ممالک کا تذکرہ کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا۔ برطانوی لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی بد دیانت شخصیت اور حسد مسئلہ کشمیر کے پیدا کرنے میں بنیادی اور سب سے بڑا کردار تھا۔ ادھر برطانوی حکومت امریکی شہ پر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے یہودیوں کو اکٹھا کر کے ریاست فلسطین کے علاقوں میں آباد کر رہی تھی۔ امریکی اور برطانوی یہودیوں اور عیسائیوں کی تنظیم باقاعدہ اس مجوزہ ریاست اسرائیل کی تشکیل کیلئے دن رات جنگی بنیادوں پر کام کر رہے تھے۔
معروف و مشہور سائنسدان البرٹ آئنسٹائن) Albert Einstein )جو خود ایک کٹر یہودی تھا نے ان سرگرمیوں کو غیر اخلاقی اور غیر قانونی قرار دیا تھا۔کیونکہ اسے معلوم تھا کہ ان کا مذہب انہیں خود مختار ریاست بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس نے 10 اپریل 1948 میں اسرائیلیوں کیلئے متحرک تنظیم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر شیپرڈ رافکن کو اس ضمن میں نیویارک میںاس کا ذکر بھی کیا تھا۔
٭٭٭
شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)راولپنڈی / اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر،مصنف اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں